خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:229)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک یکم دسمبر 2023ء بمطابق 16 جمادی الاول 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: حقوق العباد:عدل،امانت، احسان
جہاں انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کرے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ روزمرہ زندگی میں حقوق العباد کا خیال کرتے ہوئے اس کی مخلوقات کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کرتے ہوئے اس میں اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ہم ہر جمعہ خطبہ کے دوران اس آیت مجیدہ کی تلاوت کرتے ہیں کہ جو ہمیں ہماری معاشرتی ذمہ داری بتلا رہی ہے ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۹۰﴾
یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔(النحل:90)
لوگوں کے ساتھ عدل و احسان کے حوالے سے انسان کی معاشرے میں یہ تین حالتیں ہو سکتی ہیں:
اول: وہ دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آ رہا ہو گا۔
دوم: وہ دوسروں پر ظلم و زیادتی کر رہا ہو گا۔
سوم: وہ دوسروں پر احسان کر رہا ہو گا۔

انسانی زندگی کی سعادت مندی کا انحصار ایک اچھے معاشرے پر ہے۔ ایک فاسد معاشرے میں کسی فرد کے لیے کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل ہے اور معاشرے کی درستی عدالت پر منحصر ہے۔ عدالت ہی کے زیر سایہ انسان امن و سکون کی زندگی گزار سکتا ہے، صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور فکری نشوونما اور باہمی محبت و آشتی کو فروغ ملتا ہے۔
کچھ لوگ عدالت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں: عدالت یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق میں توازن قائم کیا جائے۔
یہ تعریف عدالت کے نتیجے کی ہے خود عدالت کی نہیں کیونکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق دینے سے معاشرے میں توازن قائم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا عدالت کے قیام کے نتیجے میں معاشرے میں توازن آ جاتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام عدل کی تعریف میں فرماتے ہیں:
وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌ ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ، کلمات قصار :۴۳۷)
اور عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے۔
جس کے تحت ہر طبقہ اور ہر مذہب کے لوگوں کو تمام انسانی حقوق میسر آتے ہیں۔
عدالت اور ادئے امانت کو اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ یہ مسلم و غیر مسلم سب کا حق ہے چنانچہ فرمایا:
قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۸)
اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں ) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے۔۔۔
اسی طرح سورہ نساء میں فیصلہ کرتے ہوئے عدل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یوں حکم دیا:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا﴿۵۸﴾
ے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو،اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
اس آیت میں یہ حکم ملتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کرو۔ اس حکم میں امانت کے لوٹانے کا حکم عام ہے۔ خواہ وہ مالی امانت ہو یا غیر مالی ۔ امین، حاکم ہوں یا رعایا۔ جس کی امانت ہے، وہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔ ادائے امانت انسانی حقوق میں سرفہرست ہے۔ یہ امت مسلمہ کی ہادیانہ ذمہ داری ہے، امت قرآن کی قائدانہ مسؤلیت ہے اور امت محمدیہ کا اخلاقی دستور ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کا حقوق انسانی کا دستور ہے۔
دوسرا اہم دستور جو اس آیت میں تاکیداً دیا گیا ہے، وہ فیصلوں میں عدل و انصاف ہے۔ یہ انصاف بین الناس یعنی سب انسانوں کے لیے فراہم کرنے کا حکم ہے، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ یہ بھی انسانی حقوق کا اہم حصہ ہے کہ امت مسلمہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ تمام انسانوں کے لیے یہ حق ادا کیا جائے۔
انسانی حقوق کی دو اہم دفعات امانت و عدالت ہیں، جن پر نوع انسانی کی سعادت، صلح واور امن و سکون موقوف ہے۔
دو اہم نکتے:
i۔ اس آیت میں ادائے امانت اور عدل و انصاف کے لیے اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے‘‘ کی نہایت تاکیدی تعبیر اختیار فرمائی۔ ورنہ یوں بھی کہا جا سکتا تھا: و ان ادّوا الامانات ۔ ’’اور امانتوں کو ادا کرو۔‘‘
ii۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے۔ یعنی امانت اور عدل و انصاف سے زیادہ اہم اور مناسب دستور حیات ہو ہی نہیں سکتا۔
روایت کے مطابق امانت میں ہر وہ بات شامل ہے جس میں انسان کو امین بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ کی امانت، اوامر و نواہی ہیں۔ عباد اللہ کی امانت، جس مال و غیر مال کا امین بنایا جائے۔
روایات میں آیا ہے: دو بچوں نے امام حسن علیہ السلام سے کہا: ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ آپؑ فیصلہ دیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے یہ دیکھ کر فرمایا:
یا بنی انظر کیف نحکم فان ھذا حکم واللہ سائلک عنہ یوم القیمۃ ۔ ( تفسیر روح المعانی ۵: ۶۴)
دیکھو بیٹا! کس طرح فیصلہ دیتے ہو۔ یہ بھی ایک فیصلہ ہے اور اللہ قیامت کے دن تجھ سے اس فیصلے کے بارے میں پوچھے گا۔
رسول اکرم (ص) سے روایت ہے :
عَلَامَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ، وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ۔ (مستدرک ۱۴ : ۱۳)
منافق کی تین علامات ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور جب اس کو امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
العدل حیاۃ )غرر الحکم حکمت: ۱۶۹۹( عدل و انصاف ہی زندگی ہے۔
نیز آپ علیہ السلام سے روایت ہے:
لا یکون العُمران حیث یجور السُلطان ۔ (غررالحکم حکمت ۸۰۵۰ ۔)
جہاں حکمران ظالم ہوں وہاں ملک کی تعمیر و ترقی ناممکن ہے۔
نیز آپ (ع) سے روایت ہے:
امام عادل خیر من مطر وابل ) حوالہ سابق ۔ حکمت: ۷۷۳۱ ۔ الفصل الاول
عادل حکمران موسلادھار بارش سے بھی بہتر ہے۔
احسان:
ابتدا میں جو آیت پیش کی اس میں جہاں عدل و انصاف کا حکم ہے وہاں احسان کا بھی حکم ہے۔ عدل یہ ہے کہ کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کا بدلہ لیں۔ احسان یہ ہے بدلہ لینے سے باز آجائیں اور توبہ و معذرت کی صورت میں اسے معاف کریں۔ عدل یہ ہے کہ اگر کسی نے آپ سے قرض لیا ہے تو اپنا قرض مقرردہ وقت پر وصول کریں۔ احسان یہ ہے کہ مقروض اگر مجبور ہے تو اس کے قرض لوٹانے کی مہلت میں اضافہ کردیں اور اگر وہ بہت غریب و لاچار ہے اور قرض لوٹانے سے قاصر ہے تو اسے قرض معاف کر دیں۔ عدل سے معاشرہ ظلم و زیادتی سے پاک ہو جاتا ہے تواحسان سے معاشرے میں انسانی قدریں زندہ ہوتی ہیں۔ عدل سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے تو احسان سے معاشرے میں حلاوت اور شیرینی پیدا ہوتی ہے۔ ظلم کے مارے لوگوں کے لیے جہاں عدل کی ضرورت ہے وہاں حالات و گردش ایام کے مارے لوگوں کو احسان کی ضرورت ہے۔
آئمہ اہل بیت علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اپنے پرائے سب پر بلاتفریق احسان کرنے کے بہت سے واقعات ان کی سیرت میں ملتے ہیں۔ایک واقعہ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی سے پیش خدمت ہے:
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی کنیز سے ایک بار برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور آپ علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر گرا، ۔ تب کنیز نے یہ آیت پڑھی:
وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ (وہ لوگ جو غصے کو پی جاتے ہیں)
آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں نے غصہ پی لیا۔ کنیز نے کہا
(اور وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں) وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ
آپ علیہ السلام نے فرمایا: خدا تجھے معاف کرے، میں نے بھی معاف کر دیا۔
کنیز نے کہا:
(اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔) وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ 
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جا! میں نے تجھے آزاد کر دیا۔ (الأمالی للصدوق ص ۲۰۱)
نصیحت آموز واقعہ:
معمر بن خلود حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
بنی اسرائیل میں ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس کے پاس کوئی شخص آیا اور اس نے کہا :
تیری عمر میں آدھی زندگی آرام و سکون اور خوشی میں گزرے گی اور آدھی دوسری زندگی پریشانی و تنگدستی میں ، اب تیری مرضی ہے جس کو چاہے پہلے انتخاب کرلے ،
اُس شخص نے کہا میرے ساتھ میری شریک حیات ہے بہتر ہے پہلے اس مشورہ کرلوں۔
جب صبح ہوئی تو اس نے بیوی سے کہا ۔۔ ! رات خواب میں ، میں نے ایک شخص کو دیکھا اور اس نے مجھ سے کہا : تیری آدھی زندگی میں خوشیاں ہیں اور آدھی زندگی میں پریشانیاں ہیں ، اب تیری مرضی جس کو چاہے پہلے انتخاب کر ،
اس کی بیوی نے کہا پہلے خوشی کا انتخاب کرلو، اس نے اپنی شریک حیات کی بات پر عمل کیا اور پہلے خوشی کو انتخاب کیا ،
جب اس نے یہ کام کیا اور دنیا اس کی طرف آئی تو جب اسے کوئی نعمت ملتی تو اس کی زوجہ اس سے کہتی تمہارا فلاں ہمسایہ و پڑوسی ضرورت مند و مختاج ہے اس کے ساتھ احسان کرویا اس سے کہتی تمہارا فلاں رشتہ دار نیاز مند اور ضرورت مند ہے اس کی مدد کرو ۔ اسی طرح ہمیشہ جو بھی اس کو نعمت ملتی وہ غریبوں اور مختاجوں کی مدد کرتا اور اس نعمت کا شکر ادا کرتا اس طرح اس کی آدھی زندگی خوشیوں اور فراوانی میں گذری اور جب دوسری آدھی زندگی شروع ہوئی تو اس کی بیوی نے کہا: :
خدا نے ہمیں نعمت سے نوازا اور ہم نے اس کا شکر ادا کیا اور خدا یقیناً اپنے وعدے پر وفا کرنے والا ہے۔ یہی احسان ، شکرِ نعمت ، غریبوں ، محتاجوں عزیزاقارب کی مدد کرنا سبب بنا کہ اس کی دوسری آدھی زندگی بھی خوشیوں اور فراوانی میں گزری ۔(بحارالانوار ج77 ص 55)

رسالۃ الحقوق:
استاد کا حق: استاد یا معلم کا حق بیان کرتے ہوئے امام زین العابدین ؑ فرماتےہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ فَالتَّعْظِيمُ لَہُ وَ التَّوْقِيرُ لِمَجْلِسِہِ
تمہارے اوپر معلم و استاد کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کرو اور اس کی درسگاہ کا احترام کرو
وَ حُسْنُ الِاسْتِمَاعِ إِلَيْہِ وَ الْإِقْبَالُ عَلَيْہِ
اور اس کے درس کو غور سے سنو اور اس پر خاص توجہ رکھو
وَ الْمَعُونَةُ لَہُ عَلَى نَفْسِكَ فِيمَا لَا غِنَى بِكَ عَنْہُ مِنَ الْعِلْمِ
اس کی مدد کرو تاکہ وہ تمہیں اس چیز کی تعلیم دے جس کی تمہیں ضرورت ہے۔
بِأَنْ تُفَرِّغَ لَہُ عَقْلَكَ وَ تُحَضِّرَہُ فَہْمَكَ وَ تُذَكِّيَ لَہُ قَلْبَكَ
اس سلسلہ میں تم اپنی عقل کو آمادہ کرو اور اپنے فہم و شعور اور دل کو اس کے سپرد کر دو
وَ تُجَلِّيَ لَہُ بَصَرَكَ بِتَرْكِ اللَّذَّاتِ وَ نَقْضِ الشَّہَوَاتِ
اور لذتوں کو چھوڑ کر اور خواہشوں گھٹا کر اپنی نظر کو اس پر مرکوز کر دو۔
وَ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّكَ فِيمَا أَلْقَى رَسُولُہُ إِلَى مَنْ لَقِيَكَ مِنْ أَہْلِ الْجَہْلِ
تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ جو چیز وہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اس میں تم اس کے قاصد ہو چنانچہ تمہارے اوپر الازم ہے کہ اس چیز کی تم دوسروں کو تعلیم دو
فَلَزِمَكَ حُسْنُ التَّأْدِيَةِ عَنْہُ إِلَيْہِمْ وَ لَا تَخُنْہُ فِي تَأْدِيَةِ رِسَالَتِہِ وَ الْقِيَامِ بِہَا عَنْہُ إِذَا تَقَلَّدْتَہَا
وَ لَا حَوْلَ‏ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ
اور اس فرض کو تم بخوبی ادا کرو اور اس کا پیغام پہنچانے میں خیانت نہ کرو اور جس چیز کو تم نے اپنے ذمہ لیا ہے اس پر عمل کرو اور طاقت و قوت صرف خدا کی طرف سے ہے۔

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button