اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

تیسرا درس
بسم الله الرحمن الرحيم
"وَقَدْ جَرَتْ مَقادِيرُكَ عَلَيَّ يا سَيِّدِي فِيما يَكُونُ مِنِّي إِلى آخِرِ عُمرِي مِنْ سَرِيرَتِي وَعَلانِيَّتِي وَبِيَدِكَ لا بِيَدِ غَيْرِكَ زِيادَتِي وَنَقْصِي وَنَفْعِي وَضَرِّي۔”
مناجات شعبانیہ کے کلمات جو صرف مولا علی علیہ السلام کی زبان اقدس پر جاری ہوسکتے ہیں۔ اور یہ معرفت کا وہ خزانہ ہے جو ہر ماہ، ہرحال میں ضروری ہے۔ لیکن یہ مناجات خاص شعبان کے لئے بیان ہوئی ہے۔ خاص کر حالیہ سالوں میں اس مناجات کی زیادہ تلاوت ہونی چاہیے کیونکہ جب ہم اللہ سے متصل ہوجائیں گےاس طاقت سے ہمارا رابطہ ہو جائےگا تو ہماری ساری پریشانیاں ختم ہوسکتی ہیں۔
جرت مقادیرك علي۔۔۔۔ اے اللہ تیری قدرت مجھ پر نافذ ہے،
ہم نے اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں قضا و قدر اور بداء کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان موضوعات کو زیادہ سے زیادہ ہمیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور اس کو سمجھنے کے لئے در اہل بیت علیہم السلام پر جانا ہوگا۔ تمام اہل بیت علیھم السلام میں سے سب سے بڑا در امیر المومنین علیہ السلام کاہے ۔جس کی زبان مبارک سے یہ مناجات جاری ہوئی ہیں جس کے بعد تمام معصومین علیہم السلام نے ہر شعبان میں اس مناجات کا زم زمہ کیا ہے۔ اور ہم نے بیان کیا کہ ہماری خواہش اور حاجت اس عالم میں موجود تقدیر کو تبدیل کر سکتی ہے، یعنی ہماری دعائیں ہماری تقدیر کو بدل سکتی ہیں۔ کیونکہ ہم نے سابقہ درس میں ذکر کیا تھا کہ اللہ کے کچھ اٹل اور حتمی فیصلے ہیں جن کو ہماری دعا ختم کرسکتی ہے۔ آپ کی دعا رحم کی اپیل کرتی ہے اور قادر مطلق جس کا ہاتھ کھلا ہے اس سے درخواست کرتی ہے۔ دعا اس رب اکبرکےسامنےاپنی عاجزی اور ناتونی کا اقرار ہے ۔ اس عاجزی ، درخواست اور التجا کرنے کا نام مناجات ہے۔ جس کے بعد جو کچھ فیصلے ہوچکے ہوں ان میں تبدیلی کو بداء کہتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
” لکل امریردہ اللہ فھو فی علمه قبل ان یصنعه”
ہر وہ چیز جس کا اللہ ارادہ کرتا ہے اس کے انجام پانےسے پہلے اللہ کو علم ہوتا ہے۔ یعنی آفت، حادثہ وغیرہ آنے سے پہلے اللہ کو علم ہوتا ہے۔
” ولیس شی یبدو له الا لقد کان فی علمه۔۔۔۔۔۔”
کوئی بداء بھی نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ بداء اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔
ان اللہ لا یبدو له جھل۔۔۔۔
ہمارا بداء یہ ہوتا کہ ہم پہلے کسی چیز کو نہیں جانتے پھر جب علم ہوتا ہے تو ہمارا فیصلہ تبدیل ہوتا ہے۔ اللہ شروع سے ہی جانتا ہے کہ یہ فیصلہ کب تبدیل ہونا ہے اسے ہم بداء کہتے ہیں۔
"ما بداء للہ فی شی الا ماکان فی علمه قبل ان یبدوا له”
علماء کو ان احادیث سے بداء کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر ہم نہیں سمجھیں گے تو کب سمجھیں گے۔بد اء کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کی وجہ سے مایوسیاں بڑھ جاتی ہیں ۔ بداء کو سمجھنے سے ہر قسم کی مایوسیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ہم اس خدا سے مانگ رہے ہیں جو ،
"یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ” (رعد: 39)
اس ام الکتاب میں جو کچھ اس کے پاس لکھا ہوا ہے اس میں وہ جو چاہے لکھ دیتا ہے اور جو چاہے مٹا دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہود کا عقیدہ ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا جو فیصلہ کرتا ہے اس میں دوبارہ تبدیلی نہیں ہوسکتی حتی کہ خدا بھی تبدیل نہیں کرسکتا، یہودی کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ باندھا ہوئے ہیں:
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌؕ-غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْاۘ-بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِۙ-یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُؕ
( مائدہ : 46)
اب اس سے نہ مانگو کیونکہ یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی کاارشادہے:
"غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْ”
لعنت ہو ایسے لوگوں پر بلکہ اللہ کا ہاتھ کھلے ہوئے ہیں "یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ ”
وہ جب، جیسے اور جسے چاہے عطا کرسکتا ہے، وہ کریم ہے جس طرح چاہے عطا کرے حتی کہ موت آپ کے سر پر ہوتو دعا کرنے سے ٹل سکتی ہے۔
پس در حقیقت عقیدہ بداء وہ واحد عقیدہ ہے جس کے ذریعے انسان ایک پر امید زندگی گزار سکتا ہے۔
” ما عبداللہ بشی مثل البداء "
"اللہ کی عبادت جس طرح بداء سے ممکن ہے کسی اور چیز سے ممکن نہیں ہے۔”
کیا بداء صرف فقہ جعفریہ میں ہے؟
نہیں یہ صحاح میں بھی ہے ، جیساکہ صحیح بخاری کی روایت ہے۔۔
سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ ثَلاَثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى، بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ،
بنی اسرائیل کےتین لوگ ایک ابرص ، ایک اقرع اور ایک نابینا تھا اللہ کو بداء حاصل ہوا، پہلے ان کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا پھر ان کو آزمائش میں ڈالا ۔ آزمائش میں ڈالنے کے لئے اللہ نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا، پھر اللہ نے انکے پاس ملک کو بھیجا۔
اسے سمجھنے کے لئے خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں سورہ رعد کی اس آیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے: له مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۔۔۔۔( رعد:11)
ہر شخص کے لئے ان کے آگے پیچھے پہرہ دارفرشتے ہیں یہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہر شخص کی حفاظت کے لئے فرشتے موجود ہیں ۔ اگر آپ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جس نے آپ کی حفاظت کے لئے فرشتے موکل کررکھے ہیں آپ کو کسی بھی طرف سے کوئی بھی نقصان نہیں آسکتا اس لئے کہ وہ فرشتے جو آپ کے محافظ ہیں اللہ نے انہیں تمہاری حفاظت پر مامور کررکھا ہے ۔ اگر ہم نے اپنے اعمال کیوجہ سےان فرشتوں کو خود سےدوربھگادیئے ہیں اورخطرے کو اپنے ہاتھوں سے خرید لئے ہیں تو اس صورت میں بھی ہم یہ کام کرسکتے ہیں کہ دوبارہ پلٹ کر خدا کی طرف آ جائیں۔
بداء یعنی تقدیر الٰہی چاہے عذاب ہو یا آزمائش ، رحمت ہو یا مشکلات ،کسی بھی وقت ٹل سکتی ہے لیکن اس کے لئے ہمیں دعا کرنے کی ضرورت ہے، مناجات کرنے ہونگے۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتاہے:
إِنَّ اللَّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ (رعد:11)
اگر انسان خود کوتبدیل کرنےکی کوشش کرے، عمل، دعا، مناجات کے ذریعے سعی کرے تو خدا ان کی تقدیر بدل دیتا ہے۔ بدلنے والا خدا ہے اور اس وقت بدلتا ہےجب آپ اپنی تقدیر کو خود بدلوگے۔ جب آپ اپنی تقدیر کو نہیں بدلیں گے تو خدا آپ کی تقدیر کو نہیں بدلے گا۔
پس تمام طاقت اور فیصلے اللہ کے پاس ہیں لیکن اللہ نے یہ طاقت آپ کو دے رکھی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو تقدیر الٰہی کو تبدیل کرسکتے ہیں اور تقدیر بدلنے کے اپنے اپنے راستے ہیں۔
"وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ "
اگر اللہ کسی قوم کے ساتھ برا کرنے کا ارادہ کرے تو پھر اسےکوئی تبدیل نہیں کرسکتا اگرچہ وہ سپر پاور ہی کیوں نہ ہو ۔
اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی آپ کا مدد گار نہیں ہوسکتا اور اللہ کی طرف رجوع سے ہی حالات تبدیل ہوسکتےہیں۔
انا علینا حافظین ۔۔ اللہ نے تمہاری حفاظت کے لئے فرشتے مقرر کیےہیں، تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن تمہارے لئے قوانین الٰہی پر عمل کرنا ہوگا۔ وائرس سے بچنے کے لئے لاک ڈاون اور دیگر حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا تو پھر خدا تمہاری تقدیر بدل دے گا۔ یہ اصلاح ِ احوال ہے کہ جس میں آپ کو اللہ تعالی کی نعمتوں کی فراوانی ہوگی اور دوسرا فساد ہے جس میں ہم اپنی حالت کو بدترین صورت کی طرف لے جائیں گے اور گمراہی و ذلالت میں ڈال دیں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات کی روشنی میں انسانی زندگی میں تغیر پزیری ، یعنی سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے اور آپ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہےپھر اس ذات کی مشیت ہے کہ اگر تم نے بدلنا ہے تو تمہیں خودبدلنا ہوگا۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
” ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
( انفال: 53)
اگر اللہ نے کوئی نعمت ، صحت ، مال و دولت وغیرہ کی صورت میں دے رکھی ہے تو اللہ ان نعمتوں کو تبدیل نہیں کرتا جب تک تم اپنے ہاتھوں سے تبدیل نہ کرو۔جس طرح کرونا وائرس تب تک گھر نہیں آئے گا جب تک آپ خود ہاتھوں میں لیکر گھر نہیں آئیں گے۔ پس ہمیں اس وائرس سے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا اور ساتھ ساتھ اللہ کے حضور توبہ و استغفار بھی کرنی ہوگی تاکہ اس قسم کی عذاب سے جلد نجات مل سکے۔
پس اللہ تعالی کسی بھی قوم کو جونعمت عطا کرتا ہے وہ اس سےواپس نہیں لیتا جب تک وہ خود اس میں تغیر نہ کرے یا اس کو ضائع نہ کرے جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم : 7)
کہ اگر تم شکر کروگے تو نعمت تمہارے پاس ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ نعمت میں اضافہ کا سبب تمہارا شکر بنے گا۔اگر تم کفران نعمت کروگے تو اللہ کا عذاب بھی سخت ہوگا۔اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ (سورہ محمد :7)
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔
اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے :
‏‏وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ (سورہ طلاق : 02)
جو تقوی الٰہی اختیار کرے گا تو اسے مخرج(نجات کاراستہ) ملے گا۔
وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور اسے وہاں سے رزق ملے گا جس کا وہ تصور نہیں کرسکتا۔۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
"یایُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اسْتَجِیبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُم لِمَا یُحْیِیکُمْ “
اگر تم تقوی الٰہی اختیار کرو تو تمہیں فرقان ملے گا۔ ہمیں پتانہیں کہ ہمارانقصان کہاں ہے ، ہدایت کہاں ہے ، ذلالت کہاں ہے اور کس کی ہدایت پر عمل کروں یہ فرقان آپ کو تب ملے گا جب آپ تقوی الٰہی اختیار کروگے۔
ارشادربانی ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ” (اعراف: 96)
ائے اہل قریہ !اگر تقوی اختیار کرو تو آسمان اور زمین سے برکات کا نزول شروع ہوجاتا ہے ۔ لہذا یہ شعبان کا مہینہ ہے ہم سب کو برکات الٰہی کی ضرورت ہے ۔ جس کا بہترین وسیلہ تقوی الٰہی ہے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم (مائدہ : 66)
اگر یہ تورات اور انجیل پر عمل کرتے تو آسمان اور زمین سے ان کے لئے رزق نازل ہوتا انہیں پھر کسی چیز کی ضرورت نہ رہتی۔
یہاں سوال یہ ہے کہ جب اللہ انسان کو صحت کی صورت میں جو نعمت میں دی ہے ، یہ انسان سے کیوں چھنتی ہے ؟
اس کے جواب میں ارشاد خداوندی ہے کہ "وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً”
اس فتنےسے ڈرو جس کی لپیٹ میں صرف ظلم کرنے والے نہیں آئیں گے بلکہ سب اس کے لپیٹ میں آئیں گے کیونکہ جب ظلم ہورہا تھا تو باقی لوگ خاموش رہے انہوں نے ظلم کو نہیں روکا۔ اس ظلم کی وجہ سے عذاب الٰہی میں سب مبتلا ہوگئے۔ جس طرح یمن کے بچے بھوک سے بلکتے رہے اور پوری دنیا اس پر خاموش رہی تو اس ظلم کے نتیجہ میں عذاب الٰہی جب نازل ہوگا تو اس کی لپیٹ میں سب آئیں گے۔ اسی طرح فلسطین اور کشمیر میں ظلم ہورہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ نتیجہ سب کو بگتنا پڑے گا۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : "وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ( یونس: 13)
ہم نے پورے قریے کو ختم کردیا اس لئے کہ وہ ظلم کرتے تھے۔ ظلم کے نتیجہ میں تباہی آئی ہے۔خدا اپنے نعمتوں کو اس وقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اس میں تبدیلی نہ کریں۔
وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ (یونس : 27)
جب برائی تمہارے گریباں گیر ہوئی ہے یہ اس وجہ سے ہوئی ہے کہ تم نے اس قسم کی برائیاں کی ہیں۔
"وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ”
ظلم کے فورا بعد ذلت نہیں ملتی جس طرح لوگ سوچتے ہیں ۔ جب آپ کوئی بھی اچھا کام کریں گےتو اس کے نتیجےمیں جزاء فورا ملے گی ۔ لیکن جب آپ ظلم کریں گے تو فورا اس کی سزا نہیں ملے گی جیساکہ اللہ تعالی کاارشاد ہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى
(نحل: 16)
اگر ظلم کی وجہ سے فورا خدا کی پکڑ آجاتی تو زمین پر کوئی بھی جاندار نظر نہ آتا۔
پس یہ جو تم پریشان ہو یہ تمہاری اپنی برائیوں کی وجہ سے ہے اور یہ اس ظلم کے بدلے میں نہیں ہے کیونکہ اس ظلم کے بدلے میں اگربرابر تمہیں سزا مل جائے تو تمہارے نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ پس ساری قوت و طاقت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ ہی جانتا ہے جو تمہارا عمل ہے۔
بیدک لا بید غیرک۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہے تیرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَة فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا (تغابن: 11)
جو کچھ بھی مصیبت آپ پر آتی ہے یہ پہلے لکھی گئی ہے۔اور یہ سب اللہ کے اذن سے ہوتا ہے۔
خدا کی طرف سے یہ مصیبت با ضرر کیوں ہے؟ کیونکہ خدا کے مصالح سے ہم بے خبر ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ کیا مصلحت ہے۔ درحقیقت یہ خالق کی عبادت اور بندگی سے دوری کا نتیجہ ہے۔ جس طرح کرونا وائرس کے بارے میں ہم لا علم ہیں اس کے علاج کے بارے میں ابھی تک ہم سب لاعلم ہیں، تو پھر ہمیں غیب کی چیزوں کا علم کیسے آسکتا ہے۔ پس ان مصلحتوں کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔
نوٹ:( مناجات شعبانیہ کی تشریح و توضیح پر مشتمل یہ دروس علامہ انور علی نجفی نے ان ایام میں آن لائن دئیے تھے جب دنیا کرونا وائرس کی مشکل سے ہر طرف سے دو چار تھی۔ اس وجہ سے درمیان میں بعض اوقات کچھ جملے انہی ایام کی مناسبت سے بیان ہوتے ہیں۔)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button