اخلاق حسنہاخلاقیات

اخلاق حسنہ کی اہمیت اور فوائد

نظم و ضبط اور اسلام میں  اس  کی اہمیت

مؤلف: اسلامی تحقیقاتی مرکز

خدا نے ہر ایک چیز کونظم کی بنیا دپر خلق فرمایا ہی، اس بھری کائنات میں ہر چیز کا اپنا ایک مقام ہے اور اس کی مخصوص ذمہ داری ہے۔

بقول ایک شاعر کے :

جہان چون خدوخال وچشم وابروست

کہ ہر چیزی بہ جای خویش نیکوست

یعنی یہ کائنات شکل وصورت اور چشم وابرو کی مانند ہی’ جس کی ہر ایک چیز اپنی اپنی جگہ پر نہایت ہی مناسب اور موزوں ہے۔

۱۔اسلام میں نظم وضبط کی اہمیت:

خدائے عالم وقادر نے اپنی پوری کائنات میں محیر العقول نظم کو جاری وساری فرمایا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ بنی نوع انسان بھی اپنی نجی اور معاشرتی زندگی میں نظم وضبط پیدا کریں۔

اس نے آسمانی مذاہب کے ذریعے خصوصاً دین اسلام کے ذریعہ نظم وضبط کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور اس کی پابندی کا حکم دیا ہے۔

ہم یہاں نظم وضبط سے متعلق کچھ اسلامی احکام بیان کرتے ہیں، امید ہے کہ قارئین احکام الہی کو پیش نظر رکھ کر اپنی زندگی کو پوری طرح سنوار نے کی کوشش کریں گی۔

۲۔نجی اور فردی زندگی میں نظم وضبط کی اہمیت:

کسی مسلمان کی فردی زندگی میں نظم وضبط کا تعلق’ صحت وصفائی، لباس کی وضع و قطع ‘ سر اور چہرے کی اصلاح ‘ بالوں کو سنوارنا اور مسواک وغیرہ کرنے سے ہوتا ہے۔

اختصار کے ساتھ ہم یہاں ان امور سے متعلق گفتگو کریں گے:

الف:صفائی:

لباس ‘ بدن اور زندگی کے دوسرے امور میں پاکیزگی اور صفائی کے حوالے سے اسلام نے بہت زور دیا ہے ۔ چنانچہ رسالتمآب (ص) کا ارشاد ہے:

”خداوند عالم پاک و پاکیزہ ہے اور پاکیزگی ‘ طہارت اور صفائی کو دوست رکھتا ہے” (میزان الحکمۃ ، ج ۱۰، ص ۹۲)

دوسری جگہ فرمایا :

”جہاں تک ہوسکے اور جیسے بھی بن پڑی’ پاک و پاکیزہ رہو کیونکہ اللہ تعالی نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہی’ اور جنت میں سوائے صاف ستھرے شخص کے کوئی اور نہیں جا سکے گا” (۔ میزان الحکمۃ ، ج ۱۰، ص ۹۲)

امام رضا ۔ فرماتے ہیں:

”پاکیزگی کا شمار انبیاء (ع) کے اخلا ق   میں ہوتا ہے” (بحارالانوار ، ج۷۸، ص ۳۳۵)

ب:سنوارنا:

سر’ بدن ‘ لباس اور جوتوں وغیرہ کو آراستہ اور صاف رکھنا’ اسلام کا ایک اخلاقی دستور ہے ۔ اس کا تعلق ایک پکے اور سچے مومن کی نجی زندگی کے نظم وضبط سے ہے۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلمان کو اپنی وضع و قطع میں پاکیزگی کا خیال رکھنے کے علاوہ اپنے لباس اور جسمانی وضع و قطع کو بھی سنوارنا چاہئیے۔ بالوں میں کنگھی ‘ دانتوں کی صفائی ‘ اور وقار اور ادب سے چلنا چاہئے ۔

ایک دن حضور سرور کائنات (ص) نے ایک بکھرے بالوں والے شخص کو دیکھا تو فرمایا :

”تمہیں کوئی چیز نہیں ملتی تھی کہ بالوں کوسنوار لیتی” (میزان الحکمۃ، ج ۱۰، ص ۹۲)

عباد بن کثیر نے ‘ جو ایک ریا کار زاہد تھا اور کھردرا لباس پہنا کرتا تھا ‘ ایک دن اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ :

”آپ (ع) کے دو جد امجد ”حضرت رسول خدا (ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام ” تو کھردرا لباس پہنا کرتے تھی”۔

تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

” وائے ہو تم پر کیا تم نے قرآن مجید کی وہ آیت نہیں پڑھی جس میں خداوند عالم نے اپنے پیغمبر (ص) کو حکم دیا ہے کہ :

قُل مَن حَرَمَ زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق” )  (سورہ اعراف ، آیت ۳۲)

”اے پیغمبر (ص) ان لوگوں سے پوچھئے کہ خدا کی زینت اور حلال رزق وروزی کو کہ جو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے ‘ کس نے حرام کردیا ہے؟”۔

وہ شخص اپنے اس فضول اعتراض پر نادم ہوا او رسرجھکا کر چلاگیا (فروع کافی، ج ۶، ص ۴۴۴ سے مفہوم حدیث)

آیت 🙁 خُذوا زینتکم عند کلّ مسجد’‘ ) ۔”ہر سجدہ کرنے کے وقت زینت کرلیا کرو”،اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

”ان زینتوں میں سے ایک زینت ‘ نماز کے وقت بالوں میں کنگھی کرنا ہے” (فروع کافی، ج ۶، ص ۴۸۹)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام دانتوں کی صفائی کے بارے میں فرماتے ہیں:

”من اخلاق الانبیاء (علیہم السلام)السَّواک ‘‘ (اصول کافی ج۶ ص ۴۵۹)

”مسواک کرنا اخلاق انبیاء میں شامل ہے”۔

حضرت علی علیہ السلام نے مناسب جوتا پہننے کے بارے میں فرمایا :

”اچھا جوتا پہننا اور بدن کی حفاظت و طہارت نماز کے لئے مددگار ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔” (فروع کافی، ج ۶ ۔ ص ۴۶۲)

رسول خدا (ص) جب بھی گھر سے مسجد یا مسلمانوں کے اجتماع میں تشریف لے جانا چاہتے تھے تو آئینہ دیکھتی’ ریش اور بالوں کو سنوارتی’ لباس کو ٹھیک کرتے اور عطر لگایا کرتے تھی’ اور فرمایا کرتے تھے :

”خداوند عالم اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ جب اس کا کوئی بندہ اپنے دینی بھائیوں کی ملاقات کے لئے گھر سے باہر نکلے تو خود کو بناسنوار کر باہر نکلے” (مکارم اخلاق ، ص ۳۵)

لہذا اگر اس حساب سے دیکھاجائے تو پریشان حالت’ آلودگی اور بدنظمی دین اسلام کی مقدس نگاہوں میں نہایت ہی قابل مذمت او رموجب نفرت ہے ‘ اور رسول خدا (ص) کے ایک پیروکار مسلمان سے یہی توقع رکھی جانی چاہئے کہ وہ ہمیشہ بن سنور کر رہے گا اور خود کو معطر اور پاک وپاکیزہ رکھے گا۔

۳۔ معاشرتی زندگی میں اس کی اہمیت:

سماجی امور اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے لئے انسان کی کامیابی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ایک مقرَّرہ ومرتَّبہ پروگرام کے تحت وقت سے صحیح فائدہ اٹھائے ‘ چاہے اس پروگرام کا تعلق اس کے کاموں سے ہو’ جیسے مطالعہ کرنا اور کسی جگہ آنا جانا یا کسی سے ملاقات کیلئے جانا، بدنظمی اور بے ترتیبی سے وقت ضائع ہوتا ہے جبکہ ترتیب ونظم وضبط سے انسانی کوششوں کا اچھا نتیجہ نکلتا ہے۔

امور زندگی اور کاروبار میں نظم وضبط کی اس قدر اہمیت ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی آخری وصیت میں کہ جو بستر شہادت پر ارشاد فرمائی ‘ اس بات پر زور دیا اور حسنین (ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا :

‘اُوصیکما وجمیع ا ہلی وَ ولدی ومَن بَلَغَہ کتابی بتقوی اللہ ونظم امرکم ‘‘ (نہج البلاغہ (فیض الاسلام) خطبہ ۱۵۷۔ ص ۹۷۷)

”میں تم دونوں کو اور تمام افراد خاندان کو اور اپنی تمام اولاد کو اور جن لوگوں تک میری تحریر پہنچی’ سب کو خدا کے تقوی اور امور میں نظم وضبط کی وصیت کرتا ہوں”۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اپنے دن رات کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرو:

۱۔ایک حصہ خدا کی عبادت اور اس کے ساتھ راز و نیازکے لئے۔

۲۔ایک حصہ ذاتی کاموں اور ضروریات زندگی کے پورا کرنے کے لئے۔

۳۔ایک حصہ دوست واحباب اور رشتہ داروں کے ساتھ ملنے جلنے اور ملاقات کے لئے ۔

۴۔اور ایک حصہ آرام و تفریح اور گھر میں اہل خانہ کے ساتھ رہنے کے لئے۔ (تحف العقول ص۴۸۱۔)

۴۔عہدوپیمان میں اس کی اہمیت:

وہ امور کہ جہاں سختی کے ساتھ نظم وضبط کی رعایت کرنا چاہئی’ عہدوپیمان اور اقرار ناموں کی پابندی ہی۔ مثلاً قرض دینے ‘ قرض لینے اور دوسرے لین دین میں تحریری سند کا ہونا ضروری ہے۔ تاکہ بعد میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیدا نہ ہونے پائے اور ایسا کرنے سے مشکلات کا راستہ بند اور اختلاف کی راہیں مسدود ہوجائیں۔ یہ عہدوپیمان اور لین دین کے بارے میں ایک طرح کا نظم وضبط ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے :

”ایے ایمان لانے والو جب تم ایک مقررہ مدت کے لئے قرضہ لیتے یا دیتے ہو تو اسے لکھ لیا کرو’ اور یہ تحریر ایک عادل شخص تمہارے لئے لکھی’ اور اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو اسے گروی کی صورت لے لیا کرو ” (۔ سورہ بقرہ آیت ۲۸۲۔ ۲۸۳)

ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( اَوفوا بالعَہد انَّ العَہد کانَ مسئولاً” ) (۔ سورہ بنی اسرائیل ۔ آیت ۳۴)

”عہد کو پورا کرو ‘کیونکہ عہد کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا”۔

پیغمبر اسلام (ص) نے وعدہ کی پابندی کو قیامت کے اوپر عقیدہ رکھنے سے تعبیر فرمایا ہی۔ چنانچہ ارشاد ہے:

مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخرۃ فلیف إذا وَعَدَ”  (کافی۔ ج ۲۔ ص ۳۶۴)

”جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنا وعدہ پورا کرنا چاہئیے”۔

ایک واضح پیمان مقررّ کرنے سے بہت سے اختلافات کا سدّ باب ہوسکتا ہے۔۔ اور اس پر صحیح طریقہ سے عملدرآمد لوگوں کی محبت اور اعتماد حاصل کرنے کا موجب بن جاتا ہے ۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ (ع) کے ملازمین میں ایک اجنبی شخص کام کر رہا ہے’ جب آپ (ع) نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتا یا گیا کہ اسے اس لئے لے آئے ہیں تاکہ ہمارا ہاتھ بٹاسکے۔ امام (ع) نے پوچھا: کیا تم نے اس کی اجرت بھی طے کی تھی؟ کہا گیا کہ نہیں۔ امام (ع) سخت ناراض ہوئے اور ان کے اس عمل کو ناپسند فرماتے ہوئے کہا :

”میں نے بارہا کہا ہے کہ جب تم کسی کو مزدوری کے لئے لاتے ہو تو پہلے اس سے اجرت طے کرلیا کرو’ ورنہ آخر میں تم اسے جس قدر بھی مزدوری دوگے وہ خیال کرے گا کہ اسے حق سے کم ملا ہے’ لیکن اگر طے کرلوگے اور آخر میں طے شدہ اجرت سے جتنا بھی زیادہ دوگے خوش ہوجائے گا اور سمجھے گا کہ تم نے اس کے ساتھ محبت کی ہے” (بحارالانوار ۔ ج ۴۹۔ ص ۱۰۶)

بات پر قائم رہنا اور وعدہ وفائی انبیاء اور اولیاء خدا کا شیوہ ہی، ان کے پیروکاروں کو اس سلسلے میں ان کی اقتدا کرنی چاہئیے۔

۵۔عبادت میں اس کی اہمیت:

عبادت میں بھی نظم وضبط کا اہتمام کرنا چاہئے اور وہ یوں کہ ہر عبادت کو بروقت اور بموقع بجالائیں’ نماز کو اس کے اول وقت میں اور جماعت کے ساتھ ادا کریں’ ماہ رمضان میں روزے رکھیں’ اگر سفر یا بیماری کی وجہ سے کوئی روزہ قضا ہوجائے تو اس کی قضا کریں ‘ خمس وزکوۃ ادا کریں’ اور عبادت میں افراط وتفریط سے اجتناب کریں بلکہعبادت میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہئیے کیونکہ اعتدال پسندی عبادت میں مفید ہے۔

عبادت اور مستحب امور میں افراط سے کام لینے سے بسا اوقات انسان اکتا جاتا ہی’ جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ اجتماعی سرگرمیوں سے محروم رہتا ہے بلکہ کبھی تو اس کا یہ عمل بجائے باعث ثواب کے عذاب کا باعث بن جاتا ہے ‘ جیسے دعا یا نوحہ خوانی کرنا یا کوئی اور مستحب عمل کہ رات گئے تک لائوڈ اسپیکر پر پڑھتا رہے ‘ظاہر ہے اس سے ہمسایوں یا بیماروں کو تکلیف ہوتی ہے۔

مستحب عبادت اس وقت مفید اور کار آمد ہوتی ہے جب وہ رضا ورغبت اور شوق و محبت کے ساتھ انجام دی جائے ۔ اُس مسلمان کی داستان مشہور ہے کہ جس نے اپنے غیر مسلم ہمسائے کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی ‘ جب اس کا وہ ہمسایہ مسلمان ہوگیا تو وہ اسے مسجد لے گیا اور صبح سے لیکر مغرب تک مسجد میں نماز ودعائیں پڑھتا رہا ‘ قران کی تلاوت کرتا رہا ، غرض اسے صبح سے شام تک ان امور میں مصروف رکھا۔

چنانچہ جب وہ دوسرے دن اس کے پاس گیا کہ اسے عبادت کے لئے اپنے ہمراہ مسجد لے چلے تو اس نے ساتھ چلنے سے صاف انکار کردیا اور کہا :

”میرے یہاں بیوی بچے بھی ہیں’ ان کے اخراجات کے لئے بھی کچھ کرنا ہی’ مجھے ایسا دین قبول نہیں جائو اپنی راہ لو۔،،

۶۔ اخراجات   میں اس کی اہمیت:

روٹی’ کپڑے اور زندگی کے دوسرے اخراجات’ جو کہ بیت المال یا دیگر اموال سے پورے ہوتے ہیں ان میں اعتدال سے کام لینا چاہئے نہ افراط سے کام لیاجائے اور نہ ہی بخل و مشکلات میں پڑنا چاہئیے۔

اخراجات میں نظم وضبط کا مطلب یہ ہے کہ آمد وخرچ میں ماشہ، گرام کا حساب رکھاجائی، پیداوار اور اخراجات میں توازن رکھاجائے اور اخراجات میں اسراف اور فضول خرچی بد نظمی ہے کہ اس سے انسان مفلس اور نادار ہوجاتا ہے۔

قرآن مجید فضول خرچی اور بے حساب خرچ کرنے کی مذمت کرتا ہے اور فضول خرچ انسان کو شیطان کا بھائی قرار دیتاہے( ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین” )( سورہ بنی اسرائیل ۔ آیت ۲۷)

فردی اور نجی زندگی میں بھی اخراجات میں تعادل رکھنا چاہئے ،اسی طرح حکومت اور مسلمانوں کے بیت المال میں بھی میانہ روی اختیار کرنا چاہئی، معاشرہ میں وہی حکومت کامیاب ہوتی ہے کہ جس کے مال و منصوبے نظم وضبط پر مبنی ہوتے ہیں۔ اخراجات میں اعتدال ، یعنی بجلی ، پانی ، پھل ، لباس اور کھانے پینے کی چیزوں کو بے مقصد صرف کرنے سے اجتناب کرنا ، تاکہ انسان اپنے آپ اور معاشرہ کو خود کفیل بنا دے اور دوسرں سے بے نیاز ہو جائے ۔

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) بیت المال سے خرچ کرنے کے بارے میں اپنے کارکنوں کو ہدایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”قلم کی نوک کو باریک اور سطروں کے فاصلے کو کم کرو اضافی آداب والقاب کو حذف کرو ، اپنے مطالب کو خلاصہ کو طور پر تحریر کیا کرو اور فضول خرچی سے دور رہو کہ مسلمانوں کا بیت المال اس قسم کے اخرجات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔،، (بحارالانوار ۔ ج ۴۱۔ ص ۱۰۵)

۷۔محاذ جنگ اور عسکری امور میں نظم وضبط کی اہمیت :

خاص طور پر جنگ ، جنگی آپریشن ، میدان جنگ اور عسکری امور میں نظم وضبط کو ملحوظ رکھنا خصوصی اہمیت کا حاصل ہے ۔

واضح رہے ، جنگ میں مجاہدین کی کامیابی کا دار ومدار اپنے کمانڈروں کی حکمت عملی اور جنگی تدابیر پر پختہ یقین اور راستح عقیدہ کے بعد ان کی اطاعت اور عسکری امور کے نظم وضبط پر ہے ۔

خدا وند عالم ،قرآن مجید میں فرماتا ہے :

( انَّ اللہ یحبّ: الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص ) ، (سورہ وصف ۔ آیت ۴)

”یقینا خداوند عالم ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں یوں منظم طریقہ سے صف باندھ کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے ۔،،

جنگ کے دوران ، حملہ کے وقت ، پیچھے ہٹنے کے موقع پر اور آرام کے وقت نظم وضبط کا مظاہرہ فتح اور کامیابی کی علامت ہے ۔ جب کہ گربڑ ، سر کشی اور بدنظمی بعض اوقات جیتی ہوئی جنگ کو شکست میںتبدیل کر دیتی ہے ۔

حضرت رسو ل اکرم (ص) حملہ کا حکم دینے سے پہلے تمام فوجیوں کی صفیں درست کرتے تھے ، ہر شخص کا فریضہ مقرر فرماتے تھے اور نافرمانی پر تنبیہ اور سرزنش فرماتے تھے۔ (تاریخ پیامبر اسلام (ص) ۔ ص ۲۳۹(مولف ڈاکٹر آیتی)

جنگ میں کمانڈر کی اطاعت اور عسکری قوانین کی پابندی زبردست اہمیت اور حسّاس ذمہ داری کی حامل ہوتی ہے ۔کمانڈر کے احکام کا احترام ،اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنا ، خودرائی اور جذباقی طرز فکر سے اجتناب ، کامیابی کا ضامن ہوتا ہے ۔

تاریخ میں بہت سے ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ بدنظمی، بے ضابطگی اور قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگیں شکست میں تبدیل ہوئی ہیں اور دشمن کے غالب آجانے کا سبب بن گئیں ہیں ۔ چنانچہ جنگ اُحُد میںنبی (ص) نے کچھ مسلمان جنگجووًں کو عبداللہ ابن جبُیر کی سر کردگی میں ایک پہا ڑی درّے پر متعین فرمایا،

جنگ کے شروع ہو جانے کے بعد سپاہ اسلام کی سرفروشانہ جنگ سے دشمن کے پاوّں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام آخری کامیابی کی حدود تک پہنچ گیا اور دشمنان اسلام شکست کھا کر بھاگنے لگے تو درّے پر متعین افراد نے کامیابی کی صورت حال دیکھ کر رسول خدا (ص) کے فرمان کو فراموش کر دیا اوراپنے مورچوں کو چھوڑ کر نیچے اتر آئے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے ، اس بدنظمی اور رسول خدا(ص) کے عسکری فرمان کی خلاف ورزی کی وجہ سے دشمن کے شکست خوردہ لشکر نے مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور پہاڑ کے حسّاس درّے کو خالی پاکر سپاہ اسلام پر حملہ ور ہو گیا، آخر میں اس بد نظمی اور کمانڈر کے حکم کی خلاف ورزی کے سبب مسلمانوں کو زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور سنگین جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ (۔مزید تفصیل کے لئے کتاب فروغ ابدیت ۔ ج ۲۔ ص ۴۶۶ کا مطالعہ کیاجائے۔)

محاذ جنگ ذمّہ دار افسران کے احکام کی پابندے نہایت ضروری ہے :

محاذ جنگ پر کسی ڈیوٹی پر متعین ہونے ، کسی یونٹ میں منتقل ہونے ، چھٹی پر جانے ، کسی پروگرام میں پرجوش شرکت ، غرض تمام امور میں ذمہ دار افسران کے احکام وآرا ء کی پابندی ضروری ہوتی ہے ۔

خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

” مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لائے اور جب کسی اہم اور جامع کام( جنگ)میں پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ ہوتے ہیں تو ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے ،اجازت حاصل کرنے والے ہی صیحح معنوں میں خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان رکھتے ہیں ، پس جب بھی وہ اپنے بعض کاموں کے لئے آپ(ع) سے اجازت طلب کریں ، تو آپ(ع) جسے چاہیں اجازت عطا فرمائیں ،، (سورہ نور ۔ آیت ۶۲) اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ چھٹی پر جانا بھی پیغمبر(ع) کی اجازت پر موقوف ہے ۔

ہماری دعا ہے کہ راہ خدا میں مسلسل جّدوجہد کرنے والے اور فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہدین اسلام ایک محکم و مضبوط صف میں اور مستحکم نظم و ضبط کے تحت متحّدو متّفق ہو کر دشمنان حق اور پیروان شیطان پر غالب آجائیں ۔آمین،،

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button