سیرتسیرت امام مھدیؑ

نواب اربعہ کا تعارف اور ان کے فرائض


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

علامہ محمد علی فاضل ؒ

ہم اپنے قارئین کے لیے اس بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ اس زمانے میں نیابت اور نواب“کے بجائے سفارت اور سفراء کے کلمات استعمال ہوتے تھے۔ بہر حال غیبت حضرت امام مہدی علیہ الصلوة والسلام کے خاص نائبین چار حضرات تھے اور یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ انہیں آپ سے پہلے کے ائمہ علیہم السلام کی خدمت کا بھی شرف حاصل تھا اور نیک پارسا اور بزرگ شیعہ عالم تھے اور انہیں نواب اربعہ کہتے ہیں ترتیب زمانی کے لحاظ سے ان کے اسناء گرامی یہ ہیں۔

ا۔ ابو عمرو عثمان بن سعيد عمری، ۲- ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری، ۳- ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی، ٤۔ ابوالحسن علی بن محمد سمری۔ یہ حضرات امام زمانہ علیہ السلام کے نائب کہلاتے ہیں لیکن مختلف علاقوں میں امام زمان علیہ السلام کے بہت سے وکلاء  بھی تھے  ۔ مثلا بغداد، کوفہ ،اهواز، ہمدان، قم، رے، آذر بائیجان، نیشاپور وغیرہ میں آپ کے وکلا موجود تھے جو  مذکورہ چار حضرات کے ذریعہ لوگوں کے مسائل و مشکلات اور حالات امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچاتے اور انہی کے ذریعہ امام پاک علیہ السلام کی طرف سے جواب بھی حاصل کرتے۔ چنانچہ شیخ طوسی نقل فرماتے ہیں کہ صرف بغداد میں تقریبا دس افراد، جناب محمد بن عثمان عمری کی نمائندگی میں مصروف عمل تھے۔ اور ان کا رابطہ نائبین امام سے ہوتا اور ان کے بارے میں امام علیہ اسلام کی طرف سے توقیعات برآمد ہوتیں ۔ اور یہ حضرات ان پر عمل کرتے ان نمائندوں کے نام یہ ہیں۔ محمد بن جعفر اسدی، احمد بن اسحاق اشعری قمی، ابراہیم بن محمد ہمدانی، احمد  بن حمزه (غیبت شیخ طوسی)  محمد بن ابراہیم مھزیار (کافی کلینی) حاجزین یزید، محمد بن صالح ( کافی کلینی) ابو هاشم داود بن قاسم جعفری، محمد  بن علی بن بلال، عمرو اہوازی ابو  محمدو جناتی، ( کافی کلینی)۔

١۔ ابو عمرو عثمان بن سعيد عمری

کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہے اور سامرا شہر میں قیام کی وجہ سے عسکری بھی کہلاتے تھے شیعی محفلوں میں انہیں سمان بھی کہا جاتاتھا جس کے معنی ہیں ”روغن فروش‘‘ کیونکہ آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو مخفی رکھنے کے لیے گھی کا کاروبار کیا کرتے تھے اور شیعوں کے اموال شرعیہ کو امام علیہ السلام تک پہنچانے کے لیے گھی کے برتنوں کا استعمال کیا کرتے تھے تمام شیعہ ان کا احترام کیا کرتے تھے۔ انہی عثمان  بن سعید کو حضرت امام علی النقی ہادی اور حضرت امام حسن عسکری علیه السلام کی خدمت کا شرف بھی حاصل رہا ہے اور ان کے نزدیک با اعتماد شخصیت تھے۔  احمد بن اسحاق جن کا  شمار  بزرگ شیعہ افراد میں ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، میں کبھی یہاں ہوتا ہوں اور  کبھی نہیں ہوتا۔  اور جب یہاں ہوتا ہوں پھر بھی ہر روز آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتا  اس بارے میں میں کسی شخص کی باتوں کو مانوں اور اس کے فرمان پر عمل کروں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:  ابو عمرو(عثمان بن سعید عمری)ہیں جو ایک امین اور ہمارے قابل اعتماد شخص  ہیں، وہ جو کچھ بھی تم سے کہیں سمجھو کہ میری طرف سے کہہ رہے ہیں، وہ تمہیں جو کچھ دیں وہ میری طرف سے دیں گے، احمد بن اسحاق  کہتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک دن میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہو اور اپنے اسی سوال کو دہرایا تو آپ نے بھی اپنے پدر بزرگوار کی مانند جواب دیا۔ یہی عمرو ہمارے پیشرو امام کی طرح ہمارے بھی قابل اعتماد اور باوثوق انسان ہیں میری زندگی میں بھی اور میری وفات کے بعد بھی وہ جو کچھ  تمہیں کہیں وہ میری جانب سے کہہ رہے ہوں گے اور جو تمہیں دیں وہ میری طرف سےدے رہے ہوں گے (غیبت شیخ طوسی ص ٢١٥)

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی تجہیز و تکفین کا سارا کام بھی بظاہر عثمان بن سعید نے انجام دیا (ایضاً) اور یہ وہی عثمان بن سعید ہیں کہ جنہوں نے ایک دن یمن کی طرف سے آنے والے شیعوں کے مال امام کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے حکم کے مطابق وصول کیا اور جب ان کے شیعوں نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا: امام علیہ السلام کے اس اقدام سے عثمان بن سعید کے متعلق ہمارا اعتماد بھی بڑھ گیا ہے اور ہماری نگاہوں میں ان کے احترام میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ سن کر امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: گواہ رہنا، عثمان بن سعید میرا وکیل ہے اور ان کا بیٹا میرے فرزند امام مہدی کا وکیل ہو گا۔ (ایضاً)

اسی طرح اس بحث کے آغاز میں چالیس شیعوں کی حضرت امام زمان مہدی علیہ السلام کی زیارت کی تفصیل بیان ہو چکی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملاقات کے آخر میں حاضرین سے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ : "جو عثمان (بن سعيد ) تم سے کہیں اسے قبول کر لینا اس کا کہنا ماننا،ان کی باتوں پر عمل کرنا، وہ تمہارے امام کا باختيار نمائندہ ہیں (ایضاً)

عثمان بن سعید کی تاریخ وفات صحیح معنوں میں معلوم نہیں ہے، بعض حضرات کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۳۲۰ ہجری سے۲۷۷ ہجری کے درمیان ہوئی ہے جبکہ کچھ دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۲۸۰ ہجری میں ہوئی ہے۔ تاریخ سیاسی غیبت امام دواز دہم ص۵۵ ۱۔ ۱۵۶ ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللہی)

٢- محمد بن عثمان بن سعيد عمری

محمد بن عثمان بھی اپنے والد بزرگوار کی طرح بزرگ شیعوں میں شمار ہوتے ہیں اور تقوی، عدالت، پرہیز گاری اور بزرگواری کے لحاظ سے شیعہ معاشرہ میں عزت واحترام کا مقام رکھتے ہیں اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے قابل اعتماد دوستوں میں شامل ہیں۔ چنانچہ جب احمد بن اسحاق نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ وہ کس کی طرف رجوع کرے؟ تو امام نے فرمایا ”عمری (عثمان) اور ان کے فرزند (محمد) دونوں ہی میرے قابل اعتماد لوگ ہیں وہ تمہیں جو کچھ دیں وہ میری طرف سے دیں گے اور جو کچھ کہیں وہ میری طرف سے کہیں گے۔ ان کی باتوں کو سننا اور ان پر عمل کرنا کیونکہ یہی دونوں میرے قابل اعتماد لوگ اور امین ہیں (ایضاً)

عثمان بن سعید کی وفات کے بعد امام غائب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرف سے توقیع مبارک ظاہر ہوئی جس میں ان کی تعزیت کی گئی تھی اور ان کے فرزند کی نیابت کا اعلان کیا گیا تھا (ایضاً)

عبد الله بن جعفر حمیری کہتے ہیں کہ جب جناب عثمان بن سعید کی وفات ہو گئی تو امام زمان علیہ السلام کی طرف سے ایک خط ہمیں ملا۔ اسی رسم الخط کے ساتھ کہ جس سے امام علیہ السلام ہمارے ساتھ خط و کتابت کیا کرتے تھے خط میں ہمیں حکم دیا گیا کہ ابو جعفر (محمد بن عثمان بن سعید) کو اس کے باپ کی جگہ نیابت کے لیے منسوب کیا جاتا ہے(ایضاً ص ۲۲۰۔بحارالانوار جلد ۵۱ ص٣٤٩)

اسی طرح جب اسحاق بن یعقوب نے کچھ سوالات امام زمانہ کی خدمت میں لکھ بھیجے تو امام علیہ السلام نے اپنی توقيع مبار ک میں لکھا: خداوند عالم محمد بن عثمان بن سعید اور اس کے والد سے جو اس سے پہلے زندہ تھے راضی اور خوشنوو ہو یہ (محمد) میرے لیے قابل اعتماد اور باوثوق ہیں ان کی تحریر میری ہی تحریر ہوگی۔ (غیبت طوسی ص ٢٢۰ بحار الانوار جلدا۲۳۵۰ ص ۵، اعلام الوری طبری ص ۲۵٢ کشف الغمہ اربلی جلد۳ص۳٢٢)

ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید کی فقہ میں کئی تالیفات ہیں کہ جو ان کی وفات کے بعد حضرت امام العصر کے تیسرے نائب حسین بن روح یا چوتھے نائب ابو الحسن سمری کے ہاتھوں میں پہنچیں (غیبت طوسی ص ۲۲۱) تقریبا چالیس برس تک محمد بن عثمان نے امام کی سفارت اور نیابت کا عہدہ سنبھالے رکھا اور اس عرصے میں انہوں نے امام علیہ السلام کے مقامی اور علاقائی وکلاء کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کی ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے رہے اور شیعوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی امور کو سنبھالے رہے حضرت امام زمانہ علیہ الصلوات و السلام کی طرف سے متعدد توقیعات صادر ہوئیں کہ ان کے ذریے متعلقہ لوگوں تک جاتی رہیں۔ آخر کار انہوں نے ۳۰٤ یا ۳۰۳ ہجری میں داعی اجل کو لبیک کہا اور عالم جاودانی کو سدھارے(غیبت طوسی ص ۲۲۳) محمد بن عثمان نے اپنی وفات سے قبل ہی اپنی تاریخ وفات بتادی تھی، اور ٹھیک اسی تاریخ اور اسی وقت اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی۔ (غیبت طوسی۔ بحار الانوار)

ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی

ابو جعفر محمد بن عثمان کی زندگی کے آخری ایام میں کچھ بزرگوار شیعہ ان کے پاس گئے ابو جعفر نے کہا: اگر میں دنیا سے چلا جاؤں تو میرے امام کے حکم کے مطابق میرے جانشین اور امام کے نائب ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی ہوں گے لہذا آپ لوگوں نے انہی کی طرف رجوع کرنا اور اپنے کاموں میں ان پر اعتماد کرنا ہے (غیبت طبرسی ص ۲۲۶-۲۲۷ بحار الانوار جلد ۵ ص ۳۵۵) جناب حسین بن روح امام علیہ السلام کے دوسرے نائب کے قریبی معاون تھے۔ اور ابو جعفر محمد بن عثمان عمری بھی کافی عرصہ پہلے سے ان کی نیابت کے لیے راہیں ہموار کرتے رہے اور شیعوں کو مال کی ادائیگی کے لیے انہی کی طرف رجوع کرنے کا کہتے رہے۔ اور وہ بھی محمد بن عثمان اور شیعوں کے درمیان ایک رابطے کا کام دیتے رہے۔ (ایضا)

جناب حسین بن روح نے فقہ شیعہ میں التأدیب“ نامی کتاب تالیف فرمائی اور اس پر اظہار رائے کے لیے قم کے فقهاء کی طرف بھیجی۔ فقهاء قم نے کتاب کی تحقیق کے بعد لکھا کہ : صرف ایک مسلہ کے علاوہ باقی کتاب فقهائے شیعہ کے فتاوی کے مطابق ہے۔“(ایضا)

حسین بن روح کے بعض ہم عصر نے ان کی عقل و ہوش مندی اور ذکاوت کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام مخالف و موافق لوگوں کی تصدیق کے مطابق حسین بن روح اپنے دور کے عقل مند ترین لوگوں میں سے ہیں‘‘ (بحار الانوار جلد ۵۱ ص ۲۵۹ غیبت طوسی ص ۲۳۹) حسین بن روح عباسی خلیفہ مقتدر کے دور حکومت میں پانچ سال تک جیل میں بھی رہے ہیں اور  ۳۱ ہجری میں قید سے رہا ہوئے اور اکیس سال تک امام علیہ السلام کی نیابت کے فرائض انجام دیتے رہے آخر کار ۳۲۲ ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہوۓ (غیبت طوسی ۲۳۸)

ابوالحسن علی بن محمد سمری

حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حکم اور حسین بن روح نوبختی کے تعارف اور وصیت کے مطابق نوبختی کی وفات کے بعد علی بن محمد سمری ہی نے امام علیہ السلام کی نیابت خاصہ اور شیعوں کے امور کی نگرانی کا منصب سنبھالا۔  ابو الحسن سمری حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب اور دوستوں میں سے تھے اور ۳۲۹ہجری تک اس منصب پر فائز رہے اور اسی سال راہی ملک بقا ہوئے اور ان کی وفات سے چند روز پہلے حضرت امام زمان کی طرف سے ایک توقیع صادر ہوئی جن میں ان سے اس طرح خطاب ہوا:

بسم الله الرحمن الرحیم

اے علی بن محمد سمری ! خداوند عالم تمہاری جدائی کے صدمہ کا تمہارے بھائیوں کو اجر عظیم عطافرماۓ تم چھ دن کے بعد دنیا سے رخصت ہو جاؤگے ابھی سے اپنے کاموں کو سنبھال لو اور انہیں ٹھیک کرلو کسی کو اپنا جانشین نہ بتاؤ کیونکہ اب غیبت کامل (یعنی غیبت کبری) کادور شروع ہونے والا ہے اور میں خداوند عالم کی اجازت کے بغیر ظہور نہیں کروں گا۔ اور میرایہ ظہور اس وقت ہوگا جب ایک طویل عرصہ گزر جائے گا جب دل پتھر ہو جائیں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی کچھ لوگ میرے شیعوں کے لیے نیابت خاصہ کے دعویدار بن کر میرے ساتھ رابطہ اور میری ملاقات کا دعوی کریں گے لہذا یاد رکھو جو شخص "سفیانی” کے خروج اور "آسمانی چنگھاڑ” سے پہلے اس قسم کا دعوی کرے گاوہ جھوٹا ہو گا۔ ولاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم ( غیبت طوسی، بحارالانور 1 مجلسی اور اعلام الوری طبرسی)

توقیع مبارکہ کے صادر ہونے کے چھٹے دن ابوالحسن سمری کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال سے پہلے ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد امام زمان علیہ السلام کا نائب کون ہو گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ میں اس بارے میں کسی کا تعارف کراوں۔ ابوالحسن سمری کی وفات کے بعد تاریخ تشیع کے ایک جدید دور کا آغاز ہو گیا جسے غیبت کبرٰی کادور کہا جاتا ہے۔

نواب اربعہ کے فرائض

حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے اپنے نائبین کا انتخاب در حقیقت "وکالت” کے تسلسل کو باقی رکھنا تھا جس کی بنیاد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے دور امامت میں رکھی تھی اور حضرت امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے اسے وسعت عطا کی اور اب حضرت امام مہدی علیہ السلام کے زمانے میں اسے عروج ملا ان خاص نائبین یا نواب اربعہ کے بنیادی فرائض اور اساسی سرگرمیاں کیا تھیں تو ان کا خلاصہ اس طرح کیا جاسکتاہے۔

الف:امام کے نام اور مقام کو مخفی رکھنا

اگرچہ حضرت امام مهدی عجل الله تعالى فرجه الشریف کی نغیبت کبرٰی کے دوران نواب خاص اور پھر مخصوص شیعوں کے لیے آپ کے دیدار وزیارت کا امکان موجود تھا لیکن کچھ سیاسی مشکلات کی وجہ سے نواب اربعہ میں سے ہر ایک شخص اپنے اپنے زمانے میں اس بات کا پابند تھا کہ امام علیہ السلام کے نام اور ان کے مقام کو عمومی سطح پر اور کھل کر کسی کو نہ بتایا جائے اس لیے کہ اس دور میں حکومت وقت کی طرف سے امام علیہ السلام کی جان کو خطرہ تھا اس قسم کا حکم خود امام علیہ السلام نے دیا تھا۔ چنانچہ ایک دن کسی کے سوال کئے بغیر از خود امام علیہ السلام کی طرف سے دوسرے نائب جناب محمد بن عثمان کے نام یہ توقیع صادر ہوئی۔ "جو لوگ میرے نام کے بارے میں سوال کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کریں کہ اس صورت میں انہیں بہشت نصیب ہوگی اور اگر لب کشائی کریں گے تو جہنم (ان کے انتظار میں) ہے۔ کیونکہ اگر یہ نام سے واقف ہو جائیں تو اسے فاش کردیں گے اور اگر مقام سے واقف ہو جائیں تو دوسروں کو بتادیں گے۔ (غیبت طوسی) اسی طرح عبد الله بن جعفر حمیری اور احمد بن اسحاق اشعری یہ دونوں حضرات ائمہ علیہم السلام کے بزرگ اصحاب اور برجستہ اور صمیمی شیعوں میں سے تھے ایک دن ان کی ملاقات حضرت امام زمانہ عجل الله فرجه الشریف کے پہلے نائب عثمان بن سعيد عمری سے ہوئی انہوں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے جانشین کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیے انہوں نے پوچھا کہ اس کا کیا نام ہے ؟ تو ابو عمرو عثمان بن سعید نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا: آپ لوگوں پر حرام ہے کہ اس بارے میں کوئی سوال کریں اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا کیونکہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ میں کسی حلال کو حرام کردوں یا کسی حرام کو حلال کر دوں کہ یہ خود انہی کا حکم ہے کیونکہ عباسی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام رحلت فرما چکے ہیں اور اپنا کوئی فرزند پسماندگان میں نہیں چھوڑا ہے اس لیے ان کی وراثت کو کچھ لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے یعنی امام کے بھائی جعفر کذاب اور والد ماجدہ کے درمیان اور امام علیہ السلام نے بھی اسی چیز کا صبر اور سکوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور اب کسی کی جرات نہیں ہے کہ آپ کے خانوادے کے ساتھ کوئی رابطہ قائم کرے یا ان سے کسی قسم کا کوئی سوال پوچھے۔ اور اگرامام علیہ السلام کا نام ظاہر ہو جائیں تو وہ لوگ آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے خدا کے لیے آپ ہرگز ہرگز اس طرح کی بحث سے اجتناب کریں۔ (غیبت طوسی ص ۴۱۶۔ ۲۱۹) ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی کے زمانہ نیابت میں ان کے رشتہ دار ابو سہل نوبختی کا شمار بزرگ شیعہ علماء میں ہوتا تھا کچھ لوگوں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا اس عہدہ کے لیے انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ ابوالقاسم حسین بن روح کو منتخب کیا گیا ہے تو انہوں نے نہایت ہی کھلے دل سے جواب دیا۔ جن لوگوں نے انہیں اس مقام کے لیے منتخب کیا ہے وہی بہتر سمجھتے ہیں میرا کام مخالفین اور دشمنان اہل بیت کے ساتھ مناظرہ کرنا ہے۔ اگر میں حسین بن روح کی طرح امام کے مقام کو جانتا ہوتا تو شاید مجھ پر اس قدر دباؤ ڈالا جاتا یا تشدد کیا جاتا کہ میں ان کے محل و مقام کو ظاہر کر دیتا لیکن اگر امام علیہ السلام ابوالقاسم کی عبا میں بھی غائب ہو جائیں تو اگرانہیں ٹکرے ٹکرے کر دیا جائے تو بھی وہ قطعاً اس راز سے پردہ نہیں اٹھائیں گے (غیبت طبرسی، بحار الانوار مجلسی)

ب۔ وکلا کے درمیان ہم آہنگی

ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ امام عصر علیہ السلام کے زمانہ غیبت میں آپ کے وکلاء اور نمائندے شیعوں کے مختلف مرکزی مقامات پر موجود تھے ان میں سے ہر ایک کے پاس مختلف اختیارات بھی تھے اور علاقے بھی تقسیم شدہ تھے اور دسویں اور گیارہویں امام کے زمانے میں اس قبیل کے وکلاء عام طور پر امام علیہ السلام کے مرکزی وکیل کے ذریعے امام علیہ السلام کے ساتھ رابطہ قائم کرتے، اگرچہ براہ راست رابطے کے امکانات بھی موجود تھے لیکن بارہویں امام علیہ السلام کے زمان غیبت صغرٰی میں رابطے کے یہ امکانات منقطع ہو گئے۔ لہذا آپ کے فروعی اور علاقائی نمائندے کہ جن کے مقامات اور اسماء گرامی ہم پہلے بتا چکے ہیں ان کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں اپنے امام کے خاص نائب کی زیر نگرانی جاری رکھیں اور اپنے خطوط ، سوالات اور شیعوں کے دریافت شده شرعی اموال امام غائب عجل الله فرجه الشریف کے اسی نائب کے ذریعے امام تک پہنچائیں۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ابو جعفر محمد بن عثمان کے دور نیابت میں صرف بغداد میں تقریباً دس افراد انہی کے زیر نگرانی اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے (غیبت طوسی۲۲۵)

نائبین خاص مال امام کی وصولی پر کسی کو اس کی رسید نہیں دیا کرتے تھے لیکن شیعہ حضرات ، دوسرے وکیلوں کو یہ مال دیتے وقت ان سے وصولی کی رسید طلب کیا کرتے تھے۔اسی کتاب میں ہے کہ حضرت امام زمان علیہ السلام کے دوسرے نائب محمد بن عثمان عمری کی عمر کے آخری دنوں میں انہی کے حکم کے مطابق ایک شخص امام علیہ السلام کا مال حسین بن روح کو دیا کرتا تھا اور ان سے رسید کا مطالبہ بھی کیا کرتا تھا اس بارے میں حسین بن روح نے اس کا شکوہ محمد بن عثمان سے کیا تو انہوں نے اس شخص کو کہا کہ ان سے رسید کا مطالبہ نہ کیا جائے جو مال بھی ابوالقاسم یعنی حسین بن روح کو دیا جاتا ہے وہ مجھے مل جاتا ہے۔

مال امام کی وصولی اور خرچ

حضرت امام زمانہ عجل الله فرجه الشریف کے نائین خاص میں سے ہر ایک اپنی سفارت اور نیابت کے دوران چو بھی مال امام لوگوں سے وصول کرتے ہر ممکن ذریعے سے حضرت امام علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں پہنچا دیا کرتے تھے یا جن مقامات پر امام علیہ السلام نے خرچ کرنے کا حکم دیا تھا وہیں پر خرچ کرتے تھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے دنوں میں قم اور ایران کے دوسرے علاقوں کے شیعوں کا ایک وفد سامرا آیا اور سامرا ہی میں انہیں امام علیہ السلام کی شہادت کی خبر ملی، ان کے پاس اپنے علاقوں کے شیعوں کا مال امام تھا جو وہ امام کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے امام کی شہادت کے بعد انہوں نے امام کے جانشین کے بارے میں بعض لوگوں نے جعفر کذاب کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے اپنے معمول کے مطابق جعفر سے اس مال کی نشانیوں اور خصوصیات کے بارے میں سوال کیا تاکہ معلوم ہو کہ اس کے پاس علم امامت ہے یانہ ؟ جب وہ جواب نہ دے سکا توانہوں نے مال دینے سے انکار کردیا اور وہ بھی مجبور ہو کر وطن  واپس چلے گئے۔

ھ۔ جھوٹے مدعیان نیابت کا مقابلہ

اس زمانے میں کچھ لوگوں نے "غلو” کا پرچار کرناشروع کر دیا اور کچھ لوگ حضرت امام زمانہ عجل الله فرجه الشریف کی ریاست اور وکالت کے جھوٹے دعوے کرنے لگ گئے لیکن آپ کے چاروں نائبین یا نواب اربعہ نے ان کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے مقاصدمیں انہیں ناکام بنادیا۔ جیساکہ ہم حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی سیرت کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں کہ کچھ جاه طلب اور گمراہ کن افراد نے ائمه اطهار علیهم السلام کے بارے میں بے اساس پرپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ نعوذ باللہ وہ "رب” ہیں یا اللٰہ ہیں ۔ اس طرح سے وہ معاشرے میں اپنا نام اور مقام بنا کر لوگوں سے خمس وغیرہ بٹورتے تھے۔ لیکن جہاں اس سے شیعیت بدنام ہو رہی تھی وہاں حضرات ائمه اطہار علیہم السلام کے لیے بھی مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔ لیکن غیبت صغری کے زمانے میں جہاں پر یہ مسائل نےتھے وہاں ایک اور نئی مشکل یہ پیدا ہو گئی کہ کچھ ایسے لوگ ظاہر ہو گئے، جو خود کو غلط طریقے سے امام علیہ السلام کا خصوصی نائب با سفیر کہلانے لگ گئے یعنی حضرت کی خصومی نیابت یا سفارت کا جھوٹادعوی کرنے لگ گئے۔ اس طرح و مال امام علیہ اسلام میں غلط تصرف کرنے کے علاوہ فقہ اور اور عقائد کے بارے میں بھی گمراہ کن باتیں کرنے لگ گئے۔ اب امام علیہ السلام کے خاص نائبین خود حضرت امام عالی مقام کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق خوب ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتے۔ اور بعض اوقات حضرت امام علیہ السلام کی طرف سے ان کے لعنت پر مینی توقیع بھی صادر ہو جاتی اور ابو محمد شریعی، محمد بن نصیر نمیری، احمد بن ہلال کرخی، ابو طاہر محمد بن علی بن بلال، حسین بن منصور حلاج اور محمد بن على شلمغانی، اسی ٹولے سے تعلق رکھتے تھے (غیبت طوسی ص ۲۴۴)

علامہ محمد علی فاضل ؒ کی کتاب ” سیرت چہاردہ معصومین علیھم السلام ” سے اقتباس

 


Deprecated: preg_split(): Passing null to parameter #3 ($limit) of type int is deprecated in /home/jkrisalaat/public_html/wp-content/themes/jannah/framework/functions/post-functions.php on line 805

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button