اخلاق حسنہاخلاقیاتسلائیڈر

اپنی آرائش دین کی نظر میں

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاہے:ان اللّٰہ یحب الجمال والتجمیل ویكرہ البؤس والتباؤس(1): اللہ تعالیٰ زبیائی اور آراستہ کرنے کو پسند کرتا ہے اور پژمردگی اور اپنے آپ کو غبار آلود اور پژمردہ دکھلانے کو ناپسند کرتا ہے۔
اسی طرح جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اللّٰہ تعالیٰ یحب من عبدہ اذا خرج الی اخوانہ ان یتھیأ لھم ویتجمّل(2)
اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب اس کا بندہ اپنے دینی بھائیوں کے پاس جائے تو خود کو آمادہ کرے اور اپنی آرائش کرے۔
شاید کچھ لوگوں کا یہ گمان ہے کہ جب اجنبی لوگوں کے سامنے جائیں تو اپنے آپ کو آراستہ کریں، اپنے دوستوں اور آشنا لوگوں کے دیدار کے وقت اپنا پن اور دوستانہ ہی خود کی آراستگی سے بے نیاز کر دیتا ہے اور اس وقت اپنی آرائش ضروری نہیں ہے؟ جب کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
لیتزین احدكم لاخیہ المسلم اذا اتاہ كما یتزین للغریب الذی یحب ان یراہ فی احسن الھیۃ (3) “جس طرح تم پسند کرتے ہو کہ اجنبی لوگ تمھیں بہترین شکل وصورت میں دکھیں اور ان کے لئے اپنے آپ کو آراستہ کرتے ہو اسی طرح جب تم اپنے مسلمان بھائی کے پاس جاؤ تو خود کو آراستہ کر کے جاؤ۔اب ہم چند امور کو ذکر کرتے ہیں جو انسان کی خوبصورتی میں دخیل ہیں:
1۔ عمومی پاکیزگی
پاكیزگی، انسان کی ذاتی اور سماجی سلامتی میں بے حد موثر ہونے کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کی دلچسپی اور دل خوشی کا باعث ہے۔پاکیزگی کلام معصومینؑ میں ایمان کا جزو شمار ہونے والے امور و صفات میں سے ایک ہے؛(النظافۃ من الایمان) (5) “پاکیزگی وصفائی ایمان کا جزو ہے۔
دوسری جگہ امام علی رضاؑ فرماتے ہیں: من اخلاق الانبیاء التنظیف (6) “پاکیزہ و صاف رہنا، انبیاء کے اخلاق میں شامل ہے۔
ایک حدیث نبوی میں ایک گندے شخص کے بارے میں اس طرح آیا ہے:ان اللّٰہ تعالیٰ یبغض الوسخ والشعث (7) “اللہ تعالیٰ گندے اور گرد و غبار آلود شخص سے نفرت کرتا ہے۔
بعض روایات میں خاص مقامات پر صاف و پاکیزہ رہنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے حضرت امام جعفر صادقؑ اپنی حدیث کے ایک حصہ میں فرماتے ہیں:
فان اللّٰہ۔ عز وجل۔ اذا انعم علی عبدہ نعمۃ احب ان یری علیہ اثرھا، قیل: وكیف ذالك، قال: ینظف ثوبہ، ویطیب ریحہ ویجصص دارہ، ویكنس افنیتہ، حتی ان السراج قبل مغیب الشمس ینفی الفقر ویزید فی الرزق (8) “جب خدا وند متعال کسی کو نعمت دے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر اس کے اندر ملاحظہ کرے۔ پوچھا گیا وہ کس طرح؟ فرمایا: اپنا لباس صاف رکھے،خوشبواستعمال کرے، اپنے گھر کو پلاسٹر کرے اپنے گھر کے آگن اور دالان میں جھاڑو لگائے یہاں تک کہ سورج غروب ہونےسے پہلے چراغ جلانے سے فقر و فاقہ دور ہوتا ہے اور رزق و روزی میں اضافہ ہوجاتا ہے”۔
2۔ سر کے بال کا خیال رکھنا
سر کے بال، انسان کی ظاہری شکل کو بہتر بنانے والے اصلی عناصر میں شمار ہوتے ہیں انسان کی خوبصورتی سر کے بال کے ساتھ جلوہ نمائی کرتی ہے کہ یہ تقارن وہمراہ چہرے کی خوبصورتی کو مزید خوبصورت بناتے ہیں۔ اگر ایک ایسے انسان کو مدنظر رکھیں کہ جس کے تمام اعضاء، بدن یعنی، آنکھ ابرو، لب، ناک وغیرہ بڑے مناسب اور خوبصورت ہوں لیکن اس کے سر پر بال نہ ہو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ نہ صرف یہ کہ اس کی خوبصورتی رونق نہیں رکھتی بلکہ ہو سکتا ہے وہ آدمی برا بھی لگے۔
اسی سلسلہ میں جناب رسولؐ خداسے نقل شدہ حدیث بھی ہے جو خوبصورتی میں سر کے بال کی اہمیت و کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان رسول اللّٰہ(ص): نھی المرأۃ التی وصلت الیٰ حد البلوغ ان تتشبہ بالرجال فی قص شعرھا من الخلف اومن الوسط اومن الامام(9) “روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب رسول خدانے حد بلوغ کو پہنچ جانے والی عورت (لڑکی) کو مردوں سے شباہت پیدا کرنے سے منع فرمایا ہے یعنی وہ اپنےسر کے بال کو آگے پیچھے یا وسط سے نہ تراشے”۔
حضرت امام جعفر صادقؑ نے بھی فرمایا ہے:شعر الحسن من كسوۃ اللّٰہ؛ فاكرموہ (10) “خوبصورت بال اللہ کی عطاکردہ چادر ہے اس کا احترام کرو۔
بالوں کی حفاظت کے سلسلہ میں بھی روایات موجود ہیں منجملہ پیغمبر خدانے فرمایا ہے:
من اتخذ شعرا، فلیحسن ولا یتہ اولیجزہ (11) “جو بال بڑا رکھتا ہے اسے چاہیے کہ یا تو اس کی اچھی طرح حفاظت کرے یا پھر اسے چھوٹا کر دے۔
حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
استاصل شعرك یقل دونہ و دوابہ ووسخہ وتغلظ رقبتك ویجلو بصرك (12) “اپنے سر کے بال چھوٹے کرو کیونکہ بالوں کو چھوٹا رکھنے سے گندگی اور جویں کم ہو جاتی ہیں اور گردن قوی (موٹی) اور آنکھ کی روشنی بڑھ جاتی ہے۔
بالوں میں کنگھی کرنے کے بارے میں اور اس پر مترتب ہونے والے فوائد کے سلسلہ میں بھی معصومین علیہم السلام سے متعدد روایات موجود ہیں حضرت امام جعفر صادقؑ کلمۃ[زینت] کی آیت شریفہ: خذوا زینتكم عند كل مسجد “ہر مسجد میں اپنی زینت اپنے ہمراہ لے جاؤ” کی تفسیر میں فرماتے ہیں:الزینۃ،المشط؛ فان المشط یجلب الرزق ویحسن الشعر وینجز الحاجۃ ویقطع البلغم (13) “آیت میں زینت سے مراد کنگھی ہے اس لئے کہ کنگھی روزی لاتی ہے بالوں کو خوبصورت بناتی ہے۔ حاجتوں کو روا کرتی ہے اور بلغم کو ختم کردیتی ہے۔”
بالوں میں تیل رکھنے کے سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:اذا اخذت الدھن علی راحتك فقل: اللّٰھم انی اسألك الزین والزینۃ (14) سر پرتیل رکھنے کے لئے جب اپنی ہتھیلی پر تیل لو تو کہو: پروردگارا! میں تجھ سے خوبصورتی اور زینت کا خواہاں ہوں”۔
3۔ چہرے کے بال کا خیال رکھنا
لڑکوں کے چہرے پر چودہ۔ پندرہ سال کی عمر میں بالوں کا اگنا ان کی مرادانگی کی علامت ہے اور مرتب ومنظم ڈارھی رکھنا مردوں کے وقار اور ان کی خوبصورتی کا جلوہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں مجسمے، نقوش اور تصاویر اس بات کی نشادہی کرتے ہیں کہ چہرے پر بال (ڈاڑھی) اس کی حفاظت گذشتہ زمانوں میں مردوں کے لئے زینت اور وقار مانا جاتا تھا۔
دین اسلام میں ڈاڑھی رکھنے اور اس میں کنگھی کرنے کی بڑی سفارش ہوئی ہے جناب رسول خدا کے بارے میں ملتا ہے کہ:وكان یسرح تحت لحیتہ اربعین مرۃ ومن فوقھا سبع مرات ویقول: انہ یزید فی الذھن ویقطع البلغم (15)جناب رسول خدا(ص) اپنی ڈاڑھی کے نچلے حصہ کو چالیس مرتبہ اور اوپری حصہ کو سات مرتبہ کنگھی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: یہ کام ذہن کو زیادہ اور بلغم کو ختم کر دیتا ہے”۔
اسی طرح حضرت امام جعفر صادقؑ نےفرمایا ہے:
مشط الراس یذھب بالوباء ومشط اللحیۃ یشد الاضراس(16) سر میں کنگھی کرنے سے وبا دور ہوتی ہے اور ڈاڑھی میں کنگھی کرنے سے دانت محکم ہوتے ہیں”۔
مونچھوں کے بارے میں پیغمبرخدا نے فرمایا ہے:
ان من السنۃ ان تاخذ من الشارب حتی یبلغ الاطار (17) “مونچھوں کو ہونٹوں کی کناری تک تراشے رہنا سنت ہے “۔
آپ ہی سے مروی ایک اور روایت میں آیا ہے۔
لا یطولن احدكم شاربہ؛ فان الشیطان یتخذہ محبا یستتربہ 18 “تم میں سے کوئی بھی اپنی مونچھ بڑی نہ رکھے ورنہ شیطان اپنے پوشیدہ ہونے کی پناہ گاہ بنا لیتا ہے۔
4۔ بدن کی کھال کا خیال رکھنا
انسانوں بالخصوص خواتین کی شکل ظاہری کے اہم عناصر میں سے ایک بدن کی کھال کا سالم، شفاف اور لطیف ونرم رکھنا ہے پرانے زمانے سے پوست کی سلامتی اور اس کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لئے طرح طرح کی گھاسوں اور مفید تیلوں سے استفادہ رائج رہا ہے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات بھی اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ سماج کے تمام افراد (مرد ہوں یاعورت) کے لئے یہ کام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
الدھن یلین البشرۃ ویزید فی الدماغ ویذھب القشف ویسفر اللون (19) “تیل (کی مالش) کھال کو نرم دماغ کو زیادہ، کھال کی گندگی کو بر طرف اور رنگ و روپ میں نکھار پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح حضرت امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں:
دھن اللیل یجری فی العروق ویروی البشرۃ ویبیض الوجہ (20) “رات میں تیل کی مالش رگوں میں جاری ہوتی ہے کھال کو سیراب اور چہرے کو حسین (سفید) کرتی ہے۔
5۔ ناخن چھوٹا کرنا
ایک اور خداداد نعمت اور خوبصورتی کا جلوہ ہے وہ ہاتھ اور پیر میں ناخن کا ہونا ہے۔ اور اس نعمت کااس وقت اندازہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ جب کسی بیماری یا حادثہ میں کوئی ایک ناخن ختم ہوجاتا ہے اور ہاتھ اور پیر کی ظاہری خوبصورتی پر بھی اس کااثر پڑتا ہے۔
بدن کے اس جزو کے بارے میں نیز اس کی صفائی محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں حضرت امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں:
انما قصت الاظفار؛ لانھا مقیل الشیطان، ومنہ یكون النسیان (21) “ناخنوں کو اس لئے چھوٹا کیا جاتا ہے چونکہ شیطان کی قیامگاہ ہے اور اس سے نسیان پیدا ہوتا ہے”۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین علیؑ فرماتے ہیں کہ:
تقلیم الاظفار، یمنع الداء الاعظم، ویَدُرُّ، الرزق (22) “ناخنوں کو کاٹنے سے بڑی بڑی بیماریاں نا پید ہوجاتی ہیں اوررزق و روزی میں اضافہ ہوجاتا ہے”۔
بعض روایتوں میں عورتوں کے لئے خاص طور سے ناخن کے ظاہری پہلو اور ان کی خوبصورتی کو مد نظر رکھا گیا ہے حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے مردوں سےفرمایا: قال للرجل: قصوااظافیركم، اپنے ناخنوں کوچھوٹاکرو، (وللنساء:) اورعورتوں سے فرمایا كہ: اتركن فانہ ازین لكن (23) اپنے ناخنوں کو چھوڑو (تھوڑاسا بڑے رہیں) اس لئے کہ ناخن تم عورتوں کے لئے مززید زینت کا باعث ہے۔
6۔ عطر لگانا
عرف عام میں دنیا کے تمام لوگوں کی عادت ہے کہ پسینہ کی ناپسندیدہ بو کو ختم کرنے کے لئے یا صرف اپنے یا دوسروں کو اچھا لگنے کے لئے خوشبو کا استعمال کرتے رہے ہیں اور مسلمانوں کی زبان پر ایک جملہ بڑا رائج اور مشہور ہے کہ جناب رسول خدا اپنے اموال کا زیادہ تر حصہ خوشبو پر صرف کرتے تھے جیسے کہ جناب امام جعفر صادقؑ سے اس ارشاد گرامی ہے:
كان رسول اللہ(ص) ینفق علی الطیب، اكثر مما ینفق علی الطعام 24 “پیغمبر خدا(ص) كھانے سے زیادہ خوشبو پر مال صرف كیا كرتے تھے”۔ ایك دوسری حدیث بھی رسول ؐخدا سے نقل ہوئی ہے جو بڑی معروف ہے:
حبب الی من الدنیا ثلاث: النساء والطیب وقرۃ عینی فی الصلاۃ (25) “میں دنیا کی چیزوں میں دلچسپی رکھتا ہوں، عورتیں، خوشبو اور نماز جو کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔
امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:
لا ینبغی للرجل ان یدع الطیب فی كل یوم؛ فان لم یقدر علیہ فیوم ویوم، فان لم یقدر، ففی كل جمعۃ؛ ولا یدع ذالك (26) “مرد کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہر زور خوشبو لگانے سے باز رہے اگر اس پر قدرت نہ رکھتا ہو تو ایک روز چھوڑ کر ایسا کرے اور اگر اس کی بھی قدرت نہ ہوتو ہر جمعہ کو خوشبو استعمال کرے اور اس کو نہ چھوڑے،
اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
ركعتان یصلیھا المتعطر افضل من سبعین ركعۃ یصلیھا غیر متعطر (27) “خوشبو لگانے والے کی دو رکعت نماز بغیر خوشبو لگانے والے کی ستر رکعت نماز سے افضل ہے۔
7۔ مسواک کرنا
بلا شک وشبہ صاف وشفاف اور چمکدار دانتوں کا رکھنا ہر آراستہ و صاف رہنے والے انسان کی خواہش وتمنا ہے کیونکہ دانتوں کی صفائی نہ صرف یہ کہ جسمانی سلامتی میں بڑی موثر ہے بلکہ ظاہری خوبصورتی میں بھی کافی موثر ہے۔ علاوہ بر این دوسروں سے محو گفتگو ہوتے وقت لازم ہے کہ دانت صاف ہوں۔ دانتوں کی صحت وسلامتی کا ڈائرکٹ تعلق اس کا خیال رکھنے سے ہے جس کا نتیجہ اس کی سلامتی ہے اس سلسلہ میں بھی حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ہے:لكل شیء؛ طھور وطھور الفم السواك (28) “ہر شیء کے لئے ایک پاک کرنے والی چیز ہوتی ہے اور منہ کی صفائی دانتوں میں مسواک کرنا ہے”۔
زیادہ احتمال یہ ہے کہ انسان نے اپنی خوبصورتی اور حسن کو باقی رکھنے یا خوبصورتی حاصل کرنے کے لئے دانتوں میں مسواک کرنے کا آغاز کیا ہے اس لئے کہ اس سلسلہ میں ایک صاحب نظر کا قول ہے کہ: انسانوں کے اندر خوبصورتی کی طرف کشش اور کھنچاؤ سلامتی و تندرستی کی سمت کھنچاؤ سے زیادہ قوی ہے۔ بہر حال دانتوں کی صفائی کا خیال رکھنا بھی خوبصورتی کی طرف رجحان پیغمبروں کی آمد اور ان کی تاکید سے سنت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور بہت سی روایات ہمارے مدعی کی تائید کرتی ہیں حضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا ہے:
السواك من سنن المرسلین (29) مسواک کرنا انبیاء و مرسلین کی سنت ہے۔ پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ(ص) نے مسواک کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا ہے:مازال جبرئیل یوصینی بالسواك حتی ظننت انہ سیجعلہ فریضۃ (30) ” جبرئیل امین نے مسواک کرنے کی مسلسل تاکید کی تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ عنقریب مسواک کو فریضہ قرار دے دیں گے”۔ آپ سے منقول ایک دوسری حدیث میں آیا ہے:
لولا ان اشق علی امتی لا مرتھم بالسواك مع كل صلاۃ (31) “اگر میری امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں حکم دے دیتا کہ ہر نماز کے ساتھ مسواک کریں”۔
مسواک کرنے کے جسمانی فوائد اور بہت سی عبادتوں میں اس کے سبب ثواب اور اس کی زیادتی کے سلسلہ میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے صرف ایک نمونہ پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں:
فی السواك اثنتا عشرۃ خصلۃ:ھو من السنۃ، ومطھرۃ للفم ومجلاۃ للبصر، ویرضی الرحمن، ویبیض الاسنان ویذھب بالحفر، ویشد اللثۃ ویشھقی الطعام، ویذھب بالبلغم، ویزید فی الحفظ ویضاعف بہ الحسنات وتفرح بہ الملائكۃ (32) مسواک میں بارہ خصوصیت ہے۔ پیغمبروں کی سنت ہے، ذہن کی صفائی کا باعث ہے آنکھوں کی روشنی میں اضافہ ہوتا ہے، خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے، دانتوں کو سفید کردیتی ہے، دانتوں کے پیلے پن اور خرابی کو زائل کرتی ہے جبڑے کو محکم کرتی ہے بھوک بڑھاتی ہے، بلغم کو ختم کرتی ہے، حافظہ قوی کرتی ہے ثواب کئی گنا بڑھا دیتی ہے ملائکہ کو خوش کر دیتی ہے۔
حوالہ جات

1۔ امالی الطوسی، ج۱، ص۲۷۵۔
2۔ مكارم الاخلاق، ج۱، ص۲۱۸۔
3۔ الخصال، ص۶۱۲۔
5۔ بحار الانوار، ج۵۹، ص۲۹۱۔
6۔ ھمان، ج۶، ص۳۳۵۔
7۔ كنز العمال، ج۱۷، ص۱۸۱۔
8۔امالی الطوسی، ج۱، ص۲۷۵۔
9. تذكرۃ الفقہاء، ج۱، ص۳۹۰۔
10۔ كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۲۹۔
11۔ الكافی، ج۶، ص۵۲۰۔
12۔ھمان،ج۶، ص۴۸۴۔
13۔الخصال، ص۲۶۸۔
14۔ الكافی، ج۶، ص۵۲۰۔
15۔مكارم الاخلاق، ج۱، ص۸۲۔
16۔ كتاب من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۲۸۔
17۔الكافی، ج۶، ص۴۸۷۔
18.۔ ایضا۔
19۔ ایضا،ج، ۶، ص۵۱۹۔
20۔ ایضا۔
21۔ مكارم الاخلاق، ج۱، ص۱۵۴۔
22۔ الكافی، ج۶، ص۴۹۰۔
23۔ بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۲۳۔
24۔ مكارم الاخلاق، ج۱، ص۱۰۴۔
25۔ الخصال، ص۱۶۵۔
26۔ بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۴۰۔
27۔ثواب الاعمال، ص۳۶۲۔
28۔كتاب من لایحضرہ القفیہ، ج۱، ص۵۳۔
29۔ الكافی، ج۶، ص۲۵۷۔
30۔ امالی الصدوق، ص۲۵۷۔
31۔الكافی، ج۳، ص۲۲۔
32۔ الخصال، ص۴۸۱۔
https://shiastudies.com/ur/ /

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button