مقالات قرآنی

انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و افادیت

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ‘‘ (بقرہ:267)
’’ اے ایمان والو! جو مال تم کماتے ہو اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ حصہ (راہ خدا میں)خرچ کرو اور اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی تمہیں دے تو) تم خود اسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بے نیاز اور لائق ستائش ہے‘‘۔
تشریح کلمات
التَیَمَّم:( ی م م ) قصد کرنا۔ ارادے اور قصد کے ساتھ کام کرنا۔
تفسیر آیات
گزشتہ متعدد آیات کے سیاق و سباق سے ایک بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انفاق کا ہدف اور اصلی مقصد اس کا اقتصادی اور مادی پہلو ہی نہیں، بلکہ اس کا اخلاقی اور انسانی پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے۔
اس آیت میں انفاق کے بارے میں مادی اور اخلاقی دونوں پہلوؤں کی طرف اشارہ کر تے ہوئے اس اصول کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ انفاق میں ایثار و قربانی کا عنصر کارفرما ہونا چاہیے جو ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے اور یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب انسان اپنے مال میں سے عمدہ حصہ راہ خدا میں خرچ کرے۔ چنانچہ دیگر متعدد آیات میں اس انفاق کو فضیلت دی گئی ہے جو مال سے محبت ( عَلٰي حُبِّہٖ ) کے باوجود کیا جائے۔ جیسے ارشاد ہے:
’’لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ‘‘
( آل عمران : ۹۲)
’’جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے‘‘۔
ناکارہ اور ردی چیزوں کے انفاق کے بارے میں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا:اگر یہ ردی چیزیں خود تمہیں دی جائیں تو تم بھی انہیں قبول نہ کرو گے۔ لہٰذا ایسا انفاق سخاوت اور ایثار و قربانی نہیں کہلاتا۔ اس قسم کا انفاق ان ردی چیزوں سے جان چھڑانے کا ذریعہ ہو سکتا ہے، مگر ایک اعلیٰ انسانی اخلاق و اقدار کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔ قرآن کے نزدیک اس انفاق کو فضیلت حاصل ہے جس کے ذریعے اعلیٰ اقدار کے مالک انسان کا سراغ ملتا ہو۔
اہم نکات
۱۔ انفاق اس وقت بارآور ہو گا جب وہ کسب حلال سے ہو:
مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ
۲۔ انسان اللہ تعالیٰ سے اچھی اور عمدہ چیزوں کا طالب ہوتا ہے۔ اسے چاہیے کہ انفاق کرتے وقت وہ اس نفسیاتی کیفیت کو مدنظر رکھے:
وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ۔
۳۔ انفاق نیک نامی اور وسعت رزق کا سبب ہے:
اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ۔
تحقیق مزید:
(الکافی ۴ : ۴۸ باب النوادر ۔ الوسائل ۹: ۴۶۵ باب استحباب الصدقۃ ۔ مستدرک الوسائل ۷ : ۹۵ باب عدم جواز اخراج)
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 622)
راہ خدا میں انفاق کرنے والے کی فضیلت
’’وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی ‘‘
’’ اور نہایت پرہیزگار کو اس (آگ) سے بچا لیا جائے گا‘‘
’’الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی ‘‘
’’ جو اپنا مال پاکیزگی کے لیے دیتا ہے‘‘۔
’’وَ مَا لِاَحَدٍ عِنۡدَہٗ مِنۡ نِّعۡمَۃٍ تُجۡزٰۤی ‘‘
’’ اور اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ اتارنا چاہتا ہو‘‘۔
’’اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ رَبِّہِ الۡاَعۡلٰی‘‘
’’وہ تو اپنے رب اعلیٰ کی رضا جوئی کے لیے ایسا کرتا ہے‘‘۔
(سورہ اللیل آیت ۱۷ تا ۲۰)
تفسیر آیات
۱۔ الۡاَتۡقَی:سب سے زیادہ متقی جہنم کی اس آگ بچے گا۔ یعنی جہنم کی آگ سے اپنا بچاؤ کرنے والا دوسروں کی بہ نسبت سب سے زیادہ متقی ہے۔ کم و بیش ہر شخص ہر قسم کے خطرات سے اپنا بچاؤ کرتا ہے لیکن یہ شخص ان میں زیادہ بچاؤ کرنے والا ہے۔
۲۔ الَّذِیۡ یُؤۡتِیۡ مَالَہٗ:یہاں سے اس متقی کی تعریف شروع ہو گئی۔ پہلی بات یہ ہے کہ راہ خدا میں جب مال خرچ کرتا ہے تو اس کام کا محرک اور نیت یہ ہے کہ مالی ایثار کے ذریعے اپنے نفس کو بخل اور خواہشات پرستی جیسی رذیل صفات سے پاک کرے۔ یہاں یَتَزَکّٰی سے مراد نفس کی تطہیر ہو سکتی ہے:
’’خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا‘‘
(توبہ: ۱۰۳)
(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں‘‘۔
۳۔ وَ مَا لِاَحَدٍ: دوسری بات یہ ہے کہ جس شخص کو یہ مال دیتا ہے وہ کسی احسان کے بدلے میں نہیں کہ چونکہ اس نے مادی فائدہ پہنچایا تھا اس کے بدلے میں اسے مالی فائدہ دے۔ یہ سودے بازی ہے، انفاق فی سبیل اللہ نہیں ہے۔
۴۔ اِلَّا ابۡتِغَآءَ: مال خرچ کرنے کا واحد مقصد اپنے رب اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ مال خرچ کرنے میں درجہ اس مال کی مقدار میں نہیں بلکہ خرچ کرنے والے کے اخلاص، نیت اور درجہ ایمان و ایقان میں ہے۔ ایک شخص لاکھوں روپیہ انفاق کرتا ہے لیکن اس انفاق کا محرک رضائے الٰہی نہیں ہے تو اس انفاق کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ دوسرا شخص چند روپے خرچ کرتا ہے اس کا درجہ ایمان قوی اورمحرک رضائے الٰہی ہے، اس کے چند روپے اللہ کے نزدیک قیمتی ہیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 10 صفحہ 195)
انفاق کا حکم
’’اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا لَہُمۡ اَجۡرٌ کَبِیۡرٌ‘‘ (حدید:7)
’’ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور (راہ خدا میں) خرچ کریں ان کے لیے بڑا ثواب ہے‘‘۔
تفسیر آیات
۱۔ اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ:
اللہ تعالیٰ کی خالقیت، مالکیت اور ربوبیت کے ذکر کے بعد ایمان کی دعوت ہے کہ مومنین اپنا ایمان پختہ کریں اور ایمان کے آثار ان کے عمل میں ظاہر ہونے لگ جائیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ایمان کی یہ دعوت اہل ایمان کے لیے ہے۔ جس طرح فرمایا:
’’یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ‘‘(نساء: ۱۳۶)
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، سچا ایمان لے آؤ ‘‘۔
۲۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ:
ایمان کے ساتھ ہی انفاق کا حکم آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انفاق، ایمان کی علامات میں سے اہم علامت ہے چونکہ مال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ چنانچہ فرمایا:
’’وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا‘‘(فجر: ۲۰)
’’اور مال کے ساتھ جی بھرکرمحبت کرتے ہو‘‘۔
نیز فرمایا
’’وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الۡخَیۡرِ لَشَدِیۡدٌ‘‘ ( عادیات: ۸)
’’اور وہ مال کی محبت میں سخت ہے‘‘۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
’’یَنَامُ الرَّجُلُ عَلَی الثُّکْلِ وَلَا یَنَامُ عَلَی الْحَرَبِ‘‘(نہج البلاغہ حکمت: ۳۰۷)
’’اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی‘‘۔
۳۔ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ:
اس مال کو خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔ اس میں دو نظریے ہیں: ایک یہ کہ اس میں تمہیں دوسروں کا جانشین بنایا کہ یہ مال دوسروں سے بذریعہ وراثت تمہاری طرف منتقل ہوا ہے۔ چند روز تمہارے ہاتھ میں ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ مالک حقیقی اللہ نے تصرف کی اجازت دی ہے۔ لہٰذا مال اللہ کا ہے تم اللہ کی طرف سے مجاز ہو۔ شاید یہ نظریہ زیادہ قرین واقع ہے چونکہ ضروری نہیں کہ مال کسی دوسرے سے اس کی طرف منتقل ہوا ہو۔ ہو سکتا ہے انسان کے پاس جو بھی مال ہے وہ سب اپنا کمایا ہوا ہے۔
۴۔ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ اَنۡفَقُوۡا:
دو چیزیں اگر انسان میں موجود ہوں تو وہ اجر کبیر کا مستحق ٹھہرتا ہے: ایمان اور انفاق۔ چونکہ ایمان سے عبد کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ربط قائم ہو جاتا ہے اور انفاق سے عبد خدا کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے لہٰذا اجر کبیر کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جو اپنے رب پر ایمان رکھتے ہوں اور اپنے رب کی مخلوق پر انفاق کرتے ہوں۔ مال اگرچہ اللہ کا ہے لیکن اس نائب نے خیانت نہیں کی اس لیے اجر کبیر ملتا ہے۔ واضح رہے انفاق کا یہ حکم اس وقت سے متعلق ہے جب مدینہ کے ایک مٹھی بھر مسلمان عالم کفر و شرک کے نرغے میں اور انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار تھے۔ اس وقت اسلام کے دفاع کے لیے مال خرچ کرنا ایمان کا اہم ترین جزو تھا۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 48)
’’وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ‘‘ (بقرۃ:270)
’’ اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو یا نذر مانتے ہو اللہ کو اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے‘‘۔
تفسیر آیات
اللہ کی اطاعت میں کسی امر کو اپنے اوپر لازم قرار دینا نَذر کہلاتا ہے۔ نَذر کا یہ عمل صرف اسلام میں نہیں، بلکہ اسلام سے پہلے سابقہ ادیان میں بھی رائج تھا۔ چنانچہ حضرت مریم علیہ السلام کا یہ قول قرآن میں مذکور ہے:
’اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لِلرَّحۡمٰنِ صَوۡمًا فَلَنۡ اُکَلِّمَ الۡیَوۡمَ اِنۡسِیًّا‘
( مریم: ۲۶)
میں نے رحمن کے لیے روزے کی نذر مانی ہے، اس لیے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔
اس آیت میں انفاق اور نَذر کے بارے میں تاکیدی لہجے میں ارشاد فرمایا:
تمہارے انفاق اور نَذر کے بارے میں اللہ خوب جانتا ہے کہ تم کس لیے اور کیوں انفاق نہیں کرتے اور کرتے بھی ہو تو کن پاک یا ناپاک عزائم کے تحت کرتے ہو اور جو اس سلسلے میں ظلم کرتے ہیں اور غریبوں کا حق مارتے ہیں اور انفاق نہیں کرتے ان کا کوئی مددگار نہیں۔ توبہ ان کے کام آسکتی ہے اورنہ ہی شفاعت، کیونکہ یہ حقوق العباد سے ہے۔ لہٰذا اس کا واحد حل یہی ہے کہ جن کا حق مارا ہے، ان کا حق اداکیا جائے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 626)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button