امام رضا علیہ السلام کی سیرت میں سماجی اصولوں کی تجلی

تحریر: محمد جواد حبیب
اسلام محض انفرادی عبادات یا اخلاقی تعلیمات تک محدود نہیں، بلکہ ایک جامع دین ہے جو انسان کی ذاتی، اجتماعی، اخلاقی اور سیاسی زندگی کو منظم کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جو عدل، مساوات، رحم دلی اور انسانی کرامت کی بنیادوں پر قائم ہو۔ ان اعلیٰ اہداف کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو انبیاء اور اولیاء کی صورت میں عملی نمونے دیے، جن میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام بالخصوص امام علی رضا علیہ السلام کی حیات طیبہ نمایاں ہے۔ امامؑ کے معاشرتی رویّے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ تمام انسانیت کے لیے ایک درسگاہ ہیں۔ذیل میں ہم امام علی رضا علیہ السلام کی سیرت کی روشنی میں ان سماجی مبانی پر روشنی ڈالیں گے۔
انسانی کرامت کا احترام
انسانی حقوق اور عزت نفس کا احترام، مختلف تہذیبوں میں صدیوں سے زیر بحث رہا ہے، اور آج دنیا کے اکثر مفکرین انسانی مساوات اور امتیاز سے اجتناب پر متفق ہیں۔ تاہم مغربی دنیا، جو آج انسانی حقوق کے دعوے دار ہے، ماضی میں (خصوصاً قرونِ وسطیٰ میں) امتیازات، ظلم اور طبقاتی تفریق کی گہری آماجگاہ تھی۔ اس کے برعکس، قرآن و احادیثِ نبویؐ اور سیرتِ اہل بیتؑ میں انسان کی عزت اور اس کی حیثیت کو ہر قسم کے تعصب سے بالاتر رکھا گیا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا، إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰهِ أَتْقَاکُمْ”۔
(الحجرات: 13)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہے۔
امام رضا علیہ السلام بھی اسی قرآنی تعلیم کے علمبردار تھے۔ جب کہ اُس دور میں مغربی دینی رہنما لوگوں کے درمیان نسلی، طبقاتی اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز برتتے تھے، امام علیہ السلام کا ماننا تھا کہ تمام انسان اللہ کے بندے ہیں، اور ان کی قدر و منزلت کا معیار صرف خدا سے ان کا تعلق اور انسانی فضیلتیں ہیں، نہ کہ رنگ، نسل، مال و دولت یا سماجی حیثیت۔
اباصلت کہتے ہیں:
"میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ انسانوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں؟”
امامؑ نے اس بات کو جھوٹی تہمت قرار دیتے ہوئے فرمایا: "اگر یہ لوگ ہمارے غلام ہیں تو ہم نے انہیں کس سے خریدا ہے؟
(صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تہران: نشر جهان، ۱۳۷۸ش، ج ۲، ص ۱۸۴)
کرامتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص محض اپنی سماجی حیثیت کی بنیاد پر کسی خاص امتیاز یا محرومی کا شکار نہ ہو۔ امام رضا علیہ السلام اپنے غلاموں، خادموں، حتیٰ کہ دربان اور اصطبل کے نگہبان کو بھی اپنے دسترخوان پر شریک کرتے، اور کبھی کسی سے حقارت آمیز سلوک نہ کرتے تھے۔
عبداللہ بن اباصلت روایت کرتے ہیں:
"میں امام رضا علیہ السلام کے ساتھ ان کے سفرِ خراسان میں تھا۔ جب کھانے کا وقت آتا، امامؑ اپنے تمام غلاموں کو، چاہے وہ سیاہ فام ہوں یا دیگر، اپنے ساتھ بٹھاتے۔ میں نے عرض کیا: کاش ان کے لیے الگ دسترخوان ہوتا۔ امامؑ نے فرمایا: ہمارا خدا ایک ہے، ماں باپ بھی ایک ہیں، اور جزا و سزا اعمال پر منحصر ہے”۔
(کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق، ج ۸، ص ۲۳۰)
اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے:
"کبھی نہیں دیکھا گیا کہ امام رضا علیہ السلام کسی کی بات کاٹیں، یا گفتگو میں بے ادبی کریں۔ جب کوئی ان سے بات کرتا، تو وہ اس کی پوری بات سنے بغیر جواب نہ دیتے۔ اگر کوئی حاجت لے کر آتا، اور وہ پوری نہ کر سکتے، تو بھی نرمی اور مہربانی سے اسے تسلی دیتے۔ کبھی غلاموں کو گالی نہ دی، نہ ہی کسی کے سامنے ٹانگ پھیلائی، نہ زور سے ہنستے، صرف مسکراتے”۔
(صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، پیشین، ج ۱، ص ۱۸۴)
سماجی رویوں کے لیے اہل بیتؑ کی سیرت بطور نمونہ
اسلامی معاشرت میں بہت سے نمونے اور عملی مثالیں موجود ہیں، جن میں سب سے اہم سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ چونکہ یہ ہستیاں معصوم اور خطا ءسے پاک ہیں، اس لیے ان کی زندگیوں سے حاصل ہونے والے اخلاقی اور معاشرتی اسباق پوری امت کے لیے راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہر امام نے اپنے دور کے حالات کے مطابق کچھ مخصوص حکمت عملی اپنائی، لیکن اصولی طور پر ان سب کا ہدف انسانیت کی فلاح اور کرامت کا تحفظ تھا۔
امام رضا علیہ السلام، نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی عزت، عدل، مہربانی اور انسانی مساوات کا سلوک فرماتے۔ چنانچہ ایک واقعے میں یاسر خادم بیان کرتے ہیں:
"نیشاپور سے مامون کو اطلاع ملی کہ ایک زرتشتی نے مرتے وقت یہ وصیت کی کہ اس کے مال کا بڑا حصہ محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ نیشاپور کے قاضی نے وہ مال مسلمانوں میں بانٹ دیا۔ امام رضاؑ سے اس بارے میں رائے لی گئی تو آپؑ نے فرمایا: زرتشتی مسلمان محتاجوں کے لیے وصیت نہیں کرتا۔ قاضی کو لکھا جائے کہ اتنی ہی رقم مسلمانوں کے بیت المال سے لے کر زرتشتی محتاجوں کو دی جائے”۔
(کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، پیشین، ج ۷، ص ۱۱)
اخلاق اور مہربانی
ان بنیادی امور میں سے ایک جو تمام اچھے معاشرتی رویّوں کی بنیاد بن سکتا ہے، لوگوں کے ساتھ محبت اور اخلاق کا برتاؤ ہے۔ اسی وجہ سے دین اسلام نے اس طرز عمل کو اپنی ہدایات کا مرکز قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ہےبلکہ اسلامی دین کے عظیم رہنماؤں نے سب سے زیادہ محبت و شفقت اپنے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کی ہے، یہاں تک کہ خداوند اپنے رسول سے یوں خطاب فرماتا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۔
(سورہ آل عمران، 159)
"اگر آپ سخت مزاج اور سنگدل ہوتے، تو لوگ آپ کے گرد سے منتشر ہو جاتے۔”
امام رضا علیہ السلام بھی اپنے جدّ بزرگوار رسول خدا ﷺ کی طرح اخلاق میں نمایاں تھے۔ آیت اللہ اصفہانی نے اس بارے میں کہا ہے:
"اخلاق میں وہ نبی ﷺ کی عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ وہی ان کی نبوی جڑوں سے اگنے والے ہیں”۔
(اصفہانی، محمدحسین، دیوان الانوار القدسیة، بیروت: مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۲ق، ج ۱، ص ۹۹)
اسی بنا پر، وہ لوگوں سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور ان کے ساتھ انس رکھتے تھے۔ آپ کا گھر اکثر لوگوں کی آمد و رفت کا مرکز ہوتا اور مختلف طبقات کے لوگ ان سے گفتگو کرتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام رضاؑ نے کبھی کسی کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اپنی محبت کسی سے روکی۔ ان کے کشادہ چہرے، متانت اور مہربانی کے سبب لوگ بلا جھجک اور واسطہ آپ سے رجوع کرتے اور اپنی پریشانیاں ان کے سامنے بیان کرتے۔
آپ نے لوگوں سے محبت اور دوستی کو "آدھا عقل” قرار دیا ہے، اور ان دعاؤں میں جو آپ سے منقول ہیں، عام انسانوں کے لیے بخشش، رحمت اور خیرخواہی مانگی گئی ہے۔ ان میں سے ایک دعا یہ ہے:
اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، مِنْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ إِلَى مَغَارِبِهَا، وَارْحَمْهُمْ وَتُبْ عَلَيْهِمْ۔
(مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق، ج ۴۹، ص ۱۱۷)
"اے کریم پروردگار! مشرق سے مغرب تک تمام مؤمن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور انہیں بخش دے۔”
معاشرتی رویّے، اجتماع میں ظاہر ہوتے ہیں اور انفرادی رویّوں کے مقابلے میں ہوتے ہیں؛ لیکن چونکہ انسان مختلف خصوصیات رکھتے ہیں اور ہر فرد کا سماجی مقام مختلف نوعیت کے رویّے کا تقاضا کرتا ہے، اس لحاظ سے امام رضاؑ کے رویّوں کا مطالعہ ہمیں بہتر فہم دیتا ہے اور مختلف افراد کے لیے ایک عملی نمونہ فراہم کرتا ہے۔
عالم کا احترام
اگرچہ علماء ہمیشہ سے معزز شخصیات رہے ہیں اور ان کی علمی حیثیت معاشرے میں قابلِ قبول ہے، تاہم علمی مقام میں ان کا رویّہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی نزاع یا کشمکش سے پاک ہو اور اخلاق و حکمت سے آراستہ ہو۔
امام رضاؑ کو ان کے علم و مناظرات کی وجہ سے "عالم آل محمدؑ” کہا جاتا ہے۔ جب آپ اہلِ ادیان و مذاہب کے دانشوروں سے مناظرات کرتے تو نہایت احترام سے ان کے سوالات، شبہات اور مسائل کا جواب دیتے۔ نہ صرف علمی برتری ثابت کرتے بلکہ بحث کے دوران اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بھی پیش کرتے۔
ذیل میں ہم امام رضاؑ کی چند علمی و اخلاقی رویّوں کا ذکر کرتے ہیں:
مخالف رائے کا خیر مقدم
جب یورپ قرون وسطیٰ میں علمی انحطاط کا شکار تھا اور کلیسائی فلسفہ دیگر نظریات کو دبائے ہوئے تھا، تو امام رضاؑ کی سرپرستی میں اسلامی فکر نہ صرف مخالف نظریات کا خیرمقدم کرتی تھی بلکہ کھلے دل اور علمی انداز میں ہر اعتراض کا جواب دیتی۔ اس اسلامی طرز عمل کے چند اہم نتائج درج ذیل ہیں:
افکار کے تبادلے اور آزادی فکر و بیان کی ترویج،
مخالف مکاتبِ فکر کے ساتھ منطقی و عقلی تقابل اور اسلام کی حقانیت کا اثبات،
دیگر ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ تعامل کا مثالی رویّہ۔
گفتگو کے آداب
امام رضاؑ کا طرزِ کلام اور مناظرات کا انداز اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ نہ تو خودپسندی کا مظاہرہ کرتے تھے، نہ ہی مخالف کی توہین کرتے یا اس کے منطق کو حقیر جانتے۔ بلکہ آپ صبر و بردباری سے بات کرتے اور مخاطب کو اپنی بات قبول کرنے یا نہ کرنے کی آزادی دیتے۔
آپ کے اس اخلاقی رویّے کی ایک جھلک اس شعر میں دیکھی جا سکتی ہے جو امام رضاؑ سے منسوب ہے اور مأمون کے اصرار پر آپ نے ارشاد فرمایا:
اذَا کَانَ دُونِی مَنْ بُلِیتُ بِجَهْلِهِ
أَبَیْتُ لِنَفْسِی أَنْ تُقَابِلَ بِالْجَهْلِ
وَ إِنْ کَانَ مِثْلِی فِی مَحَلِّی مِنَ النُّهَى
أَخَذْتُ بِحِلْمِی کَیْ أَجِلَّ عَنِ الْمِثْلِ
وَ إِنْ کُنْتُ أَدْنَى مِنْهُ فِی الْفَضْلِ وَ الْحِجَى
عَرَفْتُ لَهُ حَقَّ التَّقَدُّمِ وَ الْفَضْلِ
(صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، پیشین، ج 2، ص 174)
"اگر میں کسی جاہل سے دوچار ہوں جو مجھ سے کمتر ہے
تو اپنی نفس کو روکتا ہوں کہ اس کی جہالت کا جواب جہالت سے نہ دوں۔
اور اگر وہ علم و حکمت میں میرے برابر ہو
تو حلم و بردباری اختیار کرتا ہوں تاکہ برتری پا سکوں۔
اور اگر وہ علم و فضل میں مجھ سے برتر ہو
تو اس کی برتری کو تسلیم کر کے اس کا حق ادا کرتا ہوں۔”
مخالف کے ساتھ منطقی مناظرہ
علمی مباحثے کا بہترین طریقہ وہی ہے جس میں فریقِ مخالف کی قابلِ قبول باتوں سے استدلال کیا جائے۔ اسی لیے امام رضاؑ نے جب غیر مسلموں اور دیگر ادیان کے پیروکاروں سے گفتگو فرمائی، تو چونکہ قرآن کو وہ لوگ حجت نہیں مانتے تھے، آپؑ ان کے ساتھ ان کی اپنی کتابوں سے استدلال کرتے تھے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ ان کے لیے قرآن کی حجیت اور حقانیت ابھی ثابت نہیں ہوئی تھی۔ جیسا کہ ایک عیسائی عالم "جاثلیق” کے کلام سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے، جس نے مامون کی دعوتِ مناظرہ پر کہا:
کَیْفَ أُحَاجُّ رَجُلًا یَحْتَجُّ عَلَیَّ بِکِتَابٍ أَنَا مُنْکِرُهُ
"میں اُس شخص کے ساتھ کیسے مناظرہ کروں جو اُس کتاب سے استدلال کرتا ہے جسے میں مانتا ہی نہیں”
امام رضاؑ نے جواب دیا: یَا نَصْرَانِیُ فَإِنِ احْتَجَجْتُ عَلَیْکَ بِإِنْجِیلِکَ أَتُقِرُّ بِهِ؟
(صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم: جامعه مدرسین، ۱۳۹۸ق، باب ذکر مجلس الرضا مع اہل الادیان، ص ۴۲۰)
"اے نصرانی! اگر میں تمہارے ساتھ تمہارے انجیل سے استدلال کروں تو کیا تم اسے تسلیم کرو گے؟”۔
یہ امامؑ کی طرف سے عیسائی عالم کو اُس کی اپنی اعتقادی بنیاد پر مناظرہ کی پیشکش اور آمادگی تھی، جو امامؑ کے علمی غلبے اور دیگر مذاہب و ادیان کے اعتقادی اصولوں پر آپؑ کی گہری دسترس کا مظہر ہے۔ یہ ایک خاص اسلوبِ مکالمہ ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے علما سے گفتگو کرتے وقت ان کے عقائد، مقدسات اور آسمانی کتابوں کا احترام کیا جائے اور ان کے اپنے ہی منطق، زبان اور مکتبِ فکر سے ان کو قانع کیا جائے۔
اسی لیے امامؑ نے فرمایا:
"كنت أُكلِّم الناس في التوراةِ بكتابِهم، وفي الإنجيلِ بكتابِهم، وفي الزَّبورِ بكتابِهم، وأُكلِّم الفُرسَ بالفارسيةِ، والرومَ بالروميةِ، وأُكلِّم كلَّ قومٍ بلغتهم، فكنتُ أُلزِمُ كلَّ قومٍ الحُجَّةَ في كتابِهم”۔
(صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا،ج ۲، ص ۱۷۴)
"میں اہلِ تورات سے ان کی تورات کے مطابق، اہلِ انجیل سے ان کی انجیل کے مطابق، پارسیوں سے ان کی فارسی روایت کے مطابق، رومیوں سے ان کے طریقے سے اور علمی بحث کرنے والوں سے ان کی اپنی زبان میں استدلال کرتا ہوں، اور سب کو اپنی بات کی تصدیق پر مجبور کرتا ہوں۔”
مخاطب شناسی
مخاطب شناسی، یعنی سامع یا مخاطب کو پہچاننا، ارتباطی سلوک کا ایک اہم اصول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں سے گفتگو کرتے وقت ان کی عقلی سطح کو مد نظر رکھے اور ان کے فہم، استعداد اور وجودی صلاحیت کے مطابق بات کرے۔ چنانچہ بعض افراد سے علمی اور دقیق استدلال کیا جا سکتا ہے، لیکن ایسے افراد سے جو علم و فہم میں کمزور ہیں، ان سے سادہ زبان میں بات کی جائے اور پیچیدہ علمی موضوعات میں الجھنے سے پرہیز کیا جائے۔
اسی اصول کو امام رضاؑ کے طرزِ استدلال میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ثنویہ (دو خداؤں کو ماننے والے) شخص نے خدا کی وحدانیت پر دلیل مانگی۔ امامؑ نے اس کی فہم و ادراک کی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے فقط اتنا فرمایا:
"إذا قلتم إنَّ اللّٰه اثنان، فأنتم بهذه المقالة قد أقررتم بأنَّ الواحد أولًا، لأنَّه لا يمكن القول بوجود الثاني حتى يُثبَت الأول. فالأولُ مفروضٌ من الجميع، والثاني موضعُ الاختلاف”۔
(عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، ج 2، ص 192)
"جب تم کہتے ہو کہ خدا دو ہیں، تو خود یہ بات بھی تو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک خدا کو پہلے ماننا پڑتا ہے، کیونکہ دوسرے کو اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک پہلے کا وجود ثابت نہ ہو۔ پس پہلا سب کا مسلم ہے اور دوسرا اختلافی ہے۔”
یہ استدلال، قائل کرنے کی حد تک تھا، اور امامؑ نے صرف وحدانیتِ خداوندی کو ثابت کیا، دوسرے خدائے موہوم کو زیرِ سوال نہیں لایا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امامؑ نے مخاطب کے فکری ظرف اور ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائی۔
منابع:
1۔قرآن مجید
2۔مجلسی،علامہ محمد باقر، بحارالانوار
3۔ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا
4۔شیخ مفید،الارشاد
5۔ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا
6۔ صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم: جامعه مدرسین، ۱۳۹۸ق
7۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران: دار الکتب الاسلامیہ