سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

نہج البلاغہ اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (حصہ دوئم)

ہجرت سے وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک
جنگ وجہاد میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک
جنگی میدانوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں آپ کی عظیم فداکاریاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ 27 غزوں میں سے 26 میں علی نے شرکت کی فقط غزوہ تبوک میں کچھ خاص شرائط کی بنا پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے مدینہ میں رہے۔
اس مختصر مقالہ میں تمام غزوات میں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علی کے کارناموں کو تفصیل سے بیان کرنے کی گنجائش نہیں فقط حضرت علی کے نہج البلاغہ میں موجود فرامین کی روشنی میں ان کارناموں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔
نہج البلاغہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں جنگ و جہاد کے سخت لمحات کو حضرت نے ان الفاظ میں بیان کیا:
و لقد کنا مع رسول اللّہ ، نقتل آبائنا و ابنائنا و اخواننا
”ہم رسول اللہ کے ساتھ اپنے خاندان کے بزرگوں ،بچوں،بھا ئیوں اور چچاؤں کو قتل کردیا کرتے تھے اور اس سے ہمارے ایمان اور جذبہ تسلیم واطاعت میں اضافہ ہوتا تھا ۔اور ہم برابر سیدھے راستے پر بڑھتے ہی جارہے تھےالخ ،یہاں تک کہ فرمایا: مجھے میری جان کی قسم ! اگر ہمارا کردار بھی تمہارے جیسا ہوتا تو نہ دین کا کوئی ستون قائم ہوتا اور نہ ایمان کی کوئی شاخ ہری ہوتی۔
نہج البلاغہ خطبہ٥٦،ص١٠٦
جنگ بدر جو کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا ، جس میں مسلمانوں کی تعداد تین سوتیرہ جبکہ مشرکین نو سو پچاس سے لیکر ایک ہزار کی تعداد میں تھے فقط اس جنگ میں علی کی تلوار سے مشرکین کے آدھے سے زیادہ افراد واصل جہنم ہوئے ۔شیخ مفید نے ٣٦ افراد کے نام ذکر کئے ہیں جو امیر المومنین کی تلوار سے قتل ہوئے ۔شیخ مفید کہتے ہیں شیعہ اور سنی محدثین کا اتفاق ہے کہ ان افراد کوبہ نفس نفیس حضرت علی علیہ السلام نے قتل کیا ۔
ارشاد ،شیخ مفید ٣٩
نہج البلاغہ میں ایک خط میں جو آپ نے معاویہ کولکھا تھا ، اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
و عندی سیف الذی اعضضتہ بجدک و خالک واخیک فی مقام واحد
اور میرے پاس وہ تلوار ہے جس سے تمہارے نانا ،ماموں ،اوربھائی کو ایک ٹھکانے تک پہنچا چکاہوں ۔
اسی جنگ بدر کے بارے میں ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:
فانا ابو حسن قاتل جدک و خالک و اخیک
میں وہی ابو الحسن ہوں جس نے روز بدر تمہارے نانا (عتبہ بن ربیعہ)ماموں(ولیدبن عتبہ)اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کا سرتوڑ کر خاتمہ کردیا ۔
نہج البلاغہ مکتوب نامہ ١٠،ص٢٩٢
آپ نے جنگ احد میں بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ایمان کے جذبہ سے سرشار مشرکین کی سپاہ کے نو پرچم داروں کو اپنی تلوار سے واصل جہنم کیا اور خود اسی موضوع کی طرف چھ نفری شوری میں اپنے حق کے لئے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا :میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تمہارے درمیان میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے (جنگ احد میں) بنی عبدار کے نو پرچم داروں کو واصل جہنم کیا ہو؟
الخصال ، ص٥٦٠
اور اس جنگ میں ابو دجانہ اور سہل بن حنیف جیسے اصحاب بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا چھوڑ کر میدان جنگ سے فرار ہو گئے لیکن علی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ فرشتوں نے علی کی اس فدا کاری پر تعجب کیا اور لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی صدا بلند ہوئی اور جب صدا بلند کرنے والانظر نہ آیا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ یہ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا یہ جبرائیل امین ہے۔
شرح ابن ابی الحدید ج١٤ ص٢٥٣
اسی بارے میں نہج البلاغہ میں فرمایا:
ولقد واسیتہ بنفسی فی المواطن التی
میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جان ان مقامات پر قربان کی جہاں بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور ان کے قدم پیچھے ہٹ جاتے تھے یہ صرف اس بہادری کی بنا پر تھا جس سے پروردگار نے مجھے سرفراز فرمایا تھا۔
نہج البلاغہ ترجمہ جوادی ،خطبہ ١٩٧ ص٤١١
شارح نہج الصباغہ فرماتے ہیں مواطن سے مراد فقط احد ،حنین،اور خیبر نہیں بلکہ سب غزوات مراد ہیں جن میں علی کی بدولت فتح نصیب ہوئی۔
نہج الصباغہ ،ج٤ ص٨١
اور جنگ خندق میں آپ کے مخلصانہ جھاد کی ایک ضربت ، جن و انس کی عبادت سے افضل قرار پائی ۔
آپ خود اپنی شجاعت کے بارے میں نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
انا وضعت فی الصغر بکلاکل العرب و کسرت نواجم قرون ربیعة و مضر
مجھے پہچانو میں نے کمسنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ اور مضر کے سینگوں کو توڑ دیا تھا” ۔
نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ص٣٩٦
آپ نے ایک جگہ پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور اطاعت اور اپنے جہادکی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں فرمایا:
وذلک السیف معی ، بذلک القلب القی عدوی مااستبدلت دینا ولا استحدثت نبیّا
اور ابھی وہ تلوار میرے پاس ہے اور اسی ہمت قلب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کروں گا ،میں نے نہ دین تبدیل کیا ہے اور نہ نیا نبی اختیار کیا ہے ۔میں اس راستے پر چل رہا ہوں جسے تم نے اختیاری حدود تک چھوڑ رکھا تھا پھر مجبوراً داخل ہوگئے تھے ۔
نہج البلاغہ مکتوب ١٠ ص٤٩٤
وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ضربت تک
زہد و ورع میں اطاعت
نہج البلاغہ میں امام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی پیروی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا :
ولقد کان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یاکل علی الارض، و یجلس جلسة العبی
پیغمبر اسلام فرش زمین پر بیٹھ کر غذا نوش فرماتے ، غلاموں کے انداز میں بیٹھتے تھے ، اپنی جوتیوں کو اپنے ہاتھوں سے سیتے اور لباس میں اپنے دست مبارک سے پیوند لگاتے۔
پھر آپ نے تفصیل کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زہد اور دنیا سے ان کی بے نیازی پر روشنی ڈالتے ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت وپیروی پر فخر ومباہات کرتے ہوئے اپنے زہد وتقوی کو یوں بیان کیا:
واللہ لقد رقعت مدرعتی ھذہ حتی
خدا کی قسم یہ کپڑا جو میں پہنے ہوئے ہوں اس میں ، میں نے اس قدر پیوند لگائے ہیں کہ اب پیوند لگاتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے ، ایک شخص نے مجھ سے کہاکہ آپ اس لباس کیوں نہیں اتار دیتے ، میں نے جواب دیا: میری نظروں سے دور ہوجاو کیونکہ صبح ہونے کے بعدقوم کو رات میں سفر کرنے کی قدر معلوم ہوتی ہے ۔
خطبہ نہج البلاغہ ،١٦٠،٣٠٢
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا:
قضم الدنیا قضمًا
انہوں نے دنیا سے صرف مختصر غذا حاصل کی اور اسے نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں ،ساری دنیا سے سب سے زیادہ خالی شکم زندگی گذارنے والے وہی تھے ۔ان کے سامنے دنیا پیش کی گئی تو اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔
نہج البلاغہ خطبہ ١٦٠ ص٣٠٠
آپ نے عثمان بن حنیف کو جو خط لکھا اس میں تحریر کیا کہ تمہارے امام نے اس دنیا میں سے صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر اکتفاء کیا ہے۔پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت کی اطاعت کے سلسلے میں اپنے بارے میں فرمایا:
ولو شئت لا ھتدیت الطریق، الی مصفّٰی ھذا العسل
میں اگر چاہتا تو اس خالص شہد ،بہترین صاف شدہ گندم اور ریشمی کپڑوں کے راستے بھی پیدا کرسکتا تھا ، لیکن خدا نہ کرے مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہوجائے۔
نہج البلاغہ ،مکتوب نامہ ٤٥ ص٥٥٦
اسی خط میں ایک اور جگہ پر فرمایا :گویا میں دیکھ رہا ہوں تم میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں جب ابو طالب کے فرزند کی غذا ایسی معمولی ہے تو انہیں ضعف نے دشمن سے جنگ کرنے اوربہادروں کے ساتھ میدان میں اترنے سے بٹھادیا ہوگا ، یاد رکھنا جنگل کے درختوں کی لکڑی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور تروتازہ درختوں کی چھال کمزور … میرا رشتہ رسول سے وہی ہے جو نور کا رشتہ نور سے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازئووں سے ہوتا ہے ۔
نہج البلاغہ ،مکتوب نامہ ٤٥ ص٥٥٦
یوں دو ٹوک الفاظ میں زہد وورع اور دنیا سے بے توجہی میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو بیان کیا۔
سیاسی کردار میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
قانون کی یکسانیت ،اصول اخلاق کی پاسداری اور حکومت اور طاقت کو خدمت کا ذریعہ سمجھنے میں آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا سراپا تھے ۔ حکومت کو حاصل کرنے کیلئے کسی کے ساتھ خیانت یا دھوکہ کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے جیسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں حکومت کے ذریعہ عدالت کو قائم کرنے کی حتی المکان سعی و کوشش کی آپ نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنّت کوزندہ کیا اس لئے نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
لو لا حضور الحاضر و قیام الحجة بوجود الناصر
اگر حاضرین کی موجودگی اور انصار کے وجود سے حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پرچین سے نہ بیٹھنا ، تو میں آج بھی اس ناقہ خلافت کی رسی کو اس کے کوہان پر ڈال کر اسے ہنکادیتا۔
نہج البلاغہ خطبہ ٣ ص٤٢
آپ نے حکومت حاصل کرنے کیلئے کبھی بھی ناجائز وسیلہ کا سہار ا نہ لیا۔ آپ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
واللّہ ما معاویہ بدھی منی و لکنہ یغدرو و یفجر
خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں لیکن کیا کروں وہ مکروفریب اور فسق و فجور بھی کرلیتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے ناپسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ کوئی ہوشیار نہ ہوتا
نہج البلاغہ خطبہ ٢٠٠ ص ٤٢٠
صبر و شکیبائی میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اس بارے میں آپ نے فرمایا : ”کہ یہ صبر اور سکون کے طلب گاروں کیلئے بہترین سامان صبر و سکون ہے” ۔
نہج البلاغہ خطبہ ١٦٠ ص ٣٠٠
لہذا اسی سنت کی اتباع کرتے ہوئے حتی اس وقت بھی جب آپ کی خلافت کو چھین لیا گیا ، آپ نے تو صبر کیا اور اس بارے میں فرمایا :
فسدلت دونھا ثوبا وطویت عنھا
میں نے (خلافت کے آگے) پردہ لٹکا دیا اور اس سے کنارہ کشی اختیار کی اور سوچا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس بھیانک اندھیرے میں صبر کرلوں، میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں خلش تھی۔
نہج البلاغہ خطبہ ٣ ص٣٨
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت جیسی عظیم مصیبت میں بھی آپ نے اتباع کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر کو غسل وکفن دیتے وقت ارشاد فرمایا :بابی انت وامی یا رسول اللہ……میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کے انتقال سے وہ الہی احکام ،آسمانی اخبار کا سلسلہ منقطع ہوگیا جو آپ کے علاوہ کسی کے مرنے سے منقطع نہیں ہوا تھا…یہاں تک کہ فرمایا :اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اورنالہ وفریاد سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوئوں کا ذخیرہ ختم کردیتے اور یہ درد بھی کسی درمان کو قبول نہ کرتا اور یہ رنج والم ہمیشہ ساتھ رہ جاتا۔
نہج البلاغہ خطبہ ٢٣٥ ص٤٧٠
ضربت کے وقت اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت تھی کہ باوجود اس کے کہ لوگوں نے آپ کو دکھ درد دئیے لیکن آپ نے ان کیلئے بددعا نہ کی، امیر المومنین نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسی سنت کی اطاعت کی۔ آپ نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرمایا:
ملکتن عینی و انا جالس، فسنح لی رسول اللّہ صلی الله علیہ و آلہ وسلم
میں بیٹھا ہوا تھا، اچانک آنکھ لگ گئی ایسا محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے تشریف فرما ہیں ، میں نے عرض کی میں نے آپ کی امت سے بے پناہ کج روی اور دشمنی کا مشاہدہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا: بددعا کرو ، میں نے یہ دعا کی :خدا مجھے ان سے بہتر قوم دے دے اور انہیں مجھ سے سخت تر رہنما دے دے ۔
نہج البلاغہ خطبہ ٧٠ ص١١٨
http://balaghah.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button