سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

اٹھائیس صفر،رحلت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

آپؐ کی زندگی کا مختصر جائزہ
میلاد نور
یوں تو انسانی تاریخ میں بہت سے اہم دن آئے اور گذر گئے ، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا دن وہ عظیم دن ہے جسے انسان چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلا سکتا۔ اس دن اللہ کے آخری نبی اس دنیا میں تشریف لائے ۔ اس دن اس دنیامیں اس عظیم انسان نے قدم رکھا جس کی زیارت کے تمام انبیاء مشتاق تھے۔ اس دن دنیا میں وہ تشر یف لائے جن کے بارے میں انبیاء ماسبق نے اپنے اوصیاء کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر وہ آپ کے سامنے آگئے تو انھیں ہمارا سلام کہنا۔ مسلمانوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر او ر کیا ہوسکتی ہے کہ انہیں وہ عظیم سعادت نصیب ہوئی جس کی تمنا لئے ہوئے بہت سے انبیاء اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ چونکہ اللہ نے ہمیں یہ عظیم سعادت عطا فرمائی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی امت کا جز بنے رہیں اور آپ کی تعلیمات کی قدر کرتے ہوئے ان پر عمل کریں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ولادت میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے ۔ شیعہ آپ کی ولادت ۱۷ ربیع الاول کو مانتے ہیں اور سنی آپ کی ولادت کے سلسلہ میں بارہ ربیع الاول کے قائل ہیں ۔ اسی طرح آپ کی ولادت کے دن میں بھی مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے روز ہوئی اور اہل سنت کہتے ہیں کہ جس دن آپ کی ولادت ہوئی وہ پیر کا دن تھا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین:
آپ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ ابن عبد المطلب ہیں۔ حضرت عبد اللہ وہ انسان ہیں جو خاندانی شرافت کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز ہیں ۔ حضرت عبد اللہ کے والد حضرت عبد المطلب ہیں ، جن کی عظمت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ جب ابرہہ خانہٴ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے مکہ آیا اور آپ اس کے پاس گئے تو وہ آپ کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوگیا۔
حضرت عبد اللہ اس خاندان سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانہ کے حسین و جمیل ،رشید، مودب اور عقلمند انسان تھے۔ یوں تو مکہ کی بہت سی خواتین آپ سے شادی کی متمنی تھیں مگر چونکہ نور نبوت کو ایک خاص آغوش کی ضرورت تھی اس لئے آپ نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے جناب آمنہ بنت وہب سے شادی کی۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ ابھی اس شادی کو چالیس دن بھی نہ ہوئے تھے کہ جناب عبد اللہ نے تجارت کی غرض سے شام کا سفر اختیارکیا، جب آپ اس سفر سے واپس لوٹ رہے تھے تو آپ اپنے ننھیا ل والوں سے ملاقات کے لئے مدنیہ گئے اور وہیں پر آپ کا انتقال ہوگیا یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ چونکہ جناب آمنہ جناب عبد اللہ کے ساتھ زیادہ دن نہ رہ سکیں تھیں اس لئے وہ آپ کی یادگار اور اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتی تھیں۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ سال کے ہوئے تو جناب آمنہ ، جناب عبد المطلب سے اجازت لے کر ام ایمن کے ساتھ ، اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے مدنیہ گئیں۔ اس سفر میں پیغمبر اسلام بھی آپ کے ہمراہ تھے اور یہ پیغمبر اسلام کا پہلا سفر تھا۔ جب یہ قافلہ مکہ کی طرف واپس پلٹ رہا تھا تو راستہ میں ابواء نامی جگہ پر جناب آمنہ بیمار ہوئیں اور آپ کا وہیں پر انتقال ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی والدہ کو وہیں دفن کیا اور ام ایمن کے ساتھ مکہ آگئے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والے آج بھی ابواء میں جناب آمنہ کی قبر پر زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حادثہ کے ۵۰سال بعد اس مقام سے گذرے تو اصحاب نے دیکھا کہ آپ سواری سے نیچے اتر کر ، کسی سے کچھ کہے بغیر ایک طرف آگے بڑھنے لگے ، کچھ اصحاب یہ جاننے کے لئے کہ آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں آپ کے پیچھے چلنے لگے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ پر جاکر رکے اور بیٹھ کر قرآن پڑھنے لگے ۔ آپ قرآن پڑھتے جاتے تھے اور اس جگہ کو غور سے دیکھتے جاتے تھے۔ کچھ دیر کے بعد آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اصحاب نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟
آپ نے ارشاد فرمایاکہ یہ میری ماں کی قبر ہے آج سے پچاس سال قبل میں نے انھیں یہاں پر دفن کیا تھا۔
ماں کا سایہ سر اٹھ جانے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری جناب عبد االمطلب نے سنبھالی۔ وہ آپ کو بہت پیار کرتے تھے اور اپنے بیٹوں سے کہتے تھے کہ یہ بچہ دوسرے بچوں سے مختلف ہے ابھی تم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہولیکن آنے والے وقت میں یہ بچہ اللہ کا نمائندہ بنے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب اس بچہ کے معصوم چہرے پر نور نبوت دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ جلد ہی اس کے پاس وحی کے ذریعہ اللہ کا وہ دین آنے والا ہے جو دنیا کے تمام ادیان پر چھا جائے گا۔ ہاں جناب عبد المطلب کی نگاہیں وہ سب کچھ دیکھ رہیں تھیں جسے دیکھنے سے باقی لوگ قاصر تھے۔ جب جناب عبد المطلب کا آخری وقت قریب آیا ، تو آپ کے بڑے بیٹے جناب ابوطالب نے آپ کے چہرے پر پریشانی کے کچھ آثار دیکھے، وہ آگے بڑھے اور اپنے والد سے اس پریشانی کا سبب جاننا چاہا تو جناب عبد المطلب نے فرمایا کہ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں ہے میں صرف اس بچہ کی طرف سے فکرمند ہوں کہ اسے کس کے سپرد کروں۔ کیا اس بچے کی سرپرستی کو تم قبول کرتے ہو؟ کیا تم یہ وعدہ کرتے ہو کہ میری طرف سے اس کی کفالت کرتے رہو گے؟ جناب ابوطالب نے جواب دیا کہ بابا مجھے منظور ہے۔ جناب ابوطالب نے اپنے بابا سے کئے ہوئے وعدہ کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا اور پوری زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد و حفاظت کرتے رہے ۔ جناب ابوطالب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتے تھے اور آپ کی زوجہ فاطمہ بنت اسد یعنی مادر حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماں کی طرح پیار کرتی تھیں۔
بعثت سے پہلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کردار
کسی بھی انسان کی سماجی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ موٴثر ہوتی ہے وہ اس کے ماضی کا کردار ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ دنیا کے کسی بھی مدرسہ میں پڑھنے نہیں گئے ۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کرنا اس بات کا سبب بنا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے قرآنی آیتوں کی تلاوت کی تو وہ تعجب میں پڑگئے اور آپ کے گرویدہ ہو گئے ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی دنیاوی مدرسہ میں پڑھے ہوتے تو لوگ یہی سمجھتے کہ یہ آپ کی مدرسہ کی تعلیم کا کمال ہے ۔
آپ کی دوسری صفت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس ماحول میں جس میں کچھ لوگوں کو چھوڑ کر سبھی بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے کبھی کسی بت کے سامنے سر نہیں جھکایا ۔لھذا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بتوں اور بت پرستوں کی مخالفت کی تو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ نہ کہہ سکا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں کیوں منع کر رہے ہیں ؟ آپ بھی تو کل تک ان کے سامنے سر جھکاتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاصیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ جیسے شہر میں جوانی کی پاک و پاکیزہ زندگی بسر کی اور کسی برائی میں ملوث نہیں ہوئے جب کہ ان دنوں مکہ شہر برائیوں کا مرکز تھا ۔
بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں صادق ، امین اور عاقل مانے جاتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کے درمیان محمد امین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور تھے ۔ صداقت و امانت میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہت زیادہ اعتمادکرتے تھے اور بہت سے کاموں میں فقط آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی عقل پر اعتماد کیا جاتا تھا ۔ عقل ، امانت و صداقت آپ کے ایسے صفات تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالم میں ممتاذ بنا دیا تھا ۔ یہاں تک کہ جب لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اذیتیں دینے لگے اور آپ کی باتوں کا انکار کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ : کیا تم نے مجھے کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے ؟ سب نے یک زبان کہا نہیں ، ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سچا اور امانت دار مانتے ہیں ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شادی
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب پچیس سال کے ہوئے تو انہوں نے جناب خدیجہ کی پیشکش پر ان سے شادی کی ۔ جناب خدیجہ ایک ثروت مند خاتون تھیں اور آپ کی ذات میں ظاہری و باطنی تمام کمالات پائے جاتے تھے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ نے اپنی پوری دولت اسلام کی ترویج میں قربان کردی۔ انہوں نے پوری زندگی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ دیا وہ اولین مسلمانوں میں تھیں وہ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتی تھی جب امام و ماموم کی تعداد کل تین افراد پر مشتمل تھی یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا۔
اس شادی کے نتیجہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیھا اس دنیا میں تشریف لائیں جو آگے چل کر حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات اور گیارہ معصوم اماموں کی ماں قرار پائیں ۔ہمارا درود و سلام ہو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی آل پاک پر ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت
28 صفر سنہ 11 ھ ق کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت ہوئی ۔رحلت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر 63 سال تھی ۔ صداقت اور امانت داری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن میں ہی مشہور ہوگئے تھے ۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔ چالیس سال کی عمر میں خدا کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور لوگوں کو خدائے واحد و یکتا کی پرستش ، عدل و انصاف اور مساوات کی دعوت دی ۔ نسلی اور قومی امتیاز ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوت فکر ، اعلیٰ افکار اور حسین و لطیف احساسات و جذبات کے لحاظ سے دنیا کے لئے خدا کی رحمت تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر ایک سے نہایت ہی شیریں لہجے اور محبت آمیز انداز میں گفتگو کرتے تھے ۔ جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گرویدہ ہوجاتا تھا ۔ جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اس نے کہاکہ : نہ تاریخ میں ایسی ہستی اس سے پہلے گزری ہے اور نہ آئندہ پیدا ہوگی ۔
http://www.alawy.net/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button