خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:148)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 06 مئی 2022ء بمطابق 04 شوال المکرم1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اسلام کے عطا کردہ تحائف میں سے ایک تحفہ اسلامی معاشرہ کی روح و جان ہے اور وہ ہے ہر مسلمان کا ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت سلام کہنا ۔ زمانہ جاہلیت میں حضور اکرمﷺ کی بعثت سے قبل خود عربوں میں بھی اس طرح کے کلمات جیسے حیاک اللہ وغیرہ کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے سلام علیکم وعلیکم السلام کا طریقہ رائج کیا حقیقت یہ ہے کہ سلام کے آداب واحکام کی رعایت کرتے ہو ئے اسے عام کیا جائے تویہ خیر،رحمت،برکت اور آپسی محبت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہونے کے ساتھ اسبابِ مغفرت میں سے بھی ہے ،کاش! ہم اس پاکیزہ تحفہ یعنی سلام کو عام لوگوں کی طرح رسمی طور پر ادا نہ کریں، بلکہ حقیقت کے ساتھ سنت اور خلوصِ نیت سے ادا کریں تو یہی سلام جہاں اتحادِ ملت کے لیے مددگار ہوسکتا ہے وہیں مغفرت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
علامہ حسین بخش جاڑا ؒ لکھتے ہیں کہ “ ہر مذہب وملت اور ہر قوم وفرقہ نے باہمی ملاقات کے جملہ آداب میں سے سلام ومصافحہ کو اولی حیثیت دی ہے چنانچہ انگریزی ،عربی ، فارسی ، اور ہندی وغیرہ میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے الگ الگ الفاظ اور جداجدا طریقے معرض وجود میں آئے ہیں او ر قوموں نے وہ بدل وجان اپنا لئے ہیں جو ان کا شعار ملّی اور تہذیب قومی شمار کیا جاتا ہے اسلام نے ابتدا کرنے والے کے لئے سلام علیکم اور جواب دینے والے کے لئے علیکم السلام کی لفظیں پیش کیں جن میں صلح وآتشی و سکون وسلامتی کی نوید مسرت پائی جاتی ہے ” (معیار شرافت ص143)
قرآن و حدیث میں سلام بہت اہمیت کا حامل ہے لہذا اس کے مقام و مرتبہ کو انہی دو مصادر سے ملاحظہ کرتے ہیں
آیات وروایات میں سلام کی اہمیت
إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها (النساء-86)
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے بہتر سلام کرو یا انہی الفاظ سے جواب دو، اللہ یقینا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ محسن نجفی صاحب لکھتے ہیں :
تحیت و سلام کی رسم تو ہر قوم و ملت میں موجود ہے مگر ان میں تحیت و سلام کامطلب یہ ہے کہ ادنیٰ انسان کسی بڑے کے سامنے اس کی بڑائی کا اظہار کرے۔ اسلام نے تحیت و سلام کے آداب میں اس قسم کی تفریق مٹا کر اسے امن و سلامتی، صلح و آشتی، مساوات و مؤاسات کا شعار قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ رسالت مآبؐ پر سلام کرنے میں کوئی سبقت نہیں لے سکتا تھا۔ اسلام میں سلام کے آداب کچھ اس طرح ہیں کہ چھوٹے بڑوں کو، راہ گیر بیٹھے ہوئے لوگوں کو، سوار پیادوں کو، تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں (تفسیر الکوثر ج 2ص 371)
اسی آیت کے متعلق ایک واقعہ
صاحب تفسیر فیضان الرحمان اس آیت میں تحیۃ سے ایک معنی تحفہ مراد لیتے ہوئے اس پر استدلال کرتے ہیں اور ساتھ ایک واقعہ بھی درج کرتے ہیں
ایک بار امام حسن علیہ السلام کی ایک کنیز نے ایک پھول امام علیہ السلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا تو امام علیہ السلام نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا جب اسکی وجہ پوچھی گئی تو امام علیہ السلام نے فرمایا :
إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها (النساء-86)
جب تم میں سے کوئی کسی کو تحفہ پیش کرے تو تم اس سے بہتر تحفہ اس کو پیش کرو
اس کے بعد لکھا کہ : چنانچہ اس کنیز کا آزاد کرنا اس کے تحیۃ سے بہتر تھا سچ ہے ھل جزاء الاحسان الا الاحسان   کی بنا برایں اگر کوئی شخص مہرومحبت اور تکریم و تعظیم کے صلح جذبہ کے تحت کوئی تحفہ یا یدیہ پیش کرے تو جذبات محبت کو تازہ رکھنے بلکہ انہیں مزید بڑھانے کے لئے اس سے زیادہ بیش قیمت یا کم از کم اس کا ہم قیمت تحفہ و ہدیہ ضرور پیش کرنا چاہئے (تفسیر فیضان الرحمان شیخ محمد حسین نجفی ج2ص307)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓي اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۰ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۡفَعِنْدَ اللہِ مَغَانِمُ كَثِيْرَۃٌ۰ۭ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللہُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْ اِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرً (سورۃ النساء ۹۴)
اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو توتحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میں مبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
اسی آیت کے ذیل میں علامہ شیخ محسن علی نجفی صاحب لکھتے ہیں :
“السلام علیکم کہنا شروع میں مسلمانوں کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بعض جنگوں میں جب کوئی مسلمان لپیٹ میں آ جاتا تو وہ یہ بتانے کے لیے کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں سلام کرتا اور کلمہ پڑھ دیتا، مگر مسلمان اسے قتل کر دیتے اس گمان سے کہ اس نے صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا ہے۔اس آیت سے صریحاً ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ گو اور اہلِ قبلہ تو بجائے خود، اسلامی آداب و شعائر کا اظہار کرنے والے پر بھی اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں اور اس کا جان و مال محفوظ ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: لانکفراھل القبلۃ بذنب ۔ صاحب تفسیرالمنار نیم خواندہ، تنگ نظر لوگوں کے بارے میں درست لکھتے ہیں: کہاں یہ بات اور کہاں ان لوگوں کا کردار جو نہ اپنے اسلام میں نہ اپنے اعمال میں کتاب اللہ سے ہدایت حاصل کرتے ہیں اور اپنی خواہشات سے ذرا اختلاف رکھنے والے اہلِ قبلہ کو کافر قرار دینے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں” (تفسیر الکوثرج2ص381)
اس آیت کی تفسیر میں صاحب فیضان الرحمان لکھتے ہیں :
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان بتاتا ہو خواہ کلمہ پڑھ کر یا کسی اور اسلامی شعار کا اظہار کرئے مثلا اذان ونماز میں شرکت تو مسلمان پر لازم ہے کہ اسے مسلمان سمجھیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کریں ۔(فیضان الرحمان ج2ص318)
اس موضوع پر کثیر تعداد میں احادیث موجود ہیں چند احادیث سلام کے متعلق پیش خدمت ہیں
قال رسول اللہ: إِنَّ أَبْخَلَ النَّاسِ مَنْ‏ بَخِلَ‏ بِالسَّلَام‏
بخیل ترین انسان وہ ہے جو سلام کے میں بخل سے کام لے (امالی الطوسی مجلس 89ص136)
وعنہ: السَّلَامُ تَحِيَّةٌ لِمِلَّتِنَا وَ أَمَانٌ لِذِمَّتِنَا.
سلام ہماری ملت اسلامی کے لئے تحفہ اور اہل ذمہ کے لئے امان ہے (کنزل العمال حدیث 25246)
أَفْشِ‏ السَّلَامَ‏ يَكْثُرْ خَيْرُ بَيْتِك
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : آواز میں سلام کرو اس سے تمہارے گھرمیں برکت زیادہ ہوگی ۔(الخصال ، (منتخب میزان الحکمۃ ج1ص627)
نیز امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے : رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : جو سلام سے پہلے باتوں میں لگ جائے اس کا جواب نہ دو نیز فرمایا: کسی کو کھانے کے لئے اس وقت تک نہ بلاؤ جب تک وہ سلام نہ کرے (منتخب میزان الحکمۃ ج1ص627)
َقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ أَوْلَى النَّاسِ بِاللَّهِ وَ بِرَسُولِهِ مَنْ بَدَأَ بِالسَّلَامِ.
رسول کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کی ابتدا کرتا ہے:
(منتخب میزان الحکمۃ ج1ص628, الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اسے سلام کرنا چاہئے کیونکہ اس سے برکت نازل ہوتی ہے اور فرشتے مانوس ہوتے ہیں (منتخب میزان الحکمۃ ج1ص627)
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ السَّلَامُ تَطَوُّعٌ وَ الرَّدُّ فَرِيضَةٌ.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سلام کرنا (رضاکارانہ )مستحب ہے اور جواب دینا فرض ہے۔
(الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِسَلَامِهِ لَا يَقُولُ سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَيَّ وَ لَعَلَّهُ يَكُونُ قَدْ سَلَّمَ وَ لَمْ يُسْمِعْهُمْ فَإِذَا رَدَّ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْهَرْ بِرَدِّهِ وَ لَا يَقُولُ الْمُسَلِّمُ سَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدُّوا عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ كَانَ عَلِيٌّ ع يَقُولُ لَا تَغْضَبُوا وَ لَا تُغْضِبُوا أَفْشُوا السَّلَامَ وَ أَطِيبُوا الْكَلَامَ۔۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی سلام کرئے تو باآواز بلند کرو یہ نہ کہو میں نے سلام کیا تھا انہوں نے جواب نہیں دیا ممکن ہے اسے سلام کیا گیا ہو لیکن اسنے نہ سنا ہو اور جس پر سلام کیا جائے وہ بھی باآواز بلند جواب دے تاکہ سلام کرنے والا یہ نہ کہے کہ میں نے سلام کیا لیکن اس نے جواب نہ دیا
اور علی علیہ السلام کہا کرتے تھے :غصہ نہ کرو غصہ نہ کرو اور سلام کو پھیلاؤ اور لوگوں سے پاکیزہ گفتگو کیا کرو ۔۔۔۔۔
(الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مِنَ التَّوَاضُعِ أَنْ تُسَلِّمَ عَلَى مَنْ لَقِيتَ.
یہ بات بھی تواضع ہے کہ جب کسی سے ملو تو سلام کرو ۔ (الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّ مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ لِلْمُقِيمِ الْمُصَافَحَةَ وَ تَمَامِ التَّسْلِيمِ عَلَى الْمُسَافِرِ الْمُعَانَقَةَ.
مقیم کے لئے سب سے بہترین تحفہ مصافحہ ہے اور مسافر کے لئے معانقہ(گلے ملنا) ( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ وَ الْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ وَ الْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم جماعت(تعداد) والا زیادہ جماعت والے کو۔
( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 645)
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكَ الْيَهُودِيُّ وَ النَّصْرَانِيُّ وَ الْمُشْرِكُ فَقُلْ عَلَيْكَ.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب کوئی یہودی ،عیسائی اور مشرک سلام کرےتو جواب میں صرف علیک کہا کرو
الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 649
دور حاضر اور اس اسلامی شعار میں تحریف
اسلامی سلام کی اس قدر اہمیت کے باوجود بھی یہ زمانے کے دستبرد کا شکار ہوگیا اور آج ہمارے معاشرے میں عقیدت کے نام پر اس کو مختلف شکلیں دے دی گئی ہیں گویا کہ اب یہ سلام بعض عوامی حلقوں میں صورت بدل چکا بلکہ اصل ہیئت پر باقی نہیں رہا
ہر زمانہ کی طرح آج بھی پا ک وہند کے حضرات نے ایک سلام اختراع کر لیا کہ اب اکثر جگہوں اور مجالس میں سلام علیکم کہنا متروک ہو چکا ہے اور اب اس کی جگہ یا علی ع مدد اور جواب میں پیر مولا علی ع مدد یا پھر اللہ علی کی مدد وغیرہ جیسے جدید طریقوں نے لے لی ہے اور جب اس کا آغاز ہوا تو علماء نے بطور توسل سلام کے بعد تحفہ یا علی مدد کی اجازت دی مگر یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کو صرف راستہ چاہئے اور وہی ہوا کہ جواز ،استحباب اور اب استحباب ،(عرفی ) وجوب کی جگہ لے گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ شیعہ کا سلام ہی یا علی ع مدد ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا شریعت ہمیں اجازت دیتی ہے کہ ہم عقیدت کی بنیاد پر شرعی احکام میں تبدیلی کریں ؟
بطور توسل یا علی ع مدد کہنا جائز سہی مگرکیا یہ جواز تقاضا کرتا کہ ہم اس کی وجہ سے مسلمہ شرعی سلام کو متروک کر کے اس کی جگہ اختراعی سلام کو دیں ؟
یہ سلام کس نبی یا امام نے اپنے زمانے میں کیا یا اپنے اصحاب کو کرنے کی اجازت د ی ؟
یا تین سو سالہ دور امامت میں اس کا کوئی ایک نمونہ دکھا سکتے ہیں ؟
جب پوچھا جائے تو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ احادیث ہیں کہ تم ذکر علی ؑ چھیڑ کر مومن اور منافق نیز حلالی و حرامی کی پہچان کریں تو جواب یہ ہے کہ یہ مطالب اپنی جگہ برحق سہی لیکن ان کی وجہ سے شریعت کے احکام تو تبدیل نہ کریں سلام وہی رہنے دیں جو ہمیں انبیاء و مرسلین نیز ائمہ ع نے دیا ہے ۔اسلامی آداب کے مطابق سلام کریں اور اس کے بعد محفل کو ذکر علی ع سے منور کرتے چلے جائیں ۔
اور ہمیں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جہاں معصومین علیھم السلام نے شرعی سلام سے تجاوز کرنے والوں کو منع فرمایا ملاحظہ کیجئے
عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ع مَرَّ بِقَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ وَ مَغْفِرَتُهُ وَ رِضْوَانُهُ فَقَالَ لَهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع لَا تُجَاوِزُوا بِنَا مَا قَالَتِ الْأَنْبِيَاءُ لِأَبِينَا إِبْرَاهِيمَ ع- إِنَّمَا قَالُوا رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيد ۔۔ (بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏73، ص: 11 ، الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 646)
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے فرمایا :امام علی بن ابی طالب علیھما السلام ایک قوم ے پاس سے گزرے تو امام علیہ السلام نے ان پر سلام کیا تو انہوں نے کہا وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ وَ مَغْفِرَتُهُ وَ رِضْوَانُهُ اس پر امیر المومنین ع نے انہیں فرمایا جو سلام انبیاء علیھم السلام نے ہمارے جد ابراہیم علیہ السلام پر کیا اس سے تجاوز مت کرو وہ انبیاء فقط کہا کرتے تھے رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيد ۔۔۔۔
انہوں نے اپنی طرف سے شرعی سلام میں وَ مَغْفِرَتُهُ وَ رِضْوَانُهُ کا اضافہ کیا اس میں بظاہر دعا کے کلمات تھے مگر معصوم نے اس تجاوز کو پسند نہ کیا کیونہ اگر کھلی چھٹی مل جاتی تو لوگوں نے اس سے بڑھ جانا تھا رہی بات کہ انبیاء کا طریقہ سلام ،(رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَكاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيد) تو چونکہ روایت میں آ گیا ہے تو جس قدر اجازت ہے اسی قدر پر اکتفا کیا جائے اور اس اضافہ کا حصر اہل عظام کیساتھ ہے جنکی مقام ومنزلت اس کا تقاضا کرتی ہے ۔
اب خود اندازہ کریں جب معصوم اس بات پر راضی نہیں کہ شرعی سلام میں اضافہ کیا جائے تو کیا وہ اس کو متروک کر کے سرئے سے ایک خود ساختہ سلام ایجاد کرنے پر راضی ہوں گئے ؟ ہر گز نہیں ۔
اور یہ بھی سچ ہے ہے مؤمنین کو ہمیشہ عقیدت کے نام پر راہ حق سے منحرف کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں عقیدہ کی بجائے عقیدت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اب اگر کوئی شخص کہیں اصلاح کی کوشش کرئے تو بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے حق کس کے ساتھ ہے صرف اور صرف مصلح کے خلاف ہی اقدام کیا جائے گا کہ یہ تو ولایت کا منکر ہے ارے یہ تو یا علی ع مدد کا منکر ہے درحالانکہ مصلح بطور توسل یا علی ع مدد کا قائل ہے لیکن یہ اس بات پر راضی نہیں ہے کہ کسی عقیدت کا سہارہ لے کر شریعت کے احکام میں ردو بدل کی جائے اور یہی حق ہے کہ شریعت کو شریعت ہی رہنا چاہئے اس کو عقیدت کی بھینٹ چڑھا کر مسخ نہ کیا جائے ۔
تاریخی مناسبت: یوم انہدام جنت البقیع
بقیع کے لفظی معنی درختوں کا باغ ہے اور تقدس کی خاطر اس کو جنت البقیع کہا جاتا ہے یہ مدینہ میں ایک قبرستان ہے جس کی ابتدا ٣ شعبان ٣ھ کو عثمان بن مظعون کے دفن سے ہوئی، اس کے بعد یہاں آنحضرت کے فرزند حضرت ابراہیم کی تدفین ہوئی ۔ آنحضرتﷺ کے دوسرے رشتہ دار صفیہ ،عاتکہ اور فاطمہ بنت اسد ع والد ہ امیر المومنین بھی یہاں دفن ہیں۔ تیسرے خلیفہ عثمان جنت البقیع سے ملحق باہر دفن ہوئے تھے لیکن بعد میں اس کی توسیع میں ان کی قبر بھی بقیع کا حصہ بن گئی۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آنحضرت خصوصی دعا میں یاد کرتے تھے اس طرح بقیع کا قبرستان مسلمانوں کے لئے ایک تاریخی امتیاز و تقدس کا مقام بن گیا۔
ساتویں صدی ہجری میں عمر بن جبیر نے اپنے مدینہ کے سفر نامہ میں جنت البقیع میں مختلف قبور پر تعمیر شدہ قبوں اور گنبدوں کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم ع ( فرزند آنحضرتﷺ) عقیل ابن ابی طالب علیہ السلام،عبداﷲ بن جعفر طیار علیہ السلام ،امہات المومنین، عباس ابن عبدالمطلب علیہ السلام کی قبور شامل ہیں۔ قبرستان کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر اور عباس ابن عبدالمطلب کی قبر کے پیچھے ایک حجرہ ، موسوم بہ بیت الحزن ہے جہاں جناب سیدہ جاکر اپنے والد کو روتی تھیں۔ تقریباً ایک سو سال بعد ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامہ میں بقیع کا جو خاکہ بنایا ہے وہ اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ سلطنت عثمانی نے بھی مکہ اور مدینہ کی رونق میں اضافہ کیا اور مقامات مقدسہ کے فن تعمیر اور زیبائش میںاضافہ کیا اور ١٨٧٨ء کے دوران دو انگریزی سیاحوں نے بھیس بدل کر ان مقامات کا دورہ کیا اور مدینہ کو استنبول کے مشابہ ایک خوبصورت شہر قرار دیا۔ اس طرح گزشتہ ١٢ سو سال کے دوران جنت البقیع کا قبرستان ایک قابل احترام جگہ رہی جو وقتاً فوقتاً تعمیر اور مرمت کے مرحلوں سے گزرتی رہی۔(حوالہ شیعہ نیوز، ڈات کام)
جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام، اُمّہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبور ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کر دیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیا گيا۔ یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشوروں اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، حفاظت اورتعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون ہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جا سکے۔
8 شوال تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب 1344 ہجری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ‘یوم الہدم ‘کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خاک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔
مؤرخین کے مطابق بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم ﷺ کے بعد اُن کے بہترین صحابہ کرام دفن ہوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یہاں دس ہزار سے زیاد اصحاب رسول مدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اہل بیت، اُمّہات المومنین، فرزند ابراہیم، چچا عباس ، پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب، آنحضرت کے نواسے امام حسن علیہ السلام، اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمار شہر مدینہ کے اُن مزاروں میں ہونے لگا کہ جہاں حجاج بیت اللہ الحرام اور رسول اللہ ﷺ کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وہاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے وہاں کی زیارت کی اور وہاں مدفون افراد پر سلام کیا اور استغفار کی دعا کی۔ تین ناموں کی شہرت رکھنے والے اِس قبرستان ‘بقیع، بقیع الغرقد یا جنت البقیع’ کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع، ہجرت کے بعدشہر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ہونے کا واحد قبرستان تھا۔ شہر مدینہ کے لوگ وہاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں’بنی حرام’ اور ‘بنی سالم’ میں دفن کیا کرتے تھے۔
ہر سال 8شوال میں بنت رسول ﷺ زوجہ امیرالمومنین علیہ السلام والدہ گرامی حسنین شریفین علیہما السلام کی یاد گار بقیع کی ویرانی کی بھی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بقیع جسے جنت البقیع کہا جاتا ہے آغاز سے ہی ویران تھا یا کسی کے ظلم کا نتیجہ ہے؟۔ بقیع کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے؟
بقیع حرم نبوی ﷺ کے بعد مدینہ کا اہم ترین اور افضل ترین مقام ہے۔ بقیع کا قبرستان سب سے پہلا وہ قبرستان ہے جو رسول اسلام ﷺ کے حکم سے مسلمانوں کے ذریعے تاسیس کیا گیا۔ بقیع کی اہمیت اور فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا: ’’بقیع سے ستر ھزار لوگ محشور ہوں گے کہ جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہوں گے‘‘۔قبرستان بقیع، اسلام کے قدیمی ترین اور ابتدائی ترین آثار میں سے ہے۔ بقیع اولاد رسولﷺ کا مدفن ہے۔ بقیع بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مدفن ہے۔ بقیع چار آئمہ معصومین؛ امام حسن ؑ، امام سجادؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کا مدفن ہے۔ ان چار آئمہ معصومین ؑ کی شخصیات کو بیان کرنا ہمارے بس سے باہر ہے چونکہ ان کا مقام اتنا بلند اور بالا ہے کہ غیر معصوم ان کے مقام کا ادراک کرنےسے عاجز ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام ان چار آئمہ میں سے ایک ہیں جو بقیع میں مدفون ہیں۔ اہلسنت کے پہلے درجہ کے عالم دین ’’مسلم‘‘ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ۱۵ پر جابر بن یزید جعفی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جابر کہتے ہیں: عندي سبعون الف حديث عن ابي جعفر عن النبي كلها صحيح ۔
"میرے سینے میں امام محمد باقرؑ سے مروی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو ساری کی ساری صحیح ہیں” یہ نکتہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے آئمہ معصومینؑ خصوصا امام محمد باقرؑ تعلیمات نبوی ﷺ کی نشر و اشاعت میں کس مقام پر فائز ہیں!۔ ان مطالب کا بیان کرنا ممکن ہے آسان دکھائی دے لیکن یہ خارق العادہ کام ہے کہ ایک اکیلا شخص ستر ہزار روایتیں رسول اسلامﷺ سے نقل کرتا ہے۔اسی طرح بقیع میں مدفون آئمہ میں سے ایک، امام جعفر صادقؑ علیہ السلام ہیں۔ انسان ان عظیم کارناموں کو بیان کرنے سے قاصر ہے جو امام صادق علیہ السلام نے اس گھٹن کے ماحول میں انجام دئیے۔ یہاں پر صرف شیخ مفیدؒ کا ایک نکتہ نقل کیا جا رہا ہےجو انہوں نے اپنی کتاب ’’الارشاد‘‘ میں لکھا ہے۔ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے جن راویوں نے روایتیں نقل کی ہیں ان کی تعداد ۴۰۰۰ بیان کی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ۱۴۰۰ سال پہلے بنی امیہ اور بنی عباس کی پابندیوں کے باوجود امام صادق علیہ السلام نے ایک ایسا حوزہ علمیہ تاسیس کیا کہ جس میں ۴۰۰۰ شاگرد زیر تعلیم تھے۔ آج اتنی ترقی و پیشرفت اور ہر طرح کے وسائل فراہم ہونے کے باوجود ہمارے تمام حوزہ ہائےعلمیہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کے حوزہ علمیہ کے سامنے کم مایہ ہیں۔امام حسن مجتبیٰ اور امام سجاد علیہما السلام کی شخصیات بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک جانی پہچانی ہیں انہیں پہچنوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بقیع پیغمبراکرمﷺ جلیل القدر صحابہ کا مدفن ہے۔ بقیع حضرت ام البنین (س) کا مدفن ہے۔ بقیع رسول اسلامﷺ کی دایہ جناب حلیمہ(س) کا مدفن ہے۔ بقیع بہت ساری عظیم ہستیوں کا مدفن ہے کہ جن کے ناموں کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت بقیع میں تمام قبریں بغیر نام و نشان کے ہیں ۔ لیکن پرانی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بقیع میں ان قبور پر گنبد اور مقبرے بنے ہوئے تھے۔ٓآئمہ معصومینؑ اور بہت سارے صحابہ کی قبروں پر مقبرے بنے ہوئے تھے۔ بقیع میں مدفون آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر سب سے پہلے بنائے گئے روضے کی تاریخ دقیق معلوم نہیں ہے۔ لیکن مجموعی طور پر قرآئن بتاتے ہیں کہ پانچویں صدی ہجری کے بعد بقیع کی قبور پر روضہ بنا ہوا تھا۔ یعنی ’’مجد الملک‘‘ کے زمانے میں ،جو ۴۹۲ ہجری میں قتل کیے گئے اور ذہبی انہیں ایک عظیم انسان کے عنوان سے یاد کرتے ہیں ،یہ روضہ تعمیر تھا۔اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بقیع کا معمار، مجد الملک کے دور میں ہی قتل کر دیا گیا یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ بقیع میں آئمہ معصومینؑ کی قبروں پر روضہ پانچویں صدی ہجری میں تعمیر کیا گیا ہو گا۔
اس سلسلے میں بہت ساری اسناد موجود ہیں۔ مثال کے طور پراہلسنت کی تواریخ میں آیا ہے کہ سن ۵۱۹ ھ میں عباسی خلیفہ المسترشد باللہ نے آئمہ بقیع کی قبور پر روضہ اور گنبد کی تعمیر نو کروائی۔ یعنی پہلے سے ان قبروں پر ایک گنبد بنا ہوا تھا جس کی سن ۵۱۹ ھ میں دوبارہ تعمیر کروائی گئی۔ بنابرایں، کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اس دور کے اہلسنت نہ صرف آئمہ اطہارؑ کی قبروں پر روضے بنانے کے مخالف نہیں تھے بلکہ خود تعمیر کرتے تھے۔ اہلسنت کے بزرگ علماء کی کتابوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بارگاہ بقیع ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل ہے اور اس ہزار سال میں کسی بھی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ یہ شرک اور بدعت ہے اور اسے منہدم کر دینا چاہیے۔

تمت بالخیر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button