رسالاتسلائیڈرعقائدعقائد کا مطالعہ

عقیدہ شفاعت قرآن و حدیث کی روشنی میں

شفاعت ایک اہم دینی اور اعتقادی مسائل میں سے ہے قرآن اور احادیث معصومین علیہم السلام میں اس کا متعدد بار ذکر آیاہے اس کی وضاحت کے لئے کچھ چیزوں پر توجہ ضروری ہے ۔
1۔ شفاعت کے کیا معنی ہیں ؟
لسان العرب میں مادہ شفع کے یہ معنی ہیں:
الشَّافعُ الطالب لغیرہ یتشفع بہ الیٰ المطلوب
(شافع اسے کہتے ہیں جو دوسرے کے لئے کوئی چیز طلب کرے )
مفردات راغب میں لفظ شفع کے یہ معنی بیان کئے گئے ہیں:
الشفاعة الانضمام الیٰ آخر ناصراً لہ وسائلاً عنہ
شفاعت ایک دوسرے کا ضم ہو نا اس لحاظ سے کہ وہ اس کی مدد کرے او راس کی طرف سے اس کی ضروریا ت کا طلبگار ہو ۔
مولا ئے کائنات نے اس سلسلے میں فرمایا:
الشفیع جناح الطالب
شفاعت کرنے والا محتاج کے لئے اس کے پر کی مانند ہے جس کے مدد سے وہ مقصد تک پہنچے گا۔
نہج البلاغہ حکمت ٦٣
2۔ ہما ری بحث کا مقصد وہ شفاعت ہے جس کے ایک طرف خدا ہو یعنی شفاعت کرنے والا ،خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنے ،دو مخلوق کے درمیان شفاعت میرامقصد نہیں ہے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ قوی او رمضبوط شخص کاکمزور کے کنارے ہو نااور اس کی مدد کرنا تاکہ وہ کمال کی منزل تک پہنچ سکے اور اولیاء خداکا لوگو ں کے واسطے شفاعت کرنا، قانو ن کی بناء پر ہے نہ کہ تعلقات کی بناء پر اسی سے پتہ چلتا ہے کہ شفاعت اور پارٹی بازی میں فرق ہے ۔
اثبات شفاعت
3۔ شفاعت مذہب شیعہ کی ضروریات میں سے ہے اور اس پربہت سی آیات ور روایات دلا لت کرتی ہیں
وَلَا تَنفَعُ الشَّفٰاعَةُ عِندَہُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَہُ
اس کے یہاں کسی کی بھی سفارش کام آنے والی نہیں ہے مگر وہ جس کو خود اجازت دے دے۔
(سباء ٢٣)
یَومَئِذٍ لا تَنفَعُ الشَّفٰاعَةُ اِلَّا مَن أَذِنَ لَہُ الرَّحمَٰنُ وَ رَضِیَ لَہُ قَولا
اس دن کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی سوائے ا ن کے جنہیں خدا نے خوداجازت دی ہے ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہے۔
طہٰ ١٠٩
مَا مِن شَفِیعٍ اِلَّا مِن بَعدِ اِذنِہِ
کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والانہیں ہے۔
یونس ٣
مَنْ ذَا الّذِ یَشفعُ عِندُہ اِلَّا بِاِذنِہِ
کو ن ہے جواس کی بارگا ہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟
البقرہ ٢٥٥
وَلا یَشفَعُونَ أِلّا لِمَنِ ارتَضیٰ
اور فرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کر سکتے، مگر یہ کہ خدا اس کو پسند کرے۔
الانبیاء ٢٨
ان مذکورہ تمام آیتوں میں کہ جن میں شفاعت کے لئے خد ا کی رضایت اور اجازت شرط ہے یہ تمام کی تمام آیتیں شفاعت کو ثابت کر تی ہیں اور واضح ہے کہ پیغمبر اکرم اور دوسرے معصومین کا شفاعت کرنا خدا کی اجا زت سے ہے ۔
سوال :بعض قرآنی آیتوں میں شفاعت کا انکا ر کیوں کیا گیا ہے ؟
جیسے سورہ مدثر کی آیت ٤٨
فَمَا تَنفَعُھُم شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ
تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔
وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ
اور اس دن سے بچنے کی فکر کرو جس دن نہ کوئی کسی کا بدلہ بن سکے گا اور نہ کسی کی سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
بقرہ ٤٨
جواب : پہلی آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ جنہو ں نے نماز اور خدا کی راہ میں کھا نا کھلا نے کو چھوڑ دیا اور قیامت کو جھٹلا تے ہیں، آیت میں ارشاد ہے کہ ان لوگو ں کے لئے شفاعت کو ئی فائدہ نہیں پہنچائے گی اس میں بھی ضمنی طور پر شفاعت کاہو نا ثابت ہے یعنی پتہ چلتا ہے کہ قیامت میں شفاعت ہے ہر چند کہ بعض لوگوں کے لئے نہیں ہے ۔اور دوسری آیت کے سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم یہو د کے بارے میں ہے کہ انہوں نے کفر اور دشمنی کو حق کے مقابلے قرار دیاہے یہا ں تک کہ انبیاء الٰہی کو قتل کیا ،لہٰذا ان کے لئے کوئی شفاعت فائدہ نہ دے گی ۔ اوپر کی آیت کلی طور پر شفاعت کی نفی نہیں کر رہی ہے اس کے علا وہ اس کے پہلے کی آیتیں اور متواتر روایات اور اجما ع امت سے شفاعت کاپایاجانا ثابت ہوتا ہے ۔
سوال : بعض آیتوں میں شفاعت کو کیوں فقط خدا سے مخصوص کردیا ہے ؟
جیسے
ما لَکُم مِنْ دُونہٍ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیعٍ
اور تمہارے لئے اس کے علاوہ کوئی سرپرست یاسفارش کرنے والا نہیں ہے۔
السجدہ ٤
قُلْ لِلّہِ الشَّفاعَةُ جَمِیعاً
کہہ دیجئے کہ شفاعت کا تما م تر اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔
الزمر٤٤
جواب:واضح رہے کہ بالذات اور مستقل طور پر شفاعت فقط خدا سے مخصوص ہے او ردوسروں کا خدا کی اجازت سے شفاعت کرنا یہ منا فی نہیں ہے ان مذکورہ آیتوں کے مطابق کہ جن میں شفاعت کوخدا کی اجازت کے ساتھ جانا ہے اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض شرائط کے تحت دوسروں کے لئے بھی شفاعت ثابت ہے۔

فلسفۂ شفاعت:
شفاعت ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے جو مختلف جہتوں سے مثبت آثار کاحامل اور زندگی ساز ہے ۔
1۔ اولیاء خدا اور شفاعت کئے جانے والے لوگو ں کے درمیان معنوی رابطہ واضح سی بات ہے جو قیامت کے خو ف سے مضطرب او ر بے چین ہو ایسے کے لئے ائمہ اور پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت کی امید اس بات کا باعث بنے گی کہ وہ کسی طرح ان حضرات سے تعلقات بحال رکھے ۔اور جوان کی مرضی ہو اسے انجام دے اور جوان کی ناراضگی کا سبب ہو اس سے پرہیز کرے کیو نکہ شفاعت کے معنی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت پانے والے کے درمیان معنو ی رابطہ ہونا ضروری ہے ۔شرائط شفاعت کا حاصل کرنا وہ آیت اور احادیث جو پہلے ذکر کی گئیں ان میں شفاعت کے لئے بہت سی شرطیں قرار دی گئی ہیں یہ با ت مسلّم ہے کہ جو شفاعت کی امید میں اور اس کے انتظار میں ہے وہ کوشش کرے گا کہ یہ شرطیں اپنے اندر پیدا کرے سب سے اہم ان میں خدا کی مرضی حاصل کرناہے یعنی لازم ہے ایسا کام انجام دے جوخدا کو مطلوب ہو اور جو شفاعت سے محرومیت کا باعث بنے اسے چھوڑ دے ۔
شفاعت کے بعض شرائط
بنیا دی شرط ایمان ہے جولوگ باایمان نہیں ہیں یا صحیح عقیدہ نہیں رکھتے ہیں شفاعت ان کو شامل نہیں ہوگی ۔
نماز چھوڑ نے والا نہ ہو یہاں تک کہ امام صادق کی روایت کے مطابق نماز کو ہلکا بھی نہ سمجھتا ہو ۔
زکا ت نہ دینے والوں میں سے نہ ہو ۔
حج چھوڑنے والو ں میں سے نہ ہو ۔
ظالم نہ ہو
وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن حَمِیم وَلَا شَفِیع یُطَاع
کیوں کہ ظالموں کے لئے کوئی مہربان دوست یا کوئی شفاعت فائدہ نہیں دے گی۔
غافر18
سورہ مدثر میں ارشاد ہوا ہے کچھ چیزیں ایسی ہیں جوشفاعت سے انسان کو محروم کردیتی ہیں۔
١۔نماز کی طرف دھیان نہ دینا۔
٢۔ معاشرہ میں محروم لوگوں کی طرف توجہ نہ کرنا۔
٣ ۔باطل امور میں لگ جانا۔
٤ ۔قیامت سے انکا رکرنا۔
یہ تمام چیزیں سبب بنتی ہیں کہ وہ انسان جوشفاعت کا خواہاں ہے اپنے اعمال میں نظر ثانی کرے اپنے آئندہ کے اعمال میں سدھار لائے لہٰذا شفاعت زندگی ساز اور مثبت آثار کا حامل ہے اور ایک اہم تربیتی مسئلہ ہے۔
مزید مطالب کے لیے ان کتب : معاد آقای فلسفی ، معاد آقای مکارم ،معاد آقای قرائتی معاد آقای سلطانی ،تفسیر نمونہ ، پیام قرآن جلد 5 اور 6 کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
والحمدُ للّہِ ربِّ العالمینَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرورق

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button