امامتعقائد

قرآن اور امامت

عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید ،دوسری تمام چیزوں کے مانند امامت کے مسئلہ میں بھی ہمارے لئے بہترین راہنما ہے۔قرآن مجید نے مسئلہ امامت پر مختلف جہات سے بحث کی ہے۔
۱۔قرآن مجید”امامت“کو خدا کی جانب سے جانتا ہے:
جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں حضرت ابراھیم علیہ السلام بت شکن کی داستانوں میں پڑھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراھیمعلیہ السلام کو نبوت اور رسالت پر فائز ہو نے اور مختلف امتحانات میں کامیاب ہو نے کے بعد امامت کے عہدہ پر قرار دیا ہے۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴ میں ارشاد فر مایا ہے:
وإذابتلیٰ إبرا ھیم ربّہ بکلمٰتٍ فاٴتمّھنّ قال إنی جاعلک للنّاس إما ماً
”اور اس وقت کو یاد کروجب خدانے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام بنارہے ہیں۔“
قرآن مجیدکی مختلف آیات اور تاریخی قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام با بل کے بت پرستوں سے مبارزہ کر نے،شام کی طرف ہجرت کر نے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے بیٹے اسماعیلعلیہ السلام کو قربان گاہ میں لے جانے کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں۔
جب نبوت و رسالت کا عہدہ خدا کی طرف سے معیّن ہو ناضروری ہے تو مخلوق کی ہمہ جہت امامت و رہبری کا مرتبہ بطریق اولیٰ خدا کی طرف سے معیّن ہو نا ضروری ہے ،کیونکہ امامت کا مرتبہ رہبری کے تکامل کی معراج ہے ۔اس لئے یہ کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ہے جسے لوگ انتخاب کریں ۔
پھر قرآن مجید خود مذکورہ آیت میں فر ماتا ہے:
<إنی جاعلک للنّاس اماماً>
”میں تم کو امام و پیشوا قرار دینے والا ہوں۔“
اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی بعض با عظمت انبیاء جیسے: حضرت ابراھیمعلیہ السلام ،حضرت لوط علیہ السلام ،حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:
<وجعلنا ھم اٴئمة یھدون باٴمرنا>
”اورہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے
اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہیں ،جن سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ الہٰی منصب خداوند متعال کے توسط سے ہی معیّن ہو نا چاہئے ۔
اس کے علاوہ ہم حضرت ابراھیم علیہ السلام کی امامت سے متعلق مذکورہ آیت کے آخری حصہ میں پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرزندوں اور آنے والی نسل کے لئے اس منصب کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا :
<لا ینال عھدی الظالمین>
”میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا “
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوئی ،لیکن آپ کےفر زندوں میں سے جو ظلم کے مرتکب ہو نے والے ہیں وہ ہر گز اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو ں گے۔
قابل ذکر بات ہے کہ لغوی اور قرآن مجید کی منطق کے اعتبار سے ”ظالم“ کے وسیع معنیٰ ہیں اور اس میں تمام گناہ من جملہ ان کے آشکار و مخفی شرک اور اپنے اوپر اور دوسروں پر ہر قسم کا ظلم شامل ہے ۔چونکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے، کیونکہ صرف خدا ہی لوگوں کی نیتوں اور باطن سے آگاہ ہے ،اس لئے واضح ہو تا ہے کہ اس مرتبہ و منصب کا تعیّن صرف خدا وند متعال کے ہاتھ میں ہے ۔
۲۔آیہ تبلیغ
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں یوں ارشاد ہوا ہے:
(یٰاٴ یّھا الرّسول بلّغ ماانزل إلیک من ربّک وإن لم تفعل فما بلّغت رسا لتہ واللّٰہ یعصمک من الناس إن اللّٰہ لا یھدی القوم الکٰفرین)”اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکہے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ہے۔“
اس آیہ شریفہ کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر ایک سنگین ماٴ مو ریت ڈالی گئی ہے اور اس سلسلہ میں ہر طرف کچھ خاص قسم کی پریشانیاں پھیلی تھیں ،یہ ایسا پیغام تھا کہ ممکن تھا لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی،اس لئے آیہ شریفہ تاکید کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر عمل کر نے کا حکم دیتی ہے اور ممکنہ خطرات اور پر یشانیوں کے مقابلہ میں آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خاطر خواہ اطمینان دلاتی ہے۔
یقینا یہ اہم مسئلہ توحید، شرک یا یہودو منا فقین جیسے دشمنوں سے جہاد کر نے سے مربوط نہیں تھا،کیونکہ اس زمانہ(سورہ مائدہ نازل ہو نے )تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو چکا تھا۔
اسلام کے دوسرے احکام پہنچانے کے سلسلہ میں بھی اس قسم کی پریشانی اور اہمیت نہیں تھی ،کیو نکہ مذکورہ آیت کے مطابق بظاہر یہ حکم رسالت کے ہم وزن اور ہم پلہ تھا کہ اگر یہ حکم نہ پہنچا یا جاتا تو رسالت کا حق ادا نہیں ہو تا ۔کیا یہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟خاص کر جب کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے اور یہ خلافت کے مسئلہ کے ساتھ تناسب بھی رکھتا ہے ،جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ونبوت کی بقا کا وسیلہ ہے۔
اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد ،من جملہ زید بن ارقم ،ابو سعید خدری ،ابن عباس،جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو ہریرہ ،حذیفہ اور ابن مسعود سے اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایتیں نقل ہو ئی ہیں اور ان میں سے بعض روایتیں گیارہ واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور اہل سنت علماء،مفسرین ،محدثین اور مورخین نے بھی انھین نقل کرتے ہو ئے واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علیعلیہ السلام اور غدیر کے واقعہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے۔
(مزید تفصلاات کے لئے کتاب ”احقاق الحق“،”الغدیر“،”المراجعات“ اور ”دلائل الصدق“کا مطالعہ کریں)
ان شاء اللہ ہم ”غدیر“کی داستان کو ”روایات وسنت “کے عنوا ن سے آئندہ بحث میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن یہاں پر ہم اسی یاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ اپنی زندگی کے آخری حج سے لوٹتے وقت حضرت علیعلیہ السلام کو با ضابطہ طور پر اپنا جا نشین معیّن کریں اور تمام مسلمانوں کو ان کا تعارف کرائیں۔
۳۔آیہ اولی الامر
سورہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوا ہے:
<یٰاٴیّھاالّذین اٰمنوا اطیعوااللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔۔۔>
”ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں۔۔۔“
یہاں پر اولوالامر کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ہمراہ بیان ہوئی ہے۔
کیا”اولوالامر“سے مراد ہر زمان و مکان کے حکام اور فرمانروا ہیں؟ مثلاًکیا ہمارے زمانے میں ہر ملک کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے حکام اور فر مانرواؤں کی اطاعت کریں؟(جیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے بیان کیا ہے)
یہ بات عقل ومنطق کی کسی کسوٹی پر ہر گز نہیں اترتی ہے،کیونکہ اکثرحکمراں مختلف زمانوں اور عصروں میں منحرف،گناہ کار ،دوسرے ملکوں کے ایجنٹ اور ظالم ہو ئے ہیں۔کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی پیروی و اطاعت کی جانی چاہئے جن کا حکم اسلامی احکام کے خلاف نہ ہو؟یہ بھی آیت کے مطلق ہو نے کے خلاف ہے۔
کیا اس سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص اصحاب ہیں؟یہ احتمال بھی اس آیت کے وسیع مفہوم (جو ہردور اور زمانے کے لئے ہے)کے خلاف ہے۔
اس لئے ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد معصوم پیشوا ہے جو ہر دور اور زمانے میں موجود ہو تا ہے اور اس کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر واجب ہو تی ہے اور اس کا حکم، خدا ورورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہو تا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلامی منابع وماٴخذ میں موجود متعدد احادیث میں ”اولو الامر“کی حضرت علیعلیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہ السلام سے کی گئی تطبیق بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔
(مزید تفصلاگت کے لئے تفسر نمونہ ج۳:ص۴۳۵کا مطالعہ کریں)
۴۔آیہ ولایت
سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ہوا ہے:
<إنما ولیکم اللّٰہ ورسولہ والّذین آمنواالّذین یقیمون الصّلوٰة ویؤتون الزکوٰة وھم راکعون>
”ایمان والو بس تمھاراولی اللہ ہے اور اس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔“
عربی لغت میں لفظ”إنما“انحصار کے لئے استعمال ہو تا ہے،اس بات کے پیش نظر قرآن مجید نے مسلمانوں کی قیادت اور ولایت وسر پرستی کو صرف تین اشخاص میں منحصر فر مایا ہے :”خدا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰة دیتے ہیں“۔
اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ”ولایت“ سے مراد مسلمانوں کی آپس دوستی نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی عام دوستی کے لئے قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمام مسمان آپس میں دوست اور بھائی بھائی ہیں اگر چہ رکوع کی حالت میں کوئی زکوٰة بھی نہ دے ۔اس لئے یہاں پر ”ولایت“ وہی مادی و معنوی رہبری اور سر پرستی کے معنی میں ہے،بالاخص جب کہ یہ ولایت ،خدا کی ولایت اور پیغمبر کی ولایت کے ساتھ واقع ہو ئی ہے۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ مذکورہ آیت میں ذکر شدہ اوصاف ایک مخصوص شخص سے مر بوط ہیں،جس نے رکوع کی حالت میں زکوٰة دی ہے،ورنہ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ انسان نماز کے رکوع کی حالت میں زکوٰة ادا کرے ،حقیقت میں یہ ایک نشاندہی ہے نہ توصیف۔
ان تمام قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ حضرت علیعلیہ السلام کی ایک مشہور داستان کی طرف ایک پر معنیٰ اشارہ ہے کہ حضرت علیعلیہ السلام نماز کے رکوع میں تہے ،ایک حاجت مند نے مسجد نبوی میں مدد کی درخواست کی ۔کسی نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کی چہوٹی انگلی سے اشارہ کیا ۔حاجت مند نزدیک آگیا۔ حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت انگوٹھی کو اتار کر لے گیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا مشاہدہ فر مایا تو نماز کے بعد اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف بلند کر کے یوں دعا کی :پروردگارا!میرے بھائی موسی علیہ السلام نے تجھ سے درخواست کی کہ ان کی روح کو کشادہ،کام کو آسان اور ان کی زبان کی لکنت کو دور فر مادے اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور مدد گار بنادے۔۔۔پرور دگارا! میں محمد ،تیرا منتخب پیغمبر ہوں ،میرے سینہ کو کشادہ اور میرے کام مجھ پر آسان فر ما، میرے خاندان میں سے علی علیہ السلام کو میرا وزیر قرار دے تاکہ اس کی مدد سے میری کمر قوی اور مضبوط ہو جائے“۔
ابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کو لے کر جبرئیل امین نازل ہو ئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل سنّت کے بہت سے عظیم مفسرین ،مورخین اور محدثین نے اس آیہ شریفہ کی شاٴن نزول کو حضرت علیعلیہ السلام کے بارے میں نقل کیا ہے ۔اس کے علاوہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک گروہ نے ،جن کی تعداد س سے زیادہ ہے،اس حدیث کو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست نقل کیا ہے۔
(مزید توضح کے لئے قیتلہ کتاب”المراجعات “کا مطالعہ فر مایئے ،جس کا اردو ترجمہ”دین حق“کے نان سے ہو چکا ہے)
ولایت کے موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ہوئی ہیں ،ہم نے کتاب کے اختصار کے پیش نظر صرف مذکورہ چار آیتوں پر ہی اکتفا کیا۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button