عقائدعقائد کا مطالعہ

اصول دین کی مقدماتی بحثیں

آیت اللہ شیخ وحید حسین خراسانی
اصول دین کے بیان سے پہلے چند امور کی جانب توجہ ضروری ہے:
۱۔تحصیل معرفت کا ضروری ہونا :
مبدا ومعاد کے وجود کا احتمال، معرفت دین اور اس سلسلے میں تلاش و جستجو کو ضروری قرار دیتا ہے، کیونکہ اگر خالقِ جہاں، علیم وحکیم ہو،زندگی کا اختتام موت نہ ہو،خالق انسان نے اسے کسی مقصد و ہدف کے تحت خلق کیا ہو اور اس کے لئے ایک ایسا نظام معین کیا ہو جس کی مخالفت ابدی بد بختی کاسبب ہو تو انسانی جبلت وفطرت اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ چاہے یہ احتمال کم ہی کیوں نہ ہو، لیکن جس چیز کا احتمال دیا جارہا ہے اس کی عظمت واہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے، تاکہ تحقیق کے ذریعے منفی یا مثبت نتیجے تک پہنچا جا سکے۔جیسا کہ اگر بجلی کے تار میں شارٹ سرکٹ کا احتمال ہو اور طے ہو کہ اس صورت میں زندگی آگ کا لقمہ بن سکتی ہے تو انسان اس وقت تک آرام وچین سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے خطرہ ٹلنے کا یقین نہ ہوجائے۔
۲۔انسان کو دینِ حق کی ضرورت :
انسان کا وجودجسم وروح اور عقل وہوس کا مرکب ہے اور اسی کا اثر ہے کہ اس کی فطرت مادی ومعنوی سعادت اور کمال مقصد تخلیق کو پانے کی جستجو میں ہے۔
ادہر انسان کی زندگی کے دو پہلو ہیں، فردی او ر اجتماعی،بالکل ایسے ہی جیسے انسانی بدن کا ہر عضو اپنی ذاتی زندگی سے قطع نظر دوسرے اعضاء کے ساته بھی متقا بلاًتاثیر و تا ثر رکھتا ہے۔
لہٰذا ، انسان کو ایسے قانون وآئین کی ضرورت ہے جو اسے مادی ومعنوی سعادت اور پاک وپاکیزہ انفرادی اوراجتماعی زندگی کی ضمانت دے اور ایسا آئین، دین حق ہے کہ جس کی انسان کو فطری طور پر ضرورت ہے( فَا قَِٔمْ وَجْهَکَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ) (سورہ روم، آیت ۳۰)
”پس (اے نبی!) تم خالص دل سے دین کی طرف اپنا رخ کئے رہو خدا کی بنائی ہوئی سرشت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے “۔
ہر موجود کے لئے ایک کمال ہے جس تک رسائی،اس کے مربوطہ تکامل وتربیت کے لئے معین کردہ قاعدے و قانون کی اتباع کے بغیر ناممکن ہے اور انسان بھی اس عمومی قاعدے و قانون سے مستشنیٰ نہیں؛( قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَه ثُمَّ هَدیٰ )
”موسیٰ نے کہا ہمارارب وہ ہے جس نے ہر شئے کو اس کی خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت بھی دی ہے“۔(سورہ طہٰ، آیت ۵۰)
۳۔انفرادی زندگی میں دین کا کردار
انسان کی زندگی متن وحاشیہ اور اصل وفرع پر مشتمل ہے۔متن واصل، خود اس کا اپنا وجود ہے اور حواشی وفروع وہ چیزیںہیں جو اس انسان سے تعلق رکھتی ہیں جیسے مال،مقام،شریک حیات،اولاد اور رشتہ دار۔
اپنی ذات اور اس سے متعلق اشیاء کی محبت نے انسانی زندگی کو دو آفتوں،غم واندوہ اور خوف وپریشانی کا آمیزہ بنا رکھا ہے۔جوکچھ اس کے پاس نہیں ہے اسے حاصل کرنے کا غم واندوہ اورجوکچھ اس کے پاس ہے،حوادث زمانہ کے تحت اسے کھو دینے کا خوف و اضطراب۔
خداوندِ متعال پر ایمان ان دونوں آفتوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکتا ہے،کیونکہ عالم وقادر اور حکیم ورحیم پروردگار پر ایمان، اسے اپنی مقررہ ذمہ داریوں سے عهدہ بر آہونے پر ابهارتا ہے اور فرائض بندگی پر عمل پیرا ہو کر وہ جان لیتا ہے کہ خداوندِمتعال اپنی حکمت ورحمت کے وسیلے سے، خیر وسعادت کا باعث بننے والی چیزیں اسے عنایت فرمائے گا اور اسبابِ شر و شقاوت کو اس سے دور فرمائے گا۔
بلکہ، اس حقیقت مطلق کو پا لینے کے بعد، کہ جس کے مقابلے میں ہر حقیقت مجاز ہے اور جس کے علاوہ باقی سب بظاہر پانی دکھائی دینے والے سراب ہیں،اس نےکچھ کھویا ہی نہیں اور اس امر پر یقین و ایمان رکھتے ہوئے کہ( مَا عِنْدَکُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰهِ بَاقٍ )
”جوکچھ تمہارے پاس ہے وہ سب تمام ہو جائے گا اور جوکچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے“۔سورہ نحل، آیت ۹۶
کسی بھی فانی وناپائدار چیز میں اس کے لئے جاذبیت ہی نہیں کہ اس کے نہ ہونے سے غمگین اور چھن جانے سے مضطرب ہو۔( ا لَٔاَ إِنَّ ا ؤَْلِيَاءَ اللّٰهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُوْنَة الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ کَانُوْا يَتَّقُوْنَةلَهُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ فِی اْلآخِرَةِ لاَ تَبْدِيْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰهِ ذٰلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ )
” آگاہ ہو جاو کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور ،زنجیدہ ہوتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے رہے ۔ان کے لئے زندگانی دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر بشارت اور خوشخبری ہے اور کلمات خدا میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے اور یہی در حقیقت عظیم کامیابی ہے“۔،( سور ہ یونس ، آیت 62-64)
اس زندگی میں انسانی اعصاب کو کھوکھلا کر دینے والی چیز، مادی خواہشات کو پانے کی خوشی اور انہیں نہ پانے کے دکھ سے حاصل ہونے والی اضطرابی وہیجانی کیفیت ہے اور لنگر ایمان ہی ان طوفانی امواج میں مومن کو آرام واطمینان عطا کیا کرتاہے( لِکَيَلاَ تَا سَْٔوْا عَلیٰ مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَا ا تََٔاکُمْ )
”جو چیز تم سے جاتی رہی تو تم اس کا رنج نہ کیا کرو اور جب کوئی چیز (نعمت) تم کو خدادے تو اس پر نہ اِتریا کرو“۔سورہ حدید ، آیت ۲۳ ۔
( اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِکْرِ اللّٰهِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ )
۔”یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ہو تاہے اور آگاہ ہو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے“۔سورہ رعد ، آیت ۲۸
۴ ۔اجتماعی زندگی میں دین کا کردار
زیادہ سے زیادہ پانے کی ہوس کے غریزئہ افزون طلبی کی بدولت انسان میں موجود شہوت وغضب کسی حد تک محدود نہیں۔اگر مال کی شہوت اس پر غلبہ کر لے تو زمین کے خزانے بھی اسےقانع نہیں کر سکتے اور اگر مقام کی شہوت اس پر سوار ہو جائے تو روئے زمین کی حکومت و بادشاہی اس کے لئے ناکافی ثابت ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسرے سیاروں پر اپنی قدرت و حاکمیت کا پرچم لہرائے( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَاهَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحاً لَعَلِّیْ ا بَْٔلُغُ اْلا سَْٔبَابَة ا سَْٔبَابَ السَّمَاوَاتِ )
”اور فرعون نے کہا کہ (ہامان) میرے لئے ایک قلعہ تیار کر کہ میں اس کے اسباب تک ، پہنچ جاو ںٔ اور جو آسمان کے راستے ہیں“۔سورہ غافر، آیت ۳۶ ۔۳۷
انسان کا سر کش نفس، شکم ودامن، مال و مقام کی شہوت اور کبھی ختم نہ ہونے والی اندہی ہوس کے لئے قوتِ غضب کو کام میں لانے کے بعد کسی حدو حدود کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی بھی حق کو پامال کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ ایسی نفسانی شہوت کا نتیجہ بربادی اور ایسے غضب کا انجام خونریزی اور خاندانوں کے اجڑنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا، کیونکہ انسان اپنی قوتِ فکر کے ذریعے اسرار طبیعت کے طلسم کو توڑنے اور اس کی قوتو ں کو اپنا غلام بنا کر اپنی نامحدود نفسانی خواہشات کو پا نے کے لئے حیات، بلکہ کرہ ارض کو جو انسانی حیات کا گہوارہ ہے،نابودی کی طرف لے جا رہا ہے( ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ا ئَْدِی النَّاسِ ) ۔”خود لوگوں ہی کے اپنےہاتھوں کی کارستانیوں کی بدولت خشک و تر میں فساد پھیل گیا“۔سورہ روم ، آیت ۴۱
مبدا ومعاد اور ثواب وعقاب پر ایمان کی طاقت ہی اس سر کش نفس کو مھار،انسانی شہوت وغضب کو تعادل اور فردی واجتماعی حقوق کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے،کہ ایسے خدا پر اعتقاد جو( وَهُوَ مَعَکُمْ ا ئَْنَ مَا کُنْتُمْ ) ”اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو“۔سورہ حدید ، آیت ۴
اور اعمال کی ایسی جزا وسزا جو( فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهة وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَه ) ۔”پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا۔اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھے گا“۔(سورہ زلزلة ، آیت ۷،۸ )پر ایمان کی وجہ سے، انسان ہر خیر کی جانب گامزن اور ہر شر سے دور ہو گا اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس کی بنیاد بقاء کے لئے ٹکراو کے بجائے بقاء کے لئے مصالحت کے فلسفے پر ہوگی۔
۵ ۔اصول دین سے آگاہی کی فضیلت و عظمت
فطری طور پر انسان علم کا پیاسا ہے، اس لئے کہ جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے،عقل ہے اور عقل کا پہلو علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی جاہل کو جاہل کہا جائے تو یہ جاننے کے باوجود بھی کہ جاہل ہے غمگین ہو جاتا ہے اور اگر اسے علم سے نسبت دیں تو خوش ہوجاتا ہے۔
اسلام نے، جو دین فطرت ہے،علم کے مقابلے میں جہالت کو وہی مقام دیا ہے جو نور کے مقابلے میں ظلمت اور زندگی کے مقابلے میں موت کو حاصل ہے (إنما هو نور یقع فی قلب من یرید اللّٰه تبارک وتعالی ا نٔ یهدیه ) ۔”بے شک صرف وہ ”علم “نور ہے کہ خدای متعال جس کی ہدایت چاہتا ہے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے“۔بحار الانوار،جلد ۱، صفحہ ۲۲۵
(العالم بین الجهال کا لحی بین الا مٔوات ) ۔”جاہلوں کے درمیان ایک عالم ایسا ہے جیسے مردوں میں زندہ“۔بحارالانوار جلد ۱، صفحہ ۱۷۲
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ علم ذاتی طور پربا فضیلت ہونے کے باوجود مختلف مراتب کا حامل ہے،مثال کے طور پر علم کی فضیلت میں اس کے موضوع،نتیجے اور اس علم سے متعلق استدلال کی روش کے لحاظ سے تفاوت پایا جاتا ہے، جیسا کہ نباتات شناسی کی نسبت انسان شناسی اسی قدر افضل ہے جس قدر نباتات پر انسان کو فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔انسانی زندگی کو سلامتی عطا کرنے والا علم اس کے مال کی حفاظت کرنے والے علم سے اتنا ہی اشرف و با فضیلت ہے جتنا انسانی زندگی کو اس کے مال پر برتری وفضیلت حاصل ہے اور وہ علم جس کی بنیاد دلیل و برہان پر قائم ہے فرضی نظریات کی بنیاد پر قائم شدہ علم سے اتنا ہی زیادہ باشرف ہے جتنا گمان کے مقابلے میں یقین کو برتری وشرافت حاصل ہے۔
لہٰذا، تمام علوم میں وہ علم اشرف وافضل ہے جس کا موضوع خالقِ کائنات کی ذات ہے، لیکن یہ بات مدّنظر رہے کہ غیرِ خدا کو خدا کے مقابلے میں وہ نسبت بھی حاصل نہیں ہے جو قطرے کو اقیانوس اور ذرے کو سورج کے مقابلے میں حاصل ہے۔ ان کے درمیان لا متناہی او رمتناہی کی نسبت ہے،بلکہ
دقیق نظر سے دیکھیں تولا شئی اور فقیر بالذات کا غنی بالذات سے کوئی مقابلہ ہی نہیں( وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَیِّ الْقَيُّوْمِ ) ۔”اس دن سار ے چہرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوں گے“۔ سورہ طہ ، آیت ۱۱۱اور اس علم کا ثمر ونتیجہ ایمان وعملِ صالح ہیں جن کی بدولت انسان کو دنیوی اور اخروی سعادت کے علاوہ انفردی و اجتماعی حقوق حاصل ہوتے ہیں( مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ ا ؤًْ اُنْثٰی وَهُوَ مُو مِْٔنٌ فَلَنُحْيِيَنَّه حَيَاةً طَيِّبَةً ) ” جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہوہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے“۔سورہ نحل ، آیت ۹۷ ۔
اور اس علم کی بنیاد،یقین و برہان پرہے،ظن وگمان کی پیروی پر نہیں۔( اُدْعُ إِلیٰ سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ (سورہ نحل، آیت ۱۲۵ )۔”آپ دعوت دیں اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے“۔ ( وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَکَ بِه عِلْمٌ ) ۔”اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کی پیروی مت کرنا“۔(سورہ اسراء، آیت ۳۶) ( إِنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ) ۔”بے شک گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا“۔(سورہ یونس، آیت ۳۶)
اب تک کی گفتگوسے اس حدیث کے معنی واضح ہو جاتے ہیں کہ(إن ا فٔضل الفرائض وا ؤجبها علی الإنسان معرفة الرّب والإقرار له بالعبودیة ) ۔”سب بڑا واجب انسان پر یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے اور اس کی عبودیت (بندگی) کا اقرار کرے“۔(بحارالانوار، جلد ۴،صفحہ ۵۵ٔ)
۶ ۔ایمان ومعرفتِ پر وردگار تک رسائی کی شرط
انسان، ہر اثر کے مؤثر کی تلاش وجستجو میں ہے اور فطرتِ انسانی، سر چشمہ وجود کو پانے کی پیاسی ہے۔
لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ گوہرِ ایمان اور معرفت پر وردگارِعالم، جو گنجینہ علم ومعرفت کے انمول جواہر ہیں، عدل وحکمت کے قاعدے وقانون کے مطابق کسی ایسے شخص کو نصیب نہیں ہو سکتے جو ایمان و معرفتِ پروردگار عالم کے حق میںظلم سے آلودہ ہو، کیونکہ نا اہل کو حکمت عطاکرنا حکمت کے ساتھ ظلم ہے اور اہل سے دریغ کرنا اہل حکمت کے ساتھ ظلم وزیادتی ہے۔
اور یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ خدا اور قیامت کا انکار اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان تمام ہستی کا احاطہ کر نے اورعلل ومعلولات کے تمام سلسلوں تک پہنچنے کے بعد بھی مبدا ومعادکو نہ پا سکے اور جب تک مذکورہ امور پر محیط فھم وادراک پیدا نہ ہوگا، مبدا ومعا د کے نہ ہونے کا یقین محال ہے، بلکہ جو ممکن ہے وہ مبدا ومعاد کو نہ جاننا ہے۔
لہٰذا، عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس کسی کو بھی اللہ کے وجود کے بارے میں شک ہے اسے چاہئے کہ قولی اور عملی طور پر مقتضائے شک پر عمل کرے۔مثال کے طورپر اگر کوئی شخص ایسے خدا کے وجود کا احتمال دے کہ جس پر ایمان کی بدولت ابدی سعادت اور ایمان نہ ہونے کی صورت میں ابدی شقاوت اسے نصیب ہو سکتی ہے،عقلی نکتہ نظر سے اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دل وزبان سے اس کے وجود کا انکار نہ کرے اور عملی میدان میں جس قدر ممکن ہو اس حقیقت کی تلاش و جستجو میں کوشاں رہے اور منزلِ عمل میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پروردگا رکی ذات موجود ہو جس کے احکامات سے سر تابی ابدی شقاوت کا باعث ہو، بالکل اسی طرح جیسے لذیذ ترین کھانے میں زھر کا احتمال دینے پربحکم عقل اس کھانے سے پرہیز ضروری ہے۔
خدا کے وجود میں شک کرنے والا ہر شخص، اگرعقل کے اس منصفانہ حکم کے مطابق عمل کرے تو بغیر کسی شک وتردید کے، معرفت وایمانِ خدا کو پالے گا( وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ) ۔”اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جهاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے“ ۔( سورہ عنکبوت، آیت ۶۹)
ورنہ اس حقیقت کی ظلم سے آلودگی کے ساتھ اس قدوس و متعال ذات کی معرفت حاصل نہ ہوگی( يُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْرًا کًثِيْراً ) ”وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اسے گویاخیر کثیر عطا کردیا گیا “۔(سورہ بقرة، آیت ۲۶۹)، ( وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظَّالِمِيْنَ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاءُ ) ”اور ظالمین کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور وہ جو بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے‘ ‘۔سورہ ابراہیم، آیت ۲۷
کتاب ” اصول دین سے آشنائی” سے اقتباس
مؤلف: آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی
ناشر: مدرسۃ الامام الباقر العلوم علیہ السلام

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button