عقائدنبوت

رسالت اور فلسفہ بعثت از خطبہ فدک

نوازش علی مایار

رسالت کا اقرار
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا نے توحید کا اقرار کرنے کے بعد نبوت کا اقرار کر رہی ہیںیہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی انسان مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے تو سب سے پہلے اللہ کی وحدانیت کی گواہی اور اس کے بعد پیغمبر اکرم ﷺ کی نبوت کا بھی اقرار کرنا ضروری ہے اس کے بغیر کوئی بھی دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ اسی لئے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا توحید کے بعد فوراً مسلمانوں کو پیغمبر اکرم ﷺ کی نبوت کی طرف توجہ دلاتی ہوئی فرماتی ہیں کہ:
"واشہد انّ ابی محمداً ﷺ عبدہ ورسولہ ، اختارہ قبل اَن اَرسلہ، وسمّاہ قبل اَن اِجتباہ "
ترجمہ: اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر محمد ﷺ اللہ کا بندہ اور اس کے رسول ہیں ، اللہ نے ان کو رسول بنانے سے پہلے انہیں برگزیدہ کیا تھا ، اور ان کی تخلیق سے پہلے ہی ان کا نام روشن کیا تھا۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سب سے پہلے فرما رہی ہیں کہ میرے پدر بزرگوار ا حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کا بندہ اور عبد ہے لیکن اللہ نے ان کو تمام انسانوں پر برتری عطا کی ہے ۔ آپ ؐ کا مقام بہت بلند وبالا ہے ۔ فرشتے ہو یا جن وانس کائنات کے سارے مخلوقات سے آپ ﷺ اشرف ہیں ۔ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا اس خطبہ میں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ رسول اکرم ؐ خدا کا عبد اور بندہ ہیں آپ ﷺ نے اللہ کی عبادت و بندگی میں ایک ایسا مقام حاصل کیا کہ اللہ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کا یہ فرمانا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمد ﷺ اللہ کا بندہ ہے یہ اس کی نفی کر رہی ہے کہ نہ تو آپ ﷺ خدا ہے اور نہ ہی کوئی اور مخلوق ہے جس طرح مشرکین کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے کہ جو ہماری طرح کھاتا ہے پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ، تو ان کے لیے یہی جواب ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ بھی باقی انسانوں کی طرح ایک انسان اور اللہ کا بندہ ہے لیکن آپ ؐ نے بندگی کا ایک ایسا مقام حاصل کیا کہ جس کی بناء پر آپ باقی انسانوں سے ممتاز نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں آپ ﷺ کو” عبد” کے لفظ سے یاد فرمایا ہے کہ :
"سبحان الذی اسرٰی بعبدہ لیلا ً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا انّہ ھو السمیع البصیر "
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اسی طرح قرآن کی ایک اور آیت میں بھی فرمایا کہ: "تبارک الذی نزّل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا”
ترجمہ: بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو۔
پس ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندگی و عبودیت کا مرحلہ پہلے آتا ہے ۔ بعد میں نبوت و رسالت کا ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کو اپنی زندگی کے چالیس سال اللہ کی بندگی میں گزارنے کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو رسالت عطا کی ۔ ایک معروف حدیث ہے کہ ” العبودیّۃ جوہرۃ کنہھا ربوبیّۃ ” یعنی مقام بندگی ایک ایساجوہر ہے کہ جس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ہی خدا کے لیے بن جائے ۔
یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ رسالت اور معراج انسان کا اصلی سبب ، چاہے جسمانی ہو یا روحانی اور اسی طرح دیگر معنوی کمالات کے بالا ترین درجات پر فائز ہونے کی بنیاد ہی عبودیت ہے ( عبودیت یعنی انسان اپنی فکر و نظر، اپنے قلب و ضمیر اور اعضاء و جوارح کو خدا کی حاکمیت کے حوالے کر کے اس کے تقاضوں کو پورا کرے)
(حضرت فاطمہ زہراء اور واقعہ فدک،ص۵۸)
اللہ نے آپﷺ کو خلق کرنے سے پہلے ہی آپ کا نام روشن کیا جیسا کہ آیات اور احادیث کی روشنی میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ تمام انبیاء کرام نے اپنی قوم کو یہ بشارت اور نوید سنائی کہ میرے بعد ایک ایسا نبی آئے گا جو تمام انبیاء سے افضل ہوگا۔ کیونکہ تمام انبیاء کا ایک ہی مقصد تھا اس لئے سب نے خدا کی طرف سے جو احکامات آئے وہ لوگوں تک پہنچانا تھا اس لئے تمام انبیاء نے اپنے سے قبل انبیاء کی تصدیق کی اور آنے والے نبی اور رسول کی بشارت دی ۔
پس یہاں پر کچھ آیات اور روایات نقل کرتے ہیں :ـ
قرآن کےسورہ بقرہ آیت 31 میں ہے کہ
"وعلّم آدم الاسمآء کلّھا ثم عرضھم علی الملائکۃ فقال انبؑونی باسماء ھٰوءلٓاء اِن کنتم صادقین”
اور ( اللہ نے ) آدم کو تمام نام سکھا دیے ، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا : اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ : اسم کی دو قسمیں بنتی ہیں ایک اسم تکوینی دوسرا ام لفظی ” تکوینی اسم اس میں وہ تمام موجودات شامل ہیں جو کسی اور ذات پر دلالت کریں۔کیونکہ بعض موجودات کسی اور ذات پر اجمالاً دلالت کرتی ہیں، یہ بھی اسماء ہیں اور بعض واضح طور پر دلالت کرتی ہیں، یہ بھی اسماء ہیں۔ جو اسماء ذات الٰہی پر واضح دلالت کریں انہیں اسمائے حسنیٰ کہا جاتا ہے۔ ا س اعتبار سے محمد و آل محمد علیہم السلام اللّٰہ کے اسمائے حسنیٰ کے کامل ترین مصادیق ہیں۔ چنانچہ بعض روایات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ ذوات مقدسہ اسمائے حسنیٰ میں شامل ہیں۔ (الکوثر فی تفسیر القرآن، ج۱ ص۲۶۶)
سورہ اعراف کی آیت ؛ 157 میں آیا ہے کہ
"الذین یتبعون الرسول النبی الامّیّ الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورات والاِنجیل "
ترجمہ: (یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہوگی) جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ذکر آپ کے آنے سے پہلے ہی تورات اور انجیل ہوا ہے ۔
اور سورہ الصف کی ایک صریح آیت ہے کہ :
’’واِذ قال عیسی ابن مریم یٰبنی اسرآءیل اِنّی رسول اللہ الیکم مصدّقاً لما بین یدیّ من التوراۃ و مبشّراً برسولٍ یاٗتی من بعدی اسمہ احمد فلمّا جآءھم بالبیّنات قالوا ھٰذا سحر المبین”
ترجمہ:اور جب عیسی ابن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے وال ہوں جن کا نام احمد ہوگا ، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے : یہ تو کھلا جادو ہے ۔
من جملہ ان احادیث میں سے ایک امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے منقول ہے کہ :
” اِنّ اللہ اخذ المیثاق علی الانبیاء اَن یخبروا اممھم بمبعث رسول اللہ ﷺ، وھو محمد ﷺ ونعتہ وصفتہ ، ویبشّروھم بہ ویامروھم بتصدیقہ ویقولو : ھو مصدق لما معکم من کتاب وحکمۃ ، واِنّما اللہ اَخذ میثاق الانبیاء لیؤمننّ بہ ویصدقو بکتابہ وحکمتہ ، کما صدّق بکتابھم و حکمتھم”
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی نے انبیاء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ اپنی امتوں کو حضرت محمد ﷺ کی بعثت کی خبر دیں ۔ اور حضرت محمدﷺ کی نعت اور صفات بیان کریں اور ان کو بشارت دیں اور ان کو حکم دیں کہ وہ حضرت محمد ﷺ کی تصدیق کرے اور کہے کہ جو تمہارے پاس کتاب اور حکمت ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہے ۔ بیشک اللہ تعالی نے انبیاء سے یہ عہد لیا ہے کہ انبیاء حضرت محمد پر ایمان لے آئیں اور اس کی کتاب اور حکمت کی تصدیق کریں جیسے رسول اکرم نے ان کی کتابوں اور حکمت کی تصدیق کی ہے۔(کنز التفسیر الدقائق ج۳ ص۱۴۷)
بعض احادیث سے مستفاد یہ ہے کہ : " کنت نبیاً ولآدم بین المآء والتین”
ترجمہ : میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھا ۔
مطلب اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے نور مبارک کو اس پوری کائنات سے پہلے خلق کیا تھا ۔ بعد میں یہ کائنات وجود میں آئی ہے ۔ اللہ نے آپ کو رسول بنانے اور نبوت عطا کرنے سے پہلے ہی آپ کو برگزیدہ کیا تھا ۔
عربوں کی تاریخ
” واصطفاہ قبل اَن اِبتعثہ ، اِذالخلائق بالغیب مکنونۃ ، وبسترِ الاھاویل مصونۃ ، وبنھایۃ العدم مقرونۃ ، علماً من اللہ تعالی بماءل الامور ، واحاطۃً بحوادث ِ الدھورِ ومعرفۃً بمواقع الامور "
ترجمہ: اور مبعوث کرنے سے پہلے انہیں منتخب کیا ، جب مخلوقات ابھی پردہ غیب میں پوشیدہ تھیں، وحشت ناک تاریکی میں گم تھیں ، اور عدم کے آخری حدود میں دبکی ہوئی تھیں، اللہ کو (اس وقت بھی) آنے والے امور پر آگہی تھی ، اور آئندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ پر احاطہ تھا ، اور تمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی ۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا اس خطبے میں مسجد الحرام میں موجود مسلمانوں کو ان کی سابقہ حالات اور ان کو اپنی اوقات یاد دلا رہی ہیں کہ اے عرب والو جب تمہیں کسی چیز کا پتا نہیں تھا ۔ ہر شئی تم پر مخفی تھی ۔تم لوگ ایسے وحشت ناک تاریکی میں گم تھے کہ جس سے باہر نکلنا ممکن نہ تھا اور عدم کے آخری مراحل میں تم لوگ تھے اور نہ زندگی کے کوئی اصول تھے نہ پینے کے لیے صاف پانی میسر تھا ۔ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اکثر قبائل ظہور اسلام سے قبل بادیہ نشین و صحرا گرد تھے۔ بدو عرب قدرتی مناظر سے محروم اوراپنے زندگی کے میدان میں صرف گلہ بانی کے ذریعہ وہ بھی محدود اور قدیم طرز پر، زندگی گزارتے تھے۔ وہ لوگ بھیڑ بکریوں کے اون اور اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے خیموں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اور جس جگہ آب و گیاہ موجود ہو وہیں جاکر بس جاتے تھے اور پانی اور سبزے کے ختم ہونے پر دوسرے علاقہ کی طرف کوچ کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے یہ لوگ ہریالی اور چراگاہ کی کمی کی وجہ سے صرف چند اونٹ اور مختصر گلہ کے علاوہ دوسرے چوپائے نہیں رکھ سکتے تھے۔ تعصب سے بھرا معاشرہ تھا اور تعصب اس حد تک تھا کہ قبیلہ کی روح قرار دیا گیا تھا اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص بے انتہا اپنے قبیلہ کے افراد سے وابستہ تھا۔ مجموعی طور پر صحرا نشینوں میں قبیلہ جاتی تعصب، وطن پرستی کے تعصب کی مانند تھا۔ عربوں کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہ تھا کہ جس کے ماتحت وہ لوگ اپنے درمیان عدل وانصاف قائم کر سکیں جب کسی پر ظلم ہوتے تھے تو پورے قبیلے والے مل کر دوسرے قبیلے والوں سے انتقام لیتے تھے اس طرح لڑائی اور جھگڑا اور بڑھ جاتا تھا ۔ اور ایک دوسرے سے فخر ومباحات کرتے تھے کثرت اولا د پر کسی بڑے قبیلے سے تعلق رکھنے پر اور مال و دولت کی کثرت پر فخر کرتے تھے جس کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا فرما رہی ہیں کہ : ایک طرف عربوں کی یہ حالت تھی ۔ ان حالات میں اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم ﷺ کو مبعوث کیا اور ایسے اصول زندگی سکھائے کہ جس کے ماتحت انسان ایک اچھی زندگی گزار سکے ۔
فلسفہ بعثت رسول اکرم ﷺ
اللہ تعالی کے ہر کام اور تخلیق میں کوئی نہ کوئی مصلحت موجود ہوتی ہے کہ جس کی بناء پر مخلوقات کو خلق فرماتا ہے اور کب، کہاں خلق فرمانا ہے وہ بھی کسی مصلحت کے تحت خلق کرتا ہے اسی طرح پیغمبر اکرم ﷺ کو جس زمانے میں مبعوث برسالت کیا اس میں جو مصلحتیں موجود تھیں ان کو حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا انداز میں بیان فرماتی ہیں کہ:
ابتعثہ اللہ اتماماً لِامرہ، وعزیمۃً علی امضاء حکمہ، واِنفاذاً لمقادیر رحمتہ، فراَی الامم فرقاً فی ادیانھا ، عکّفاً علی نیرانھا ، عابدۃً لاوثانھا ، منکرۃً للہ مع عرفانھا
ترجمہ: اللہ تعالی نے رسول اکرم ﷺ کو اپنے امور کی تکمیل اور اپنے دستور کے قطعی ارادے اور حتمی مقدرات کو عملی شکل دینے کے لیے مبعوث فرمایا، رسول خدا نے اس وقت اقوام عالم کو اس حال میں پایا کہ وہ دینی اعتبار سے فرقوں میں بٹی ہوئی ہیں ، کچھ اپنے آتشکدوں میں منہمک اور کچھ بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف ، معرفت کے باوجود اللہ کی منکر تھیں۔
حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے امور الٰہی کی تکمیل ہوئی، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی نے خلقت کائنات کی ابتداء سے ہی نبوت و رسالت کا آغاز کیا اور لاکھوں انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور تمام انبیاء نے اللہ کی وحدانیت کی طرف دعوت دی اور سب کا مقصد ہی یہی تھا کہ لوگوں کی ہدایت کریں اور اللہ کی بندگی کی طرف رغبت دلائیں ۔ اسی مقصد کے تحت انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری رہا اور حضرت محمد ﷺ کی بعثت سے ہی یہ امر پایہ تکمیل ہوئی اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے قیامت تک آنے والے لوگوں کو آپ کے ذریعے ہدایت کا سامان فراہم کیا اور لوگوں پر حجت تمام کی۔ نبوت کا سلسلہ آپﷺ پر ہی ختم ہو جاتا ہے آپ ﷺ نے پورا دین مبین اسلام کو لوگوں تک پہنچایا، اور امر الہی کو تکمیل تک پہنچایا ،دین کی تکمیل غدیر خم کے میدان میں حضرت امام علی علیہ السلام کی امامت کے اعلان کے ساتھ ہوا۔ اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا۔
احکام خداوندی کا نفاذ ہوا اور مقدرات حتمی کو عملی شکل مل گئی۔ اس کایہ واضح مطلب ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مظہر تکمیل امر الہٰی ہیں وہ مظہر ارادۂ خداوندی ہے انہیں کے ذریعہ مقدرات الہٰی مرحلہ علم سے مرحلہ وجود میں آتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ :
لولاک لما خلقت الافلاک
ترجمہ : اگر آپ نہ ہوتے تو میں زمین وآسمان کو بھی خلق نہ کرتا ۔
(الانوار فی مولد النبی، ص۵،‌بحارالأنوار ، ج۱۵، ص۲۸)
اللہ تبارک وتعالی نے آپ ﷺ کو اس دنیا میں اخلاقی صفات سے روشناس کرنے اور لوگوں کے درمیان اخلاقی امور کو اجاگر کرنے کے لیے مبعوث ہوئے اسی لیے آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
انّما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
ترجمہ: بیشک مجھے مکارم اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔(مستدرک الوسائل)
آپ ایک ایسے دور میں اخلاق سکھانے تشریف لائے جب لوگ تمام اخلاقی امور کی پامالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے جو بھی معصیت اور گناہ کا کام ہو بے دریغ ہو کر اس کا مرتکب ہوتے تھے اور لوگ مختلف مذاہب اور فرقوں میں بٹے ہوئے تھے کچھ اپنے آتشکدوں میں منہمک اور کچھ بتوں کی پوجا کرنے میں مصروف ، معرفت کے باوجود اللہ کے منکر تھیں۔
جیسا کہ امیر کائنات مولا امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ :
واھل الارض یومئذ ملل متفرقۃ واھواء منتشرۃ وطرائق متشتتہ، بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھدیم من الضلالۃ وانقذھم بماکنہ من الجہالۃ
ترجمہ : اس وقت کرہ ارض کے باشندے متفرق قوموں میں بٹے ہوئے تھے منتشر خیالات اور مختلف راہوں میں سرگرداں تھے کچھ اللہ کو مخلوقات کے مانند سمجھتے تھے کچھ ملحد ومنکر تھے اور کچھ غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالی نے حضرت محمد ﷺ کے ذریعے ان کو گمراہی سے ہدایت بخشی اور ان کے ذریعے انہیں جہالت سے بچا لیا ۔(بحار ج۸۹ ص۳۲)
عرب کے اس جالانہ دور میں جہاں لوگ کسی تہذیب و تمدن کے پابند نہ تھے اور تمام اخلاقی صفات سے عاری لوگوں میں اور جہالت ہی جہالت کے پروردہ لوگوں میں آپ کو اس لیے مبعوث برسالت فرمایا تاکہ آپ اپنے نور سے اس ظلمت کو ختم کر سکے اور جہالت کو علم کی زیور سے آراستہ کر سکے اور لوگ اخلاقی امور کا خیال کر سکے ۔ اور اس دور میں بتوں کی پوجا کرتے تھے حتی کہ خانی کعبہ میں بھی بت رکھے ہوئے تھے اور لوگ عبادات بجا لانے کے لیے خانہ کعبہ میں موجود بتوں کے سامنے جھکتے تھے۔
جیسا کہ بتوں کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے کہ:
افرءیتم اللّٰت والعزّی، ومنٰوۃ الثالثۃ الاُخری، الکم الذکر ولہ الانثی، تلک اذاً قسمۃ ضیزٰی
ترجمہ: بھلا تم لوگوں نے لات اور عزی کو دیکھا ہے اور پھر تیسرے منات کو بھی ؟ کیا تمہارے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں ؟ یہ تو پھر غیر منصفانہ تقسیم ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قران علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ ؛ اللہ تعالی کے اس عظیم ملکوتی نظام کے مقابلے میں کیا تم نے ان بے حس، بے جان پتھروں کے بارے میں سوچا ہے جنہیں یہ لوگ لات، عزی اور مناۃ سے یاد کرتے ہیں اور انہیں اپنا رب تسلیم کر کے تدبیر عالم کا اختیار سونپ دیتے ہیں۔
لات: اس بت کی بنی ثقیف کے لوگ پوجا کرتے تھے یہ بت طائف میں نصب تھا ۔ اہل تحقیق کہتے ہیں کہ لات اللہ کی تانیث ہے۔
عزی: یہ قریش کا بت تھا۔ اس کے معنی عزت والی ہے۔ یہ بت مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلۃ میں نصب تھا ۔ جنگ احد میں ابو سفیان نے یہ نعرہ لگایا ؛ نحن لنا العزی ولا عزی لکم ( یعنی ہمارے لیے عزی ہے تمہارے لیے کوئی عزی نہیں) تو رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہو؛ اللہ مولانا ولا مولا لکم ( یعنی اللہ ہمارا مولا ہے تمہارا کوئی مولا نہیں)
مناۃ: یہ بت مکہ اور مدینہ کے درمیان قُدید کے مقام پر نصب تھا۔اس بت کی پوجا کرنے والے خزاعہ، اور اور خزرج کے لوگ تھے۔ اس بت کو تیسرے اور اُخریٰ کی تعبیر کے ساتھ اس لیے یاد فرمایا یہ کہ مشرکین کے نزدیک کم اہمیت کا بت تھا۔
( الکوثر فی تفسیر القرآن۔ ج۸ ص۴۳۱)
اور خدا وحدہ لا شریک کو اپنا خالق و رازق اور مدبر کائنات تسلیم کر کے انہی کی عبادت کرے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کا جو سلسلہ تھا اس کا سد باب ہو جائے۔
فاَنار اللہ بابی محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ ظلمہا، وکشف عن القلوب بھمھا، وجلی عن الابصار غُممھا، وقام فی الناس بالھدایۃ، فاَنقذھم من الغوایۃ وبصرھم من العمایۃ، وھداھم الی الدین القویم، ودعاھم الی الطریق المستقیم
پس اللہ تعالی نے میرے والد گرامی محمدؐ کے ذریعے اندھیروں کو اجالا کر دیا اور دلوں سے ابہام کو اور آنکھوں سے تیرگی کو دور کر دیا، ( میرے والد نے ) لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا، اور انہیں گمراہوں سے نجات دلائی، آپ انہیں اندھے پن سے بینائی کی طرف لائے نیز آپ نے استوار کی طرف ان کی رہنمائی کی، راہ راست کی طرف انہیں دعوت دی۔
ظلم وبربریت اور جہالت کے اس دور میں آپﷺ ایک نور بن کر اس تاریکی میں تشریف لائے کہ جس کے بدولت ہر طرف روشنی ہی روشنی ہو گئی اور لوگوں کو علم کی طرف رغبت ہونے لگی۔آپ ﷺ نے عرب کے اس معاشرے کو ہر طرح کی پستی اور غلط کاموں سے نجات دلائی اور ایک تاریکی کہ جس میں لوگ قبیلوں کی بنیاد پر مالدولت کی کثرت کو دیکھ کر ایک دوسرے پر فخر مباہات کرتے تھے جو ظالم طقبہ ہوتے تھے وہ اپنے سے ماتحت لوگوں کو غلام بناتے تھے ان پر ظلم کے پہاڑ کھڑی کرتے تھے اور ان کے نزدیک عورتوں کی کوئی عزرت نہ تھی اس معاشرے میں آپ ﷺ نے ایک ایسا نظام اور قانون لے کر مبعوث برسالت ہوئے کہ جس میں نہ کسی قبیلے کو دوسرے قبلیے پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ امیر کو غریب پر اور نہ کسی عرب کو عجم پر فوقیت دی بلکہ ضابطہ اور معیار و ملاک تقوی الہی کو قرار دیا کہ:
یٓایّھا الناس انّا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلکم شعوبا وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم انّ اللہ علیم خبیر
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم مین سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، اللہ یقینا خوب جاننے والا، با خبر ہے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم اور قبیلہ صرف اور صرف لوگوں میں پہچان کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ ایک دوسرے پر فوقیت اور فخر کرنے کے لیے اللہ تعالی ارشاد فرما رہا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار اور باتقوی ہو۔
اسی طرح رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتا ہے کہ؛ ایّھا الناس انّ ربکم واحد واِنّ اباکم واحد کلکم لِآدم وآدم من تراب انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم ولیس لعربیّ علی اعجمی فضل الّا بالتقوی
ترجمہ: اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے حضرت آدمؑ اور حضرت آدم ؑ مٹی سے خلق کیا تم میں سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو اور کسی عربی کو عجم پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ (جامع الاخبارج۱ ص۱۸۳)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button