مصائب امام محمد باقر و امام جعفر صادق ؑمکتوب مصائب

امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے احوال

شیخ عباس قمی ؒ/ مترجم: علامہ سید صفدر حسین نجفی
امام جعفر صادق علیہ السلام نے 148ھ میں ان زہر آلود انگوروں کی وجہ سے شہادت پائی تھی جو منصور نے آپ کو کھلائے تھے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر 65 برس تھی اور کتب معتبرہ میں یہ تعین نہیں کہ ماہ شوال کی کون سی تاریخ تھی البتہ صاحب جنات الخلود جو کہ متتبع ماہر ہیں نےاس ماہ کی پچیس تاریخ کہی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ پیر کے دن پندرہ رجب کو وفات ہوئی اور مشکوۃ الانوار میں ہے کہ آپ کی خدمت میں آپ کا ایک صحابی مرض الموت میں حاضر ہوا اس نے دیکھا کہ حضرت اتنے لاغر ہوگئے ہیں کہ گویا سوائے آپ کے سر نازنین کے کچھ نہیں رہا تو وہ شخص رونے لگا تو حضرت نے فرمایا کیوں رو رہے ہو اس نے کہا میں کیسے گریہ نہ کروں جب کہ میں آپ کو اس حالت میں دیکھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو کیونکہ مومن کو کوئی بھی چیز عارض ہو تو وہ اس کے لیے خیر و بھلائی ہوتی ہے اور اگر اس کے اعضاء و جوارح کاٹ دیےجائیں تب بھی اس کے لیے بہتر ہے اور اگر وہ مشرق و مغرب کا مالک ہوجائے تب بھی اس کے لیے بہتر ہے۔
شیخ طوسی نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی کنیز سالمہ سے روایت کی ہے وہ کہتی ہے کہ آپ کے احتضار کے وقت وہ حضور کے پاس تھی کہ آپ کو غشی کی سی کیفییت طاری ہوئی جب اپنی حالت میں آئے تو فرمایا کہ حسن بن علی بن علی بن الحسین بن ابی طالب علیھم السلام افطس کو ستر اشرفیاں دے دو اور فلاں فلاں کو اتنی مقدار میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو عطا کررہے ہیں جس نے چھری کے ساتھ آپ پر حملہ کیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ آپ کو قتل کردے تو فرمایا کہ تو چاہتی ہے کہ میں ان اشخاص میں سے نہ قرار پاوں کہ جن کی خدا نے صلہ رحمی کرنے کے ساتھ مدح کی ہے اور ان کی توصیف میں فرمایا ہے؛
"وَالَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ وَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ وَ یَخَافُوۡنَ سُوۡٓءَ الۡحِسَابِ”
"اور اللہ نے جن رشتوں کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں اور برے حساب سے بھی خائف رہتے ہیں”۔
پھر فرمایا اے سالمہ! خدا وندعالم نے بہشت کو پیدا کیا اور اسے خوشبو دار بنایا اس کی خوشبو ہزار سال کے راستہ تک پہنچتی ہے لیکن اس کی خوشبو ماں باپ کا نافرمان، اور قطع رحمی کرنے والا نہیں سونگھ سکے گا۔
شیخ کلینی ؒنے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دو مصری پارچوں میں کفن دیا کہ جن میں آپ احرام باندھتے تھے اور اس پیراہن میں جسے آپ پہنتے تھے اور اس عمامہ میں جو امام زین العابدین سے آپ کو ملا تھا اور ایک یمنی چادر میں جو چالیس دینار طلائی سے آپ نے خریدی تھی اور اگر آج ہوتی تو چار سو دینار کی تھی۔
نیز شیخ نے ابو بصیر سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ام حمیدہ حضرت امام صادق علیہ السلام کی ام ولد( وہ کنیز جس سے آقا کا بچہ پیدا ہو) کی خدمت میں امام صادق علیہ السلام کی تعزیت پیش کرنے کے لیے گیا تو مخدرہ رونے لگیں اور میں بھی ساتھ رونے لگا، اس کے بعد فرمایا اے ابو محمد!تو اگر امام صادق علیہ السلام کی موت کا وقت دیکھتا تو تجھے ایک عجیب منظر نظر آتا آپ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا کہ جمع کرو میرے پاس ہر اس شخص کو کہ میرےاور اس کے درمیان قرابت اور رشتہ داری ہے پس ہم ان سب کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ان کے پاس لے آئے تو آپ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:
"ان شفاعتنا لا تنال مستخفا بالصلوۃ”
"بے شک ہماری شفاعت اس کو نہیں پہنچے گی جو نماز کا استخفاف کرے” یعنی نماز کو بے وقعت سمجھے اور آسان سمجھے اور نماز ادا کرنے کا اہتمام نہ کرے۔
عیسیٰ بن داب سے روایت ہے کہ جب امام صادق علیہ السلام کے جسم نازنین کو چارپائی پر رکھا گیا اور انہیں بقیع کی طرف دفن کرنے کے لیے چلے تو ابوہریرہ عجلی نے جو علی الاعلان اہل بیت علیھم السلام کے شعراء میں شمار ہوتا تھا یہ اشعار کہے:
"اقول و قدرا جوابہ یحملونہ
علی کاھل من حاملیہ وعاتق
اتدرون ماذا تحملون الی الثریٰ
ثبیرا ثویٰ من راس علیا شاھق
غداۃ حتی الحاتون فوق ضریحہ
واولیٰ کان فوق المفارق”
” میں نے کہا جب وہ اسے کندھوں پر اٹھا کر لے چلے تھے تو تم جانتے بھی ہو کہ کسے قبر کی طرف لے جارہے ہو، وہ پہاڑ ہے کہ جو بلندی سے گرا ہے کہ جس صبح اس کی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے حالانکہ وہ سروں پر ڈالنے کے زیادہ لائق تھی”۔
مسعودی کہا ہے کہ حضرت کو جنت البقیع میں ان کے والد اور دادا کے پاس دفن کیا گیا اور آپ کا سن مبارک 65 سال کا تھا اور کہا گیا ہے کہ آپ کو زہر سے شہید کیا گیاتھا اور ان کی قبور پر جنت البقیع کی اس جگہ سنگ مرمر کا ایک پتھر ہے کہ جس پر لکھا ہے:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ مبید الامم ومحیی الرمم ھذہ قبر فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدۃ نساء العالمین و قبر الحسن بن علی علیھما السلام بن ابی طالب علیہ السلام وعلی بن الحسین علیھما السلام بن علی بن ابی طالب علیھما السلام ومحمد بن علی علیھما السلام و جعفر بن محمد رضی اللہ عنھم انتھی و اقول صلوات اللہ علیھم اجمعین
روایت ہوئی کہ ایک شخص ابو جعفر نامی جو اہل خراسان کا قاصد تھا اہل خراسان کے کچھ لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور اس سے خواہش کی کہ کچھ مال و متاع ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے جانا ہے اسے لے کر حضرت کے پاس چند مسائل کی ساتھ لے جائے جن کا فتوی پوچھنا ہے اور کچھ مشورے ہیں، ابو جعفر وہ مال اور سوالات لے کر وہاں سے چلا جب کوفہ داخل ہوا تو وہاں ٹھرا اور امیر المومنین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے گیا ، اس نے دیکھا کہ قبر کی ایک طرف ایک بزرگ بیٹھے ہیں اور ایک گروہ نے انہیں حلقے میں لیا ہوا ہے جب وہ زیارت سے فارغ ہوئے تو ان سے ملنے کا ارادہ سے گیا تو دیکھا کہ وہ فقہائے شیعہ ہیں اور اس بزرگ سے فقہی مسائل سن رہے ہیں ان لوگوں سے اس نے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں وہ کہنے لگے یہ ابو حمزہ ثمالی ہیں وہ کہتا ہے میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔
مولف کہتا ہے کہ قبر امیر المومنین علیہ السلام آ پ کی وفات سے زمانہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور تک مخفی اور پنہاں تھی کسی کو اس کی خبرنہ تھی ، سوائے آپ کی اولاد اور اہل بیت کے اور امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیھما السلام آپ کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور اکثر اوقات سوائے اونٹ کے ان کے ساتھ کوئی ذی روح نہ ہوتا، لیکن امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں شیعوں نے آپ کی قبر پہچان لی تھی اور اس کی زیارت کے لیے جایاکرتےتھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام جس زمانہ میں مقام حیرہ میں تھے تو آپ بار بار اس قبر کی زیارت کے لیے تشریف لے جایا کرتےتھےاور غالبا اپنے بعض مخصوص صحابہ کو بھی ساتھ لے جاتےتھے اور انہیں مدفن جناب امیر المومنین علیہ السلام دکھاتے تھے یہی کیفیت ہارون الرشید کے زمانہ تک باقی رہی پھر اچانک آپ کی قبر ظاہر ہوگئی اور دور و نزدیک سے لوگوں کی زیارت گاہ ہوئی۔
باقی رہے ابو حمزہ ثمالی تو وہ امام زین العابدین علیہ السلام کے دور میں ہی آپ کی قبر کی زیارت سے مشرف ہوچکے تھے بہر حال وہ مرد خراسانی کہتا ہے کہ اسی اثناء میں ہم بیٹھےتھے کہ ایک اعرابی وراد ہوا اور کہنے لگا کہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور جعفر بن محمد علیھما السلام وفات پاگئے ہیں ابو حمزہ کی اس خبر کو سننے سے چیخ نکل گئی اور اس نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پرمارے اس وقت اعرابی سے پوچھا کہ کیا تو نے سنا ہے کہ آپ نے کس کو اپناوصی مقررکیا ہے وہ کہنے لگا آپ نے اپنے بڑے بیٹے عبداللہ، اور دوسرے بیٹے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور منصور خلیفہ کو اپنا وصی قرار دیا ہے ابو حمزہ کہنے لگے حمد ہے خدا کی آپ نے ہمیں ہدایت کی اور گمراہ نہیں رہنے دیا۔
"دل علی الصغیروبین الکبیر و ستر الامر العظیم”
پس ابو حمزہ امیرالمومنین علیہ السلام کی قبر کے پاس جا کر نماز میں مشغول ہوگئے اور ہم بھی نماز پڑھنے لگے پھر میں ان کے پاس گیا اور کہا یہ چند فقرے جو آپ نے کہےہیں میرے لیے ان کی تشریح کیجیے۔
ابو حمزہ نے اس کی تشریح کی کہ جس کا ماحصل یہ ہے کہ منصور کا وصی قرار دینا ظاہر ہے کہ تقیہ کے طور پر ہے تاکہ آپ کے وصی کو قتل نہ کرے اور چھوٹے بیٹے کا ذکر جو کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں بڑے بیٹے کے ساتھ جوکہ عبد اللہ ہے اس لیے ہے کہ تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عبد اللہ امامت کے قابل نہیں کیونکہ بڑا بیٹا اگر بدن اور دین میں ناقص نہ ہو تو اس کو امام ہونا چاہیے لیکن عبد اللہ بدن کے لحاظ سے فیل پا ( ہاتھی جیسے پاوں) اور اس کا دین ناقص ہے اور وہ احکام شریعت سے جاہل ہے وگرنہ اس اگر کوئی نقص نہ ہو تو اس پر اکتفاء کرتے پس یہاں سے میں سمجھا ہوں کہ امام موسیٰ ہیں اور باقیوں کا تذکرہ مصلحۃ ہے ۔
شیخ کلینی و شیخ طوسی اور ابن شہر آشوب نے ابن جوزی سے ایک روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ ایک رات ابو جعفر دوانقی نے مجھے بلایا میں نے دیکھا کہ وہ کرسی پر بیٹھا ہے اور اس کے سامنے ایک شمع رکھی ہوئی ہے اور اس کے سامنے ایک خط ہے اور وہ اسے پڑھ رہا ہے ہے۔ جب میں نے اسے سلام کیا تو اس نے وہ خط میری طرف پھینکا اور رونے لگا اور کہنے لگا یہ محمد بن سلمان کا خط ہے اور اس نے جعفر بن محمد علیھما السلام کی وفات کی خبر لکھی ہے پس اس نے تین مرتبہ کہا :
"انا للہ وانا الیہ راجعون”
اور کہنے لگا جعفر جیسا شخص کہاں مل سکتا ہے۔
پھر کہنے لگا اس کو لکھو کہ اگر اس نے کسی ایک شخص کو خصوصی طور پر وصی قرار دیا ہے تو اسے بلا کر قتل کردو۔
چند دنوں بعد خط کا جواب آیاکہ انہوں نے پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیاہے۔
1۔ خلیفہ منصور
2۔ محمد بن سلیمان
3۔ والی مدینہ
4،5۔ اپنے دونو ں بیٹوں عبد اللہ اور موسیٰ۔
موسیٰ کی والدہ حمیدہ کو جب منصور کا پڑھا تو کہنے لگا ان کو قتل نہیں کیا جا سکتا،
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ حضرت کو علم امامت سے معلوم تھا کہ منصور ایسا ارادہ کرے گا، لہذا آپ نے اس جماعت کو وصیت میں شریک قرار دیا اور پہلے منصور ہی کا نام لکھا اور باطنی طور پر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو وصیت کے ساتھ مخصوص کیا اور اس وصیت سے اہل علم جانتے تھے کہ وصایت و امامت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہے جیسا کہ ابو حمزہ کی روایت سے جو گذر گئی ہے معلوم ہو چکا ہے۔
کتاب ” احسن المقال” سے اقتباس
اردو ترجمہ: سیرت معصومین علیھم السلام مؤلف: شیخ عباس قمی ؒ
مترجم: علامہ سید صفدر حسین نجفی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button