مصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائی اور جناب جابر کی روز اربعین کربلا آمد

شام سے مدینے کا سفر

یزید نے سید الشہداء علیہ السلام کے قتل پر جشن پر جشن منائے، رقص و سرود کی محلفلیں منعقد کیں۔ اس کی مسرت و شادمانی کی کوئی انتہاء نہ رہی۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کو قید و بند میں ڈال دیا تھا۔ جب دربار میں بیٹھا تو فتح کے نشے میں مست نظر آتا، کبھی اپنے کفر و الحاد کا تذکرہ کرتا۔ کبھی ابن زبعری کے اشعار میں مثالیں پیش کرتا اور وحی و رسالت کا انکار کرتا کہ اچانک اس کی نظر بدلے ہوئے ماحول پر پڑی اور دیکھا کہ لوگوں کی کل جو چاہت اس کے ساتھ تھی انہوں نے اب اس سے منہ پھیر لیا ۔ اس نے لوگوں میں فکری انقلاب دیکھا کہ لوگ اسے چھوڑ رہے ہیں اور خود اسے منہ پر اور اس کے پشت پیچھے اس کو لعنت و ملامت کررہے ہیں۔ یزید ملعون نے اپنے تخت کو متزلزل پایا اور اپنی مضبوط حکومت کو کمزور اور خستہ حال دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان تو کیا غیر مسلم بھی اسے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں مجرم و خطا کار سمجھ رہے ہیں۔ اسے اسی وقت اپنے باپ کی وصیت یاد آئی کہ اہل عراق اپنی طرف امام حسین علیہ السلام کو دعوت دیں گے وہ تیرے خلاف قیام کرے گا تو اس سے در گزر کرنا۔ یزید نے دل میں اپنے آپ سے کہا کہ مجھے حسین علیہ السلام کے معاملے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔

جس وقت اس نے دیکھا کہ اس کے تمام تعلق دار ، اس کےتمام درباری لوگ ، حتیٰ کہ خوشامدی لوگ سبھی اسے سرزنش کررہے ہیں اس نے یہ بھی دیکھا کہ جب اس کے دربار میں سفیر روم کو قتل کیا گیا تو اس وقت سر مقدس نے گفتگو کی۔ وہ اپنے لوگوں سے سن رہا تھا کہ اب پورے ملک میں یہی تذکرے ہیں کہ یزید ایک ظالم و جابر انسان ہے اس نے فرزند رسول کو قتل کرکے ایک عظیم جرم کیا ہے۔

جب اس نے یہ حالت دیکھی تو عوام کو دھوکہ دینے کے لیے مشہور کرایا کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابن زیاد نے قتل کیا ہے ، اسے اس واقعہ کا کوئی علم نہیں تھا لیکن اس نے دیکھا کہ لوگوں نے اس کے اس پروپیگنڈے کا کا کوئی اثر نہیں لیا اور عنقریب انقلاب عظیم آنے والا ہے اور اس کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں تو اس نے فورا فیصلہ کیا کہ امام سجاد علیہ السلام اور باقی اسیروں کو وطن بھیج دیا جائے۔

اس نے فورا اپنے آدمیوں کو تیار کیا اور انہیں ہدایت کہ مکمل احترام و اکرام کے ساتھ انہیں مدینے لے جائیں۔ اس نے یہ ذمہ داری نعمان بن بشیر کو سونپی۔

جناب جابر بن عبد اللہ انصاری ؒ کی روز اربعین کربلا آمد

جب یہ کاروان عراق پہنچا تو انہوں نے حکومتی ذمہ داروں سے کہا کہ انہیں کربلا لے جائیں۔ جب قافلہ اہل بیت کربلا پہنچا تو انہوں نے وہاں پر جابر بن عبد اللہ انصاری ؒ اور چند دیگر بنو ہاشم کے افراد کو دیکھا جو سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو طرفین سے صدائے گریہ و شیون بلند ہوئیں۔

اس طرح تین شبانہ روز سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ و زاری کی مجلس برپا رہی۔

جناب جابر حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کے سرہانے بیٹھے اور رونا شروع کیا اور اسی حالت میں کہا:

یاحسین ! یا حسین! یا حسین!

بعد ازیں کہا:

حبیب لا یجیب حبیبہ

اب کیا حال ہے کہ آقا اپنے غلام کو جواب نہیں دیتا؟ پھر اضافہ کرتے ہوئے کہا

و انی بذالک بالجواب و قد شطحت او داجک علی اثباجک و فرق بین راسک وبدنک۔۔۔

جی ہاں! کس طرح آقا اپنے غلام کو جواب دے حالانکہ ان کی گردنوں کی رگوں کو کاٹ دیا ہے۔ سر اور بدن کے درمیان جدائی ڈال دی گئی ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند ہیں اور امیرا لمومنین علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ آپ صاحب تقویٰ اور سلیل ھدیٰ کے فرزند ہیں۔آپ خامس آل عبا علیہ السلام ہیں۔ آپ نقیبوں کے سردارکے فرزند ہیں۔ آپ نے امام المتقین علیہ السلام کے دامن میں پرورش پائی ہے اور آپ نے پستان ایمان سے دودھ پیا ہے اور روح اسلام سے سامان رشد پایا ہے ۔ تیری تعزیت غم ناک ہے آپ پر اللہ کا سلام ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا وہی راستہ ہے جو آپ کے بھائی جناب یحییٰ علیہ السلام نبی کا راستہ تھا۔

پس جابر بن عبد انصاری نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کے گرد نظر دوڑائی اور عرض کیا:

السلام علیکم ایتھا الارواح التی حلت بفناء الحسین واناخت برحلہ واشھد انکم اقمتم الصلوۃ اوتیتم الزکوۃ و امرتم بالمعروف و نھیتم عن المنکر و جاھدتم الملحدین و عبدتم اللہ حتی اتاکم الیقین

میرا سلام ہو، اے وہ ارواح ! جو حسینی آستان پر اتریں اور اپنی سواریاں حسین علیہ السلام کی سواریوں کے ساتھ اتاریں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ لوگوں نے نماز قائم کی اور زکوۃ ادا کی نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور ملحدین کے ساتھ جہاد میں بر سر پیکار ہوئے آپ لوگوں نے اللہ کی بندگی کی حتی کہ منزل شہادت پر فائز ہوگے۔

جناب جابر نے اس مقام پر قسم اٹھائی اور کہا :

اے شہیدان عزیز ! اس ذات کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا پیغمبر بنایا ہم آپ کے علم کی تائید کرتے ہیں ہم اپنے آپ کو تمہارے اس عمل میں شریک پاتے ہیں۔

عطیہ عوفی جناب جابر کے ہمراہ تھے اور انہوں نے جابر کی یہ گفتگو سنی تو کہا:

ہم کیسے اس مقدس جہاد میں ان کے ساتھ شریک ہیں حالانکہ ہم نے نہ ان کے ساتھ سفر کی سختیاں جھیلیں اور نہ ہی ان کے ہم رکاب ہو کر شمشیر اٹھائی ہے۔ جبکہ ان کے عزیزوں کو قتل کیا گیا، ان کی اولاد کو یتیم کیا گیا اور ان کے گھر والوں کو سوگوار کیا گیا۔ ہم ان کے عمل میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں۔

جناب جابر نے عطیہ عوفی کے جواب میں کہا:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنا آپ نے فرمایا:

من احب وقوما کان معھم ومن احب عمل قوم اشرک فی عملھم

جس شخص نے کسی قوم سے محبت کی تو وہ ان کے ساتھ ہے اور جس کسی نے ان کے عمل کو پسند کیا تو وہ ان کے ساتھ شریک ہیں۔

مجھے اس ذات کی قسم ! جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی نبی بنایا ، میری نیت اور میرے دوستوں کی نیت وہی ہے جو امام حسین علیہ السلام اور اس کے اصحاب کی تھی۔

(مقتل الحسین علیہ السلام المقرم)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button