رسالاتمصائب سید الشھدا امام حسین ؑمکتوب مصائب

عشرہ محرم الحرام (حصہ مصائب) خطیب؛ علامہ انور علی نجفی

بسم اللہ الرّحمٰن الرَّحیم

عشرہ محرم الحرام 1443ھ، 2021ء ( حصہ مصائب)
خطیب : علامہ انور علی نجفی
مقام:جامعۃ الکوثر اسلام آباد
﴿مجلس اول
مصائب خروجِ مدینہ
حدیث میں ہے ” من بکیٰ و ابکیٰ عشرفله ولھم الجنة ” جو روئے اور دس آدمیوں کو رولائے تو ان دس افراد کے لئے اور رولانے والے کے لئے بھی جنت کی ضمانت صادق آل محمدؐ دے رہے ہیں جس طرح نماز جماعت میں زیادہ لوگ ہوں تو اس کی فضیلت ہے اسی طرح رونے میں بھی اگر زیادہ لوگ روئیں تو اس رونے کی فضیلت زیادہ ہے۔صحابی نے تعجب کیا کہ دس آدمیوں کو رولانے پر جنت،فرمایا "من بکیٰ و ابکیٰ تسع فله و لھم الجنۃ"جو نو (9)آدمیوں کو رولائے اور خود روئےتو اُس پر جنت واجب ہے ۔ یہاں تک کہ فرمایا جوروۓ اور ایک شخص کو رولائےتو اُس کے لیے بھی جنت واجب ہے۔جب صحابی نےتعجب کیا تو امامؑ نے تعبیر بدل دی آخری جملہ عجیب ہے "من بکیٰ و ابکیٰ او تباکیٰ” کوئی رو ئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنائے اگر رونا نہ آئے تو اظہار غم ضرور کرو ہاتھ سینے پہ ضرور رکھو اپنا سر ضرور پیٹو ، اس کے لئے جنت واجب ہے۔
کیوں جنت واجب ہے کربلا میں ایسا کیا ہوا ہے امام ارشاد فرماتے ہیں ” یاابن شبیب ان کنتَ باکیًا لشیئ ” اگر کسی چیز پر روتے ہو "فابک للحسین ؑ” تو میرے جد حسین ؑ پر گریہ کرو” فانه ذُبح کما یذبح الکبش” مجھ سے شاید ترجمہ نہ ہو سکے حسین کو اس طرح ذبح کیاگیا جس طرح قربانی میں آپ جانور کو ذبح کرتے ہیں میں عرض کروں گا مولاجانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے جانور کو ذبح کرنے کے بعد پامال نہیں کیا جاتا اس کے جسد پر گھوڑے نہیں دوڑائے جاتے ہیں اس کا سر نوک ِنیزے پر بلند نہیں کیا جاتا کبھی جانور کو جانوروں کے سامنے ذبح نہیں کیا جاتا آپ نے یہ تشبیہ کیسے دی شاید امام فرمائے جب جانور ذبح ہوتا ہے تو کوئی منع کرنے والا نہیں ہوتا فرزند رسول حسین ؑ ذبح ہوتے رہے کلمہ گو دیکھتے رہے کوئی منع کرنے والا نہیں تھا ۔۔۔ اجرکم علی اللہ
کتنا مشکل تھا حسینؑ کے لئے کربلا کی طرف تشریف لے جانا ، اُم سلمہ نے روکنے کی کوشش کی کہا : حسین کربلا کی طرف نہ جانا۔ آپ ؑ نے فرمایا: اماں میں نے کربلاجانا ہے اس سفر سے آپ مجھے نہ روکے اور پھر وہ خاک شفا دی کہا اس خاک کو اس خاک کے ساتھ رکھ لے نا جو خاک رسول خداؐ نے آپ کو عطاکی تھی جب یہ خاک سرخ خون میں تبدیل ہو جائے تو سمجھ لینا حسین ؑ کرب و بلا میں مارا گیا ایک ماں کے لئے کتنا سخت ہے ہرروز خاک کی طرف دیکھتی ہے مصلہ عبادت ہے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوکر دعا کرتی ہے خدایا میرے حسینؑ کی خیر ہو ایک دن اُم سلمہ نے خواب میں کیا دیکھا رسول خداؐ پریشان حال ہیں بال پریشان ہے محاسن خاک آلود ہیں اور تشریف لائے اُم سلمہ نے پوچھا یا رسول اللہؐ آ پ ؐ کا یہ حال کیوں ہے کہا : کربلا میں میرا حسین مارا گیا ۔۔۔ اجرکم علی اللہ اُم سلمہ خاک کی طرف بڑھی خاک خون میں تبدیل ہو گیا اُم سلمہ نے فریاد کی ہاے میرا حسین ؑ مارا گیا !
وسیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون  
﴿ مجلس دوم ﴾
مصائب ورودِ کربلا
ایک دفعہ امام علی علیہ السلام کربلا سے گزر رہے تھے روایات میں ہے کہ امام حسین ؑ سے دو سو انبیاء کربلاء میں شہید ہوئے ہیں اور جوبھی نبی اس زمین سے گزرتا تھا اس کا وہاں پاؤں ضرو ر زخمی ہوتا تھا اس کا خون اس کرب و بلاء کی زمین پر گرتاتھا تاکہ وہ غم حسینؑ کو اور مصیبت جناب سیدہ کو احساس کر کے رو سکے یہ عزاداری بہت پرانی ہے امیرالمومنین ؑ وہاں کچھ دیر کے لئے سو جاتے ہیں خواب میں دیکھتےہیں کہ ایک شخص ہے خو ن کا دریا ہے اس میں ڈوب رہا ہے اور اپنی مدد کے لئے پکار رہا ہے ۔ امیر المومنین ؑ اگے جاتے ہیں دیکھا اپنا بیٹا حسین ہیں ” ھل من ناصر ینصرنا” کی صدا بلند کررہا ہےاجر کم علی اللہ رونے میں تکلف نہ کیجئے گا ۔
امام رضا علیہ السلا م دعبل کو بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں ” یا دعبل مرحبا بناصرنا بیدہ ولسانه”آپ رونے والوں کو امام ؑ اپنا ناصر کہہ رہے ہیں آپ کایہ گریہ امام ؑ کی نصرت ہے اپنی زبان سے ہماری نصرت کرنے والے اے دعبل جب عزادار کی آنکھوں میں آنسو آتا ہے اس کی تمام گناہ دھل جاتے ہیں اے دعبل ہمارے مصائب پڑھو مرثیہ پڑھواگر کوئی شخص ہماری مصیبت میں روئے گا خدا قیامت کے دن اسے ہمارے ساتھ محشور کرے گا۔ "یادعبل من بکا علی مصائب جدی غفر اللہ ذنوبه جمیعا ” جو حسین کے غم میں روئے گا خدا اس کے تمام گناہ بخش دے گا۔
یہاں بات ختم نہیں ہوئی ، کہامنبر لگایا جائے پردہ آویزاں کیاجائے مخدرات کو بھی بلایا جائے دعبل نے اشعار پڑھنے شروع کئے
اے فاطمۃ الزہراء مدینہ چھوڑ کر کربلاء تشریف لائی ہیں آسمان سے ستارے اس دھشت میں گر رہے ہیں پھر جب کربلاء کے مصائب بیاں ہوئے گریہ شروع ہوا جب مصائب ختم ہوئےتو امام رضاؑ نے فرمایا اے دعبل میری ماں سے کہناذراخراساں کا بھی رخ کریں
دعبل نے پوچھا کہ خراساں میں جناب سیدہ کا کونسا بیٹا مارا جائے گا کہا خراساں میں میں غریب الوطن مارا جاؤں گاجس پر رونے کے لئےنہ کوئی بہن ہوگی نہ ماں ہوگی یہ سننا تھابہن سے برداشت نہ ہو سکا میں کہوں گا میرا سلام ہو زینب کبراؑ پر ستر قدم کے فاصلے پر ۔۔۔اجرکم علی اللہ
یہ کاروان چل رہا ہے دو محرم ہوئی ایک جگہ پہنچ جاتا ہےعصر امام ؑ رک جاتا ہے امام کو تو معلوم تھاکہ یہ منزل کونسی منزل ہے آپ کو بتانا چاہ رہے ہیں اس جگہ کو کیا کہتے ہیں؟ اسے نینوا کہتے ہیں کہا کوئی اور نام ہے ؟اسے شط الفرات کہتے ہیں مختصر کر دوں کہنے والے نے کہا اس زمین کو کرب و بلاء کہتے ہیں ۔یہ سننا تھا امامؑ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ہمارے خیمے یہیں نصب ہونگے پھر اہل بیت ؑ کے خیمے نصب ہونا شروع ہوئے بچوں کی خیمے الگ ، مخدرات کی خیمے الگ،اصحاب کے خیمے الگ اور جہاں مخدرات کے خیمے تھے کسی کی اس طرف نگاہ اٹھانے کی ہمت نہ تھی بڑے احترام سے خیمے لگائے گئے بیبیوں کو احترام سے اتارا گیا پھر خیموں میں بیبیاں چلی گئیں ایک وقت وہ بھی آیا جب یہ خیمے تھے لیکن ان خیموں میں کوئی مرد نہ رہا، ان خیموں کا کوئی احترا م نہ رہا امامؑ نے کہا "ھٰھناحتک حریمنا ” نہ جانے اس بات زینب ؑ نے کیسے برداشت کیا یہ وہ جگہ ہے جہاں حرم رسول خداؐ لٹ جائیں گے” ھٰھنا قتل رجالنا” یہاں اکبرؑ شہید کردیا جائے گا” ھٰھنا واللہ ۔۔۔” ارباب یہ جملہ نہ سننا ” ھٰھنا واللہ مذبح اطفالنا” یہاں ہمارے بچے ذبح کر دئے جائیں گے ” واللہ ھٰھنا تزور قبورنا”امام ؑ کے آپ لوگ پیش نظر ہیں یہاں ہمارے حرم بنیں گے عزادار حرم کی زیارت کو آئیں گے آپ امام ؑ کے پیش نظر ہیں امامؑ نے کربلاؑ کی زمین خریدی ، خریدنے کے بعد واپس انہیں کو کر دی کہا دو شرط ہیں جب میرا کوئی زائر آئے تو اسے تین دن تک مہمان رکھنا میرا زائر پیاسا نہ رہے پانی کا حسین ؑسے عجب تعلق ہے خود تین دن تک پیاسا رہا خود پیاسا شہید ہوا اپنے عزادار کے لئے سبیل کا انتظام فرمایا ۔ اللہ اکبر
فرمایا دوسری شرط یہ ہے جب یہ اعداء چلے جائیں تو تم آکر ہمارے اجساد کو دفنا دینا لیکن میں کیسے کہوں جناب سجاد ؑکےاس دکھ کو میں کیسے بیان کروں جب یہ قافلہ چلا اور بے گورو کفن لاشے پڑے تھے جناب سیدہ ؑنے جب سجاد ؑ کی حالت دیکھی کہا بیٹا کیوں اپنی جان دے رہے ہو کہا وہ بیٹا جی کر کیا کرے جس کا باپ بے گور و کفن پڑا ہو یہ درد امام زمان ؑ کا ایسے بیان کرتے ہیں میرا سلام ان شہیدوں پر جن کے اجساد بے گور و کفن پڑے رہے۔
سیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون

﴿ مجلس سوئم ﴾
مصائب جنابِ حضرت مسلم ابن عقیل ؑ
معمولاً آج کے دن جس غریب کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سفیر ِ حسین علیہ السلام ہیں جو اپنے مولا ؑ سے بہت شباہت رکھتا ہے و اللہ تم اگر اپنے مولاؑ سے محبت کرو تو ان کی طرح ہو جاؤ گے محال ہے ممکن نہیں ہے لیکن شباہت ضرور آئے گی تمہیں دیکھ کر دشمن بھی کہیں گے یہ شیعہ ِ علی ؑ لگتا ہے امام ؑ بھی فخر کریں گے یہ ہمارا شیعہ ہے وہ مسلم ؑ جب انہوں نے نماز پڑھانا شروع کی تو ایک جمعِ غفیر تھا جب نماز کا سلام دیا تو تنہا رہ گئے وہ مسلم ؑ جو تنہائی میں شریکِ حسین ؑ ہے مسلم ؑ کوفہ میں تنہا رہ گئے حسینؑ کربلا میں تنہا رہ گئے ۔ ایک موقع آیا جب حسینؑ نے دائیں دیکھا اور بائیں دیکھا جب کسی کو نہ پایا تو اپنے تمام اصحاب کو پکارا ۔۔۔۔اجرکم علی للہ
کتنی شباہت ہے طوعہ کے گھر میں ہیں دشمن جب حملہ آور ہوتا ہے آپ ؑ گھر سے باہر نکلتے ہیں طوعہ نے کہا مؤمنہ نے کہا آپ ؑ گھر میں رہ کر دفاع کریں گھر میں رہ کر جنگ کریں ارشاد فرمایا میں یہ لعین تیرے گھر میں داخل ہو میں عرض کروں گا مسلم ؑ آپ خوش نصیب ہیں آپ نے وہ منظر نہ دیکھا جب یہ لعین خیموں میں داخل ہوئے ۔۔۔۔اجرکم علی اللہ
یہ وہ مجاہد ہیں جو شہید بھی ہے اور اسیر بھی ہے جس نے شہادت بھی پائی اسارت بھی پائی جب جنگ سے تھک کر بیٹھ گئے شاید پیاس کی شدت ماری جارہی تھی اکبر کی طرح فرمایا : ” العطش قد قتلنی ” پانی کا کاسا مانگا جب گرفتار کر کے لائے پانی پیش کیا گیا پانی پینا چاہا کیونکہ لبہائے مسلم ؑ زخمی تھے میں ابھی لبہائے مسلم ؑ کے مصائب پڑھوں گا کیونکہ لب زخمی تھے دانت ٹوٹے ہوئے تھے کاسا نزدیک آتا خون سے بھر جاتا تھا پانی نہ پی سکے میں کہوں گا مسلمؑ تم خوش نصیب ہو تم شبیہِ حسین ؑ ہو تمہیں پانی نصیب نہ ہوا پانی حسینؑ کو بھی نہ ملا حسین ؑ کو پانی نہ ملنے کا داغ دلِ سجاد پر اگر بیان کر سکوں اگر تم سمجھ سکو جب دفن کیا میرے مولاؑ نے قبر بنائی اپنی انگشت مبارک سے لکھا ” ھٰذا قبر حسین ابن علی ؑ الذی قتلوہ عطشانًا” ۔۔۔اجرکم علی اللہ
کون جانے تشنہ لب قتل ہونا کیا ہے تشنہ لبی کیا ہے یہ شبیہِ حسین ؑ صرف اس میں شباہت نہیں ہے جب اعداء نے حملہ کیا اور مسلم ؑ تھک گئے مسلم ؑ بیٹھ گئے مسلمؑ اب تلوار نہیں اٹھا سکتے لیکن کسی لعین میں یہ طاقت نہیں ہے یہ جرات نہیں ہے کہ مسلم ؑ کے قریب آئے لعینوں نے پتھر اٹھانا شروع کئے مسلم ؑ کو پتھر سے مارنا شروع کیا مسلم ؑ نے نبی کا واسطہ دے کر کہا لعینو جس طرح کفار کو پتھر مارا جاتا ہے مجھے پتھر کیوں مارتے ہو میں اہلِ بیت نبوۃؑ میں سے ہوں ۔ مقتل کے الفاظ اگر میں پیش کر سکوں جب حسینؑ زخموں سے چور چور ہو گیا اور وہ وقت آیا کہ ذولفقار کو نیچے رکھ دیا لعین آگے بڑھے جس کے ہاتھ میں پتھر تھا ہو پتھر مارتا ، جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا وہ نیزہ مارتا۔۔۔اجرکم علی اللہ
مسلم ؑ کی آخری شباہت بیان کر کے میں آپ کی زحمت تمام کر لوں جب مسلمؑ جنگ کر رہے تھے ایک تلوار لبِ مبارک ِ مسلمؑ پر پڑی مسلمؑ تڑپ گیا لیکن تلوار کا پڑنا اور ہے چوبِ خیزراں کا اور ۔۔۔۔ اگر غنچہ تازہ ہو اسے چھڑی سے مارا جائے وہ دیر سے پَر پَر ہوتا ہے لیکن اگر غنچہ خشک ہو اور خشک غنچے پر چھڑی ماری جائے ۔۔۔۔ظالم ! یہ وہ سقائے نبی ہیں ، زینب ؑ پکاری : اے حسینؑ مظلوم حسین ؑ ! میں نے یہ تو سن رکھا تھا آپؑ کو شہید کر دیا جائے گا یہ میں نے یقین کر لیا مجھے یہ بھی بتایا گیا آپ ؑ کا سر نوکِ نیزہ پر بلند ہوگا وہ بھی میں نے دیکھ لیا مجھے یہ بھی بتایا گیا ہم اسیر بھی لے جائیں گئ وہ بھی ہم نے برداشت کر لیا لیکن یہ برداشت نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ آپ کی سکینہ دیکھتی رہیں ۔۔۔۔۔۔
اَلاٰلعنة اللہ علی القوم الظالمین

﴿ مجلس چہارم ﴾
مصائب جناب ِ حضرت عون و محمد ؑ
اہلیبیتِ محمدؐ میں اور اہلیبیتِ موسیٰ ؑمیں فرق ہے اہلیبیت موسیٰ ساتھ تھے وہاں انھیں پتہ نہیں چلا کہ یہ وادی مقدس ہے خدا کو کہنا پڑا "انِّکَ بِالْوٰدِ الْمُقَدَّسِ طُویٰ” لیکن جب اہلیبیت محمد ؐوادیِ مقدس کربلا میں پہنچے ، جیسے ہی زینب کبریٰ ؑنے قدم کربلا میں رکھا تو غش کھا کر گر پڑی جب ہوش میں آیا اور پوچھا تو کہا بھیا حسینؑ اس خاک سے آپ کے خون کی بو آ رہی ہے ، بتایا گیا یہ کربلا کی زمین ہے یہیں ہمارے خیمے لگیں گے یہیں ہمارے جوان قتل ہونگے ،ہمارے بچے ذبح ہونگے ،یہیں اہلبیتؑ کی چادریں لوٹ لی جائے گی۔
اجرکم علیٰ اللّٰہ
آج ہم نے پرسہ دینا ہے زینب کبریٰ کو جو اپنے بچوں کو نہ رو سکی،جو اپنے بچوں کو تیار کر رہی ہیں ،عون و محمد کو تیار کر رہی ہیں یہ کہہ کر کہ تم جعفر کے پوتے ہو تم جعفر طیار کی شجاعت کا مظاہر دیکھانا ،تم حیدر کرار کے نواسے ہو چھوٹے ہوئے تو کیا ہوا کل کسی سے پیچھے نہیں رہنا۔
روایات کہتی ہیں یہ بچےاتنے چھوٹے تھے کہ زرہ بھی ان کے جسم پر پوری نہیں آئی تھی۔زینب ؑنے بچوں کو تیار کیا ،امام ؑ سے اذ نِ جہاد لے کر آئے ،ایک ماموں اپنے بھانجوں کو یوں مرنے کی اجازت کیسے دے سکتا تھا بالآخر وہ وقت آیا جب آپ نے اجاذت دی ،امانت کا صندوق کھولا ،عمامہ جعفر طیار اور عمامہ حیدر کرار عون و محمد پر باندھا گیا۔یہ دادِ شجاعت دینے میدان میں گئےجب وہ وقت آیا کہ انہوں نے حسینؑ کو پکارا جب یہ شہید ہوئے یہاں سے حسینؑ اور عباس ؑ گئے ایک بچے کو عباس ؑ نے اُٹھایا ایک بچے کو حسین ؑنے اُٹھایا اور وہ زینب کبریٰؑ جو علی اکبر ؑکی شہادت پر خیمے سے نکلی تھی ،جب بھی کوئی شھید آتا زینب آگے بڑھ کر استقبال کرتی تھیں لیکن جب عون و محمدؑ کو لایا گیا تو زینبؑ کہیں نظر نہیں آ رہی پوچھا : بچوں کی ماں کہاں ہے جب ڈھونڈا ،پشتِ خیمہ سر سجدے میں ہے ،خدایا میری اس قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمانا۔ان چھوٹے چھوٹے پھول جیسے بچوں کو ایک طرف عون کو لِٹایا اور ایک طرف محمد کو لٹایا درمیان میں ماں ہے کبھی عون کو دیکھتے ہیں کبھی محمد کو دیکھتے ہیں کبھی اپنا رخسار محمد کے جسد پر کبھی عون کے جسد پر۔۔۔
میں نے آپ کی زحمت تمام کردی ہیں ،بس یہ قافلہ چلا، کیسے چلا آپ جانتے ہیں جب یہ بازاروں میں سے گزرتا تھا، جب رش ہوتا تھا تو شھداء کے سروں کو لایا جاتا تھا تاکہ بیبیوں کو زیادہ اذیت دی جائے ہر بی بی اپنے اپنے سروں پہ نوحہ کرتی تھی یہ دو پھول سے سر آتے ہیں ان پر رونے والا کوئی نہ ہوتا۔۔۔۔اجرکم علی اللہ خدا آپ کا گریا قبول کرے۔ پرسہ ثانیِ زھرا ء تک پہنچ جائے۔
کوفہ والے پوچھتے ہیں ان پھول سے بچوں کی ماں مر گئی ہے کیا ؟ لیکن زینب اگر اپنے بچوں کو روئے تو رباب کو کون پرسہ دے ، زینب اگر اپنے بچوں کو روئے لیلیٰ کو کون سنبھالے۔
زندان شام میں جب سر آنا شروع ہوئے ،ایک ایک سر آتا لوگ ماتم کرتے ،جب یہ دو سر آئے ان کو لینے والا کوئی نہ تھا، زینب سرِ حسین پر بین کرتی رہی واپس کربلا تشریف لائی سب اپنے اپنے شہیدوں پر روئے ان دو شہیدوں پر کوئی رونے والا نہ تھا ،واپس مدینہ پہنچتی ہیں نانا کی قبر جاتی ہیں حسینؑ پر گریہ کرتی ہیں مادر کی قبر پہ جاتی ہیں حسین ؑپہ گریہ کرتی ہیں ۔ماں ہی اس غم کو سمجھ سکتی ہے اس کیفیت کو ہم مرد نہیں سمجھ سکتے اگر کوئی رو سکے تو اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے اس قلب زینب پر کیا گزری ہوگی اپنے بچوں پر نہ کربلا میں روئی نہ شام میں روئی نہ مدینہ میں روئی ،قافلے کو گھروں میں پہنچانے کے بعد جب اپنے گھر آتی ہیں ،جب خالی صحن دیکھا ہوگا ،جب چھوٹے چھوٹے بستر دیکھے ہونگے۔۔۔
اَلاٰلعنة اللہ علی القوم الظالمین

﴿ مجلس پنجم ﴾
مصائب جناب حبیب ابن مظاہر ؑ
خدا آپ کو زیارت کربلا نصیب فرمائے اس سال نصیب فرمائے باربارنصیب فرمائے اور ہر سال نصیب فرمائے ۔ جو لوگ کربلا گئے ہیں یا ان شاء اللہ جائینگے جب آپ حرم امام حسین علیہ السلا م میں داخل ہوتے ہیں تو ضریح اباعبداللہ ؑ سے پہلے دروازے پر حبیب ابن مظاہر آپ کا استقبال کرتے ہیں اور جو اہل معرفت ہیں وہ جاتے ہوئے بھی حبیب کے پاس جاتے ہیں اور نکلتے ہوئے بھی حبیب کے پاس سے ہی نکلتے ہیں ان کو بہت وقت نہیں لگتا آتے جاتے چلتے چلتے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے ایک بزرگ ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی جاتا ہوں میں حبیب سے مانگتاہوں مجھے حیا آتی ہے شرم آتی ہے کہ امام حسینؑ سے جا کے کچھ مانگو ں کہ جس نے اپنا سب کچھ ہمارے لئے لٹادیا ہے جس نے علی اصغر ؑ دیا علی اکبرؑ دیا اب اس سے جاکے مزید مانگوں ۔
میرا یہ تجربہ ہے وہاں اس ضریح کو تھامنے کے بعد انسان سب درد بھول جاتاہے اسے کچھ یاد نہیں رہتا ان سے کیا مانگوں اتنا اطمئنان سکون سب کچھ مل جاتا ہے خود بخود مل جاتا ہے میں مریض آدمی ہوں مجھے ضریح پر کبھی یاد نہیں رہا کہ میں مریض ہوں شفا مانگوں ۔ جب آپ واپس آتے ہیں نا حبیب کےپاس پھر یاد آتا ہے حبیب کو کہہ کے آجائے حبیب وہاں اسی لئے ہیں حبیب کو کہہ آئے کہ مولا سے کہہ دینا میں مریض رہتا ہوں مولا سے کہہ دینا میں میں دوبارہ آنا چاہتا ہوں مولا سے یہ منظوری لے لینا۔
ایک شخص نے حبیب کو خواب میں دیکھا حبیب خواب میں آئے اس نے حبیب سے کہا کہ میں جب حرم میں آتا ہوں آپ کی زیارت کرتا ہوں آپ سے ملاقات کرتا ہوں آپ سے درخواست کرتا ہوں اصحاب کو میں نے خواب میں دیکھ بھی لیا کہ آپ کتنے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے رسول خداؐکو درک کیا ہیں آپ نے امیرالمومنین کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں آپ نے جناب فاطمہ الزہراؑ سے حدیثیں سنی ہیں آپ امام حسن مجتبیؑ کے ساتھ رہے ہیں آپ شہداء کربلاؑ میں ہیں کوئی حسرت دل میں نہیں رہی ہوگی سب کچھ آپ کو مل گیا ہے حبیب نے کہا نہیں ابھی ایک حسرت میرے دل میں باقی ہے، حبیب آپ کے دل میں کونسی حسرت ہے؟ میرے دل میں ایک حسرت یہ ہے کہ میں حسین ؑ کا عزادار نہیں ہوں مجھے حسینؑ پر رونے کا موقع نہیں ملا ۔ ہم عرض کرتے ہیں حبیب ہم ہر سال آپ کو یاد کرتے ہیں آپ ہماری نیابت میں مولا کو سلام کہیئے ہم آپ کی نیابت میں گریہ کریں گے۔
پتہ ہے حبیب نے پہلا گریہ کب کیا ؟ جب مولا ؑ کا خط دیکھا ” من حسین ابن علی الی فقیہ حبیب ابن مظاہر”
حسینؑ جسے فقیہ کہے وہ در حسین ؑ پر ہی رہے گا وہ در حسینؑ پر فقیہ ہی رہے گاجب نامہ دیکھا خط دیکھا بیٹے سے کہا تم جاؤ بیوی سے کہا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں میرے لئے شاید حسین ؑ کی نصرت ممکن نہ ہو زوجہ مؤمنہ تھیں چادر سر پر رکھی اور کہا اگر تم نہیں جاتے تو حسین ؑ کی مدد کو میں جاؤں گی، خدا اس مؤمنہ کو جزائے خیر عنایت عطا فرمائے مختصر کہہ دوں حالات ایسے تھے غلام کو پہلے بھیجنا پڑاخود جب پہنچنے میں دیر ہوگئی لگتا ہے کہ گھوڑا بھی کربلا جانے کے لئے بے تاب ہو رہا تھا غلام گھوڑے سے کہتا ہے کہ اگر میرے آقا نہ آئے تو فکر نہ کرے میں خود حسینؑ کی نصرت کو جاؤں گا جب حبیب نے یہ کلام سنا تو کہا” اللہ مصیبت حسینؑ ، میرا حسین ؑ کتنا غریب ہوگیا ہے یہ غلام بھی اپنے آقاپر ۔۔۔اجرکم علی اللہ
حبیب جب کربلا پہنچتے ہیں حبیب کے پہنچنے کی خصوصیت یہ تھی کہ حبیب پہنچنے سے زینب کبریٰ ؑ شاد ہوجاتی ہیں زینب کبریٰ کو طاقت ملتی ہے حبیب جب آئے جناب فضہ نے پردہ ہٹایااور کہا حبیب تمہیں شہزادی سلام کہتی ہیں حبیب غش کھا کر گر گئے میری شہزادی پر یہ دن آگئے کہ غلاموں کو سلام دے۔۔۔ اجرکم علی اللہ
خداآپ کو کسی غم میں نہ رلائے خدا آپ کے اس گریہ کو قبول فرمائے آپ حبیب کی نیابت میں گریہ کر ر ہے ہیں حبیب! ہم التماس کرتے ہیں مولا کو ہمارا سلام دے دیں آپ کا یہ گریہ کےساتھ سلام حبیب ان شاء اللہ مولا تک پہنچائیں گےعمر زیادہ تھی ریش سفید تھی لیکن یہ رجز پڑھتے ہوئے گئے مجھے بوڑھا نہ سمجھنا میں حسین ؑ کے چہرے کی زیارت کر کے آیا ہوں اور وہ وقت بھی آگیا جب حبیب نے سلامِ آخر دے دیا حسین ؑ حبیب کے لاشے پر پہنچے حبیب کا لاشہ اٹھانا چاہا ، دوست کا لاشہ اٹھانا بڑا سخت ہوتا ہے تنہا حسینؑ سے حبیب کا لاشہ نہ اٹھ سکی عباس نے ساتھ دیا عرض کروں گا مولاجب عباس کنارہ علقمہ سو جاتے ہیں۔۔اجرکم علی اللہ
پس میں نے آپ کی زحمت تمام کردی، یہ کارواں چلا سروں کو نوک نیزہ پہ بلند کیا حبیب کا سر بھی ایک نیزہ پر تھا حبیب کا بیٹا قاسم آتا ہے خولی سے کہتا ہے جتنا مال چاہئے لے لو جو انعام چاہئیے مجھ سے لے لو میرے بابا کا سر مجھے دے دو جب اس نے نہ دیا کوفے سے یہ کارواں کچھ آگے ہی نکلا تھا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ آیا اس نے حملہ کر کے اپنے بابا کا سر چھینااور یہ کہتے ہوئے گزراجس باپ کا بیٹا زندہ ہو زین العابدین ؑ نے ہاتھ سینے پر رکھا بابا کو دیکھا بابا کہتا تو سچ ہے لیکن میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے ۔
و سیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون

﴿ مصائب جنابِ حضرت علی اصغرؑ ﴾
کربلا میں امام حسین ؑجب تنہا رہ گئے اورآپ نے دستاویز شہادت کو تیار کر لی جتنی شہادتیں تھیں ان تمام شہادتوں کو بارگاہ خدا میں پیش کر دیا ۔جب آپ دستاویز مکمل کرتے ہیں تو اس کی آخر میں چھوٹی سی مہر لگاتے ہیں تا کہ پتا چلے یہ دستاویز اصلی ہے ۔اب خیمے کی طرف جارہے ہیں حسین ؑاپنے اس مہر کو لینے کے لئے کہ دستاویز شہادت پر ننھی سی مہر بھی لگ سکے ۔یا یوں کہو جب حسینؑ نے گلدستہ شہادت کو سجا لیا اس میں شہید قاسم،علی اکبر ،عباس،عون،محمد یہ تمام گلدستوں میں پھول سجا لئے تو اس گلدستے کی اصل زینت کلی سے ہوتی ہے اس کلی سے جو ابھی کھلی نہ ہو ۔جا کر زینب سے اُس کلی کو طلب کیا اس پھول کو طلب کیا جو ابھی کھلا بھی نہیں ہے ۔مقتل میں ہے کہ جا کر بہن سے مانگا کہ علی اصغر مجھے دے دو ۔میرا دل کہتا ہے شاید اصغر کو اب رباب دیکھ نہیں سکتی تھی۔جو تین دن کا پیاسا ہو ،بھوکا ہو بچہ جب ماں کو دیکھے تو بچہ مزید تڑپ کر پانی مانگتا ہے ۔امام حسینؑ نے علی اصغؑر کو ایسے لیا اپنی عبا میں چھپا یا کہ دشمن نے کہا کہ حسینؑ قرآن لے کر آرہے ہیں۔حسین ؑاپنی اس حجت کو لے کر دشمن کے سامنے گئے اور کہا اے حجت خدا کے بیٹے ذرا دشمن پر اپنی حجت تمام کر ۔اصغرؑ نے اپنی خشک کانٹے دار زبان اپنی خشک ہونٹوں پر جب پھیری ۔دشمن میں کہرام مچ گیا اور ایک لعین نے صدا دی اِقطع کلام الحسین ؑ۔حرملا نے تیر سہ شعبہ جوڑا۔
تیرِ سہ شعبہ کیا ہوتا ہے یہ میں بیان نہ کر سکوں گا جب مختار نے حرملا کو گرفتار کیا اور اس سے پوچھا اے لعین بتا تو نے کربلا میں کیا ظلم کیا ؟ کہا میں نے کربلا میں تین تیر ِسہ شعبہ چلائے ۔کہا پہلا تیر سہ شعبہ کس پر چلایا؟ کہا پہلا تیر سہ شعبہ میں نے عباس علمدارؑ پہ چلایا جب وہ تیر عباس ؑکے آنکھ میں چبا تو عباس ؑگھوڑے پر سنبھل نہ سکے ۔اور وہ عباسؑ جس کے بازو نہ تھے وہ زمین کربلا پر آیا ۔اجرکم علیٰ اللہ
مختار نے پوچھا تو نے دوسرا تیر سہ شعبہ کس پر چلایا ؟ اس نے کہا ایک وقت ایسا بھی آیا کربلا میں جب حسینؑ جہاد کر کے تھگ گئے بلکل زخموں سے نڈھال ہوگئے ۔ہزاروں زخم جسم نازنین حسین ؑپر آچکے تھے۔ آپ ؑایک جگہ تشریف فرما ہوئے ایک پتھر حسینؑ پر لگا حسین ؑنے اپنی قمیص کو اوپر کیا سینہ مبارک نمودار ہوا میں نے تیر سہ شعبہ ایسے جوڑا اس تیر نے سینہ حسین کے بوسے لئے۔
اجرکم علیٰ اللہ
نہ جانے مختار کتنا تڑپا ہو گا۔ مختار نے پھر پوچھا اے لعین تو نے تیسرا تیرسہ شعبہ کس پر چلایا ۔وہ نہ بولتا تھا کہا تجھے تو سزا مل کے رہے گی۔ پھر اس نے کہا آخری تیر مجھے حکم ہوا میں نے علی اصغرؑ کی ننھی سی گردن میں قصد کیا ۔تیر سہ شعبہ جو گھوڑے کی گردن توڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہے میں نے تیر چھوڑا ، دستِ حسین ؑمیں اصغر مرغ بسمل کی طرح تڑپ گیا اجرکم علیٰ اللہ۔
خدا آپ کا گریا قبول کرےحسینؑ کتنا مظلوم ہیں خدا جانے یا مولا حسین ؑجانے،اکبر ؑکے سینے سے برچھی کا نکالنا زیادہ مشکل تھا یا اصغرؑ کے ننھے گردن سے تیر کا نکالنا زیادہ مشکل تھا۔اصغر ؑکے ناحق خون کو اپنے محاسن پر ملتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ! یا رسول اللہ ؐقیامت کے دن میں اسی حالت میں آپ کے حضور میں آؤں گا ۔اجرکم علیٰ اللہ کتنا سخت تھا حسین ؑکے لئے کہ اس لاش کولے کر واپس خیام میں آئے ۔آپ جانتے ہے نا اگر کسی کے ہاں کوئی فوتگی ہو جائے ،اگر کوئی بچہ مر جائے تو والدین بچے کو نہیں اٹھاتے رشتہ دار آجاتے ہیں وہی کوئی اٹھاتا ہے جنازے کو لےکر جاتے ہیں ۔ حسین ؑاب تنہا رہ گیا ہے ۔جب عباسؑ کنارہ علقمہ جاکر سو چکا ،جب اکبرؑ بھی حسینؑ کی آنکھوں کو اندھیرا کر چکا اس لاش کو لے کر سات مرتبہ آگے بڑھتے ہیں اور سات مرتبہ پیچھے آتے ہیں۔ خیام میں نہیں جا سکے۔ پشتِ خیمہ آتے ہیں اپنی تلوار سے ایک ننھی سی قبر کھودی اصغرؑ کو رکھا نماز کے لئے کھڑے ہوئے اللہ اکبر ، اے خدا میں نے اکبرؑ کو قربان کر دیا۔’انتَ اکبر” میں نے اصغر کی قربانی دے دی ۔”انتَ اکبر” اب یہ فرش عزا نہیں یہ عرش خدا ہے ۔اجرکم علیٰ اللہ
نہ جانے امام واپس کیسے آئے ۔امام ؑجب خیموں میں آئے تو رباب نے آکر پوچھا کہ میرے اصغر ؑ کو پانی پلا دیا ؟ لیکن جب نظر محا سن پر پڑی خون اصغرؑ امام ؑکے چہرے پر امامؑ کے سینے پر امام ؑنے مصائب اصغر ؑپڑھنا شروع کیے رباب نے جب اصغرؑ کے مصا ئب سنے تو کہا بُنَیَّ مثلُکَ یُنحر میرے ننھے اصغرؑ کیا تجھ جیسے کو نحر کیا جاتا ہے ۔بس آخری جملہ خدا آپ کو برداشت کرنے کی طاقت دے میں بیان نہیں کروں گا بس حسین ؑ کی ایک تمنا تھی حسین ؑنے عمل ایسا کیا کہ لاش اصغر کو اعداء کے ہاتھ نہ لگے ۔اب رباب کا سن لیجئے آپ سمجھ جائنگے جب لعینوں نے لاش اصغرؑ کو نکالا ،نوکِ نیزا پر بلند کیا رباب پکاری مظلوم حسین ؑآپ کی آخری خواہش۔۔۔
وسیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون

﴿ مصائب جناب شہزادہ قاسم ﴾
اے علی علیہ سلام تیرے صبر کو سلام۔ تو بھی صابر ہیں۔ تیرے بیٹے بھی صابر ہے ۔ تو نے اپنے نہج البلاغہ میں یتیموں کے بارے میں ہمیں بہت کچھ کہا ہے۔ ہم سے کہا امیرالمؤمنین نے خبردار تمہارے ہوتے ہوئے یتیموں کے چہرے بھوک سے بکھر نہ جائے ۔ ایتام کا خیال رکھنا۔ اور آپ یتیموں کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ جب حکیم نے کہا کہ علی کو دودھ چاہیے تو کوفہ کے سارے ایتام کاسا لئےشیر لے آئے علی کے گھر کے باہر حاضر ہو گئے۔ لیکن اس امت نے علی کے یتیموں کے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔ آج میں نے حسین علیہ سلام کے یتیم بھتیجا کے مصائب پرھنا ہے۔ خدا آپ کو سنّے کی طاقت دے۔ خدا آپ کو اس گریے کی اجر دے۔حسین کے دادا نے بھی ایک یتیم پالا تھا اور ایک یتیم حسین نے بھی پالا ۔حسین کے دادا نے جس یتیم کو پالا وہ جوان ہوا، اس کی شادی ہوئی۔ اس کو رسالت ملی اور اولاد ہوئی۔ لیکن جس بھتیجے کو حسین نے پالا تھا وہ بار بار آ کر موت کی اجازت لے رہا ہے ۔جب امام حسن مجتیٰ کو زہر دے دیا گیا اور جگر کے ٹکرے کٹ کٹ کر طشت میں آرہے تھے۔ اور امام حسین نے گریہ شروع کیا تو امام حسن نے فرمایا کہ آپ کیوں گریہ کرتے ہیں۔ لا یَوّمَکَ کیَوّمِکَ یَا اَبَا عَبّداللّٰہ آپ کے دن کی طرح کا کوئی دن نہیں ہوگا۔ میرے پاس تو آپ موجود ہیں میں اپنے گھر میں ہوں۔ پھر فرمایا اس طشت کو ہٹا لو میری بہن زینب کو بلاؤ۔ زینب برداشت نہ کر سکے گی۔ کہ حسن کے جگر کے ٹکرے کٹ کٹ کر طشت میں آ رہے تھے۔ جب زینب آئی قاسم کو بلایا اور ننّے سے قاسم کو دو تین سالہ قاسم کو بُلا کر قاسم کے ہاتھ پر ایک تعویز باندھی۔ اے عزادارو تعویز حیات کے لیے ہوتی ہے۔ امام قاسم کے ہاتھوں موت کی تعویز باندھ رہی ہے۔ اَج٘رُکُم٘ عَلیٰ اَللّٰہ۔قاسم کربلا میں آئے۔ کربلا میں شبِ عاشور دستاویزِ شہادت سنائی گئی۔ایک ایک شہید کا نام سنایا گیا۔جب چچا خاموش ہوا تو شہزادہ قاسم بول پڑا ،چچا میرا نام شہیدوں میں کیوں نہیں ہے۔ میرا نام کیوں شہیدوں میں نہیں ہے۔ بیٹھ کر گریہ شروع کیا ۔ہاتھ جب تعویز پر آیا، تعویز کھول کر دیکھا تو خط تھا بھائی حسین کے نام۔اے حسین کربلا میں تیری نصرت کو نہ پہنچ پاؤنگا ۔میرے قاسم کی قربانی کو قبول کر لینا۔قاسم خوشی خوشی اس تعویز کو لے کر امام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔قاسم وہ دستاویز اور تھی تیرا نام بھی شہیدوں میں ہے ۔اصغر کا نام بھی شہیدوں میں ہے۔ایک دفعہ قاسم کو جلال آیا۔ اور پوچھا حَلّ یَصِیلونَ الّا لخِیام۔کیا اعدا خیام میں آ جائینگے ۔اب مولا کیا بتائے جب یہ لعین حملہ کرینگے اور بیویاں ایک خیمے سے دوسرے خیمے دوسرے خیمے سے تیسرے۔اَجّرُ کُمّ علیٰ اللّٰہ ۔قاسم کو اجازت ملتی ہے۔عمامہِ رسول سر پر رکھتے ہیں ۔اور جب جنگ کے لیے جانا چاہتے ہیں تو حسین ایک دفعہ پھر بلاتے ہیں عمامہ کے دونوں سِروں کو سینہِ قاسم پر سجاتے ہیں اور پھر اجازت دینے کے بعد قاسم کے ساتھ ساتھ چلتے ہے ایک دفعہ پھر قاسم کو گھوڑے سے اتار کر سینے سے لگا کر دونوں اتنا گریہ کرتے ہیں اتنا گریہ کرتے ہیں ، مقتل کے لفاظ ہیں یہاں تک کی دونوں بیہوش ہو گئے۔ خدا آپ کو کسی غم میں نہ رلائے۔ بس میں نے آپ کی زحمت تمام کی،قاسم جس شان سے گئے شجاعت حسینی کا مظاہرہ کیا،کمسن بچہ تھا اور اعدا ءپر اسی طرح حملہ کیا ،جس طرح حمزہ نے حملہ کیا تھا ۔چھپ کر ایسا وار کیا، پسلیِ قاسم میں نیزہ پیوست ہوا۔اپنی دادی کا پہلو یاد آگیا۔قاسم زمین کربلا پر آئے اپنے مولا کو پکارا۔اے چچا قاسم کی مدد کو آئے۔اب جب حسین عقاب کی مانند لاش قاسم پر پہنچے اشقیاِ کی فوج گھبرا گئی۔ اِدھر کی فوج اُدھر ہو گئی اُدھر کی فوج ادھر ہو گئی۔اور قاسم کی ایک مصیبت ایسی ہے جس میں قاسم نے حسین کا ساتھ دیا ہے۔بس میں قاسم کو اٹھایا کہوں گا۔ایک چھوٹا بچہ جو نوجوان تھا اُس کو جب حسین نے جب سینے سے لگایا تو دونوں پاؤں زمین کربلا پر خط کھینچ رہےتھے۔قاسم کو ایک طرف لٹایا۔اکبر کو ایک طرف لٹایا اور درمیان میں حسین مظلوم ہے۔دونوں بیٹوں کو شاباش دے رہے ہیں ۔ایک مصیبت ایسی ہے جس میں قاسم نے زہراء کا ساتھ دیا ہے ۔جب قاسم پر وار ہُوا قاسم گھوڑے پر سنبھل نہ سکے ۔اپنے منہ کے بل زمین کربلا پر گری ۔یہ پہلا شخص نہیں اہلبیت کا ۔پہلے مدینے میں بھی جب آگ لے کر آئے تو دروازہ جلنا شروع ہوا۔بيوی کہتی ہے جب دروازے پر لات لگی تو میں منہ کے بل زمین مدینہ پر گری اور ایک مصیبت جس میں قاسم نے حسین کا ساتھ دیا ۔ایک قاسم کا لاش پامال ہوا۔ایک حسین ابن علی کا لاش پامال ہوا۔بس اتنا فرق ہے جب حسین کا لاش پامال ہو رہا تھا جب حسین میں جان نہیں تھی لیکن قاسم ابھی زندہ تھا۔
سیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون

﴿ مصائب امام حسین علیہ السلام ﴾
(روزِ عاشورہ)
انا لِلّٰہِ و انا الیہ راجعون ،انا لِلّٰہِ و انا الیہ راجعون
عزادارو آج عاشورہ ہے آج رسولِ خدا ؐ کے سر پر عمامہ نہیں رسولِ خداؐ کے بال پریشان ہے اُمِّ سلمہ نے پوچھا: یا رسول اللہؐ آپؐ کو کبھی اس ھیئت میں نہیں دیکھا تھا۔
فرمایا:ام سلمہ آج عاشورہ ہے میرا حسین مارا گیا۔اجرکم علی اللہ
جانتا ہوں آپ نے بہت گریہ کیا سارا عشرہ گریہ کیا آج سارا دن گریہ کیا آج آپ فاقے سے بھی ہیں آج آپ نے پانی بھی نہیں پیا لیکن ابھی آپ کے لئے پانی کا انتظام ہے۔ صاحبِ عزاء امامِ زمان ؑآپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں سلامُ اللہ علی الباکین” امام زمانہ ارشاد فرما رہے ہیں ان رونے والوں پر خدا کا سلام! اجرکم علی اللہ
خدا آپ سب کو اربعین پر قبّہِ امام حسین ؑکے نیچے زیارتِ اربعین نصیب فرمائے عاشورہ ہے میرے سینے میں دم نہیں نہ آپ میں برداشت ہیں انتہائی مختصر ؛ بس وہ وقت آگیا جب حسین ؑنے دائیں دیکھا بائیں دیکھا جب کوئی نہ رہا تو کہا یا مسلم یا عباس یا علی اکبر میرے شیرو! حسین تنہا رہ گیا تمہیں کیا ہو گیا حسین تمہیں پکار رہے ہیں۔۔۔ تم جواب کیوں نہیں دیتے۔
مجھ سے بیان نہ ہو سکے گا اگر حکم نہ ہوتا کہ عاشورہ کے دن میرے وداع کو ضرور پڑھنا، میں کیسے کہوں حسین ؑ لہو لہان ہیں پورے جسم میں خون ہے اور حسین ؑ خیمہ میں تشریف لے کر جاتے ہیں امانتِ امامت سپرد کرتے ہیں جب مولاؑ نے آنکھیں کھولیں تو پوچھا بابا! آپ کا یہ حال کیسے ہوا۔ زین العابدینؑ نے پکارا پھوپھی اماں میری عصا دیجئے مجھے تلوار دے دیجیے اجرکم علی اللہ خدا آپ کو جزائے خیر دے خدا آپ کا پرسہ قبول کرے۔
حسین بیبیوں سے رخصت کے لئے تشریف لاتے ہیں "یا زینب یا ام کلثوم یا لیلی یا سکینہ علیکن َّ منی السلام” حسین کا آخری سلام، بیبیوں نے حسین کو گھیر لیا آپ ؑ ہمیں کس کے آسرے پر چھوڑ کر جارہے ہیں صبح سے جو گیا واپس نہیں آیا اجرکم علی اللہ،،حسین اؑیسے نکلتے ہیں جیسے پرے گھر سے جنازہ نکلتا ہے حسینؑ نے اجازت لی ذولجناح پر سوار ہوئے حرکت کرنا چاہتے ہیں ذولجناح نہیں چلتا ارشاد فرماتے ہیں اے عزمِ باوفا یہ تجھے آخری زحمت ہے مجھے مقتل تک لے جا واپس لانا نہیں پڑے گا لیکن ذولجناح حرکت نہیں کرتا آنکھوں کے اشارہ سے زمین کربلا کی طرف اشارہ کرتاہے حسینؑ نے جب دیکھا سکینہ سموں سے لپٹی ہوئی ہے بابا ہمیں چھوڑ کے نہ جائیے مجھ میں بھی دم نہیں حسین ؑروانہ ہوئے سکینہ نے بھی اجازت دے دی اجازتِ سکینہ کا مطلب جانتے ہو! بابا سکینہ یتیمی کے لئے تیار ہو گئی سکینہ کے رخسار طمانچوں کے لئے تیار ہو گئے۔ حسین سوئے مقتل چلے سب کو چھوڑ کر، دنیا و مافیہا کو چھوڑ کر خدا کی جانب بڑھے پیچھے سے ایک نحیف آواز آتی ہے "مھلا مھلا یابن الزھراء” بھیا حسین ماں زھراء کا واسطہ رک جا ! اماں کا واسطہ سنا حسین رک گئے پوچھا زینب کیا بات ہے کہا اماں کی آخری وصیت پوری کرنی ہے حسین نے بٹن کھولے زینب نے گلوئے حسین کے بوسہ لینا شروع کئے کہا ماں نے کہا تھا جب حسین آخری سفر میں جائے تو میری نیابت میں حسین کے گلے کے بوسے لینا نیابتِ زھراء میں زینب نے حسین کے گلے کے بوسے لئے۔ مومنو! یہ بات یاد رکھنا زینب نے حسین کے گلے کے بوسے لئے حسین نے فرمایا زینب آستینیں ذرا اوپر چڑھانا علی کی وصیت پوری کرنی ہے علی کی نیابت میں علی کا شیر دل بیٹا زینب کے کلائیوں کے بوسے لیتا ہے۔ بہن! بابا نے کہا تھا آخری سفر جب ہو میری بیٹی کے کلائیوں کے بوسے لینا ان کلائیوں کو رسن میں باندھا جائے گا ان پر تازیانے برسائے جائیں گے۔ اجرکم علی اللہ
حسینؑ تشریف لے کر گئے آپ بھی برداشت نہیں کر پا رہے میرے سینے میں بھی دم نہیں ہے خدا آپ کو جزائے خیر دے خدا آپ کے گریہ کو قبول کرے۔ امامِ جعفر صادق ان آوازوں کو سن کردعا دیتے ہیں "اللہم ارحم تلک الصرخۃ التی لنا ” ہمارے لئے بلند ہونے والی ان آوازوں پر خدا رحمت کرے ۔
امام ؑگئے امام ؑنے جہاد کیا لہو لہاں ہو گئے اکیلا زھراء کا لال بچ گیا ہے لشکراعداء نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے جب حملہ کرتا ہے لشکر پسپا ہو جاتا ہے لیکن لعین چھپ کر پیچھے سے خیام کا رخ کرتے ہیں حسینؑ کو واپس آنا پڑتا ہے حسینؑ وہ مظلوم ہیں جس نے جہاد بھی کیا جس نے خیموں کا دفاع بھی کیا جہاد کرتا دشمن کی طرف آجاتے خیموں کے دفاع کے لئے آواز بلند کرتا ھل من ذاب یذب عن حرم ِ اللہ
حسینؑ واپس تشریف لاتے ہیں سانس لے لیجئے زیادہ رونا آپ کی بس میں نہیں ہے یہ زین العابدینؑ ہیں جو پینتیس سال روئے ہیں ہمارے سینوں میں اتنا دم نہیں ہے حسینؑ واپس آئے زینب نے کس طرح حسین کو دیکھا ہوگا امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں میرے بابا کے جسد میں ایک انگوٹھی کی نگین کے برابر بھی کوئی سالم جگہ نہیں بچی تھی نہ جانے کس طرح زینب نے حسین کو دیکھا فرمایا بھیا ! کیوں واپس آئے ، کہا : ایک پھٹا پرانا کپڑا دے دو ایسا لباس دے دو جو کوئی نہ لینا چاہئے جب لباس آیا تو لباس کو پھاڑنا شروع کیا ، کوئی قلبِ زینب سے پوچھے کس طرح اس منظر کو زینب نے برداشت کیا میں عرض کروں گا مولا ابھی اتنی تیر لگنی ہیں ابھی اتنے نیزے لگنے ہیں ابھی اتنی تلواریں لگنی ہیں آپ کو یہ پیراھن پارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اجرکم علی اللہ بس مختصرکیا حسین ؑگئے چاروں طرف سے جس طرح عباس ؑکو گھیرلیا تھا جس طرح علی اکبرؑ کو گھیر لیا تھا اس طرح حسین کوچاروں طرف سے گھیر لیا اور نہ فقط تلواروں سے، نیزوں سے، تیروں سے، جس کے ہاتھ میں پتھر آیا اس نے حسین پر پتھر مارے پس حسین نڈھال ہوگئے گھوڑے کو اشارہ کیا گودان قتل گاہ میں لے جا۔
خدا جانے حسین جانے کیوں گودان میں گئے شاید چاہتے تھے زینب نہ دیکھے یہ وقت آخر بہن کی آنکھوں سے پنہاں رہے
امام صادق فرماتے ہیں گودان قتل گاہ میں حسینؑ نے ایک نیزہ نصب کیا اس نیزے کا سہارا لے کر ذولجناح پر کچھ دیر کے لئے آرام کیا ابن زیاد ملعون بولا اگر حسین نے آرام کر لیا تو تم میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا حملہ کر دو چاروں طرف سے حملہ ہوا ایک پتھر جبین حسین پر لگا خون آنکھوں میں اترا حسین نے قمیص کو پلٹا قلب حسین منکشف ہوا حرملہ نے تیرِ سہ شعبہ چلایا ” فوقع سھم زاد ثالث شعب علی قلب حسین ” اجرکم علی اللہ تیرِ سہ شعبہ گھوڑے کے گردن توڑنے کے لئے استعمال ہوتا ہے قلب حسین میں پیوست ہوا پشت سے نکلا حسین نے خدا کا نام لیا علیؑ کو پکارا پشت سے تیر کو نکالا خون کا فوارہ جاری ہوا زمین کربلا خونِ حسین سے سیراب ہوئی۔
کیسے کہوں اب حسین ؑذولجناح پر سنبھل نہیں سکتے ذولجناح سے زمین پر کیسے آئے میں کیسے کہوں وہ عباسؑ جس کے شانے کٹ گئے تھے وہ کیسے زمین پہ آیا، وہ مولا جس کے جسم پر ہزاروں تیر پیوست ہو وہ کیسے زمینِ کربلا پر آیا ہوگا امام زمان ؑاس منظر کو یوں بیان کرتے ہیں میر سلام اس غریب پر جو نہ زینِ عرش پر تھا نہ زمینِ کربلا پر تھا اس لئے جب حسین گرے جس کے پاس نیزہ تھا اس نے نیزہ بڑھایا دیا۔۔۔اجرکم علی اللہ
خدا آپ کو بھی ہمت دے خدا مجھے بھی ہمت دے عاشورہ کے دن خدا نے زینب کو بھی ہمت دی خدا مؤمنین کو بھی طاقت دیتا ہے مجھے پتہ ہے برداشت کرنا مشکل ہے۔ جب حسین زمینِ کربلا پر ہیں لشکر میں یہ بات ہوئی کہ حسین ابھی زندہ ہیں یا مر چکے ہیں بزدل ابھی بھی حسین کے نزدیک نہ آتے تھے ۔ شمر نے کہا اگر حسین زندہ ہے یا نہیں جاننا چاہتے ہو خیموں کو آگ لگاؤ جب یہ آواز حسین ؑ نے سنی حسین ؑ تڑپ کر اٹھے جب تک میں زندہ ہوں خیام کی طرف مت جانا باقی لوگوں نے بھی شمر کو روکا جب تک حسین ؑ زندہ تھے لعین خیام کی طرف نہیں گئے لیکن کیسے کہوں حسینؑ نے ایک منظر اور بھی دیکھا جب آگ ،لے کر آئے اور کہا گیا "انّ فیھا فاطمہ ” اس گھر میں فاطمہ ہیں کہنے والے نے کہا "و ان ” ہوا کرے ۔۔۔۔اجرکم علی اللہ
کیسے کہوں کیسے وقت آخر بیان کروں حکم ہوتا ہے حسین ؑ کا سر تن سے جدا کر دیا جائے ابھی حسین ؑزندہ ہے بار بار خیام کی طرف دیکھ رہے ہیں ایک لعین آگے بڑھا سینہِ حسین ؑپر بیٹھا سر تن سے جدا کرنا چاہا نہ کر سکا واپس چلا گیا دوسرا آیا واپس چلا گیا تیسرا آیا واپس چلا گیاکہا کیوں سر قلم نہیں کرتے کہا گیا جب ہم حسینؑ کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں تو ہمیں رسول کی آنکھیں نظر آتی ہیں رسولِ خدا ؐ پکارتے ہیں میرے حسینؑ پر رحم کرو اے کلمہ گو حیا کرو۔
شاید سن سکے شاید میں کہہ سکوں اشارہ کر دوں کہہ نہ سکوں گا پھر وہ لعین آگے بڑھا "الشمر جالس علی صدرہ” شمر سینہِ حسین ؑپر بیٹھا زینب ؑتلہ زینبیہ پر بیٹھ گئی پھر اس ملعون نے ایسی جسارت کہ خاکِ کربلا نے رخسارِ حسینؑ کے بوسہ لینا شروع کئے پشتِ گلو پر خنجر چلنا شروع ہوئے کند خنجر کے وار ہیں میں بیان نہ کر سکوں گا زینب ؑبھی برداشت نہ کر سکی نا محرموں کے مجمع میں آگئی حسین ؑکا مرثیہ شروع کیا سننے کے لئے اپنے نانا کو بلایا "وا محمدا ھذا حسین مقطوع براسِ قفا”۔۔۔۔۔ آپ کی زحمت تمام
ایک حسرت زینبؑ کی دل میں رہ گئی زھراء ؑنے کہا تھا جہاں خنجر چلنا ہے وہاں کا بوسہ لینا زینب ؑنے حسین کؑے گلے کا بوسہ لیا تھا خنجر پشتِ گلا چلا زینبؑ پکاری: اماں تیری آخری حسرت پوری نہ ہوئی جب بدن حسین ؑپر بوسہ گاہ تلاش کرنے بڑھی کوئی بوسہ گاہ نہ ملی کٹی ہوئی رگوں پر لب رکھ دیئے۔
خدا یا تجھے سکینہ کے گالوں کا واسطہ، سکینہ کے رخساروں کا واسطہ، تجھے غربتِ حسینؑ کا واسطہ، تجھے اس سر کا واسطہ جو نوکِ نیزہ پر بلند ہوا ہماری اس عبادت کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرما، خدایا تمام عزاداروں کی حفاظت فرما، خدایا امامِ زمان کؑا ظہور فرما، خدایا منتقمِ خون حسین ؑکا ظہور فرم، خدایا تمام مریضوں کو شفا عطا فرما،خدایا ہم سب کو دنیا میں زیارت حسین ؑاور آخرت میں شفاعتِ حسینؑ نصیب فرما۔۔۔ آمین
اَلاٰلعنۃُاللہ علی القوم الظالمین، وسیعلم الذین ظلمو ایَّ منقلب ینقلبون
انا لِلّٰہ و انّا الیہ راجعون

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button