مصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

امام زین العابدین علیہ السلام اور واقعات شام

ایک بوڑھے شامی کی گستاخی اور پھر توبہ
قال الراوي جاء شيخ، فدنا من نساء الحسين عليه‌السلام وعياله – وهم في ذلك الموضع – وقال: الحمد لله الّذي قتلكم وأهلككم وأراح البلاد من رجالكم وأمكن أمير المؤمنين منكم!!!
ایک عمر رسیدہ شامی جو حقیقت حال سے بلکل نا واقف تھا اور بنی امیہ کے غلط پروپوگنڈے کا شکار تھا ، مخدرات عصمت وطہارت کے قریب آیا اور کہنے لگا:
خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں قتل کیا اور لوگوں کو تمہارے مردوں کے شر سے راحت پہنچائی اور امیر (یزید) کو تم پر فتح و نصرت عطا کی۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے علم امامت سے دیکھے کہ جوہر قابل ہے مگر غلط فہمی کا شکار ہے لہذا چاہا کہ اس کے سامنے چراغ ہدایت روشن کردیں۔
فقال له علي بن الحسين عليهما‌السلام :
يا شيخ، هل قرأت القرآن؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: اے شیخ! کیا تو نے قرآن پڑھا ہے؟
قال نعم
کہا: ہاں!
قال: فهل عرفتَ هذه الآية:
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرً‌ا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْ‌بَىٰ ؟
کیا آیت مودت کو پہچانتے ہو؟
قال الشيخ: قد قرأت ذلك
شیخ نے کہا: ہاں پہچانتا ہوں۔
فقال له عليّ عليه‌السلام :
نحن القربىٰ يا شيخ
فرمایا: وہ قرابتداران رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم ہیں ۔
فهل قرأت في بني إسرائيل وَآتِ ذَا الْقُرْ‌بَىٰ حَقَّهُ ؟
پھر فرمایا اے شیخ کیا تو نے سورہ بنی اسرائیل میں یہ آیت پڑھی ہے کہ ” اے رسول قرابتداروں کو ان کا حق دے دو”
فقال الشيخ: قد قرأت ذلك
شیخ نے کہا: ہاں ضرور پڑھی ہے۔
فقال: فنحن القربىٰ
فرمایا: وہ قرابتدار ہم ہیں ۔
يا شيخ، فهل قرأت هذه الآية وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّ‌سُولِ وَلِذِي الْقُرْ‌بَىٰ ؟
پھر فرمایا اے شیخ! کیا یہ آیت پڑھی ہے جس میں خدا فرماتا ہے کہ” جب تمہیں کسی قسم کی غنیمت حاصل ہو تو اس کا پانچواں حصہ خدا ، رسول اور ذوی القربیٰ کے لئے ہے ۔
قال: نعم
کہا: ہاں پڑھی ہے
فقال عليه‌السلام : فنحن القربىٰ
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ اقرباء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم ہیں۔
يا شيخ، وهل قرأت هذه الآية:
إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا ؟
پھر فرمایا اے شیخ! کیا آیت تطہیر پڑھی ہے؟
قال الشيخ: قد قرأت ذلك
شیخ نے عرض کی ہاں یہ آیت بھی پڑھی ہے
فقال عليه‌السلام : نحن أهل البيت الذين خصّنا الله بآية الطهارة يا شيخ
امام علیہ السلام نے فرمایا اے شیخ ! ہم ہی وہ اہل بیت علیہم السلام ہیں جن کو خدا نے آیت تطہیر کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔
قال الراوي: بقي الشيخ ساكتاً نادماً علىٰ ما تكلّم به، وقال تالله إنكم هم؟
راوی کہتا ہے شامی امام علیہ السلام کا یہ کلام سن کر اپنے گستاخانہ کلام کی وجہ سے بلکل ساکت و صامت ہوگیا ۔
اور تھوڑی دیر بعد بولا: خدا کے لئے سچ بتاو کیا آپ حقیقتا وہی لوگ ہو؟
فقال علي بن الحسين عليهما‌السلام : تالله إنا لنحن هم من غير شكّ، وحقّ جدّنا رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله إنّا لنحن هم
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم بلا شک و ریب ہم ہی وہ لوگ ہیں ۔ اپنے جد نامدار کے حق کے ساتھ ہم ہی وہ لوگ ہیں۔
قال: فبكىٰ الشيخ ورمىٰ عمامته، ثمّ رفع رأسه إلىٰ السماء وقال:
اللّهم إنّي أبرء إليك من عدوّ آل محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله من الجن والإنس
یہ سنتے ہی شامی نے زار و قطار رونا شروع کیا اور عمامہ سر سے اتار کر زمین پر پھینک دیا پھر آسمان کی طرف سر بلند کرکے کہا:
یا اللہ! ہم دشمنان آل محمد علیہم السلام سے بیزار ہیں خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جن میں سے۔
ثم ّ قال: هل لي من توبة؟
امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟
فقال له: نعم، إن تبتَ تاب الله عليك وأنت معنا
امام علیہ السلام نے فرمایا ہاں اگر تم سچے دل سے توبہ کرو تو ضرور خدا تمہاری توبہ قبول فرمائے گا اور تمہارا حشر و نشر ہمارے ساتھ ہوگا ۔
فقال: أنا تائب
یہ مژدہ سن کر شیخ نے دل کی گہرائیوں سے کہا میں تائب ہوں ۔
فبلغ يزيد بن معاوية حديث الشيخ، فأمر به فقتل
جب اس واقعہ کی اطلاع یزید کو ملی تو اس نے اس شیخ کو قتل کرادیا۔
(الملهوف على قتلى الطفوف، ص؛158، سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام: 512)
امام زین العابدین علیہ السلام سے منہال کی ملاقات
قال: وخرج زين العابدين عليه‌السلام يوماً يمشي في أسواق دمشق
منہال بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا جب وہ شام کے بازار سے گزر رہے تھے ۔ اس وقت آپ کی حالت یہ تھی کہ عصا پر ٹیک لگا کر چل رہے تھے، سرکنڈے کی طرح ٹانگیں کمزور تھیں ۔ پنڈلیوں سے خون جاری تھا۔ رنگت میں صفرت ( زردی) کا غلبہ تھا ۔ یہ حالت دیکھا کر میرے آنسو ڈبڈبا آئے اور عرض کیا
فاستقبله المنهال بن عمرو، فقال: كيف أمسيتَ يا بن رسول الله؟
فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم! آپ نے کس حال میں صبح کی ہے؟ میرا سوال سن کر امام علیہ السلام رو پڑے اور فرمایا:
قال: کیف حال من اصبح اسیرا الیزید بن معاویۃ و انسائی الی الآن ما شبعن بطونھن و لا کسین رؤسھن تائحات اللیل و النھار۔نحن یا منھال كمثل بني اسرائيل في آل فرعون، يذبحون أبناءهم ويستحيون نساءهم أمسَت العرب تفتخر علىٰ العجم بأنّ محمداً عربي، وأمست قريش تفتخر علىٰ سائر العرب بأنّ محمّداً منها، وأمسينا معشر أهل بيته مغصبین مقتلین مشرّدین ما یدعونا یزید الیہ مرۃ الا نظن القتل، فإنّا لله وإنّا إليه راجعون؛
اس آدمی کی حالت کیا پوچھتے ہو جو یزید بن معاویہ کا قیدی ہو ، جس کی مستورات نے پیٹ بھر غذا نہ کھائی ہو اور نہ ان کے پاس سر ڈھانپنے کے لیے کپڑا موجود ہو، اور دن رات گریہ و بکا سے سرو کار ہو۔
پھر فرمایا:اے منہال! اس امت میں ہماری حالت وہی ہے جو آل فرعون میں بنی اسرائیل کی تھی جو ان کے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔ اہل عرب، اہل عجم کے بالمقابل فخر کرتے ہیں کہ جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم عربی ہیں ۔ پھر قریش تمام عربوں کے سامنے فخر کرتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ان کے خاندان سے ہیں مگر ہم اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی حالت یہ کہ ہمارے حقوق غصب کر لیے گئے پھر قتل کیا گیا اور وطن سے بے وطن کر دیا گیا۔
جب بھی یزید ہمیں بلاتا ہے تو ہم یہی خیال کرتے ہیں کہ اب وہ ہمیں قتل کر دے گا۔
ولله در مهيار حيث يقول:
يعظّمون له أعواد منبره
وتحت أقدامهم أولاده وضعُوا
بأيّ حكم بنوه يتبعونكم
وفخركم أنّكم صحبٌ له تبّعُ
(الملهوف على قتلى الطفوف، ص:340، سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام: 526)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button