خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:151)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک27مئی 2022ء بمطابق 25شوال المکرم1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
گزشتہ خطبہ میں ہم نے قرآن مجید کی سورہ مومنون میں مذکور فلاح پانے والے مومنین کی صفات و خصوصیات پر گفتگو کی تھی اور اس ضمن میں مومنین کی دو صفات نماز میں خشوع اور لغو و فضول چیزوں اور کاموں سے پرہیز پر گفتگو کی تھی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مومنین ایسے تربیت یافتہ لوگ ہیں،جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع سے کام لیتے ہیں اور جونہ صرف باطل افکار، بیہودہ گفتگو اور فضول کاموں میں سے مشغول نہیں ہوتے، بلکہ ان سے منھ موڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے آج مومنین کی تیسری صفت بیان کریں گے جو سورہ مومنون کی چوتھی آیت میں مذکور ہے جو معاشرتی اور مادی پہلو رکھتی ہے، ارشاد فرمایا:وَالَّذِینَ ھُمْ لِلزَّکَاةِ فَاعِلُونَ اور جو ذکوٰۃ کا عمل انجام دیتے ہیں۔
اس بات میں بحث ہے کہ یہاں زکوٰۃ سے مراد واجب زکوٰۃ ہے یا ہر قسم کا صدقہ و خیراات اور انفاق بھی شامل ہے تو اس بابت صحیح بات یہ ہے کہ اس آیت میں زکوٰة کا حکم واجب زکوٰة کے لئے مخصوص نہیں ہے، بلکہ مستحبی زکاتیں صدقات و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ بھی شامل ہے کیونکہ شریعت اسلام میں بکثرت جس زکوٰة کا حکم مدینہ میں آیا وہ واجب تھی، لیکن، مستحبی زکوٰةکا حکم مدینہ سے پہلےہی آچکا تھا اور یہ آیۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔
بعض مفسرین کے بقول مکّہ میں بھی واجب زکٰوة کا حکم تھا مگر نصاب مقرر نہ تھا، مسلمان پابند تھے کہ اپنے مال میں سے کچھ مقدار محتاجوں اور ضرورتمندں کو دیں، جب مدینہ میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی گئی ”بیت المال“ تشکیل دیا گیا اور ایک مالی نظام کے طور پر ”زکات“ کا سلسلہ شروع کیا گیا جب نصاب مقرر ہواور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف سے ملک مختلف حصوں میں عمّال بھیجے گئے تاکہ حکومتی سطح پر زکات جمع کرسکیں ۔
بہرحال چونکہ واجب زکوٰۃ کی اہمیت مستحب سے زیادہ ہے اور اس کے بارے میں آخرت میں سوال بھی کیا جائے گا اور اس کا حساب بھی دینا ہوگا اسی لیے ہم یہاں زکوٰۃ اور اس کی اہمیت کے حوالے سے کچھ آیات و احادیث بیان کرتے ہیں۔

وجوبِ زکوٰۃ کی حکمت:
اللہ تعالیٰ نے جو بھی کام انسانوں پر واجب کیے ہیں ان میں انسان ہی کا فائدہ ہے اگر وہ سمجھے تو۔ زکوٰۃ کے وجوب کی حکمت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕاِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕوَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۳﴾ (التوبۃ:۱۰۳)
(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں، یقینا آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور اللہ خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
اس آیت کا حکم قیامت تک کے لیے ہے اور صاحبان نصاب سے زکوٰۃ وصول کرنا، مستحب زکوٰۃ و صدقات وصول کرنا، سب اس میں شامل ہیں۔ حکم ہو رہا ہے کہ اے رسول زکوٰۃ وصول کر کے ان لوگوں کو بخل، طمع، بے رحمی، دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کریں۔انمیںسخاوت،ہمدردی،ایثاروقربانی جیسے اچھے اوصاف کی نشوو نما کریں۔ اس طرح زکوٰۃ اوصاف رذیلہ کی تطہیر اور اوصاف حمیدہ کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔
اسی طرح مولامام علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:فَرَضَ اللهُ الإيمانَ تَطهيرا مِن الشِّركِ ، والصلاةَ تَنزيها عنِ الكِبرِ ، والزكاةَ تَسبيبا للرِّزقِ .(نهج البلاغة : الحكمة ۲۵۲)
خداوندعالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے، نماز کو فرض کیا رعونتو تکبر سے بچانے اور زکوٰۃ کو رزق کے اضافہ کا سبب بننے کے لیے…
پس مومن کے لیے زکوٰۃ دراصل اس کے مال کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا سبب ہے جسے کمزور ایمان لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
قرآن میں مختلف مقامات پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم آیا ہے جیسے فرمایا:وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕوَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕاِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۱۱۰﴾(البقرۃ:۱۱۰)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور جو کچھ نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس موجود پاؤ گے، تم جو بھی عمل انجام دیتے ہو اللہ یقینا اس کا خوب دیکھنے والا ہے۔
نماز کے ساتھ زکوٰۃ کے حکم میں یہ اشار ہ موجود ہے کہ جس طرح مومن نماز قائم کرکے خالق کے ساتھ ربط و تعلق قائم کرتا ہے اسی طرح اسے زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے اس خالق کی محتاج و مجبور مخلوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: لا تَزالُ اُمّتي بِخَيْرٍ ما تَحابُّوا وأدَّوا الأمانَةَ ، واجْتَنَبوا الحَرامَ ، وقَرَوُا الضَّيْفَ ، وأقامُوا الصَّلاةَ ، وآتَوا الزَّكاةَ. (بحارالانوار : ۶۹ / ۳۹۴ / ۷۷ )
میری اُمت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک امت کے لوگ آپس میں محبت کرتے رہیں گے۔ امانتیں ادا کرتے رہیں گے، حرام سے بچتے رہیں گے، مہمان نوازی کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے ،نماز پڑھتے رہیں گے اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: إنّما وُضِعَتِ الزَّكاةُ اِختِبارا للأغنِياءِ ومَعُونَةً لِلفُقَراءِ، ولَو أنَّ الناسَ أدَّوا زكاةَ أموالِهِم ما بَقِيَ مسلمٌ فَقيرا مُحتاجا ، ولاَسْتَغنى بما فَرَضَ اللهُ عز و جل لَهُ ، وإنّ الناسَ ما افتَقَرُوا ، ولا احتاجُوا ، ولا جاعُوا ، ولا عَرُوا إلاّ بِذُنوبِ الأغنياءِ.(الفقيه : ۲ / ۷ / ۱۵۷۹)
زکوٰۃ کو مالداروں کی آزمائش اور غریبوں کی معاونت کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ اگر سب لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے لگ جائیں تو کوئی مسلمان غریب و محتاج نہ رہے اور نہ ہی خدائی فریضہ سے کوئی بے نیاز ہو۔ جو لوگ، غریب،، محتاج، بھوکے اور ننگے ہوتے ہیں وہ مالداروں کے گناہوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: إذا أرَدتَ أن يُثرِيَ اللهُ مالَكَ فَزَكِّهِ .(بحارالانوار : ۹۶ / ۲۳ / ۵۴)
اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمہارے مال کو زیادہ کرے تو مال میں سے زکوٰۃ ادا کیا کرو۔
امام علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:حَصِّنُوا أموالَكُم بالزَّكاةِ.(بحارالانوار : ۷۸ / ۶۰ / ۱۳۸)
زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے مالوں کو محفوظ کر لو۔
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے نقصانات:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: إنّما البَخيلُ حَقُّ البَخيلِ الّذي يَمنعُ الزَّكاةَ المَفروضةَ في مالِهِ ، ويَمنعُ البائِنَةَ في قومِهِ ، وهُو فيما سِوى ذلكَ يُبَذِّرُ. (معاني الأخبار : ۲۴۵ / ۴)
صحیح معنوں میں بخیل کہلانے کا مستحق وہ شخص ہے جو اپنے مال سے واجب زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اور نہ ہی اپنی قوم کے قریب ترین افراد کے کام آتاہے لیکن باقی ہر جگہ فضول خرچی سے کام لیتاہے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:إذا كَذَبَ الوُلاةُ حُبِسَ المَطَرُ ، وإذا جارَ السُّلطانُ هانَتِ الدَّولةُ، وإذا حُبِسَتِ الزكاةُ ماتَتِ المَواشي .(أمالي المفيد : ۳۱۰ / ۲)
جب حکمران جھوٹ بولیں گے تو بارشیںرک جائیں گی،جب بادشاہ ظلم کرے گا تو حکومت کمزور ہوجائے گی اور جب زکوٰۃ کی ادائیگی رک جائے گی تو جانور مرجائیں گے۔
امام محمد باقر علیہ السلا م سے منقول ہے: الزَّكاةُ تَزِيدُ في الرِّزقِ .(بحارالانوار : ۹۶ / ۱۴ / ۲۷ )
زکوٰۃ رزق کو زیادہ کرتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ما فَرَضَ اللهُ عَزّ ذِكرُهُ على هذهِ الاُمّةِ أشَدَّ علَيهِم مِنَ الزَّكاةِ ، وما تَهلِكُ عامَّتُهُم إلاّ فيها.(أمالي الطوسيّ : ۶۹۳ / ۱۴۷۴)
اس امت پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو فرائض عائد کیے ہیں ان میں زکوٰۃ سےبڑھ کر کوئی چیز سخت تر نہیں ہے اور زکوٰۃ (ادا نہ کرنے)ہی کی وجہ سے اس امت کے بہت سے لوگ ہلاک ہوں گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: لا صلاةَ لِمَن لا زكاةَ لَهُ ، ولا زكاةَ لِمَن لا وَرَعَ لَهُ .(مشكاة الأنوار : ۴۶)
جس کی زکوٰۃ نہیں اس کی نماز نہیں اور جس کی پرہیزگاری نہیں اس کی زکوٰۃ نہیں۔
زکوٰۃ کے ساتھ پرہیزگاری سے مراد شاید یہ ہو کہ زکوٰۃ حکم خدا کی اطاعت اور تقویٰ کی بنیاد پہ دینی چاہیے اور زکوٰۃ دینے کے بعد جس کو دی گئی ہے اس پر کوئی احسان نہین جتلانا چاہیے۔اگر زکوٰۃ کے بعد ایسی پرہیزگاری نہ دکھائی جائے تو زکوٰۃ کا ثواب ضائع ہوسکتا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلا م سے منقول ہے: ما نَقَصَتْ زكاةٌ مِن مالٍ قَطُّ .(بحارالانوار : ۹۶ / ۲۳ / ۵۶)
زکوٰۃ کبھی کسی مال کو کم نہیں کرتی اور جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی جاتی ہے وہ نہ تو خشکی میں برباد ہوتا ہے اور نہ ہی تری میں۔
امام محمد باقر علیہ السلا م سے منقول ہے: وَجَدْنَا فِي كِتَابِ رسولِ الله (ص) ۔۔۔ إذ ا مَنَعُوا الزَّكاةَ مَنَعَتِ الأرضُ بَرَكَتَها مِنَ الزَّرعِ والِّثمارِ والمَعادِنِ كُلِّها.(الكافي : ۲ / ۳۷۴ / ۲)
ہمیں رسول اللہ (ص) کے مکتوب گرامی (خط) میں یہ بات ملی ہے: جب لوگ زکوٰۃ دینا بند کردیں گے تو زمین، زراعت، پھلوں اور معدنیات کی اپنی تمام برکتیں روک لے گی۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے روایت ہےإنّ اللهَ عز و جل وَضَعَ الزَّكاةَ قُوتا للفُقَراءِ وتَوفِيرا لِأموالِكُم.(الكافي : ۳ / ۴۹۸ / ۶ )
:بے شک خداوندعالم نے زکوٰۃ کو فقرأ کے لیے قُوت (خوراک) اور تمہارے مال کے لیے بڑھوتری کا ذریعہ بنایا ہے۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:إذا حُبِسَتِ الزَّكاةُ ماتَتِ المَواشِي .(بحارالانوار : ۷۳ / ۳۷۳ / ۸
جب زکوٰۃ روک لی جائے گی تو مویشیوں میں اموات واقع ہوں گی۔
امام محمد باقر علیہ السلا م سے منقول ہے: الذي يَمنَعُ الزَّكاةَ يُحَوِّلُ اللهُ مالَهُ يَومَ القِيامَةِ شُجاعا مِن نارٍ لَهُ رِيمَتانِ فَيُطَوِّقُهُ إيّاهُ ثُمّ يقالُ لَهُ : اِلزَمْهُ كما لَزِمَكَ في الدنيا ، وهُو قولُ الله «سَيطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بهِ ۔۔۔ .(بحارالانوار : ۹۶ / ۸ / ۳)
جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا روزِ قیامت اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مال کو زہریلے اژدھا کی صورت میں تبدیل کر دے گا جس کے دو سر (ڈنک) ہوں گے جسے وہ طوق کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ پھر اس سے کہا جائےگا کہ تو اس سے اس طرح چمٹا رہ جس طرح وہ تجھ سے چمٹا ہوا تھا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے جو فرماتا ہے: سَيطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بهِ ۔۔ (آل عمران:۱۸۰) یعنی (عنقریب قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنا دیا جائے گا بوجہ ان کے بخل کرنے کے)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: مَن مَنَعَ الزَّكاةَ سَألَ الرَّجعَةَ عندَ المَوتِ ، وهُو قولُ الله عز و جل : «حَتّى إذا جاءَ أحَدَهُمُ المَوْتُ قالَ رَبِّ ارْجِعُونِ * لَعَلِّي أعْمَلُ صالِحا فيما تَرَكْتُ ۔(بحارالانوار : ۹۶ / ۲۱ / ۵۰)
جو شخص زکوٰۃ روکے گا وہ بوقتِ موت دنیا میں واپس جانے کی درخواست کرے گا جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ہے:حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ﴿۹۹﴾ لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ …(المومنون:۹۹)یعنی (یہاں تک کہ جب ان میں سےکسی کی موت آئےگی تووہ کہےگاکہ پروردگارا! تومجھےایک باراس مقام (دنیا) میں واپس پلٹاجومیں چھوڑآیاہوں تاکہ میں اچھےکام کرو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: السُّرّاقُ ثلاثةٌ : مانعُ الزَّكاةِ ، ومُستَحِلُّ مُهُورِ النِّساءِ ، وكذلكَ مَنِ استَدانَ ولَم يَنوِ قَضاءَهُ .(بحارالانوار : ۹۶ / ۱۲/۱۵)
تین لوگ بہت بڑے چور ہیں: ۱۔ زکوٰۃ کی ادائیگی روکنے والا۲۔عورتوں کے مہر کو (خود پر)حلال سمجھ کر نہ دینے والا اور ۳۔ادا نہ کرنے کی غرض سے قرض لینے والا۔
زکوٰۃ کے مصارف:
قرآن مجید نے زکوٰۃ کے مصارف واضح کرکے بیان کر دیئے ہیں کہ ایسے لوگوں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے البتہ یاد رہے کہ یہ مصارف واجب زکوٰۃ سے متعلق ہیں:اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕفَرِیۡضَۃًمِّنَاللّٰہِؕوَاللّٰہُعَلِیۡمٌحَکِیۡمٌ﴿۶۰﴾ (التوبۃ:۶۰)
یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔
(زکوٰۃ کے مندرجہ بالا مصارف کی مختصر وضاحت کے لیے بہتر ہے کہ تفسیر الکوثر سے سورہ توبہ آیۃ 60 کی تفسیر مطالعہ کریں)
ہر عمل کی زکوٰۃ اسی کے حساب سے:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:المَعروفُ زكاةُ النِّعَمِ ، والشَّفاعةُ زكاةُ الجاهِ والعِلَلُ زكاةُ الأبدانِ ،والعَفوُ زَكاةُ الظَّفَرِ ، وما أدّيتَ زكاتَهُ فهُو مَأمونُ السَّلْبِ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۲۶۸ / ۱۸۲)
نیکی کرنا نعمتوں کی زکوٰۃ ہے، سفارش(حق کی حمایت) جاہ و منصب کی زکوٰۃ ہے، عمل بجالانا بدن کی زکوٰۃ ہے، عفو و درگذر فتح و کامرانی کی زکوٰۃ ہےاور جس چیز کی زکوٰۃ تو ادا کردے وہ چھین لیے جانے سے محفوظ رہتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: أسخَى الناسِ مَن أدّى زَكاةَ مالِهِ. (بحارالانوار : ۷۷ / ۱۱۲ / ۲)
بہت بڑا سخی وہ ہوتا ہے جو اپنےمال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: في قولِهِ تعالى : -لِلسائلِ والَمحروم- الَمحرومُ الُمحارَفُ الذي قد حُرِمَ كَدَّ يَدِهِ في الشِّراءِ والبَيعِ.(الكافي : ۳ / ۵۰۰ / ۱۲)
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: -لِلسائلِ والَمحروم- (ان کے مالوں میں سائل اور محروم لوگوں کا حق ہے) کے بارے میں فرمایا: محروم وہ ہے جو کوئی حرفت(ہنر٭ جانتا ہو لیکن خرید و فروخت کے سلسلہ میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے محروم ہوچکا ہو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرمایا: ثمانيةٌ لا تُقبَلُ مِنهُمُ الصَّلاةُ : العَبدُ الآبِقُ حتّى يَرجِعَ إلى مَولاهُ ، والناشِزُ وزَوجُها علَيها ساخِطٌ ، ومانِعُ الزَّكاةِ ، وتارِكُ الوُضوءِ ، والجاريَةُ المُدرِكَةُ تُصَلِّي بغَيرِ خِمارٍ ، وإمامُ قَومٍ يُصَلِّي بهِم وهُم لَهُ كارِهُونَ ، والسَّكرانُ ، والزَّبِينُ ؛ وهُو الذي يُدافِعُ البَولَ والغائطَ .
(مكارم الأخلاق : ۲ / ۳۲۴ / ۲۶۵۶)
آٹھ قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی: ۱۔ بھگوڑا غلام جب تک اپنے مولا کی طرف لوٹ کر نہ آئے۔ ۲۔شوہر کی نافرمان زوجہ کہ اس کا شوہر اس پر ناراض ہو۔ ۳۔زکوٰۃ نہ دینے والے کی۔ ۴۔وضو کو ترک کرنے والے کی۔ ۵۔چادر کے بغیر نماز پڑھنے والی سمجھ دار بچی کی۔ ۶۔ایسے پیش نماز کی جو ایسے لوگوں کو نماز پڑھائے جو اسے پسند نہ کریں۔ ۷۔نشہ میں مخمور انسان کی۔ ۸۔پیشاب، پاخانہ روک کر نماز پڑھنے والے کی۔
(اس گفتگو کے اختتام پر امام جمعہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ واجب زکوٰۃ کے بنیادی احکام توضیح المسائل سے پڑھ کر لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا)

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button