محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

اقبال اور شان حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا

ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ
شاعر مشرق ،مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔آپ کے سامنے ایک محکموم قوم دنیا کے مکار ترین استعمار کے تسلط میں تھی،امت مسلمہ کا برا حال تھا مسلمان ہر جگہ غیروں کے محکوم تھے۔اسلامی تہذیب قصہ پارینہ بننے کے خواب دیکھے جا رہے تھے ،ہر طرف معذرت خواہانہ رویہ اپنا جا رہا تھا ۔مایوسی اور ناامیدی کے اس دور میں اقبال نے مسلمانوں کو اپنے شعر کے ذریعہ ان کے درخشان ماضی سے آگاہ کیا اور انہیں ایک روشن مستقبل کی نوید سنائی۔فرقہ پرستی اور گروہ بندی میں جکڑے مسلم سماج کو وحدت و یگانگت کی طرف موڑ دیا۔
اقبال بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے انہوں نے اسلامی تاریخ کا فلسفیانہ مطالعہ کیا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار نے مسلمان امت پر انمٹ نقوش چھوڑے کیونکہ ان کے الفاظ کی صورت ان کا درد دل بیاں ہو رہا ہوتا تھا۔اقبال اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر ہم ایک مسلم سماج کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو سماج کی بنیادی اکائی خاندان ہے اس لیے ہمیں ایک ماڈل مسلم خاندان کا تصور عام کرنا ہو گا ۔مسلمان اس کی طرف دیکھیں اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے ایک ماڈل اسلامی خانوادہ تشکیل پائے اقبال کو یہ ماڈل خانوادہ ،خاندان خاتم الانبیاءﷺ کی صورت میں میسر آیا۔ اس لیے اقبال کا کلام جا بجا اس خاندان کی عظمتوں کے قصیدوں سے بھرا ہے۔اقبال نے حضرت فاطمہؑ کی شان میں بہت اشعار کہے ہم ان میں سے چند منتخب اشعار کی روشنی میں یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اقبال کے نزیک شان فاطمہؑ کیا ہے۔

عظمت حضرت فاطمہؑ

کچھ اشعار اللہ کی عطا ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے عقیدت میں ڈوب کر معرفت کے ساتھ یہ اشعار کہے ہیں ۔ان اشعار سے یوں لگتا ہے اقبال حضرت فاطمہ زہراؑ کی عظمت کا قصیدہ کہہ رہے ہیں :
مریم از یک نسبتِ عیسٰی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
حضرت مریم ؑ کی ایک عظمت ہے کہ وہ حضرت عیسیؑ جیسے اولعزم نبی کی والدہ ماجدہ ہیں یعنی ان کا تعلق عصمت کے مقام پر فائز ایک ہستی سے ہے مگر حضرت فاطمہ ؑ کی شان دیکھیے کہ ان کو یہ شرف تین طرح سے حاصل ہے۔

نورِ چشم رحمة للعالمین
آن امام اولین و آخرین
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رحمۃ للعالمین کی نور چشم ہیں جو اگلوں پچھلوں تمام کے امام ہیں وہ رسول اللہﷺ ؐجنہوں نےمردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔۔یہ نبی مکرمﷺ کی ہی شان ہے۔

بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
مرتضٰی مشکل کشاء شیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرا (س) اس کی زوجہ ہیں، جن کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے ۔آپ حضرت علی مرتضیؑ، مشکل کشا اور شیرخدا کی زوجہ محترمہ ہیں۔

پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام و یک زرہ سامان او

اس تاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا ہے اور ان کا تمام کا تمام سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے۔اللہ اکبر یہ حضرت زہراؑ کے شوہر کی دنیاسے بے رغبتی کی علامت ہے وہ خود فرماتے ہیں کہ اے دنیا میں نے تجھے تین بار طلاق دے دی جس کے بعد رجوع نہیں ہو سکتا جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکہ دے۔

مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

جناب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کسی تیسری نسبت یہ ہے کہ پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہیں، عشق کا مرکز امام حسین علیہ السلام ہیں اور امام حسین کی ماں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ہیں۔وہ حسین ؑ کہ آج بھی دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی حریت و آزادی کی جو بھی تحریک ہو اس کے امام و رہبر حضرت زہراؑ کے فرزند امام حسین ؑ ہیں۔
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
دوسرا بیٹا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔ وہ جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا ۔
تا نشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پا زد برسرِ تاجِ و نگین
امام حسن مجتبٰی علیہ السلام نے تاج ونگین اور اقتدار کو ٹھکرا دیا، تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے۔
حضرت زہراؑ کی سخاوت
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلت ہے یہ اہلبیتؑ کے گھرانے کی فضیلت ہے کہ یہ خود فاقے رکھتے ہیں مگر ضرورت مندو اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اقبال کہتے ہیں:
بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت
بہ یہودی چادرِ خود را فروخت
ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دل جلتا ہےکہ اپنی چادر یہودی کو فروخت کر دیتی ہیں اور یہ سیرت حضرت فاطمہ تھی کہ اپنی شادی کے لباس کو بھی بخش دیتی ہے۔
اقبال اور در زہراؑ
اقبال مشرق و مغرب کے علوم سے آراستہ ہے، وہ جذبات میں بہہ جانے والا شخص نہیں ہے ،اس کی ہر بات میں پیغام پوشیدہ ہوتا ہے۔وہ جب حضرت زہراؑ کی شان بیان کرتے ہیں تو اسلامی تہذیب میں عورت کے کردار کو حضرت زہراؑ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔خاندان اہلبیتؑ سے اقبال والہانہ عقیدت رکھتے ہیں ان کی یہی عقیدت اشعار کی شکل میں ظاہر بھی ہوتی ہے ۔اقبال حضرت زہراؑ کی شان بیان کرتے ہوئے اس حد پہنچتے ہیں کہ کہتے ہیں:
رشتہ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جنابِ مصطفٰے است
ورنہ گرد تربتش گر دید مے
سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے
آئینِ حق(اسلام ) میرے پاوں کی زنجیر ہے اور مجھے اسلام اجازت نہیں دیتا اور اسی طرح جنابِ رسول خداﷺکے فرمان کا بھی مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفٰے ﷺاگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپؑ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میرا ایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام پر فقط سجدہ کرتا۔ ان اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے کتنی عقیدت میں ڈوب کر یہ اشعار کہے کہ اگر شریعت کی پابندی نہ ہوتی تو اقبال حضرت زہراؑ کی قبر سجدے کرتا رہتا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button