خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:135)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک11 فروری 2022ء بمطابق 9 رجب المرجب 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اس ہفتے میں دو اہم مناسبات ہیں۔ ایک 10 رجب المرجب کو ہمارے نویں امام محمد تقی ؑ کی ولادت ہے جبکہ 13 رججب کا دن مولود کعبہ سے منسوب ہے۔ اگرچہ ایک مختصر خطبے میں ان ہستیوں کی سیرت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم اپنی گنجاش کے مطابق ان ہستیوں کی زندگی کے چند گوشے بیان کریں گے۔
تاریخی مناسبت: ولادت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابویحیی صنعانی سے روایت ہے : ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیھٹا تھا ، آپ کا بیٹا ابوجعفر جو کہ کمسن بچہ تھا لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود بابرکت پیدا نہیں ہوا ہے۔(الارشاد شیخ مفید)امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے ؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے مسلمان مشکل کا شکار ہوچکی تھےلیکن اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں:
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ( سورہ مریم آیہ ۱۲)
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنے میں کلام کرنا اور اپنی نبوت کا علان کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲)
پس منصب امامت و رہبری کے لیے چھوٹا بڑا ہونا معیار نہیں بلکہ اہلیت معیار ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کا وجود بابرکت جو چھوٹی عمر ہونے کے باوجود امامت کے منصب پر فائز تھے اور قیادت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے نظام حاکم کیلئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ مامون عباسی اہل تشیع کی جانب سے بغاوت سے سخت خوفزدہ تھا لہذا انہیں اپنے ساتھ ملانے کیلئے مکاری اور فریبکاری سے کام لیتا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو عمر میں خود سے کہیں زیادہ بڑا ہونے کے باوجود اپنا ولیعہد بنایا اور انکے نام کا سکہ جاری کیا اور اپنی بیٹی سے انکی شادی کروائی۔ مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی یہ رویہ اختیار کیا اور 211 ھجری میں انہیں مدینہ سے بغداد بلوا لیا تکہ انکی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھ سکے۔
مامون عباسی چاہتا تھا کہ دھمکیوں اور لالچ جیسے سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے امام جواد علیہ السلام کو اپنا حامی بنائے۔ اسکے علاوہ وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اہل تشیع کو خود سے بدبین نہ ہونے دے اور امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کرنے کا الزم بھی اپنے دامن سے دھو سکے۔امام محمد تقی علیہ السلام اسکی توقعات کے برعکس اپنی تمام سرگرمیاں انتہائی ہوشیاری اور دقیق انداز میں انجام دیتے تھے۔ وہ حج کے بہانے بغداد سے خارج ہو کر مکہ آ جاتے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ کیلئے مدینہ میں رہ جاتے تھے تاکہ مامون کی نظروں سے دور اپنی ذمہ داریاں انجام دی سکیں۔
یحیى ابن اکثم سے امام علیہ السلا م کا مناظرہ:
جس وقت عباسیوں نے مامون عباسی پر اپنی بیٹی کی شادی، امام محمدتقی علیہ السلا م سے کرنے کے متعلق اعتراض کیا کہ یہ نوجوان ہیں اور علم و دانش سے بہرہ مند نہیں ہیں جس کی وجہ سے مامون نے ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ خود ان کا امتحان لے لو۔ عباسیوں نے علماء اور دانشمندوں کے درمیان سے "یحییٰ بن اکثم”کو اس کی علمی شہرت کی وجہ سے چنا، مامون نے امام جواد علیہ السلا م کے علم و آگہی کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے ایک جلسہ ترتیب دیا۔ اس جلسہ میں یحییٰ نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: اجازت ہے کہ میں اس نوجوان سے کچھ سوال کروں؟۔ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت لو ۔ یحییٰ نے امام محمدتقی علیہ السلا م سے اجازت لی۔ امام علیہ السلا م نے فرمایا: یحیی! تم جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔
یحیی نے کہا: یہ فرمایئے کہ حالت احرام میں اگر کوئی شخص کسی حیوان کا شکار کرلے تو اس کا کیا حکم ہے؟۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م اس کے جواب میں فرمایا: اے یحیی! تمہارا سوال بالکل مہمل ہے پہلے یہ بتاؤ، اس شخص نے شکار حل میں (حرم کے حدود سے باہر) کیا تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا جاہل؟ اس نے عمداً اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ شکار کرنے والا کمسن تھا یا بالغ؟ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا اس کے پہلے بھی شکار کرچکا تھا؟ شکار پرندوں میں سے تھا یا غیر پرندہ ؟ شکار چھوٹا تھا یا بڑا جانور تھا؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ اس نے رات کو پوشیدہ طریقہ پر شکار کیا یا دن میں اعلانیہ طورپر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟۔جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں گی اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م نے جب مسئلہ کی یہ تمام فروعات بیان کی تو یحییٰ بن اکثم حیران وششدر رہ گیا، اس کے چہرہ سے ناتوانی اورشکستگی کے آثار ظاہر ہوگئے تھے امامعلیہ السلا م کےسامنےاس کی زبان اس طرح لکنت کرنے لگی تھی اورگنگ ہوگئی تھی اس طرح کہ اس کی ناتوانی کا مشاہدہ تمام حاضرین نے کرلیا تھا۔
مناظرےکےختم ہونے کے بعد جب سبھی لوگ چلے گئے اور مجلس میں صرف خلیفہ کے قریبی لوگ باقی رہ گئے تو مامون نے امام محمدتقیعلیہ السلا م کی طرف رخ کرکے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہوجاؤں بہتر ہے کہ آپ حالت احرام میں شکار کرنے کی تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیں تاکہ ہم لوگ ان سے استفادہ کریں۔
امام محمدتقیعلیہ السلا م نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے، حضرت نے (ع) نے فرمایا: اگر شخص احرام باندھنے کے بعد حل میں (حرم کے باہر) شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے، اور اگر شکار حرم میں کیا ہے تو اس کا کفارہ دو بکریاں ہیں، اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا ہے تو اس کا کفارہ دنبہ کا ایک بچہ ہے جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو، اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تو اس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اوراگر ہرن ہے تواس کا کفارہ ایک بکری ہے، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکارحل میں کیا ہو۔ لیکن اگر ان کا شکار حرم میں کیا ہےتو یہی کفارے دگنے ہوں جائیں گے اور اگر احرام حج کا تھا تو "منیٰ ” میں قربانی کرے گا،اور اگر احرام عمرہ کا تھا تو "مکہ” میں اس کی قربانی کرے گا اور شکارکے کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں(کفارہ کے واجب ہونے کے علاوہ)گنہگاربھی ہے،لیکن بھولے سے شکارکرنے میں گناہ نہیں ہے، آزاد انسان اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اوربالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جوشخص اپنے اس فعل پر نادم ہوگا وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا لیکن اگر اس فعل پر نادم نہیں ہے تو اس پر عذاب ہوگا۔
مامون نے کہا:احسنت اے ابوجعفر! خدا آپ کو جزائے خیر دے، بہتر ہے آپ بھی یحیى بن ¬اکثم سے کچھ سوالات کرلیں جس طرح اس نے آپ علیہ السلا م سے سوال کیا ہے۔ امام علیہ السلا م نے یحیی سے کہا: میں سوال کروں؟ یحیی نے کہا: اس کا اختیار آپ کو ہے، میں آپ پر قربان ہوجاؤں،اگر مجھ سے ہوسکا تو اس کا جواب دوں گا ورنہ آپ سے استفادہ کروں گا۔
امام محمد تقی علیہ السلا م نے سوال کیا:
اس شخص کےبارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر ظہر کے وقت حرام ہوگئی،عصرکے وقت پھر حلال ہوگئی، غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس پر حرام ہوگئی، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی، بتاؤ یہ کیسی عورت ہے کہ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی؟۔
امامعلیہ السلا م کےسوال کو قاضی القضاة یحیی بن اکثم سن کر مبہوت ہوکر کہنے لگا خدا کی قسم میں اس سوال کا جواب نہیں جانتا اور اس عورت کے حلال و حرام ہونے کا سبب بھی نہیں معلوم ہے، اگر مناسب ہو تو آپ اس کے جواب سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔
امام علیہ السلا م نے فرمایا: وہ عورت کسی کی کنیز تھی، اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لیا، اس پر حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصرکے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے "ظہار” کیا۔ جس کی وجہ سے پھر حرام ہوگئی، عشاءکے وقت ظہار کا کفارہ دے دیا، پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دے دی، جس کی بناپر پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس نے رجوع کرلیا پھر وہ عورت اس پر حلال ہوگئی۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی چند احادیث کی تشریح:
امام محمد تقی(علیہ السلام) سے روایت ہے: مَوْتُ‏ الْإِنْسَانِ‏ بِالذُّنُوبِ‏ أَكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالْأَجَلِ وَ حَيَاتُهُ بِالْبِرِّ أَكْثَرُ مِنْ حَيَاتِهِ بِالْعُمُرِ ؛ گناہوں کی وجہ سے لوگوں کی موت زیادہ واقع ہوتی ہے انکی طبعی موت سے اور نیکی کی وجہ سے لوگ زیادہ زندہ رہتے ہیں انکی اپنی عمر کی زندگی سے۔(بحار الانور، ج:۷۵، ص:۸۳ )
تشریح:گناہوں کی وجہ سے جو لوگ اس دنیا کو خیرآباد کہتے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے ، یہ لوگ خود اپنی قبر اپنے گناہوں کی وجہ سے کھود لیتے ہیں اور زیادہ گناہوں کی وجہ سے اس دنیا کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، حالانکہ اگر وہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بجائےاس کی اطاعت کریں تو انہیں اس وقت تک موت نہیں آئیگی جب تک انکی حتمی موت لکھی ہوئی ہے: أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْ‌كُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى(سورۂ نوح، آیت:۳ اور ۴)اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو۔ اس آیت سے یہ بات پور طرح سے واضح ہے کہ تین چیزوں کی وجہ انسان کی ناگھانی موت واقع نہیں ہوتی ایک اللہ پر ایمان، دوسرے تقوی اور تیسرے اللہ کے رسول کی اطاعت۔علم کی اہمیت کے بارے امام محمد تقی(علیہ لاسلام) ارشاد فرماتے ہیں: عَلَيْكُمْ بِطَلَبِ الْعِلْمِ فَإِنَّ طَلَبَهُ فَرِيضَةٌ وَ الْبَحْثَ عَنْهُ نَافِلَةٌ وَ هُوَ صِلَةٌ بَيْنَ الْإِخْوَانِ وَ دَلِيلٌ عَلَى الْمُرُوَّةِ وَ تُحْفَةٌ فِي الْمَجَالِسِ وَ صَاحِبٌ فِي السَّفَرِ وَ أُنْسٌ فِي الْغُرْبۃ؛ علم حاصل کرو! تم لوگوں کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے، علم کا مباحثہ کرنا مستحب ہے، علم لوگوں میں بھائی چارہ کو بڑھاتا ہے(آپس میں ملاتا ہے)، اور مروت کے لئے دلیل ہے، مجلسوں کے لئے مناسب تحفہ ہے سفر کے لئے مصاحب ہے، تنھائی میں مونس ہے. (بحارالانوار، ج:۷، ص:۸۰)
امام محمد تقی(علیہ السلام) اس حدیث میں علم کے دو فائدوں کی جانب اشارہ فرمارہے ہیں، ایک تو علم کا فائدہ خود علم حاصل کرنے والے کو پہونچتا ہے اور دوسرا فائدہ اس کے اطراف والوں کو اس کے علم کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لئے علم کا حاصل کرنا ہر کسی پر واجب قرار دیا گیا ہے۔
لوگوں کو اپنے قریب کرنے کا طریقہ:
مہربانی اور محبت ایسی خصوصیتیں ہیں جن کو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے، خدا جو خود اپنے بندوں پر رحمن اور رحیم ہے اس نے اپنے بندوں کو بھی اس صفت کے ساتھ خلق فرمایا ہے اور یہ وہی خدا ہے جس نے یہ فرمایا کہ میرے رحمن میرے غضب پر غالب ہے ، دنیا کی خلقت اسی محبت پر کی گئی ہے۔
اس بات کی جانب امام محمد تقی(علیہ السلام) اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کی محبت کو جلب کرنے کے لئے تین راستے بتارہے ہیں: «ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الاْنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الاْنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ؛
تین چیزوں کی وجہ سے لوگوں کی محبت کو جلب کیا جاتاہے، معاشرے میں انصاف، مشکلات میں ہمدردی، اور معنویات کو اپنانا سچے دل کے ساتھ.(بحار الانور، ج:۷۵، ص:۸۲)
تاریخی مناسبت : ولادت باسعادت امام علی علیہ السلام
اس ہفتے کی دوسری اہم مناسبت 13 رجب المرجب کو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے۔
امام علی علیہ السلام مکتب تشیع کے پہلے امام ، رسول خداﷺ کے داماد، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں ۔ تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔شیعہ عقیدہ کے مطابق آپ بحکم خدا رسول خداﷺکے بلا فصل جانشین ہیں جس کا اعلان پیغمبر اکرمﷺنے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔
یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ہوئیں ،
آپ علیہ السلام کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ہے : اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ ﴿الرعد:۷﴾
”آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے۔“
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی ﷺنے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:”اناالمنذرولکل قوم ھاد “،اور آپﷺ نے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“۔(مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹)
”آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے “۔
خداوند عالم کا فرمان ہے:الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةًفَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ
”جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔“
اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ : امام علیہ السلام کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ علیہ السلام نے ایک درھم رات میں خرچ کیا ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہﷺ نے آپ علیہ السلام سے فرمایا : آپ(علیہ السلام ) نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ھوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔( تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰)
ایک اور مقام پہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ(البینۃ:7)
”جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔“
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی علیہ السلام وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “۔”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ (علیؑ)اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں “۔
اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(تفسیر در منثور جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷)

اسی طرح روایت میں ہے کہ جب قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرﷺ نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔تب دارالندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خداﷺ کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپﷺکو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: "آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں”۔ پیغمبرﷺنے حضرت علی علیہ السلام کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ وہ آج رسو ل خداﷺ کے بستر پر سوجائیں۔ "(الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72)
یوں امام علی علیہ السلام کی اس فداکاری پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡرِیۡ نَفۡسَہُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُرَءُوۡفٌۢبِالۡعِبَادِ﴿البقرۃ:۲۰۷﴾
اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضاجوئی میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بہت مہربان ہے۔
اسی طرح جب رسول خداﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علی علیہ السلام سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علی علیہ السلام کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔(اعیان الشیعہ ج 2، ص 27)
آپ علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر ضروری ہے کہ ہم ان کی عملی سیرت سے درس لیں اور اسے اپنی زندگی میں اپناتے ہوئے حقیقی طور پر علی علیہ السلام کا شیعہ بن کر دکھائیں ورنہ صرف شیعہ ہونے کا دعوی کردینا اور عمل کے لحاظ سے ان کی سیرت اور ان کے بتائے ہوئے احکامات کو نظر انداز کردینے والا حقیقی شیعہ نہیں بن سکتا۔ نیز ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر جشن مناتے ہوئے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے تو جو اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے خلاف ہو۔
امیر المومنین کی شان و عظمت:
امام علی علیہ السلام کی عظمت یہ ہے کہ آپ کی تربیت رسول خدا ﷺ کے زیر سایہ ہوتی رہی۔جب پیغمبرِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کواپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں سے تربیت کے لیے چُنا تو جس طرح خداوندِ متعال نے اپنے حبیبؐ کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا، اسی انداز سے رسولِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت فرمائی۔ حضرت علیؑ ہمیشہ رسولِ خداﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ اِس بارے میں خود مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَ لَقَدْ کُنْتُ أَتْبَعُه اِتْبَاعَ الْفَصِیْلِ إِثْرَ أُمِّهِ …(نہج البلاغہ خطبہ۱۹۲)
’’میں ہمیشہ آپﷺ کے پیچھے اِس طرح چلتا تھا جیسے اُونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے آپﷺروزانہ میرے لیے اپنے اخلاق کا نمونہ پیش کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں تھا جو تمام صفات و کمالات میں رسولِ اکرمﷺ کے مشابہ ہو۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت بالکل اپنے انداز سے کی تھی اور اُن کو اپنے بعد جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا۔
ظاہری دنیا میں خلیفۃ المسلمین منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے خطبے میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اصولوں کو یوں بیان فرمایا: ’’إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَه أَنْزَلَ کِتَابًا هَادِیًّا بَیَّنَ فِیْهِ الْخَیْرَ وَ الشَّرَّ فَخُذُوْا نِهَجَ الْخَیْرِ تَهْتَدُوْا وَ أَصْدِفُوْا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصُدُوْا، اَلْفَرَائِضُ اَلْفَرَائِضُ أَدُّوْهَا إِلَی اللَّهِ تُؤَدُّکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ حَرَامًا غَیْرَ مَجْهُوْلٍ وَ أَحَلَّ حَلَالًا خَیْرَ مَدْخُوْلٍ وَ فَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَی الْحَرَامِ کُلِّهَا (نہج البلاغہ خطبہ۱۶۷)
’’خداوندِ عالَم نے ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے قرآن نازل فرمایا جس میں ہمارے لیے خیر اور شر (حق اور باطل) دونوں کو بیان کردیا ہے، پس تم نیکی اور حق کے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لو تاکہ ہدایت پاؤ اور بُرائی کی طرف سے منہ پھیر لو تاکہ تم متّقی بن جاؤ۔ خدا کے احکامات اور فرائض کو پابندی سے ادا کرو، یہ فرائض تمہیں جنّت میں لے جائیں گے۔ یقیناً خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، وہ مجہول نہیں ہیں اور جن کو حلال قرار دیا ہے، ان کا انجام دینا اچھا ہے اور خدا نے مسلمان بھائی کی حرمت کو تمام حرام چیزوں پر برتری دی ہے۔‘‘
مسلمانوں میں سے ہر ایک شخص کے مخصوص حقوق اور فرائض ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَ لَا تُضَیِّعَنَّ حَقَّ أَخِیْکَ اِتِّکَالاً عَلَی مَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَه فَاِنَّه لَیْسَ لَکَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّهُ‘‘(الاختصاص شیخ مفیدص۲۷)
’’اپنے مسلمان بھائی کے حق کو اپنے اور اس کے درمیان اختلاف اور رنجش کی وجہ سے ضائع مت کرو کیونکہ (انسان ہونے کے ناطے تم سب برابرہو پس) جس کی تم حق تلفی کرو گے وہ تمہارا بھائی نہیں کہلائے گا۔‘‘

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button