خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:177)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک25 نومبر 2022ء بمطابق 29ربیع الثانی1444 ھ)

تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قرآن میں حدیث میں مسجد کی ضرورت و اہمیت
مسجد اسلامی تعلیمات میں ایک با احترام، پاکیزہ اور مقدس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں پر اللہ تعالی کی عبادت کی جاتی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی اجتماعی عبادات مسجد میں انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے. مسلمان نماز یومیہ ،نماز عیدین ، جمعہ وغیرہ کو دوسری جگہوں کی نسبت مسجد میں انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ قرآن کی بعض آیات سے اس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور احادیث میں اس کے لئے مخصوص احکامات بیان ہوئے ہیں جو اس بات کے بیان گر ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں مسجد ایک خاص اہمیت کی حامل ہے اور تاریخی اسلامی میں تعلیم وتربیت کے ایک مرکز کی حیثیت سے مسجد کو پہچانا جاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں تعلیم کی تاریخ کا مسجد سے گہرا ربط اور تعلق ہےکیونکہ ابتدائے اسلام سے ہی ثقافت اسلامیہ کی نشر واشاعت اور تبلیغ میں مسجد کا کلیدی کردار رہا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد نبوی کو درس وتدریس کی جگہ مقرر کیا تھا۔پس اسلام کی ابتدا سے ہی اسلام میں مسجد کو ایک کلیدی کردار کی حیثیت حاصل رہی اور مسلمانوں نے بھی اس اسلامی ورثے کی خوب حفاظت کی اور اسی کی آبادکاری میں ہمیشہ سے کوشاں رہے ۔ مسجد، اسلام کی نظر میں اللہ تعالی کی عبادت کےلئے خاص جگہ ہے۔
لفظ مسجد "س ج د” سے لیا گیا ہے جو اسم مکان کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی ہیں سجدہ یا عبادت کی جگہ۔ کہا گیا ہے کہ اس جگہ کو مسجد یعنی سجدہ کی جگہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ مسلمان، نماز میں سجدہ کرتے ہیں اور سجدہ عبادت میں خضوع کی انتہا ہے۔
ہوسکتا ہے مسجد عمارت ہو یا زمین ہو چاہے بڑی ہو یا چھوٹی اور سادہ سی، زمین کے اس حصہ کی دیوار ہو یا نہ ہو، قیمتی قالینیں اس میں بچھی ہوئی ہوں یا کم قیمت والی صفیں، اسکی چھت، گنبد اور منارے ہوں یا نہ ہوں۔

مسجد، اسلامی نقطہ نظر سے
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق، اللہ تعالی کی عبادت اور نماز کا کسی خاص جگہ سے تعلق نہیں ہے، اسی لیے زمین کی کسی جگہ پر بھی اللہ تعالی کی عبادت کی جاسکتی ہے اور نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جیسا آنحضرت کا ارشاد گرامی ہے: "جُعِلَت ليَ الأرضُ مَسجِداً و طَهوراً( ميزان الحكمه ، ج12، 45)، "زمین میرے لئے سجدہ کی جگہ اور طہور قرار دی گئی ہے”۔ لہذا ہجرت سے پہلے نماز پڑھنے کے لئے مسلمانوں کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی اور جہاں بھی ممکن ہوتا، نماز پڑھ لیتے تھے۔ مسجد قبا پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہفتہ قبا میں رہے اور اس عرصہ میں لوگوں کی پیشکش سے آنحضرت نے اس علاقہ میں ایک مسجد بنائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسجد عمار یاسر کی پیشکش سے بنائی گئی ہے۔(آثار اسلامی مکه و مدینه، ص201)
مسجد قرآن کریم کی روشنی میں
لفظ مسجد قرآن کریم میں مفرد یا جمع کی صورت میں ۲۸ بار ذکر ہوا ہے:
۱۵ بار "الحرام” کے بعد، ۵ بار "مسجد” کے عنوان سے، ۱ بار "الاقصی” کے بعد، ۱ بار لفظ "ضرار” کے ساتھ، ۶ مقامات میں یہ لفظ، جمع "مساجد” کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔
لفظ "البیت” بہت سارے مقامات میں کعبہ یا مسجدالحرام کے معنی میں ہے۔ قرآن میں لفظ مسجد مختلف معانی کا حامل ہے۔
مثلاً قرآن کریم میں کبھی لفظ مساجد، بدن کی ان سات جگہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھی جاتی ہیں۔ "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَداً”[ سورہ جن، آیت 18]، ” اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔”۔
جب سے مسجد کی اسلام میں بنیاد رکھی گئی، تب سے مسجد میں آنے جانے کے لئے کچھ احکام اور آداب، قرآن اور احادیث میں بیان ہوئے۔ مسجد کی طہارت اور صفائی پر تاکید کی گئی ہے، نیز نمازی آدمی اور اس کی چیزیں اور اس کے حالات کے متعلق خاص فقہی احکام قرار دیئے گئے ہیں۔ مثلاً مسجد میں جنابت کی حالت سے داخل ہونا حرام قرار دیا گیا ہے، سفید اور پاکیزہ کپڑے مسجد میں حاضر ہونے کے لئے مستحب ہیں اور مسجد میں آنے کے لئے سیاہ اور میلے کپڑے پہننا مکروہ ہیں۔
اسلامی ثقافت میں قرآن کریم اور روایات میں مسجد کا خاص احترام اور مقام ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں مسجد کو قائم کرنا ہر آدمی کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں، ارشاد الہی ہے: "إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ”( سورہ توبه، آیت 18)، "اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ آباد کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور نماز قائم کرتے ہوں نیز زکوٰۃ ادا کرتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھاتے ہوں، پس امید ہے کہ یہ لوگ ہدایت پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔”۔
پس اللہ کی مسجدوں کو آباد اور ان کے متولی بننے کا حق اصولاً ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور شرک کر کے اللہ کی شان میں جسارت نہیں کرتے۔ آخرت کے دن اللہ کے حضور میں جانے پر ایمان رکھتے ہیں۔اسی ایمان کی وجہ سے نماز و زکوٰۃ کے پابند رہتے ہیں۔غیر اللہ سے خوف کھانا بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے۔ یہ بھی ان میں نہ ہو تو خانۂ خدا کے معمار بن سکتے ہیں۔
آیت کے اس جملے کی روشنی میں وہ شخص مسجد کا متولی نہیں بن سکتا جو دنیاوی مصلحتوں پر دینی قدروں کو قربان کر دیتا ہے۔
یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مساجد کے متولی اور نگران بھی پاکیزہ ترین افراد میں سے منتخب ہونے چاہییں نہ کہ ناپاک اور بُرے لوگ مال وروت، مقام ومنصب یا معاشرے میں اثر ورسوخ کی وجہ سے منتخب ہوجائیں جیسا کہ متاسفانہ بعض علاقوں میں رائج ہے کہ ایسے لوگ ان مراکزِ عبادت اور اسلامی اجتماعات کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں، تمام ناپاک ہاتھوں کو ان تمام مقدس مراکز سے منقطع کیا جانا چاہیے، جس دن سے جابر حکمرانوں، گناہ آلود سرمایہ داروں اور بدکرداروں نے مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں ہاتھ ڈالا ہے اس دن سے ان کی روحانیت اور اصلاحی پروگرام مسخ ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اب کیسی بہت سی مساجد نے مسجدِ ضرار کی صورت اختیار کرلی ہے
مسجد احادیث کی روشنی میں
• رسول اللہ ؐ:قالَ اللّه‏ُ تَبارَكَ وتَعالى : ألا إنَّ بُيوتي فِي الأَرضِ المَساجِدُ ، تُضيءُ لِأَهلِ السَّماءِ كَما تُضيءُ النُّجومُ لاِهلِ الأَرضِ .
رسول اللہ ؐ:اللہ کا فرمان ہے کہ آگاہ رہو! مساجد زمین پر میرے گھر ہیں وہ اہل سما کو اس طرح منور کرتی ہیں جس طرح ستارے اہل ارض کو منور کرتے ہیں ۔
• رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :…..مَن أحَبَّ القُرآنَ فَليُحِبَّ المَساجِدَ ، فَإِنَّها أفنِيَةُ اللّه‏ِ وأبنِيَتُهُ ، أذِنَ في رَفعِها وبارَكَ :فيها ، مَيمونَةٌ مَيمونٌ أهلُها ، مُزَيَّنَةٌ مُزَيَّنٌ أهلُها ، مَحفوظَةٌ مَحفوظٌ أهلُها، هُم في صَلاتِهِم وَاللّه‏ُ في حَوائِجِهِم ، هُم في مَساجِدِهِم وَاللّه‏ُ مِن‏ وَرائِهِم .
رسول اللہ :جو شخص قرآن کو محبوب رکھتا ہے وہی مسجد کو محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ خدا کے آستانے اور اس کی بنا ہیں،ان کی تعمیر کی اجازت دی گئی :ہے، یہ با برکت مقام ہیں،اہل مسجد مبارک ، محترم اور مزین ہیں نیز وہ خطرات سے محفوظ ہیں،وہ اپنی نمازوں میں مشغول ہیں تو اللہ انکی حاجات :برطرف کرنے میں مشغول ہے ،وہ مساجد میں ہیں تو اللہ ان کا محافظ ہے۔ (مستدرك الوسائل: ج 3 ص 355 ح 3766 )
• رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :أكرَمُ البُيوتِ عَلى وَجهِ الأَرضِ أربَعَةٌ : الكَعبَةُ ، وبَيتُ المَقدِسِ ، وبَيتٌ يُقرَأُ فيهِ القُرآنُ ، وَالمَساجِدُ.
رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله : کعبہ،بیت المقدس،جس گھر میں تلاوت قرآن ہوتی ہو اور مساجد یہ چار گھر زمین پر سب گھروں سے زیادہ اکرام و احترام کے حامل ہیں۔( المواعظ العدديّۃ: ص 211)
• لإمام الصادق عليه ‏السلام :إنَّ اللّه‏َ اختارَ مِن بِقاعِ الأَرضِ سِتَّةً : البَيتَ الحَرامَ ، وَالحَرَمَ ، ومَقابِرَ الأَنبِياءِ ، ومَقابِرَ الأَوصِياءِ ، ومَقاتِلَ الشُّهَداءِ ، وَالمَساجِدَ الَّتي يُذكَرُ فيهَا اسمُ اللّه
امام صادق عليه ‏السلام :خدا نے زمین سے چھ مقامات کا انتخاب کیا ہے :خانۂ کعبہ، حرم، انبیاء کی قبور،اوصیا کی قبور،شہدا کے مقام شہادت اور جن مساجد میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ (بحار الأنوار: ج 101 ص 66 ح 57 .)
تعمیر مساجد کی اہمیت
مسجد بنانے کی اہمیت کے بارے میں اہلِ بیتِ رسول علیہم السلام سے اور اہل سنّت کے طرق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سے تعمیر مسجد کی بے حد اہمیت ظاہر ہوتی ہے، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
”مَن بَنیٰ مَسْجِداً وَلَو کَمَفْحَصِ قطَاة بَنَی اللهُ لَہُ بَیْتاً فِی الْجَنَّةِ“
جو شخص کوئی مسجد بنائے اگرچہ پرندے کے گھونسلے کے برابر ہو تو خدا جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنائے گا (المنار جلد۱۰، ص۲۱۳)
رسول اللہ صلى‏ الله‏ عليه‏ و‏ آله :خَمسَةٌ في قُبورِهِم وثَوابُهُم يَجري إلى ديوانِهِم … مَن بَنى للّه‏ مَسجِدا .
رسول خدا صلى‏ الله‏ عليہ‏ و‏ آله : پانچ ایسے افراد ہیں جو قبور میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے نامۂ اعمال دیوان کی مانند جاری ہیں :….ان می ن سے ایک وہ شخص ہے جس نے خدا کیلئے مسجد تعمیر کی۔ (جامع الأخبار: ص 283 ح 756)
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ والہ وسلم سے منقول ہے:
”من اٴسرج فی مسجد سراجاً لم تزل الملائکة وحملة العرش یستغفرون لہ مادام فی ذلک المسجد ضوئہ“
جو شخص مسجد میں چراغ روشن کرے جب تک اس چراغ کی روشنی رہے گی فرشتے اور حاملینِ عرشِ الٰہی اس کے لئے استغفار اور دعائے خیر کرتے رہیں گے ۔( کنز العرفان، ج۱، ص۱۰۸)
لیکن آج کے زمانے میں جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے وہ مساجد کی معنوی آبادی اور تعمیر ہے، دوسرے لفظوں میں جتنی ہم مسجد کو اہمیت دیتے ہیں اس سے زیادہ اہلِ مسجد، نگران مسجد اور محافظین مسجد کو اہمیت دینا چاہیے، ہر طرف سے اسلامی تحریک مسجد سے اٹھنا چاہیے، مسجد کو تہذیب نفس اور لوگوں کی آکاہی وبیداری کے لئے استعمال ہونا چاہیے، ماحول کو پاکیزہ بنانے اور ورثہٴ اسلامی کے دفاع کے لئے مسلمانوں کو آمادہ کرنے کا مرکز مسجد کو ہونا چاہیے ۔
خصوصیت سے اس طرف توجہ کرنا چاہیے کہ مسجد صاحبِ ایمان نوجوانوں کے لئے مرکز بنے ، مسجد معاشرے کے فعال ترین طبقوں کا مرکز ہونا چاہیے نہ کہ ناکارہ اور خوابیدہ افراد کا مرکز۔
مسجد میں آنے جانے کے فوائد:
حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو انسان مسجد میں آنے جانے کو جاری رکھتا ہے تو اسے آٹھ میں سے ایک فائدہ پہنچے گا: "مَنِ اختَلَفَ إلى المَسجِدِ أصابَ إحدَى الثَّماني: أخا مُستَفادا في اللّه ِ ، أو عِلما مُستَطرَفا ، أو آيَةً مُحكَمَةً ، أو رَحمَةً مُنتَظَرَةً ، أو كَلِمَةً تَرُدُّهُ عن رَدىً ، أو يَسمَعُ كَلِمَةً تَدُلُّهُ على هُدىً ، أو يَترُكُ ذَنبا خَشيَةً أو حَياءً”(امالی شیخ صدوق، 474/637)، "اللہ کی خاطر کسی بھائی کا مل جانا، یا کوئی نیا علم، یا کوئی محکم آیت، یا ایسی رحمت جس کا وہ منتظر تھا، یا ایسی بات جو اسے ہلاکت سے بچالے، یا ایسے جملہ کا سننا جو اسے ہدایت کی طرف راہنمائی کرے، یا کسی گناہ کو خوف یا حیا سے چھوڑ دے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "مَن مَشى إلى مَسجِدٍ يَطلُبُ فيهِ الجَماعَةَ كانَ لَهُ بكُلِّ خُطوَةٍ سَبعونَ ألفَ حَسَنةٍ، و يُرفَعُ لَهُ مِن الدَّرَجاتِ مِثلُ ذلكَ، و إن ماتَ و هُو على ذلكَ وكَّلَ اللّه ُ بهِ سَبعينَ ألفَ مَلَكٍ يَعُودُونَهُ في قَبرِهِ، و يُؤنِسُونَهُ في وَحدَتِهِ، و يَستَغفِرُونَ لَهُ حتّى يُبعَثَ”( بحار الأنوار، 1/336/76)‘، "جو شخص نماز جماعت کے لئے کسی مسجد میں جائے، ہر قدم اٹھانے کے بدلے اس کے لئے ستر ہزار نیکیاں ہیں اور اسی مقدار میں اس کے درجات بلند ہوجائیں گے اور اگر اس حالت میں مرجائے تو اللہ ستر ہزار فرشتوں کو مقرر کرے گا کہ اس کی قبر میں اس کی عیادت کے لئے جائیں اور اس کی تنہائی میں اس سے انس پائیں اور اس کے محشور ہونے تک اس کے لئے استغفار کریں۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوذر غفاری سے فرمایا: "يا أبا ذَرٍّ، إنّ اللّه َ تعالى يُعطِيكَ ما دُمتَ جالِسا في المَسجِدِ بِكُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ دَرَجةً في الجَنَّةِ ، و تُصَلِّي علَيكَ الملائكةُ ، و تُكتَبُ لَكَ بِكُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ فيهِ عَشرُ حَسَناتٍ ، و تُمحى عنكَ عَشرُ سَيّئاتٍ”( بحار الأنوار، 3/85/77)، "اے ابوذر! جب تک مسجد میں بیٹھے ہو یقیناً اللہ تعالی تمہارے ہر سانس لینے کے بدلے ایک درجہ تمہیں جنت میں دیتا ہے اور فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں اور مسجد میں تمہارے ہر سانس لینے کے بدلہ تمہارے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور تم سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں”۔
نتیجہ: قرآن و روایات کی روشنی میں مساجد کا خاص مقام ہے۔ اسلام میں کوئی جگہ مسجد کی عظمت اور بلندی کا ہم پلہ نہیں ہے، مسجد ساجد، ذاکر اور عارف لوگوں کا مرکز ہے۔ مسجد اسلامی تعلیمات کی اشاعت کی جگہ اور مومنین اور متقین کی تربیت و پرورش کی جگہ ہے۔ مسجد میں نماز جماعت کی خاص فضیلت ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ نماز جماعت مسجد میں پڑھیں، جہاں مسجدیں نہیں ہیں وہاں پر مسجدیں تعمیر کریں اور جہاں مسجد ہیں مگر آباد نہیں اور ان میں نماز قائم نہیں ہوتی، ان مساجد کو آباد کریں اور وہاں پر نماز قائم کریں تا کہ ہر روز کئی بار ہر شہر اور ہر گاوں میں کئی طرف سے، اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کا نام اور ذکر گونج اٹھے، اور اس طرح سے اسلام زندہ و سربلند رہے اور آواز حق کو بلند کرنے والے رحمت الہی سے اپنے دامن کو بھرلیں۔

 

 

٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button