اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

شہدائے کربلا میں سے ایک اہم شخصیت نافع بن ہلال رضوان اللہ تعالی علیہ

نافع بن ہلال حضرت علی(ع) اور امام حسین(ع) کے اصحاب اور شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ تاریخی منابع میں انہیں جَمَلی، بَجَلی، مُرادی، اور بَجَلی مرادی جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ وہ عرب کے اشراف، بہادروں، قاریانِ قرآن کریم اور کاتبان حدیث میں سے تھے۔
نافع بن ہلال کا تعلق "قبیلہ جمل” سے تھا جو "قبیلہ مذحج” کی ایک شاخ تھی، اور وہ یمنی الاصل تھے۔
نافع بن ہلال امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کے اصحاب میں سے تھے اور آپ(ع) کے دور میں لڑی گئی تینوں جنگوں جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں آپ(ع) کے ساتھ شریک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ نافع ایک دلیر اور ماہر تیر انداز تھے۔ ابومخنف سے منقول ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) نے انہیں جنگی فنون کی تعلیم دی تھی۔
امام حسین(ع کے قافلے میں شامل ہونا:
نافع بن ہلال حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت سے پہلے کوفہ سے نکلے اور راستے میں امام حسین(ع) کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ وہ عذیب الہجانات نامی جگہ پر امام حسین(ع) کے ساتھ ملحق ہونے والے چار افراد میں سے ایک ہیں۔ حضرت امام حسین(ع) نے ان سے اور ان کے ساتھیوں سے کوفہ کے حالات دریافت فرمائے تو انہوں نے جواب دیا: کوفہ کے اشراف اور بزرگان رشوت لے کر آپ کے خلاف ہو گئے ہیں جبکہ عوام الناس کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلوار آپ کے خلاف ہیں۔
امام حسین(ع) کے ساتھ تجدید بیعت
محرم کی دوسری تاریخ کو امام حسین(ع) کربلا پہنچے۔ اس موقع پر آپ(ع) نے اپنی اہل بیت(ع) اور اصحاب کو جمع کیا اور ابتدا میں اپنے اہل بیت(ع) کی طرف نگاہ کرکے گریہ کرتے ہوئے فرمایا:
خدایا بتحقیق ہم تیرے نبی حضرت محمد(ص) کے خاندان میں سے ہیں جنہیں اپنے وطن سے نکالا گیا اور پریشان و سرگرداں اپنے نانا رسول خدا(ع) کے روضہ اطہر سے ہمیں نکال باہر کیا گیا ہے۔ بنی امیہ نے ہم پر ظلم و ستم کی انتہاء کر دی ہے پس اے خدا ہمارا حق ان ظالموں سے لے لیں اور ان کے مقابلے میں ہماری نصرت فرما۔
اس کے بعد امام(ع) نے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا:
لوگ دنیا کے غلام بن گئے ہیں اور دین ان کی زبان کی حد تک ہے، دین کی حمایت اور پیروی اس وقت تک کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی آسائش میں گزرے اور جیسے ہی کوئی مصیبت آجائے اور کسی سختی کا شکار ہو تو دیندار کم ہی نظر آتے ہیں۔
امام(ع) کی اس تقریر کے بعد آپ(ع) کے اصحاب نے ایک ایک کر کے اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے آپ(ع) کے ساتھ تجدید بیعت کیا۔
نافع بن ہلال نے زُہیر بن قِین کے بعد کھڑے ہو کر امام(ع) سے مخاطب ہو کر کہا:
آپ جانتے ہیں کہ آپ کے نانا رسول خدا(ص) اپنی محبت لوگوں کے دلوں میں موجزن نہ کرسکے یا لوگوں کو جس طرح خود چاہتے تھے بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے بعض اصحاب منافقین میں سے تھے آپ(ص) کو مدد کا وعدہ دیتے تھے جبکہ پیٹھ پیچھے آپ کو دھوکہ دیتے تھے، جب آپ(ص) سے ملتے تو شہد سے بھی میٹھے انداز اپناتے تھے لیکن پیٹھ پیچھے زہر سے بھی کڑوا ہوتے تھے یہاں تک کہ خدا نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ آپ کے بابا علی(ع) کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی، لوگوں نے سب سے پہلے حمایت کا وعدہ کرتے ہوئے ان کے گرد جمع ہوگئے جبکہ بعد میں ناکثین، قاسطین اور مارقین کی شکل میں آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ خدا نے ان کو بھی شہادت کی عظیم نعمت سے مالا مال کیا۔ آج آپ(ع) ہمارے درمیان اسی طرح ہیں بعض نے اپنا عہد و پیمان توڑ کر آپ کی بیعت سے خارج ہوگئے ہیں جبکہ اس بیعت شکنی میں ان کا اپنا نقصان ہے کسی اور کا نہیں خدا ان سے بے نیاز ہے۔ پس ہمیں جب تک آپ سالم ہیں ہماری رہنمائی فرما کر ہمیں جہاں لے جانا چاہیں لے جائیں خدا کی قسم ہمیں خدا کی تقدیر پر کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور اپنے پروردگار کے ساتھ ملاقات کرنے میں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہم اپنی نیت اور سوچ کے بل بوتے پر عمل پیرا ہونگے جو بھی آپ سے محبت کرے اور آپ کی حمایت کرے ہم بھی اس سے محبت کریں گے اور جو بھی آپ سے دشمنی اختیار کرتے ہم بھی اس کے دشمن بنیں گے۔
خیموں میں پانی لانا
عمر بن سعد کے حکم پر جب یزیدی فوج نے امام حسین(ع) کے خیموں میں پانی بند کردیا اور اصحاب پر پیاس کی شدت بڑھ گئی تو امام حسین(ع) نےحضرت ابوالفضل العباس(ع) کو بلایا اور انہیں راتوں رات 30 سپاہیوں منجملہ نافع بن ہلال کے ساتھ پانی لانے کیلئے فرات کی طرف روانہ فرمایا۔
جب حضرت عباس(ع) اور آپ کے ساتھی جن میں نافع بن ہلال سب سے آگے حرکت کر رہے تھے، فرات کے کنارے پہنچے تو عمرو بن حجاج زبیدی جو فرات پر مامور سپاہیوں کا کمانڈر تھا نے کہا: تم لوگ کون ہو؟
نافع نے جواب دیا:
"ہم تمہارے چچازاد بھائیوں میں سے ہیں ہم اس پانی سے سیراب ہونے آئے ہیں جسے تم لوگوں نے بند کیا ہوا ہے۔”
عمرو نے کہا: "جتنا پی سکتے ہو پیں لیکن حسین(ع) کیلئے اس سے پانی مت لے جاؤ”
نافع نے کہا: "خدا کی قسم ایک قطرہ پانی بھی نہیں پیوں گا جبکہ حسین(ع) اور ان کے اہل و عیال پیاسے ہوں۔”
دوسرے ساتھیوں کے پہنچنے پر نافع نے پکارا:
"اپنے مشکیزوں اور برتنوں کو پانی سے بھر دو”
عمرو بن حجاج کے ساتھی حضرت قمر بنی ہاشم(ع) اور نافع بن ہلال کے ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کیلئے آئے اور ایک سخت لڑائی ہوئی۔امام(ع) کے بعض اصحاب مشکیزوں میں پانی بھرنے میں کامیاب ہو گئے یوں خیموں میں پانی لانے میں کامیاب ہو گئے اس واقعے میں دشمن کے کئی سپاہی ہلاک یا زخمی ہوئے۔
شب عاشورا
شب عاشورا آدھی رات کو امام حسین(ع) خیموں کے اطراف کو دئکھنے کیلئے تنہا خیمے سے باہر تشریف لے گئے تو نافع چپکے سے آپ کے پیچھے آ گئے۔
واپسی پر امام حسین(ع) نے نافع سے پوچھا:
"کیا رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان دو پہاڑوں کے درمیان سے گذر کر اپنی جان بچانا نہیں چاہتے ہو؟”
نافع نے اپنے آپ کو امام کے قدموں پر گرایا اور کہا: "میں نے ہزار درہم میں ایک تلوار خریدی ہے اور ایک گھوڑا ہے اس کی قیمت بھی تقریبا اتنی ہی ہے، پس اس خدا کی قسم جس نے مجھے آپ کے رکاب میں شہید ہونے کا موقع فراہم کرکے میرے اوپر احسان کیا ہے، جب تک میری یہ تلوار جنگ میں میرے کام آئیگی ہر گز آپ سے جدا نہیں ہونگا۔
روز عاشورا
بعض منابع کے مطابق نافع بن ہلال نے انہی دنوں شادی کی تھی اور جب روز عاشورا میدان میں جانے کا ارادہ کیا تو ان کی نئی نویلی دلہن نے منع کیا لیکن وہ امام کی نصرت کیلئے اصرار کر رہا تھے۔ جب امام کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ (ع) نے نافع سے فرمایا: تمہاری دلہن پریشان ہے اور مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تم دونوں جوانی میں ایک دوسرے کے فراق میں مبتلا ہو جائوں اگر یہ راضی نہیں ہے تو اپنی دلہن کا ہاتھ پکڑ کر یہاں سے چلے جاؤ۔”
نافع نے کہا:‌ "یابن رسول اللہ(ص) اگر سختی اور مصیبت میں آپ کو تنہا چھوڑ کر اپنی آسائش کے پیچھے چلا جاوں تو کل قیامت کے دن آپ کے نانارسول خدا کو کیا جواب دوں۔”
جنگ کے وقت نافع کا رجز
جنگ کے دوران نافع درج ذیل اشعار پڑھ رہے تھے:
ان تنکرونی فانا ابن الجملی
دینی علی دین حسین بن علی(ع)
"اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو میں اپنا تعارف کرونگا، "قبیلہ جَمَلی” سے میرا تعلق ہے اور میرا دین وہی دین ہے جس پر حسین ابن علی(ع) ہیں”۔
دشمن کے لشکر سے مزاحم بن حریث نامی ایک شخص نے اس کے جواب میں کہا: "ہم عثمان کے پیروکار ہیں”
نافع بن ہلال نے کہا: "تم شیطان کے پیروکار ہو” اس کے بعد تلوار سے اس پر وار کیا۔ مزاحم نے بھاگنا چاہا لیکن نافع کے وار نے اسے یہ اجازت نہیں دی اور وہ ہلاک ہو گیا۔
نافع بن ہلال روز عاشورا تیروں پر اپنا نام لکھ کر انہیں زہر سے آلودہ کر کے دشمن کی طرف پھینکتے تھے۔ اور تیر چلاتے وقت یہ اشعار پڑھتا تھے:
ارمی بها معلمۃ افواقها
والنّفس لا ینفعها اشفاقها
مسمومۃ تجری بها اخفاقها
لیملانّ ارضها رشاقها
"ایسا تیر چلا رہا ہوں جس کے نوک پر لکھا ہے کہ جان کا خوف اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا، یہ تیر زہر سے آلودہ اور مست حالت میں آگے جا رہا ہے یہاں تک کہ میدان جنگ کو لطیف تیروں سے پر کرے گا۔
جب نافع کے پاس تیر ختم ہوئے تو انہوں نے تلوار اٹھا لی اور دشمن کے صفوف پر حملہ آور ہوئے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
انا الغلام الیمنی الجملی
دینی علی دین حسین و علی
ان اقتل الیوم فهذا املی
فذاک رایی و الاقی عملی
میں ایک یمنی اور جملی جوان ہوں میں اس دین کا پیروکار ہوں جس پر حسین ابن علی(ع) ہیں؛ آج میری آرزو یہ ہے کہ شہید ہو جاؤں۔ پس میری یہ آرزو ہے اور میں اپنے عمل سے خود ملاقات کروگا۔
شہادت
دشمن کے سپاہیوں نے ایک ساتھ ان کا محاصرہ کیا اور اپنے تیروں اور پتھروں کا نشانہ بنایا اس طرح ان کے بازوں کو توڑ کر انہیں گرفتار کر کے عمر بن سعد کی پاس لے جایا گیا۔
عمر بن سعد نے کہا:
"اے نافع! افسوس ہے تم پر! کیوں اپنے ساتھ ایسا کیا؟”
نافع جبکہ خون اس کے محاسن سے جاری تھا، کہنے لگے:
” میرا پروردگار میری نیت سے آگاہ ہے۔ خدا کی قسم میں نے تمہارے 12 آدمیوں کو ہلاک کیا ہے جس پر اپنے آپ کو ملامت نہیں کرونگا اگر میرے بازوں سالم ہوتے تو مجھے گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔”
عمر بن سعد نے شمر کو اسے قتل کرنے کا حکم دیا تو ناقع نے شمر سے کہا:
” خدا کی قسم اے شمر! اگر تم مسلمان ہو تو تم یر یہ گراں گزرے گا کہ تم خدا سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ ہمارا خون تمہاری گردن پر ہو۔ میں خدا کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں کہ دنیا کے سب سے پست اور حقیر قوم کے ہاتھوں ہماری موت واقع ہوئی”۔
اس کے بعد شمر نے نافع کو شہید کر دیا
نافع بن ہلال کا نام زیارت رجبیہ امام حسین(ع) اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں آیا ہے۔ زیارت ناحیہ مقدسہ میں نافع کو یوں مورد خطاب قرار دیا ہے:
"السّلام علی نافع بن ہلال البجلی المرادی”
https://alkafeel.net

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button