اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیاتمصائب اصحاب امام حسین ؑمکتوب مصائب

شہادتِ حضرت مسلم بن عقیل (ع)

مصنف :علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
حضرت امام حسین علیہ السلام دربارِ ولید کی طرف روانہ ہونے لگے تو بنی ہاشم کے جوانوں نے کہا کہ آقا! ہم آپ کو اکیلا تو نہیں جانے دیں گے۔ چنانچہ جنابِ عباس ، جنابِ علی اکبر ، جنابِ قاسم اور بنی ہاشم کے جوان امام علیہ السلام کے ساتھ چل پڑے۔ جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو! مجھے تنہا بلایا ہے۔ تم میرے ساتھ اندر نہ آؤ۔ اگر میری آواز بلند ہو تو تم آجانا۔ چنانچہ یہ سب کھڑے ہوگئے۔ امام حسین علیہ السلام اندر تشریف لے گئے۔ ولید کے ساتھ مروان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حاکمِ مدینہ نے وہ خط آپ کو دکھایا جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یزید کا باپ مر گیا ہے اور یزید کا یہ حکم ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ بھئی دیکھو! اس قسم کی چیزیں پوشیدہ نہیں ہونی چاہئیں۔ جو کچھ بھی ہو، اعلانیہ ہونا چاہئے تاکہ سب کو معلوم ہوجائے کہ کس کی کیا رائے ہے۔ اُس نے کہا کہ بات تو آپ معقول فرمارہے ہیں۔ اچھا تو آپ جاسکتے ہیں۔ امام حسین اُٹھنے لگے تو مروان نے یہ کہا:دیکھوولید! حسین اگر اس وقت چلے گئے تو پھر تیرے ہاتھ کبھی نہ آئیں گے۔ ابھی ان کو گرفتار کرلے یا قتل کروا دے۔ امام حسین علیہ السلام نے جب یہ بات اُس کی زبان سے سنی تو ایک مرتبہ آپ نے فرمایا:
"ایسی عورت کے بیٹے جو اپنے وقت میں نیک نام نہ تھی، تیری مجال ہے کہ تو مجھے گرفتار کرسکے یا قتل کر دے؟ ”

اِس فقرے میں آواز بلند ہوگئی اور باہر جوجوان کھڑے تھے، اُن کے کانوں تک پہنچ گئی اور ایک مرتبہ بنی ہاشم اندر داخل ہوگئے۔ سب سے آگے عباس علیہ السلام تھے۔ عجیب انداز ہے ، تیوریاں چڑھی ہوئیں، آپ نے آتے ہی کہا: مولا ! بات کیا ہوئی؟ آپ نے فرمایا:عباس ! کچھ نہیں، چلو میں بھی چل رہا ہوں۔ کس کی مجال تھی کہ جو زبان سے کوئی لفظ بھی کہہ سکے۔
خیر! امام علیہ السلام نے تیاریاں کیں۔ اپنے عزیزوں کو جمع کیا اور ان کو جانے کیلئے تیار ہونے کا حکم دیا۔
امام حسین علیہ السلام نے جانے کی تیاری مکمل کرلی۔ آخر میں ابن عباس پھر آئے۔ چونکہ یہ مخلص تھے، اس لئے پھر کہنے لگے:فرزند ِ رسول! آپ کیوں جارہے ہیں؟ اُدھر نہ جائیے۔ مدینہ چلے جائیے۔ کوفے کے لوگ تو کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے۔ امام فرماتے ہیں:
بھائی ابن عباس! میں جہاں بھی چلا جاؤں، دشمن میرے ساتھ جائیں گے۔ حتیٰ کہ اگر سوراخِ نمل میں بھی چلا جاؤں تو وہاں بھی میرے دشمن مجھے قتل کرنے کیلئے پہنچ جائیں گے اور اگر مدینے جاؤں تو میرے نانا کے حرم کی بے حرمتی نہ ہوجائے۔ اس لئے کوفے کی طرف جارہا ہوں اور تم مجھ سے اس کے بعد کچھ نہ کہو۔
انہوں نے پھر اصرار کیا تو امام علیہ السلام نے صرف اتنا کہا:اچھا کل صبح تک تو دیکھو کیا ہوتا ہے۔ صبح ہوئی، ابن عباس نے غلام کو بھیجا، وہ واپس آگیا۔ اُس نے اپنے آقا سے آن کر کہا کہ امام حسین تو بالکل تیار کھڑے ہیں۔ شہزادیاں ہودجوں میں بیٹھ چکی ہیں۔ آپ کے اصحاب گھوڑوں کی باگیں پکڑے ہوئے صرف حکم کے منتظر ہیں۔ یہ سن کر عبداللہ ابن عباس دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے آکر کہا:فرزند رسول! کیا ارادہ کر ہی لیا؟ آپ نے فرمایا: ہاں بھئی! اب کچھ نہ کہو۔ رات نانا آئے تھے اور مجھ سے فرما رہے تھے:حسین ! تیری قبر کی جگہ تیرا انتظار کررہی ہے۔ ابن عباس وہاں کھڑے ہیں، جہاں ایک اونٹ ہے جس کے ہودج میں جنابِ فاطمہ زہرا کی بڑی بیٹی جنابِ زینب بیٹھی ہوئی ہیں۔
اس کے بعد ابن عباس نے کہا کہ اچھا آپ جائیے۔ لیکن ان بیبیوں، اِن پردہ داروں کو تو نہ لے جائیے۔ جنابِ زینب کے کان میں جب یہ آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا: بھائی ابن عباس! یہ کیابات کہہ رہے ہو؟ کیا میں رُک سکتی ہوں۔ میں اپنے مظلوم بھائی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔ چنانچہ یہ قافلہ روانہ ہوگیا۔
حضرت مسلم بن عقیل کو آپ نے پہلے سے ہی کوفہ کی طرف روانہ کردیا ہوا تھا اور وہاں جنابِ مسلم نو(۹) ذی الحجہ کو شہید ہوگئے۔ دو بچوں کو ساتھ لے گئے تھے۔ پتہ نہیں کہ وہ کہاں کہاں رہے۔ آخر میں وہ بھی گرفتار ہوگئے۔ قید خانے میں ڈال دئیے گئے۔ چھوٹے بچوں کی عمریں نو(۹) اور دس سال کی تھیں۔ جنابِ مسلم اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ جب امام حسین نے فرمایا: مسلم تم چلے جاؤ میری طرف سے نائب ہوکر کوفے اور وہاں کے حالات سے مجھ کو مطلع کرو۔ تو عرض کرتے ہیں: میں گھر ہو آؤں؟ فرمایا: ہاں، اجازت ہے۔ وہاں سے جو نکلے تو اِن دو بچوں کو لائے اور عرض کرتے ہیں: آقا! یہ میرے ساتھ بڑے مانوس ہیں، اگر اجازت ہو تو ان کو بھی لیتا جاؤں؟

امام حسین علیہ السلام نے بچوں کی شکلیں دیکھیں تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ فرماتے ہیں: ہاں بھائی مسلم ! ان کو بھی لیتے جاؤ کیونکہ ان کیلئے بھی جگہ معین ہوچکی ہیں۔جنابِ مسلم وہاں شہید ہوگئے۔ بعد میں یہ بچے بھی دریا کے کنارے شہید کردئیے گئے۔
امام حسین علیہ السلام کوفے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک منزل پر نمازِ صبح باجماعت ادا ہوئی۔ نماز کے بعد آپ کی حالت یہ ہے کہ سر جھکائے بیٹھے ہیں، کسی سے بات نہیں کررہے۔ اصحاب پریشان ہیں کہ کیا معاملہ ہے۔ آج کیوں پریشان ہیں؟ ایک مرتبہ آپ نے خود ہی سر اُٹھایا اور کہا بھائیو! ذرا کوفے کے راستے کی طرف دیکھتے رہو۔ اگر وہاں سے کوئی آنے والا نظر آئے تو میرے پاس لے آؤ۔ چند منٹ کے بعد ایک شخص نے کہا:آقا! مجھے ایک شخص دور سے نظر آرہا ہے کہ اس طرف آرہا ہے اور یہی کوفے کا راستہ ہے۔ آپ نے کہا کہ ہاں، اس شخص کو ذرا میرے پاس لے آؤ۔ آنے والے شخص نے دور سے جب قافلے کو اُترتے ہوئے دیکھا اور ایک شخص کو اپنی طرف آتے دیکھا تو راستہ کاٹنا چاہا۔ اتنے میں یہ گھوڑے کو دوڑا کر وہاں پہنچ گیا اور قریب پہنچ کر کہا: بھائی! تم ڈرو نہیں۔ وہ رُک گیا اور کہا کہ کیابات ہے؟ اُس نے کہا:ہمارا سردار تمہیں بلا رہا ہے۔ اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ذرا ہمارے سردار کے پاس چلو۔
اُس نے کہا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ اُس نے کہا کہ وہ امیرالموٴمنین کے فرزند، نواسہٴ رسول، حسین علیہ السلام ہیں۔ یہ جو سنا تو وہ مطمئن ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں چلنے کو تیار ہوں۔ چنانچہ دونوں روانہ ہوئے۔ وہ آ کر امام علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ نے سر اُٹھایا، فرماتے ہیں:
بھائی کدھر سے آرہے ہو؟ اُس نے کہا : مولا ! میں کوفے سے آرہا ہوں۔ یہ جو سنا تو اُس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔
اُس نے کہا: مولا! ذرا اُٹھ کر الگ ہوں تو میں کچھ بیان کروں۔ آپ نے فرمایا:
بھائی! گھبراؤ نہیں، یہ سب میرے اپنے ہیں۔ اُس نے ایک مرتبہ اپنے سر سے عمامہ اُتار کر زمین پر پھینکا اور کہا:آقا!میرے مولا حسین ! میں کوفے سے جب چلا ہوں تو یہ دیکھ کر چلا ہوں کہ مسلم کی لاش کوفے کی گلیوں میں پھرائی جارہی ہے اور مسلم کا سرکوفے کے دروازے میں لٹکا ہوا ہے۔
یہ جو امام حسین علیہ السلام نے سنا تو بے ساختہ آنسو نکل آئے اور رونے لگے۔ تمام اصحاب اور عزیزوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد امام علیہ السلام اُٹھے، جنابِ زینب سلام اللہ علیہا کے خیمے میں پہنچے۔ زینب بھائی کو اس طرح دیکھ کر گھبراگئیں۔ مگر کچھ پوچھا نہیں۔ فرمایا: میری بہن زینب !ذرا مسلم کی بیٹی رقیہ کو لے آؤ۔ یہ بچی پانچ ، چھ سال کی تھی۔ جب وہ لائی گئی، آپ نے زانو پر بٹھایا، اُس کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا، اُس کو پیار کیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: بہن زینب ! وہ گوشوارے جو ہم نے کبھی لئے تھے، ذرا ان کو لے آؤ۔ اپنے ہاتھ سے اُس کے کانوں میں گوشوارے پہنائے، سر پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ بچی آخر اہلِ بیت کے گھر کی تھی۔ کچھ گھبرا گئی اور پوچھنے لگی: چچاجان! میرے بابا تو زندہ ہیں؟ یہ شفقت تو آپ یتیموں کے ساتھ فرمایا کرتے ہیں؟ فرمایا: بیٹی!اگر تمہارا باپ زندہ نہیں تو حسین تو زندہ ہے۔ اس کے بعد حسین کو اپنا باپ سمجھنا۔
ارے مسلم کی بیٹی رقیہ خوش قسمت تھی کہ باپ کا انتقال ہوا تو حسین موجود تھے۔ ہائے سکینہ کی قسمت!جب امام حسین دنیا سے اُٹھے تو کسی نے تسلی نہ دی بلکہ شمر کے طمانچے کھائے اِس بچی نے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کتاب :روایات عزا

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button