اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب عبد اللہ بن عمیر کلبی رضوان اللہ تعالی علیہ

عبد اللہ بن عُمَیر کلبی روز عاشورا کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہونے والوں میں سے ہیں ۔کوفہ سے کربلا کی جانب لشکر کی حرکت سے باخبر ہونے کے موقع پر اپنی بیوی کے ہمراہ کربلا پہنچے ۔دس محرم کو اپنی بیوی کے ہمراہ دونوں شہید ہوئے ۔طبری کے مطابق عبد اللہ بن عمیر دوسرے شہید ہیں ۔(تاریخ طبری، ج۵، ص۴۳۶)
تعارف
آپ کا تعلق قبیلۂ بنی عُلَیم سے تھا۔بعض منابع میں ان کانام وہب بن عبد اللہ آیا ہے بعض میں وہب بن جناب یا حباب مذکور ہے۔
(تاریخ طبری، ج۵، ص۴۲۹، مقتل جامع، ج۱، ص۷۶۵)
کربلا پہنچنا
ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ نخیلہ میں لوگ جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ان سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کیلئے تیار ہو رہے ہیں ۔انہوں نے جواب دیا :
اللہ کی قسم! میں مشرکوں اور کفار سے جنگ کا امیدوار تھا اور اب امیدوار ہوں کہ فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے والوں سے بر سر پیکار ہونے کا ثواب مشرکوں سے جنگ کرنے سے کمتر ثواب کا درجہ نہیں رکھتا ۔
اپنی بیوی کے پاس آئے ماجرا سے آگاہ کیا اور اپنے ارادے سے آگاہ کیا ۔خدا نے تمہیں نیکی کی جانب ہدایت کی ہے اسے انجام دو اور مجھے بھی ساتھ لے چلو۔(تاریخ طبری، ج۵، ص۴۲۹)
روز عاشورا
دس محرم کی صبح عمر بن سعد کے امام حسین علیہ السلام کی جانب تیر پھینکنے سے جنگ کا آغاز ہوا ۔ابتدائے جنگ میں عمر بن سعد کی جانب سے زیاد بن ابو سفیان کے آزاد کردہ غلام یسار اور عبید اللہ بن زیاد کے آزاد کردہ غلام سالم میدان میں آئے اور انہوں نے مبارزہ طلب کیا ۔ حبیب بن مظاہر اور بریر بن خضر نے اپنی جگہ سے بلند ہوئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا تو اس اثناء میں قوی ہیکل جسامت کے مالک عبد اللہ بن عمیر نے امام سے اذن جہاد لیا ۔ امام نے اجازت دی ۔
وہ وارد میدا ن ہوئے تو عبد اللہ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟انہوں نے اپنا تعارف کروایا ۔ تو یسار نے جواب دیا ہم تمہیں نہیں جانتے ہیں۔زہیر، حبیب یا بریر ہمارے مقابلے کیلے آئیں ۔ آپ نے جواب دیا: ان میں سے کوئی بھی تیرے مقابلے میں نہیں آئے گا مگر تم اس سے بہتر ہو ۔یہ کہہ کر اس نے یسار پر حملہ کیا تو اسکے پاؤں اکھڑ گئے ۔ اسی دوران سالم نے اس پر حملہ کیا ۔اصحاب امام نے بلند آواز سے اسے اس بات کی طرف متوجہ کیا لیکن وہ متوجہ نہ ہوا ۔سالم نے اس پر وار کیا ۔ عبد اللہ بن عمیر اس کے وار کو بائیں ہاتھ پہ روکا اس کے نتیجے میں اس کی بائیں انگلیاں قطع ہو گئیں ۔ اب عبد اللہ اس پر حملہ آور ہوئے اور ایک ضرب سے اس کا کام تمام کردیا ۔ اس دوران وہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
إن تنكروني فأنا ابن كلب حسبي ببيتي في علیم حسبي
إني امرؤ ذو مرة و عصب و لست بالخوار عند النكب‏
إني زعيم لك أم وهب بالطعن فيهم مقدما و الضرب‏
ضرب غلام مؤمن بالرّب‏ حتي يذوق القوم مس الحرب
ترجمہ:
اگر مجھے نہیں پہچانتے ہو تو میں کلب کا بیٹا ہوں اور سمجھ دار مرد میدان ہوں اور میرے لئے یہ افتخار کافی ہے ۔
میں ایک دلیر شخص ہوں مصیبت کے وقت خوار اور زبوں حال نہیں ہوتا ہوں ۔
اے ام وہب!میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں نیزے اور شمشیر سے جنگ کروں گا ۔
(انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۰؛ نهایة الارب، نویری، ج۲۰، ص۴۴۷)
اسی دوران اس کی بیوی ام وہب ایک لکڑی کے ہمراہ اسکی جانب بڑھی ۔عبد اللہ نے اپنی بیوی واپس لوٹانا چاہا لیکن اس نے عبد اللہ کا لباس تھام رکھا تھااور کہہ رہی تھی :
میں تجھے نہیں چھوڑوں گی یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ شہید نہ ہو جاؤں ۔ اس دوران امام حسین علیہ السلام نے بلند آواز میں کہا :
خدا اہل بیت کی جانب سے تمہیں جزائے خیر عطا کرے آؤ اور عورتوں کے پاس بیٹھ جاؤ کیونکہ خدا نے عورتوں پر جہاد واجب نہیں کیا ہے یہ سننا تھا کہ وہ واپس عورتوں کے پاس پلٹ آئی ۔
ظہر عاشور سے پہلے لشکر کے بائیں بازو کے سپہ سالار شمر بن ذی الجوشن نے اپنے فوجیوں کے ہمراہ امام پر حملہ کیا ۔اس میں ہانی بن ثبیت اور بکیر بن حی تیمی نے عبد اللہ بن عمیر پر حملہ کیا اور انہیں شہید کر دیا ۔ طبری کے بقول عبد اللہ بن عمیر امام حسین علیہ السلام کی فوج کے دوسرے شہید ہیں۔
(تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰؛ نفس المہموم، ص۲۳۲-۲۳۳)
ام وہب
عبد اللہ کی شہادت کے بعد ام وہب انکے سرہانے پہنچی اور انکے سر و صورت کو صاف کرنا شروع کیا اور کہا :تمہیں جنت مبارک ہو ۔ اسی اثنا میں شمر نے اپنے غلام "رستم ” سے کہا گرز اس کے سر پہ ماردو ۔اس نے ایسا ہی کیا اور ام وہب شہید ہو گئیں۔کہتے ہیں وہ واقعۂ کربلا کی پہلی شہید خاتون ہیں۔
(تاریخ طبری، ج۵، ص۴۳۶)
https://ur.wikishia.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button