سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام اور زیارت اربعین (حصہ اول)

امام حسین علیہ السلام اور زیارت اربعین

زیارت اربعین روز چہلم سید الشھداء علیہ السلام کی زیارت مخصوصہ ہے اور ائمۂ شیعہ نے اس کی بہت سفارش کی ہے، جس کی بناء پر شیعیان اہل بیت علیہ السلام اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔شیعیان عراق روز اربعین کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر عراقی یہ راستہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اربعین کا جلوس دنیا کا عظیم ترین اجتماع شمار ہوتا ہے۔

شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

ہر شب و روز میں 51 رکعتیں نماز (یعنی 17 رکعتیں واجب اور نوافل کی 34 رکعتیں) بجا لانا،

زیارت اربعین،داہیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا،سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا،

نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا،

( تہذیب الاحكام، ج 6، ص 52)

اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا دو صورتوں میں وارد ہوا ہے۔

زیارت اربعین کی پہلی روایت:

یہ وہ زیارت ہے کہ جو شیخ طوسی نے اپنی دو کتابوں تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں صفوان جمال سے روایت کرتے ہوئے نقل کی ہے۔ صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا:

جب دن کا قابل توجہ حصہ چڑھ جائے تو زیارت اربعین کو پڑھو۔ پھر زیارت کے بعد دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو حاجت چاہتے ہو، خداوند سے مانگو اور واپس چلے آؤ۔

( تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113،مصباح المتہجد، ص 787)

زیارت اربعین کی دوسری روایت:

یہ وہ زیارت ہے کہ جو جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت ہوئی ہے اور اس کی کیفیت وہی ہے جو عطاء سے نقل ہوئی ہے۔ (عطاء ظاہرا وہی عطیۂ عوفی کوفی ہے جو اربعین کے موقع پر جابر کے ہمراہ تھا، جب وہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے کربلا جا رہا تھا) عطاء نے کہا ہے کہ:

میں 20 صفر کو جابر ابن عبد اللہ انصاری کے ساتھ تھا، جب ہم غاضریہ پہنچے تو انھوں نے آب فرات سے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن جو ان کے پاس تھا، پہن لیا اور پھر مجھ سے کہا:

اے عطا ! کیا تمہارے پاس عطر میں سے کچھ ہے ؟ میں نے کہا: میرے پاس عطر سعد ہے۔ جابر نے اس میں کچھ لے لیا اور اپنے سر اور بدن پر مل لیا۔ ننگے پاؤں روانہ ہوئے حتی کہ قبر مطہر پر پہنچے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ ” اللہ اکبر ” کہا اور گر کر بے ہوش ہوئے۔ ہوش میں آئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا:

السلام علیکم یا آل اللہ

جو درحقیقت وہی نصف رجب کو وارد ہونے والی زیارت ہے۔

( مفاتيح الجنان، باب سوم، زيارت امام حسين در روز اربعين)

یہ زیارت امام حسین علیہ السلام ہے جو 15 ماہ رجب کو پڑھی جاتی ہے کہ یہ اربعین کی دوسری زیارت ہے جو کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر ہوئی ہے۔

زیارت اربعین کے ذریعے امام حسین علیہ السلام سے محبت اور انتظار امام مہدی علیہ السلام میں قوی رابطہ:

اس وقت ہم امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کے زمانے میں ہیں اور ہمارے پاس دو چیزیں ہیں ایک حسینی مومن اور دوسرا مہدوی مومن۔ کیا ہم زیارت اربعین کے ذریعے ان دونوں کو اکٹھا اور یکجان کر سکتے ہیں کہ جن میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی سچی محبت ہے اور دوسرا امام مہدی کا حقیقی انتظار۔

واضح رہے کہ امام حسین علیہ السلام کے زائر اور اہل بیت کے سچے شیعہ ہونے میں فرق ہے لہذا زیارت اربعین کے ذریعے زائر کس طرح امام حسین علیہ السلام سے اپنی سچی محبت اور امام مہدی علیہ السلام کے سچے انتظار کو کیسے اکٹھا کرے ؟

ایک سچا انتظار ہوتا ہے اور ایک جھوٹا انتظار بھی ہوتا ہے۔

اللہ تعالی کے نزدیک امام مہدی علیہ السلام کے انتظار کی قدر و قیمت اور مرتبہ کیا ہے ؟

ہمارے پاس اس سلسلہ میں بہت سی احادیث موجود ہیں ہمارے لیے ان میں غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے ایک حدیث میں مذکور ہے:

أفضل عبادة المؤمن انتظار فرج الله

مومن کی سب سے افضل عبادت اللہ کی طرف سے ظہور امام کا انتظار ہے۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے:

من مات منكم و هو منتظر لهذا الأمر كمن هو مع القائم في فسطاطه

جو بھی اس امر (ظہور امام) کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان (امام مہدی علیہ السلام ) کے ساتھ ان کے خیمے میں کھڑا ہے۔

اگر ہم ان احادیث میں غور کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ان درجات کا مستحق مومن وہ ہے جو باعمل ہو، امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ مخلص ہو، حقیقی سچا انتظار کر رہا ہو، ظہور کے لیے مکمل تیار ہو کہ جیسے ہی ظہور ہو میڈیا وار کے تمام تر حملوں کے باوجود وہ فورا اپنے امام سے جا ملے۔

اربعین میں پیدل کربلا کی زیارت کا ثواب (چہلم کی حقیقت):

اربعین یا چالیس ایک ایسا عدد ہے کہ جو بڑی خصوصیتوں کا حامل ہے مثلاً زیادہ تر انبیاء چالیس سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خداوند کی خصوصی ملاقات چالیس شب قرار پائی، نماز شب میں بھی چالیس مومنین کے لیے دعا کی بھی سفارش کی گئی ہے، ہمسایوں کے احکام میں چالیس گھروں تک کو شامل کیا گیا ہے۔

روایات میں ہے کہ کوہ، زمین وغیرہ جہاں پر بھی انبیاء یا ولی یا کسی مومن و عابد بندے نے عبادت کی ہے، اسکے مرنے کے بعد چالیس دن تک زمین ان پر روتی ہے۔یا لکھا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیس دن تک زمین و آسمان خون کے آنسو روتے رہے ۔

آج کے دن سید الشہداء کو چالیس دن پورے ہوئے ہیں ، آج کے دن سن 61 ہجری میں صحابی پیامبر جناب جابر ابن عبد ﷲ انصاری نے شہادت امام حسین کے بعد پہلی مرتبہ آپکی قبر مطہر کی زیارت کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جابر ابن عبد اللہ انصاری امام مظلوم کی قبر مطہر کے سب سے پہلے زائر رہے ہیں مگر یہ سنت حسنہ سالہا سال ائمہ معصومین علیہ السلام کے زمانہ میں بھی اموی اور عباسی حکومتوں کے مظالم کے باوجود جاری و ساری رہی ہے۔

سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی پیدل زیارت کا ثواب:

امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جو نہایت خوبی سے اس موضوع کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پا پیادہ سفر کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

جو شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل سفر کرتا ہے، خداوند اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے لیے ایک حسنہ لکھتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کا ایک رتبہ بڑھا دیتا ہے۔ جب وہ زیارت کے لیے جاتا ہے تو حق تعالی دو فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے تا کہ اس کے منہ سے خارج ہونے والی ہر خیر و نیکی کو تحریر کریں اور جو بھی شر اور برائی ہو، اسے تحریر میں نہ لائیں اور لوٹتے وقت اسے الوداع کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے خدا کے ولی ! تیرے گناہ بخش دیئے جا چکے ہیں اور تو حزب اللہ، حزب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حزب اہل بیت علیہم السلام میں شامل ہو چکا ہے۔ خدا کی قسم ! تو کبھی (جہنم کی) آگ نہیں دیکھے گا نہ (جہنم کی) آگ کبھی تجھے نہ دیکھ سکے گی اور نہ تجھے اپنا لقمہ بنا سکے گی۔(کامل الزیارات، ص 134)

بنا بر قول مشہور آج ہی کے دن اہلبیت حرم شام سے کربلا لوٹے ہیں ، اور بنا بر قول سید مرتضی آج ہی کے دن سر مبارک امام حسین علیہ السلام بدست امام زین العابدین علیہ السلام شام سے کربلا لایا گیا ہے اور آپ کے جسم اطہر کے ساتھ ملحق کیا گیا اور آج کے دن شیعیان علی و اہلبیت ، کسب و کار چھوڑ کر ، سیاہ پوش مجلس عزا و سینہ زنی کرتے ہوئے واقعہ کربلا اور عاشورا کی تعظیم کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

اگر ہم دقت سے زیارت اربعین کے متن و ترجمے پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیارت اربعین میں قیام امام حسین علیہ السلام کے مقصد کی وہی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا ہدف اور مقصد تھا چنانچہ قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے مطابق دو چیزیں انبیائے الٰہی کا ہدف ہیں :

تعلیم علم و حکمت

تزکیہ نفوس

بعبارت دیگر یعنی لوگوں کو عالم اور عاقل بنانا انبیاء کا اصلی مقصد ہے تا کہ لوگ اچھائیوں کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور ضلالت و گمراہی کی دنیا سے باہر آ سکیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بھی نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ:

فھداھم بہ من الضلالۃ انقذھم بمکانہ من الجھالۃ

یعنی خداوند نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں لوگوں کو عالم اور عاقل بنایا۔

چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے بھی جو کہ سیرت نبوی کے حامل اور حسین منی و انا من الحسین کے مصداق حقیقی تھے لوگوں کو عالم و عادل و عاقل بنانے میں اپنی جان و مال کی بازی لگا دی اور ہدف رسالت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لہٰذا زیارت اربعین میں عبارت موجود ہے :

و بذل مھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجھالۃ و حیرۃ الضلالۃ

یعنی اپنے خون کو خدا کی راہ میں نثار کر دیا صرف اس لیے تا کہ بندگان خدا کو جہالت اور نادانی کی لا محدود وادی سے باہر نکال سکیں۔

معصومین علیہ السلام کے کلام میں اربعین کی تکریم و تعظیم اور سوگواری:

امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقولہ روایت سید الشہداء علیہ السلام کے چہلم (اربعین) کی تکریم و تعظیم اور سوگواری کی بہترین دلیل ہے جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے:

مؤمن کی پانچ نشانیان ہیں:

جس میں زیارت اربعین کی تلاوت بھی ایک ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید کرتے ہوئے صفوان ابن مہران جمّال کو زیارت اربعین، تعلیم دی۔

( مصباح المتہجد، ص 788- 789)

قدیم شیعہ منابع کے مطابق ” اربعین ” کی اہمیت دو وجوہات کی بنا پر قابل توجہ ہے:

1۔ اس روز فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ، شام میں یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان کی اسیری سے آزاد ہو کر مدینہ کی طرف لوٹے تھے۔

2۔اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری رضوان اللہ تعالی علیہ نے کربلا میں حاضر ہو کر قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔

اربعین کے بارے میں علماء کی رائے:

شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلّی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ:

20 صفر کا دن وہ دن ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹے، اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی جابر ابن عبد اللہ انصاری نے سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلی پہنچے اور جابر وہ پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف اپنے نام کیا۔

(العدد القویہ، ص 219)

اسی طرح سید ابن ‏طاؤوس نے کتاب اقبال الاعمال میں، علامہ حلی نے کتاب المنتھی میں، علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار کے باب مزار میں، شیخ یوسف بحرانی نے کتاب حدائق میں، حاجی نوری نے کتاب تحیة الزائر میں اورشیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں، اور ان سب نے شیخ طوسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:

اربعین اور زیارت امام حسین علیہ‏السلام کا دو ناموں کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ان میں سے ایک نام عطیة ابن عوف کوفی کا ہے۔ جو امام حسین علیہ السلام کے پہلے چہلم پر کربلا مشرف ہوئے اور امام علیہ السلام کے مرقد منور کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔

جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کر کے شام لے جایا گیا، اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق ممکن ہونے سے بالکل باہر سمجها جاتا تها کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا گہرا سیاہ پردہ بچھا رکھا تها کہ کسی کو یقین نہیں آ سکتا تها کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کار چاک ہو سکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گزر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسے ٹھنڈا نہ کر سکی۔

جی ہاں ! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ انسانوں کو کربلا تک لی گئی اور امام سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گزرے تھے کہ عشق حسینی جابر ابن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔

جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہو کر ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی گہرائی سے چِلّائے اور بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: یا حسین ! یا حسین ! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔

اربعین کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام کی تأکید:

اسلامی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری پر بہت تاکید کی گئی ہے ان میں اولیائے الہی اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔ معصومین علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ایک خصوصی اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ کسی بھی امام معصوم علیہ السلام کی زیارت پر اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی کہ سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے ابن بُکَیر سے جو امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:

اما تحب ان یراک اللہ فینا خائفا ؟

 اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللہ فی عرشہ

کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خداوند تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بناء پر خائف ہو، اللہ تعالی اپنے عرش پر اس کے سر پر سایہ کرے گا ؟

چونکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے پر نور کیا ہے اور عشق ہر صورت میں عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے لہذا عاشقان حسینی نے پہلے اربعین سے ہی اموی ستم کی حکمرانی اور ہر خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی راہ پر گامزن ہوئے اور آج تک ہر مسلمان مرد اور عورت کی دلی آرزو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے۔

زیارت امام حسین علیہ السلام کے ثمرات و اثرات:

اسلامی روایات میں امام حسین علیہ السلام کے لیے بہت سے آثار و برکات بیان ہوئے ہیں، بشرطیکہ زیارت میں تقرب اور اخلاص کے ساتھ ساتھ معرفت اور شناخت کا عنصر بھی شامل ہو۔

علامہ محمد باقر مجلسی سے منقول ہے:

1۔ اللہ تعالی نے اپنے مقرب فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو نہیں دیکھ رہے ہو کہ کس طرح شوق و رغبت کے ساتھ ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں ؟

2۔ امام حسین علیہ‏السلام کا زائر عرش کی بلندیوں پر اپنے خالق سے ہم کلام ہوتا ہے۔

3۔ امام حسین علیہ ‏السلام کے زائر کو بہشت برین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان پاک کی قربت اور ہمسائگی کا اعزاز حاصل ہو گا اور وہ ان کا مہمان ہو گا۔

4۔ امام حسین علیہ‏ السلام کا زائر اللہ کے محترم فرشتوں کے مقام تک مقام رفعت پائے گا۔

چہلم کیا ہے ؟ ( قرآن اور روایات کی روشنی میں )

چہلم سے مراد کیا ہے، علماء نے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے لیکن جس بات کا شیخ طوسی نے عندیہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ زیارت اربعین سے مراد 20 صفر کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جو عاشورا کے بعد چالیسواں دن ہے۔ اس لیے انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے۔

اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے جسے مرحوم شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں ؟ کہنا چاہیے کہ چالیس کا عدد روایات میں حتیّ قرآن میں بھی اسکا خاص مقام ہے اور اس عدد کی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو دوسرے اعداد کے اندر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر خداوند قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

اذا بلغ اشدّہ و بلغ اربعین سنة

یعنی جس وقت وہ کمال کی حالت تک پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا۔(سورہ احقاف آیت 51)

اسی طرح بعض انبیاء چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے، مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام نے ایک آدمی کو جواب میں جب اس نے سوال کیا کہ عزیر کتنی سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوئے:

بعثہ اللہ و لہ اربعون سنة

یعنی اس سوال کے جواب میں کہ جناب عزیر کی عمر رسالت کے آغاز میں کتنی تھی ؟ فرمایا کہ رسالت کے آغاز میں انکی عمر چالیس سال تھی۔(بحار الانوار، ج 1، ص 88)

اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ظاہری طور پر چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے جیسا کہ معتبر روایات میں بھی آیا ہے۔

صدع بالرسالة یوم السابع والعشرین من رجب و لہ یومئذ اربعون سنة

یعنی حضرت محمّد ابن عبد اللہ خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 27 رجب کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث ہوئے۔

(بحار الانوار ج 51 ص 882)

اسی طرح دعاؤں میں اور بعض دینی معارف میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے۔ علاّمہ مجلسی اس دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خداوند کے نام ہیں، یوں نقل کرتے ہیں:

عن النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم لو دعا بھا رجل اربعین لیلة جمعة غفر اللہ لہ

اگر کوئی شخص چالیس شب ہائے جمعہ کو خداوند متعال کی بارگاہ میں اس دعا کو پڑھے تو خدا اس کو بخش دے گا۔

(بحار الانوار ج 59 ص 683)

خداوند کو مخصوص اذکار کے ساتھ یاد کرنا اور عدد چالیس کے ساتھ اسکی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ جس طرح کہ رات کو جاگنا اور نماز کا پڑھنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کے قنوت میں استغفار کرنا، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوند متعال انسان کو سحر کے وقت میں استغفار کرنے والے لوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں انکو نیکی سے یاد کیا ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا یجتمع اربعون رجلاً فی امر واحد الّا استجاب اللہ

یعنی چالیس مسلمان جب بھی جمع ہو کر خدا سے کسی چیز کے بارے میں دعا کرتے ہیں تو خداوند متعال بھی اس دعا کو قبول کرتا ہے۔

(بحار الانوار، ج 39، ص 493)

ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

من اخلص العبادة للہ اربعین صباحاً جرت ینابیع الحکمة من قلبہ علیٰ لسانہ

یعنی اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی عبادت صرف اور صرف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ اسکے دل سے اسکی زبان پر جاری کر دی گا۔(بحار الانوار ج 35 ،ص 623)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللہ یوم القیامة عالماً فقیہاً و لم یعذّب

ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے تو خداوند متعال اسکو قیامت کے دن عالم، دانشمند اور فقیہ محشور کرے گااور اسے عذاب نہیں دے گا۔(بحار الانوار ج 2، ص 351)

البتہ اس بات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ کرنے سے مراد صرف عبارات ہی کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے کہ حدیث کو اس کے پورے لوازمات کیساتھ حفظ کرنا ہے اور حقیقت میں اس سے مراد حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اس کا رائج کرنا ہے۔

اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

اذا بلغ العبد اربعین سنة قد انتھی منتھاہ

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اسکی عقل کامل ہو جاتی ہے۔(بحار الانوار ج 6، ص 21)

اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اس میں چالیس دن تک شرکت کی تاکید بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

من صلّی اربعین یوماً فی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللہ براءتان: براءة من النار و براءة من النفاق

یعنی وہ شخص جو مسلسل ابتداء سے نماز جماعت میں شرکت کرے تو خداوند اس کو دو چیزوں سے محفوظ رکھے گا، ایک آتش جہنم، دوسرے نفاق و منافقت سے۔(بحار الانوار ، ج 88 ، ص 4)

آداب دعا میں آیا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعا قبول ہو جائے تو پہلے چالیس مومنوں کیلئے دعا کریں اور اسکے بعد خداوند سے اپنی حاجت طلب کریں:

من قدّم اربعین من المومنین ثمّ دعا استجیب لہ

اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دعا کرنے سے پہلے اگر 40 مومنوں کیلئے دعا کی جائے تو اس بندے کی اپنی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔(بحار الانوار، ج 68 ، ص 212)

روایات میں پڑوسیوں اور ان کے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے کہ پڑوسی چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے اس سے ہر طرف سے چالیس گھر تک۔ امام علی علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا:

الجوار اربعون داراً من اربعة جوانبھا

پڑوسی گھر کے ہر طرف سے چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے۔(بحار الانوار، ج 48، ص 3)

اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

انّ السماء و الارض لتبکی علی المومن اذا مات اربعین صباحاً و انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین شھراً

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے تو زمین اور آسمان چالیس دن تک اسکے لیے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ تک روتے رہتے ہیں۔(بحار الانوار ، ج 24، ص 803)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

اذا صلیٰ علی المومن اربعون رجلاً من المومنین و اجتھدوا فی الدّعاء لہ استجیب لھم

یعنی جس وقت مومنین میں سے چالیس آدمی کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھیں اور اس کے لیے دعا کریں تو خداوند متعال ان چالیس مؤمنین کی دعا قبول کرتا ہے۔(بحار الانوار ، ج 18، ص 473)

یہ ان روایات کا خلاصہ ہے کہ جن میں چالیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے۔ حقیقی مومن اور عالم کا مصداق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے انبیاء اور آئمّہ طاہرین علیہم السلام ہیں کہ زمین اور آسمان چالیس مہینے انکے فراق میں گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور انکی شہادت اس قدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔

اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے کتاب منتہی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے ریّان ابن شبیب سے کہا:

اے شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو میرے جدّ کی مصیبت پر گریہ کرو کہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اسکے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو اور ہمیں چاہیے کہ کربلا کے ہدف اور مقصد کو درک کریں۔ اگرچہ خود رونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرے، اس لیے کہ اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو اسلام ختم ہو جاتا اور اسکا کوئی اثر باقی نہ رہتا۔ اس بات کا دعوی صرف ہم نہیں کرتے بلکہ مورّخین حتّی وہ جو شیعہ نہیں ہیں، وہ بھی اس بات کے معترف ہیں۔ کربلا کے بعد جو بھی قیام ظلم اور ستم کے مقابلے میں ہوا، اس نے امام حسین علیہ السلام کے قیام سے درس و سبق لیا ہے۔

شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں:

صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر ابن عبد اللہ انصاری جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں، مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے، آپ امام کی قبر کے پہلے زائر ہیں، اس دن میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب ہے۔

(مصباح المتہجد ، ص 442)

مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے قصد ہی سے مدینہ سے نکلے اور 20 صفر کو کربلا پہنچے ہیں لیکن یہ کہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی شہادت سے مطلع ہوئے اور یہ کہ جابر نے اپنے آپ کو کیسے کربلا پہنچایا ؟

تاریخی شواہد کے مطابق ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی عبد الملک ابن ابی الحارث سلمی کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ ، امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔ اہلبیت علیہم السلام کے کوفہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی شہر کے لوگ من جملہ مدینہ والے فرزند پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے تھے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ جابر بھی اس بات سے با خبر ہو گئے ہوں اور اپنے آپ کو کربلا پہنچایا ہو۔ جس وقت آپ مدینہ سے کربلا کیلئے روانہ ہوئے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے انکو پریشان کر رکھا تھا اور بعض روایات کے مطابق آپ نابینا بھی تھے لیکن جابر نے لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیا۔ اس زیارت میں جابر کے ہمراہ عطیّہ بھی تھے جو کہ اسلام کی بڑی شخصیتوں اور مفسر قرآن کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔ اس دن میں دور یا نزدیک سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کے سلسلہ میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔

Source:https://www.valiasr-aj.com/urdu

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button