Uncategorized

تحریک کربلا کا عقیدتی و عملی پہلو

محمد حسنین امام

ایمان باللہ :
امام حسینؑ سب سے پہلے ہمیں توحید اور ایمان کی تعلیم دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ توحید میں ہی تمام احکام وتعلیمات خداوندی پوشیدہ ہیں ۔ امام ؑ مکہ میں یہ دعا کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ
”اے میرے خدا !میں غنا کی حالت میں تیری طرف محتاج ہوں پس کس طرح حالت فقر میں تیری طرف محتاج نہ ہوں۔دانائی کی حالت میں نادان ہوں پس کس طرح نادانی کی حالت میں نادان نہ رہوں۔ اے خدا جس کے محاسن اور خوبیاں بد ہوں کس طرح اس کی برائیاں بد نہ ہوں۔ جس کی حقیقت بری ہو اس کے دعوے کس طرح باطل نہ ہوں”۔
آپ میدان کربلا میں مصائب پر صبر کرتے ہیں اور وقت شہادت جتنا نزدیک ہوتا ہے امام کا چہرہ اتنا ہی تابناک ہوتا ہے اور فرماتے ہیں”یہ تمام رنج و مصائب میرے نزدیک کم ہیں کیونکہ خدا کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔”
(مفاتیح الجنان دعا عرفہ)
امام ؑ کاسامناجب حر کے لشکر سے ہوتا ہے اس وقت امام ؑ خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں کہ:
”میری تکیہ گاہ خدا ہے اور مجھے تم سے بے نیاز کرتا ہے ۔” (العوالم ،الامام الحسین ص٢٣٣)
اور صبح عاشور لشکر ابن سعد شور وغل اور طبل بجاتے ہوئے امام کے خیمہ کی طرف آتا ہے تو امام نے فرمایا :”خدایا !ہر گرفتاری اور مشکل میں تو میری پناہ گاہ اور امید ہے اور ہر حادثہ میں جو مجھے پیش آتا ہے تو میرا مدد گار ہے۔”
(الارشاد ج٢ ص٩٤)
جب ہم ان تمام فرامین پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ہر مشکل وقت میں اپنے پروردگار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی خدا پر مضبوط ایمان کی دلیل ہے۔
انبیاء پر اعتقاد :
رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ملت اسلامیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ایک گروہ ضلالت کی طرف چلا گیا اور دوسرا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر ثابت قدم رہا۔ اس گروہ میں اہلبیت پیغمبرعلیہ السلام سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیوستگی کو اپنے لئے باعث فخروشرافت سمجھتے ہیں۔امام حسین علیہ السلامدینہ سے نکلتے وقت ابن عباس سے پوچھتے ہیں :
”آپ کا کیا نظریہ ہے ان لوگوں کے بارے میں جو دختر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کو اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر جانے پر مجبور کررہے ہیں ، دشت وبیابان میں آوارہ کر رہے ہیں ، ان کو قتل اور ان کا خون بہانے کے درپے ہیں ۔ حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرزند نے نہ کسی کو خدا کاشریک ٹھہرایا ہے ، نہ خدا کے علاوہ کسی اور کو اپنا سرپرست بنایا ہے اور نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آئین سے ہٹ کر کوئی فعل انجام دیا ہے۔
میدان کربلا ہو یا اس کے بعد کا مرحلہ ،امام ؑ اور آپ کے خاندان نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی پیوستگی کا ہرمقام پر اعلان کیا ۔ امام ؑ نے میدان کربلا میں لشکر ابن سعد سے مخاطب ہو کر فرمایا:
”انشدکم اللّٰہ ھل تعرفونی ،قالوااللھم نعم انت ابن رسول اللّٰہ وسبطہ۔ قال انشدکم اللّٰہ ھل تعلمون ان جدّی رسول اللّٰہ قالوا اللھم نعم”
"میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو۔کہا کہ ہاں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور ان کے نواسے ہیں۔ اس کے بعد آپ ؑ نے فرمایاکیا تم جانتے ہو کہ میرا نانا رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے”۔
(لھوف ص ١٢٠)
آپ کے اہل حرم نے بھی رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی کا ہر مقام پر اعلان کیا۔ حضرت زینبؑ نے دربارابن زیاد میں فخر سے یہ جملہ ادا کیا :
"الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمدؐ”
"تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے کرامت بخشی۔”
(الاراشاد ج٢ ص١١٥)
امامت کا تصور :
لوگوں کی قیادت ورہبری ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہاہے جسے دین مبین اسلام نے بہت ہی اہمیت دی ہے۔دنیا میں لوگوں کی خلقت سے پہلے خدا نے لوگوں کے امام کو خلق کیا تاکہ انسان کو قیادت ورہبری میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔رسول اسلامؐ بھی لوگوں کو گمراہی سے نکال کر نجات کی طرف لے جانے میں ان کی رہبری کرتے رہے تاکہ مخلوق خدا گمراہ نہ ہو۔ غدیر خم کے میدان میں اعلان ولایت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن رسول اسلامؐ کے بعد مسلمانوں نے خلافت کو جانشین حقیقی تک پہنچنے نہیں دیا اور اسے یرغمال بنا لیا۔ قیام عاشورا اسی حق طلبی کا ایک جلوہ تھا تاکہ حق ،ظالم کے چنگل سے آزاد ہو کر حقدار تک پہنچے۔امام ؑ حرکے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں :
”ایھاالناس فانکم ان تتقوا اللّٰہ وتعرفوا الحق لاھلہ یکن ارضی لللّٰہ عنکم، ونحن اہل بیت محمدؐ ، واولی بولایۃ ھذٰا الامر علیکم من ھؤلاء المدعین ما لیس لھم، وسائرین فیکم بالجور والعدوان”(الارشاد ج٢ص٧٨)
"اے لوگو!اگر تم خدا سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کا حق سمجھو تو خدا تم سے زیادہ راضی ہو گا۔ہم اہل بیت محمدؐ ہیں اور زیادہ حق دار ہیں اس امر اور تم پر ولایت کے،ان لوگوں کی نسبت جو ناحق اس کا دعوی کرتے ہیں اور تم لوگوں پر ظلم وجور کے ذریعے حکومت کرتے ہیں” ۔
عاشورا کا پیغام یہی ہے کہ اسلامی معاشرے میں حاکمیت اور ولایت اس کے شائستہ افراد کا حق ہے اور اس میں ملوکیت اوروراثت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
حقیقی صبر :
امام حسین ؑاور آپ کے ا صحاب صبر اور تحمل میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں ۔ امام ہمیشہ اپنے اصحاب اور اقرباء کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ”صبر اور مقاومت سے کام لو اے بزرگ زادگان ۔ کیونکہ موت تمہیں غم اور سختی سے عبور کراتی ہے اور وسیع بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچاتی ہے۔
کربلا کے میدان میں ہمیں ایک اور شخصیت نظر آتی ہے جس نے صبر کا ایسا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی اسی وجہ سے ان کا نام ام المصائب پڑ گیا ۔ حضرت زینب وہ شخصیت ہے جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ۔اور شہادت کے بعد خیمے جلے پھر بھی صبر سے کام لیا ، سروں سے چادرں چھینی گئیں صبر کیا اور جب حضرت امام حسین ؑ کو اس حالت میں دیکھا کہ سر کٹا ہوا ہے اور ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی ہے اس وقت بارگاہ خداوندی میں فرماتی ہیں :
” اللھم تقبل منا ھذا القربان القلیل”
” اے خدا ہماری یہ قلیل قربانی اپنی باگاہ میں قبول کر لے۔”
امام حسین ؑ شب عاشور اپنے اہل حرم کو جمع کرکے فرماتے ہیں :
”یہ قوم میرے قتل کے بغیر راضی نہیں ہو گی ۔ لیکن میں آپ لوگوں کو تقوی الہٰی اور بلا پر صبر اور مصیبت میں تحمل کی وصیت کرتا ہوں۔ ”
اخلاص :
امام حسین ؑ نے خروج نہ حکومت کے لئے کیاتھا نہ جاہ طلبی ومال کے لئے ۔بلکہ امام ؑ خالصتاًللہ مدینہ سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلے تھے۔امام ؑنے مدینہ سے نکلتے وقت فرمایا کہ
”انی لم اخرج اشرا ً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً بل خرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی رسول اللّٰہ ارید ان أمر بالمعروف وانھی عن المنکر واسیر بسیرۃ جدی وابی”
میں اس وجہ سے خروج نہیں کر رہا ہوں کہ تاکہ فسادپھیلاؤں اور ظلم کروں بلکہ میں اس وجہ سے خروج کررہاہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں۔ اور میرا ارادہ یہ ہے کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں ۔ اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔(بحارالانوار ج ٤٤ ص ٣٢٩)
امام ؑ کا کوئی ذاتی مقصد نہیں تھا بلکہ خدا کے مقصد کو اپنا مقصد بنایا یعنی لوگوں کو گمراہی سے بچانا۔جو لوگ طالب مال ودنیا تھے انہوں نے امام ؑکا ساتھ نہیں دیا اور کئی لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے بھی گئے۔امام ؑ کے ساتھ فقط وہی لوگ تھے جو مخلص تھے اور مال ومتاع کی غرض نہیں رکھتے تھے ۔
امام ؑکے اصحاب میں سے حضرت عابس نے رجز پڑھتے ہوئے فرمایا کہ :
”میں اپنی تلوار سے تمہارے ساتھ جنگ اور جہاد کروں گا یہاں تک کہ خدا کی بارگاہ میں چلاجاؤں اور اس کے بدلے میں خدا سے جزا کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا ۔”
عشق خدا :
امام ؑاور آپ کے اصحاب ہمیشہ عشق خدا میں سرشار نظر آتے ہیں ۔یہاں تک کہ انہیں موت سے خوف ہے نہ جنگ سے ڈر۔ بلکہ وہ موت کو خدا سے ملاقات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ حضرت بریر ہمدا نی ؑروز عاشور بہت خوش نظر آرہے تھے اوردوسروں سے مذاق کررہے تھے۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اے بریرؑ کیا یہ ہنسنے اور مذاق کرنے کا وقت ہے ، تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ میں اسی لئے تو خوش ہو رہا ہوں کیونکہ تھوڑی دیر بعد شہادت نصیب ہو گی۔
خدا سے محبت ہی کی خاطر امام ؑنے ایک شب کی مہلت مانگی تاکہ خدا کے حضور زیادہ سے زیادہ مناجات کا موقع مل جائے۔ہر عاشق اپنے محبوب کی پسند سے محبت رکھتا ہے اور خدا کو یہ فعل زیادہ پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں رازونیاز اور عبادت واستغفار کریں۔امام ؑ ارشاد فرماتے ہیں :
”نصلی لربنا اللیلۃ وندعوہ ونستغفرہ ، فھو یعلم انی قد احب الصلوۃ وتلاوۃ کتابہ والدعاء والاستغفار”
آج کی رات ہم اپنے پروردگار کی عبادت کریں اور اس کی بارگاہ میں دعا واستغفار کریں۔ وہ جانتا ہے کہ میں نماز ،اس کی کتاب کی تلاوت ، دعا اور استغفار کو پسند کرتا ہوں۔(الارشاد ج٢ ص٩٠)
یہ امام حسین علیہ السلام کا خدا سےلگاؤتھا کہ آپ ایک رات کی مہلت فقط اور فقط خدا کے لیے مانگ رہے ہیں اگرچہ اس رات کے اور بھی اہداف محقیقن نے بیان کیے ہیں ہیں مگر امام عالیمقام کے اس فرمانسے آپ کے شب عاشور کا ہدف کا اندازہ لگانا واضح اور روشن ہے گویا کہ ایک رات تو کیا آپ کو مکمل زندگی جینے کی مہلت دے دی جاتی تو آپ نماز، تلاوت و استغفار میں گذار دیتے کیونکہ ہمیشہ انسان اپنی محبوب چیز کو حاصل کرنے کے لیے زندگی میں تگ و دو کرتا ہے ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے اور آخری لمحات تک اس کے بارے میں فکر مند رہتا ہے اب امام علیہ السلام کی عشق اور محبت جن چیزوں سے تھیں انہیں آپ ایک رات میں ایسے انجام دیتے ہیں کہ راوی کہتا ہے۔
شب عاشور امام علیہ السلام کے خیموں سے دعا ون تلاوت اور نماز کی صدائیں اس طرح آرہی تھیں جیسے شہد کی مکھی کے چھتے سے بھنبھنانے کی آواز آتی ہے۔
صبر سید الشہدا علیہ السلام کی ایک منفر د خاصیت:
دنیاکے مصائب اور گردش ایام پر صبر کرنا ہے ،آپ نے صبر کی مٹھاس اپنے بچپن سے چکھی ،اپنے جد اور مادر گرامی کی مصیبتیں برداشت کیں ،اپنے پدر بزرگوار پرآنے والی سخت مصیبتوںکا مشاہدہ کیا،اپنے برادر بزرگوار کے دور میں صبر کا گھونٹ پیا ،ان کے لشکر کے ذریعہ آپ کو رسوا و ذلیل اورآپ سے غداری کرتے دیکھا یہاں تک کہ آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن آپ اپنے برادر بزرگوار کے تمام آلام و مصائب میں شریک رہے ،یہاں تک کہ معاویہ نے امام حسن کو زہر ہلاہل دیدیا، آپ اپنے بھا ئی کا جنازہ اپنے جد کے پہلو میں دفن کرنے کے لئے لے کر چلے تو بنی امیہ نے آپ کا راستہ روکا اور امام حسن کے جنازہ کو ان کے جد کے پہلو میں دفن نہیں ہونے دیایہ آپ کے لئے سب سے بڑی مصیبت تھی ۔
آپ کے لئے سب سے عظیم مصیبت جس پر آپ نے صبر کیا وہ اسلام کے اصول و قوانین پرعمل نہ کرنا تھانیز آپ کے لئے ایک بڑی مصیبت یہ تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے جدبزرگوار کی طرف جھوٹی حدیثیں منسوب کی جا رہی ہیں جن کی بنا پر شریعت ا لٰہی مسخ ہو رہی تھی آپ نے اس المیہ کا بھی مشاہدہ کیا کہ آپ کے پدر بزرگوار پر منبروں سے سب و شتم کیاجارہا ہے نیز باغی” زیاد”شیعوں اور آپ کے چاہنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار رہاتھاچنانچہ آپ نے ان تمام مصائب و آلام پر صبر کیا ۔
جس سب سے سخت مصیبت پر آپ نے صبر کیا وہ دس محرم الحرام تھی مصیبتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں بلکہ مصیبتیں آپ کا طواف کر رہی تھیں آپ اپنی اولاد اور اہل بیت کے روشن و منورستاروں کے سامنے کھڑے تھے ،جب ان کی طرف تلواریں اور نیزے بڑھ رہے تھے تو آپ ان سے مخاطب ہو کر ان کو صبر اور استقامت کی تلقین کر رہے تھے :”اے میرے اہل بیت !صبر کرو ،اے میرے چچا کے بیٹوں! صبر کرو اس دن سے زیادہ سخت دن نہیں آئے گا ”۔
آپ نے اپنی حقیقی بہن عقیلہ بنی ہاشم کو دیکھا کہ میرے خطبہ کے بعد ان کا دل رنج و غم سے بیٹھا جارہا ہے تو آپ جلدی سے ان کے پاس آئے اور جو اللہ نے آپ کی قسمت میں لکھ دیا تھا اس پر ہمیشہ صبرو رضا سے پیش آنے کا حکم دیا ۔
سب سے زیادہ خوفناک اور غم انگیز چیز جس پر امام نے صبر کیا وہ بچوں اور اہل وعیال کا پیاس سے بلبلانا تھا ،جوپیاس کی شدت سے فریاد کر رہے تھے، آپ ان کو صبرو استقامت کی تلقین کررہے تھے اور ان کو یہ خبر دے رہے تھے کہ ان تمام مصائب و آلام کو سہنے کے بعد ان کا مستقبل روشن و منور ہو جا ئے گا ۔
آپ نے اس وقت بھی صبر کا مظاہرہ کیا جب تمام اعداء ایک دم ٹوٹ پڑے تھے اور چاروں طرف سے آپ کو نیزے و تلوار مار رہے تھے اور آپ کا جسم اطہرپیاس کی شدت سے بے تاب ہو رہا تھا ۔
مشکلات کا غیر دائمی ہونا:
انسان کی زندگی بلکل صاف اور آسان راستے کی طرح نہیں بلکہ اس میں اتار چڑھاو، پیچ و خم آتے رہتے ہیں اگرچہ عام طور انسان کی زندگی میں خوشیاں اور غم دونوں ملتے ہیں لیکن مشکلات اور غموں سے انسان جو کچھ سیکھتا ہے اور اس سے زندگی میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے وہ خوشیوں میں نہیں سیکھ سکتا یعنی انسان کی کامیابی اس کی مشکلات میں مضمر ہے اور اسی کی مرہون منت ہے لہذا کبھی بھی انسان مصیبتوں میں حؤاس باختہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ تو ترقی اور حقیقی کامرانی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں روز عاشور ہمیں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب سے یہی پیغام ملتا ہے کہ وہ اس قدر سنگین اور ذمہ داری والے معرکے کو کس قدر خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے روایت میں ہے کہ
فروي أن برير بن خضير الهمداني وعبد الرحمن بن عبد ربهالأنصاري وقفا على باب الفسطاط ليطليا بعد ، فجعل برير يضاحك عبد الرحمن
فقال له عبد الرحمن : يا برير أتضحك ما هذه ساعة ضحك ولا باطل
فقال برير : لقد علم قومي أنني ما أحببت الباطل كهلا ولا شابا وإنما أفعل ذلك إستبشارا بما نصير إليه
"امام حسینؑ کے اصحاب شہادت کو اس قدر بڑی سعادت سمجھتے تھے کہ شہادت سے ہمکنار ہونے کے لیے خود کو انہوں نے مزین کیا اور باطنی طور پر اس قدر مطمئن اور پرسکون تھے کہ بعض اصحاب كے روزِ عاشور ہنسی مذاق کے واقعات کتب میں وارد ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ بریر بن حضیر اور عبد الرحمن بن عبد ربہ انصاری کے درمیان ہے۔ سید ابن طاووس نے نقل کیا ہے کہ دن کے وقت امام حسینؑ جنگ کے لیے آمادہ ہوئے اور اپنے ناخن اور بالوں کو تراشا۔ بریر اور عبد الرحمن خیمے کے باہر منتظر تھے کہ امام حسینؑ کے بعد وہ خیمہ میں جائیں اور اپنے ناخن و اضافی بالوں کو صاف کریں۔ اس وقت بریر نے عبد الرحمن انصاری کو ہنسانا اور مزاح کرنا شروع کیا۔ عبد الرحمن نے کہا: کیا اس وقت تم مزاح کرتے ہو؟ یہ وقت مزاح اور باطل لغو کاموں کا نہیں ہے۔ بریر نے کہا: میرا قبیلہ جانتا ہے کہ میں نے نہ بڑھاپے میں کبھی باطل لغو کام کیے ہیں اور نہ جوانی میں، میں تو اس بشارت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں جس کی طرف ہم جلد منتقل ہو جائیں گے، قسم بخدا! یہ صرف اس لیے ہے کیونکہ ہم اپنی تلواروں کے ساتھ اس لشکر پر حملہ آور ہوں گے اور کچھ دیر تلواروں سے ان کا علاج کریں گے اور اس کے بعد ہم حور العین کے ساتھ معانقہ کریں گے”۔
(اللہوف فی قتلی الطفوف ص 120)
اس روایت سے یہ جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ مصائب و آلام جتنے بھی شدید کیوں نہ ہوں بالآخر ختم ہونے ہیں لہذا ہمیں بھی اپنی معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی مشکلات پر صبر کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ اگر ہم مذہب اہل بیت پر گامزن ہیں تو یہ تما م پریشانیاں ایک دن برطرف ہوجائیں گے کیونکہ کوئی بھی مشکل ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button