Uncategorized

گناہاں کبیرہ: ظالموں کی مدد کرنا اور ان سے رغبت

وہ انتیسواں گناہ کہ جس کا کبیرہ ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے وہ ظالموں کی مدد کرنا ہے ۔ چنانچہ فضل بن شاذان گناہانِ کبیرہ کے ضمن میں امام علی رضا علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
ومعونة الظالمین والرکون الیهم
ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی طرف مائل ہونا گناہِ کبیرہ ہے۔
روایت اعمش میں اسی طرح کی حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی گئی ہے۔” و ترک اعانة المظلومین” یعنی مظلوم سے ظلم دور کرنے کے لئے اس کی مدد نہ کرنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ پس ظا لم کی اس کے ظلم میں مدد کرنا بطریق اولیٰ گناہانِ کبیرہ میں سے ہوگا۔
امام موسیٰ بن جعفر علیہماالسلام فرماتے ہیں:
الدخول فی اعمالهم والعون لهم والسعی فی حوائجهم عدیل الکفر والنظر الیهم علی العمد من الکبائر التی یستحق بها النار
(وسائل الشیعہ کتاب تجارت ب ۴۵ ج ۱۴ ص ۱۳۸)
ظالموں کے کاموں میں شرکت کرنا اور ان کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنا اور ان کی مدد کرنا کفر کے برابر اور جانتے بوجھتے ہوئے ان کی طرف دیکھنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے اور وہ جہنم کا مستحق ہے۔
اور رسولِ خدا نے فرمایا:
فی حدیث الا سراء وما راه مکتوبا علی ابواب النار ومن جملته لا تکن عونا لظالمین
(وسائل الشیعہ)
شب معراج میں جہنم کے دروازوں پر یہ حکم لکھا دیکھا "کہ ظالموں کی مدد کرنے والے نہ بنو۔
یعنی اگر تم جہنم میں نہیں جانا چاہتے تو ظالموں کی مدد نہ کرو اس کے علاوہ یہ وہ گناہ ہے کہ جس کے بارے میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا ہے۔
ولا ترکنو ا الی الذین ظلموا فتمسکم النار وما لکم من دون الله من اولیاء ثم لا تنصرون
(ھود ۱۱۵)
اور (مسلمانو) جن لوگوں نے (ہماری نافرمانی کر کے) اپنے اوپر ظلم کیا ہے ان کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی ) آ لپیٹے گی اور خدا کے سوا اور لوگ تمہارے سرپرست بھی نہیں۔
تفسیر منہج الصادقین میں لکھا ہے رکون یعنی جس سے اس آیہ شریفہ میں منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد میل یسیر ہے یعنی تھوڑا سا بھی ایسے لوگوں کی طرف مائل ہونا جنہوں نے اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کیا ہو یعنی عزت سے ان کا ذکر کرنا ان سے باہم میل ملاپ کرنا ان سے محبت کا اظہار کرنا اور ان کے تحائف کی طرف طمع رکھنا ان کی تعریف کرنا اور ان کے حکم کی اطاعت کرنا یہ تمام باتیں ان کی طرف مائل ہونے میں آتی ہیں جب ان باتوں سے منع کیا گیا ہے تو ان سے بہت زیادہ میل ملاپ رکھنا یعنی قلم میں ان کی مدد کرنا اس پر راضی رہنا اور ظلم کرنے میں ان کے ساتھ شریک ہونا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔
من دعا ظالما با لبقاء فقدا حب ان یعص الله فی ارضه
(منہج الصادقین ج ۴ ص ۴۵۹)
اگر کوئی شخص کسی ظالم کو درازی عمر کی دعا دے تو گویا ایسا ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی مخالفت کو پسند کرتا ہے۔ کتاب روضات الجنات میں کتاب مدارک الاحکام کے مولف جناب سید محمد کے حالات کے ضمن میں لکھا ہے جناب سید محمد اور جناب شیخ صاحب معلم الاصول نے ایک ساتھ مل کر حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کا ارادہ کیا لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ شاہ عباسی صفوی ان دنوں مشہد میں ٹھہرا ہوا ہے تو انہوں نے زیارت کے ارادے کو ترک کر دیا۔
اس کے علاوہ سید بحرالعلوم کے حالات میں لکھا ہے کہ جب والی شوستران کے ساتھ بہت تواضع سے پیش آیا تو انہوں نے فرمایا میرے دل میں اس کی طرف سے تھوڑی سی رغبت پیدا ہو گئی لیکن اس سے قبل کہ میں آیہ شریفہ کا مصداق بنوں میں نے ضروری سمجھا کہ یہاں سے فرار اختیار کروں چنانچہ انہوں نے دیزفول کو چھوڑ کر عراق میں سکونت اختیار کی اور آخری عمر تک وہیں رہے بعض بزرگانِ دین کے حالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ظالموں سے بات چیت و خط و کتابت اور ان سے معاشرت سے کس قدر پرہیز کرتے تھے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ظالموں کے دوست بن جائیں اور ان سے ظالموں کی مدح کرنے کا گناہ سرزد ہوجائے۔
تاریخ بحیرہ سے نقل کیا گیا ہے کہ خواجہ نظام الملک وزیر (ملک شاہ سلجوقی) کو آخرت اور روز قیامت کے حساب کا بہت خیال رہتا تھا۔ اور وہ اسی وجہ سے ڈرتا تھا۔ اس کے باوجود اپنی مدت وزارت میں وہ عاجزوں کا فریاد رس، دانشمندوں کا پشت بان، دینی آداب و رسوم کا پابند تھا۔ اس کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اپنی اس مدت وزارت میں اپنے حسن سلوک کے بارے میں لوگوں سے ایک گواہ نامہ لکھوا لیا جائے کہ اہل اسلام کے بزرگ گواہی دیں اور دستخط کریں اورکفن میں رکھا جائے شاید اس طرح نجات پا جائے بہت سے بزرگوں نے اس کے حسن اخلاق کے بارے میں لکھ دیا لیکن جب وہ گواہی نامہ بغداد میں مدرسہ نظامیہ کے مدرس شیخ ابو اسحٰق کو دیا گیا تو آپ نے لکھا۔
خیر الظلمة حسن کتبه ابوا سحاق
میں گواہی دیتا ہوں کہ شیخ نظام الملک ظالموں میں بہت اچھا ظالم ہے۔
جب ابو اسحٰق کی گواہی خواجہ نے دیکھی تو بہت رویا اور کہا ابو اسحٰق نے جو کچھ لکھا ہے سچ اور حقیقت یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالموں کی مدد کرنا ہر صورت میں حرام اور گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، نیز ظالم کی اقسام اور ظالم کی مدد کرنے کی قسمیں ان سب کے لئے حکم ہے اور وہ چیز کہ جس کا سمجھنا ضروری ہے۔
ظالموں کی اقسام
ظلم سے مراد احکام خدا سے رو گردانی کرنا اور وہ چیز جوعقل و شرع نے متعین کی ہے اس کی مخالفت کرنا اور اس کی دو قسمیں ہیں۔
(۱)حدود الہٰی سے تجاوز کرنا انسان کا مشرک ہونے کے برابر ہے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
ان الشرک لظلم عظیم
(لقمان ۱۲)
بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔
(۲) خدا کی آیات کو جھٹلانا جیسا کہ قرآن مجید میں خدا کا ارشاد ہے:
والکافرون هم الظالمون
( بقرہ ۲۵۵)
بطور کلی وہ حکم شرعی کہ جس پہ عقلاً و شرعاً اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ اسے قبول نہ کرنا اور اس پر یقین نہ رکھنا ظلم ہے۔ اور اس کے علاوہ مثلاً احکام الہٰی سے رو گردانی کرنا یا یہ کہ واجب کو ترک کرنا اور حرام کا ارتکاب کرنا یہ سب ظلم ہے۔
چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:
ومن یتعد حدود الله فا ولئک هم الظالمون
(بقرہ ۴۲۹)
جو حدود الہٰی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالمین ہیں یعنی ان تمام موارد میں خود ہی انسان نے اپنے اوپر ظلم کیا جیسا کہ فرمان خدا ہے۔
"فمنهم ظالم لنفسه”
(فاطر ۲۹)
یہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔
کسی دوسرے شخص کے بارے میں حدود الہٰی سے تجاوز کرنا یعنی کسی شخص کو جسمانی لحاظ سے تکلیف دینا مثلاً مارنا قتل کرنا قید کرنا یا کسی کی بے عزتی کرنا مثلاً گالی دینا، غیبت کرنا، تہمت لگانا اس کی توہین کرنا یا کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا مثلاً کسی کا مال اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لے لینا یا کسی صاحب حق کو اس کا حق نہ دینا اور اسی طرح غصب کی دوسری اقسام ہیں جن میں سب سے بڑا گناہ مقام منصب و ولایت پر قبضہ کرنا ہے جبکہ واضح طور پر اہل بیت ہی اس کے مستحق تھے جسے ظالم خلفا بنی امیہ و بنی العباس نے غصب کیا اور اسی طرح اس کی دوسری مثال غیر عادل مجتہد کا کرسی قضاوت پر بیٹھنا ہے اور ایسے ظالموں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ظلم و ستم اس شخص کا پیشہ ہو جیسا کہ ظالم اور لٹیرے حکمران۔ دوسرے یہ کہ ظلم اس شخص کا پیشہ نہ ہو لیکن اتفاقاً بعض اوقات اس سے کوئی ظلم صادر ہوا ہو اور وہ کسی پر ستم ڈھائے ان احکام کو جاننے کے لئے ان اقسام میں سے ہر ایک کی چار ابواب میں توضیح کی جائے گی۔
ظالم کی ظلم میں مدد کرنا
وہ ظالم کہ جسکا ظلم کرنا پیشہ ہو اس کے ظلم میں مدد کرنابغیر کسی شک کے گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ مثلاً کسی مظلوم کو مارنے کے لئے اس کے ہاتھ میں تازیانہ دینا یا کسی مظلوم کو پکڑنا تاکہ اسے مارے، قتل کرے یا قیدکردے اور کسی بھی طرح ظالم کے ظلم میں مدد کرنا حرام ہے۔
شیخ انصاری علیہ الرحمہ مکاسب میں فرماتے ہیں ظالموں کی ان کے ظلم میں مدد کرنا چار دلیلوں ( جو کہ احکام ثابت کرنے کا ذریعہ ہیں( یعنی قرآن، عقل، سنت اور اجماع) سے ثابت اور گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ دلیل عقلی یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کی مدد کرنے والا نہ ہو اور اس صورت میں ظالم ظلم نہ کر سکے تو عقل یہ حکم دیتی ہے کہ اس کی مدد کرنا حرام ہے۔ اور عقل ظالم کی مدد کرنے والے کو اور ظالم دونوں کو ان کے برے کردار اور اعمال کی جواب دہی کے لحاظ سے برابر سمجھتی ہے خلاصہ عقل بغیر کسی تردید کے ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنے کو حرام قرار دیتی ہے۔
اجماع
فقہی کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنا تمام فقہاء کے نزدیک حرام ہے اور یہ اجماعی مسئلہ ہے۔ اور قرآن میں فقط "ولا ترکنوا الی الذین ظلموا” کی آیت ظالم کی اس کے ظلم میں مدد کرنے کی حرمت کے لئے کافی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب ظالم کی طرف تھوڑا سا بھی مائل ہونا حرام ہو تو یقینا ظلم میں اس کی مدد کرنا بطریق اولیٰ حرام ہوگا کیونکہ ظالم کی مدد کرنا اس کی طرف مائل ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ارشاد خدا ہے۔
ولا تعاونوا علی الا ثم والعدوان واتقو الله ان الله شدید العقاب
( مائدہ ۲)
اور گناہ اور ظلم میں باہم کسی کی مدد نہ کرو اور خدا سے ڈرو (کیونکہ) خدا تو یقینا بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔
ظالم کی مدد اور روایات اہل بیت علیہ السلام
اس سلسلے میں بھی بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ اور شیخ انصاری نے کتاب ورام میں رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا۔
من مشی مع ظالم لیعینه وهو یعلم انه ظالم فقد خرج من الاسلام
(مجموعہ ورام جز اول ص ۴۵)
اگر کوئی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرے جائے حالانکہ وہ یہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے تو یقینا وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا اور ظاہر ہے کہ وہ چیز جو انسان کو دائرہ ایمان و اسلام سے خارج کر دے وہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو کہ ہلاکت کا باعث بنے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اذا کان یوم القیمة نادی منا د این الظلمة واعوان الظلمة و اشباه الظلمة حتی من برء لهم قلما ولا ق لهم دواتا قال فیجمتمعون فی تابوت من حدید ثم یرمی بهم فی جهنم
(وسائل ج ۱۴ ص ۱۳۱)
جب قیامت برپا ہوگی ایک منادی یہ ندا دے گا۔ ظالم اور ظالموں کی مدد کرنے والے اور ظالموں کی مانند لوگ کہاں ہیں۔ یہاں تک اگر کسی نے ظالم کے لئے قلم یا سیاہی کی دوات بنائی ہو تاکہ وہ ظلم کا حکم لکھ سکے پس ان تمام لوگوں کو ایک لوہے کے تابوت میں جمع کیا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
اور حضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ومن علق سوطا بین یدی سلطان جایر جعلها الله حیة طولها سبعون الف ذراع فیسلط الله علیه فی نار جهنم خالد ا فیها مخلدا
(وسائل کتاب تجارت ج ۱۴ ص ۱۳۱)
اگر کوئی شخص کسی ظالم بادشاہ کے حضور تازیانہ لٹکا دے تاکہ وہ اس سے مظلوم کو مارے تو خدا وند عالم اس تازیانے کوستر ہزار گز لمبے سانپ کی صورت میں بدل دے گا اور اس سانپ کو جہنم کی آگ میں ہمیشہ اس پر مسلط رکھے گا۔ اس کے علاوہ آپ نے فرمایا:
من تولی خصومة ظالم او اعان علیها ثم نزل به ملک الموت قال له البشر بلعنة ا للّٰه ونارجهنم وبئس المصیر ومن دل سلطانا علی الجور قرن مع هامان وکان هو السلطان من اشد اهل النار عذابا ومن سعی باخیه الی سلطان ولم ینله منه سوء او مکروه اوا ذی جعله ا للّٰه فی طبقة مع هامان فی جهنم
(وسائل ج ۱۲ ص ۱۳۲)
اگر کوئی ظالم کے لڑائی جھگڑے کے (معاملے)کو اپنے ہاتھ میں لے اور ظالم کی مدد کرے تو موت کے وقت فرشتہ اجل اس کو لعنت خدا اور جہنم کی نوید دیتا ہے۔ جو بری جگہ ہے۔ اور اگر کوئی ظالم کی ظلم وستم کی طرف راہنمائی کرے تو وہ ہامان(فرعون کے وزیر)کے ساتھ محشور ہوگا (اور اس شخص یعنی ظلم کی طرف رہنمائی کرنے والے کا )اور عذب دوسرے دوزخیوں سے زیادہ سخت ہوگا اور اگر کوئی شخص اپنے کسی مومن بھائی کی بادشاہ کے سامنے چغلی کرے (یعنی اس مسلمان کا بادشاہ سے مومن کے بارے ایسی باتیں کہنا کہ جسے سن کر بادشاہ مومن پرغضب ناک ہو) لیکن اگر بادشاہ کی طرف سے اس مومن کو کچھ بھی نہ کہا جائے اور نہ ہی کوئی اذیت دی جائے تو خداوند عالم اس چغل خور کے سب نیک اعمال ضائع کردے گا لیکن اگر بادشاہ کی طرف سے اس مومن پر کوئی مصیبت نازل ہو (یعنی اذیت وتکلیف پہنچے) تو خداوند عالم اس چغل خور کو جہنم کے اس طبقے میں رکھے گا جہاں ہامان ہے۔
ظالم کی تعریف کرنا بھی حرام ہے
ظالم کی اس طرح تعریف کرنا جو کہ اس کی قوت وشان شوکت کا باعث ہو اور وہ زیادہ ظلم کرسکے یا یہ کہ اس کی تعریف کرنا ظالم کو اور جری بنادے اور اس سلسلے میں جو دلیلیں پہلے گزرچکی ہیں اور اس کے علاوہ نہی عن المنکرکے لئے جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں سب اس کے گناہ کبیرہ ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
خصوصاً شیخ انصاری رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
من عظم صاحب الدنیا واحبه لطمع دنیاه سخط ا للّٰه علیه وکان فی درجته مع قارون فی التابوت الاسفل من النار
(کتاب التجارہ وسائل ج ۱۴ ص ۱۳۱)
اگر کوئی شخص کسی دولت مند کی تعظیم کرے اور اسے مکرم ظاہر کرے اور اس کی دولت کی لالچ میں اسے اچھا سمجھے تو خدا وند عالم اس پر غضب ناک ہوگااور اسے آگ کے تابوت میں دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ایسی جگہ پر رکھے گا جہاں پر قارون ہے۔ اور یہ بات مخفی نہیں کہ یہ روایت سب کے لئے ہے اور اگر جس کی تعریف کی گئی ہو وہ ظالم ہو تو بطریق اولیٰ تعریف کرنے والا بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔ اس کے علاوہ حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے۔
من مدح سلطاناجائراو تخفف و تصنعضع له طمعافیه کان قرینه فی النار
(وسائل ج ۱۴ ص ۱۳۳)
اگر کوئی ظالم بادشاہ کی تعریف کرے یا لالچ میں آکر اپنے آپ کو اس سے چھوٹا اور پست ظاہر کرے تو وہ جہنم کی آگ میں اس کے ساتھ ہوگا۔
نیز آپ نے فرمایا:
اذا مدح الفاجر اهتزاالعرش وغضب الرب
(سفینة البحارج ۱ ص ۱۷۷)
جب بھی کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو عرش خدا لرز نے لگتا ہے اور خدا کا غضب تعریف کرنے والے کو گھیرلیتاہے۔
(اقتباس از’’گناہان کبیرہ‘‘)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button