Uncategorized

قرآنی طرز زندگی کے بنیادی محرکات

عامر حسین شہانی )متعلم جامعۃ الکوثر اسلام آباد(
استاد مشاور : علامہ علی حسین عارف صاحب ( مدرس جامعہ الکوثر)
مقدمہ:قرآن مجید اللہ تعالی کی لاریب کتاب اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر خداکا ایسا معجزۂ خالدہ ہے کہ جو رہتی دنیا تک ہدایت بشر کی تمام ضروریات پر پورا اترنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب معارف کا سب سے بڑا خزانہ اور افضل ترین کلام ہے۔ قرآن کے ذریعے معاشرے کے تمام ابعاد کی شناخت جامع الاطراف، عمیق و دقیق اور حقیقت پر مبنی ہے۔ در حقیقت معاشرے کے تمام انحرافات کی صحیح شناخت کا بہترین ذریعہ قرآن ہے ، چونکہ معارف اور علوم الہٰی کسی خاص مکان ، زمان اورزبان سے مخصوص نہیں ہیں اسی لئے تمام عالم امکان اور بنی نوع انسانیت کو شامل ہونے والے ہیں۔ قرآن کريم بشريت کے موردِ نياز تمام علوم و معارف کا سر چشمہ ہے، بالخصوص معاشرے کے مختلف فردی،اجتماعی،اورمعاشرتی موضوعات سے لے کر فرد اورمعاشرہ کی متقابل تاثیرات ، اجتماعی دگرگونیوں، آئیڈیل معاشرہ ، اجتماعی گروپ بندیوں ، اجتماعی اہمیتوں، معاشروں کی قوانین مندیوں، معاشرے کی ترقی میں مؤثر عوامل ، اجتماعی طبقات، فردی اوراجتماعی ضرورتوں ، الہٰی جہان بینی کے اعتبار سے مسلم معاشرہ کا مستقبل، اجتماعی تہذیب کی سلامتی، عمومی لغزشوں ، معاشروں کی مدیریت کی نئی تدابیر، جوامع انسانی کے بنیادی تفاوت اوراشترکات ،معاشرے کے انحرافات کی شناخت کا بہترین راہ حل پیش کرتا ہے۔اس بنا پر تمام موارد خصوصاً اجتماعی روابط کی ترویج میں اصيل ترين، بہترين اور کامل ترين نظريات قرآن سے اخذ کئے جاسکتے ہيں۔قرآن ہمیں معاشرے میں قرآنی طرز زندگی کے تحت امن و امان, بھائی چارہ, رواداری, عدل و انصاف کے قیام, صلح پسندانہ اقدامات, مساوات, اور قومی,ملی ,مذہبی, فردی و اجتماعی آزادی کے مناسب و منظم طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اس مقالہ میں ایک بہترین قرآنی طرز زندگی کے چندبنیادی اہم محرکات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ ہم اپنے زندگی کو قرآنی اہداف کے مطابق گزار سکیں۔
قرآن میں مختلف مقامات پر قرآنی طرز زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے دینی معاشرے کے قیام کے چند بنیادی محرکات بیان کیے گیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
قرآنی طرز زندگی کے بنیادی محرکات
1. آزادی:
انسان کی فطرت میں آزادی کے برابر کسی چیز کی قدر و قیمت نہیں ہے۔ یعنی اگر کسی شخص کو کسی جگہ قید کرکے دنیا کی تمام لذتیں اور آسائشیں فراہم کر دی جائیں تب بھی وہ اس کے بجائے آزاد زندگی کو زیادہ پسند کرے گا۔آزادی انسان کا فطری حق ہے اور تمام الہی نمائندے اپنی زندگی میں انسان کے اس بنیادی حق یعنی آزادی کا دفاع کرتے رہے ہیں۔اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس میں فرد کی جائز خواہشات، ضروریات، نفسیات اور طبعی تقاضوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامی کا کوئی حکم بھی انسان کی فطری خواہش او رجذبۂ آزادی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کا راستہ بتادیا اور ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا. فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوٰہَا. قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکّٰہَا. وَقَدْ خَابَ مَن دَسّٰہَا۔ (الشمس: 7۔10)
اور قسم ہے انسان کی جان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست بنایا، پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا) اس کو القاء کیا، یقیناً وہ مراد کو پہونچا جس نے اس جان کو پاک کرلیا، اور وہ نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبادیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر کے اختیار کرنے اور شر سے بچے رہنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ خیر و شر کا نفع و نقصان بیان کردیا، تاکہ وہ اپنی مرضی سے خیر کو اختیار کرے اور شر سے بچے۔
اسی طرح دوسری آیت میں ارشاد ہے:
اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں راستے (خیر و شر) بتلادیے۔ (البلد:10)
آزادی کی اہمیت کے بارے میں شہید مطہری فرماتے ہیں کہ انسان اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ آزادی کی بہت زیادہ قدر کا قائل ہو۔ یہ حق اس پہلو سے ہے کہ آزادی وہ نعمت ہے جو انسان کو ہر دوسری نعمت سے کم میسر رہی ہے۔ یعنی انسان کی ترقی و تکامل کے مثبت عوامل, اس منفی عامل کی نسبت جس کی الٹ یعنی رکاوٹ موجود رہی ہے, ہمیشہ نسبتا زیادہ موجود رہے ہیں اور موجود ہیں۔ اور انسان کو جو نعمت کمتر نصیب ہوئی ہو اور کمتر میسر آئی ہو وہ اس کی زیادہ قدر و قیمت اور اہمیت کا قائل ہوتا ہے۔ دنیا جو آزادی کی اس قدر اہمیت کی قائل ہے اور اس نے اسے اتنا بلند مقام دے رکھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی مخالف عامل زیادہ رہا ہے” [١]۔امام حسین علیہ السلام نے اس بارے میں ایک خوبصورت جملہ فرمایا اس قوم سے کہ جو آزادی کا راستہ موجود ہونے کے باوجود دوسری کی غلامی میں جی رہے تھے۔ فرمایا:اگر تمہارا کوئی دین نہیں تو کم از کم اپنی زندگی میں آزاد بن کر جیو۔[۲]۔البتہ آزادی سے مراد ہر طرح کی آزادی نہیں بلکہ چند حدود و قیود کے اندر رہ کر ہر انسان کو معاشرے میں آزادی حاصل ہے۔ دنیا میں آج تک ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا گیا جس میں لوگوں کو ہر لحاظ سے آزادی ہو۔قرآنی طرز زندگی میں بھی انسان کو کچھ لحاظ سے آزادی دی گئی ہے جو مندرجہ ذیل موارد ہیں۔
1۔اختیارِ دین میں آزادی:۔
قرآنی معاشرے میں انسان کو اپنا دین اختیار کرنے میں آزادی حاصل ہے۔کوئی کسی کو دین اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:۔
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔”
"دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے” [٣]۔
قرآنی طرز زندگی میں انسان کو اپنا دین و مذہب اختیار کرنے کی مکمل آذادی دی گئی ہے اور اس سلسلے میں ہر قسم کے جبر کی نفی کی گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ مذکورہ آیت کے شان نزول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔علامہ طبرسی اس آیۃ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”مدینہ میں ابوالحصین نامی ایک شخص ریتا تھا جس کے دو بیٹے تھے۔ مدینے میں مال تجارت کی غرض سے آنے والے دو تاجروں نے انھیں عیسائیت کی دعوت دی اور وہ ان سے متاثر ہوکر عیسائیت قبول کر بیٹہے۔ ابو الحصین یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں انھیں جبر کرکے دوبارہ اسلام کی طرف لانا چاہتا ہوں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنا دین اختیار کرنے کے بارے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں[٤
اس کے باوجود اسلام پر ایک بڑا اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں:
"ایمان طبعا قابل جبر نہیں ہے, مثلا ہم چاہتے ہیں کہ جبرا ایمان پیدا کریں تو ایمان طاقت کے ساتھ نہیں ٹھونسا جا سکتا, ایمان یعنی اعتقاد, فکر کی جانب رغبت اور کسی نظریے کو قبول کرنا وغیرہ۔ جبکہ فکر کی جانب رغبت کے لیے دو رکن ہیں،ایک تھیوری (Theory)علم یعنی عقل و فکر اسے قبول کرےاور دوسری جنبہ احساساتی کہ انسان کا دل میلان رکھتا ہو۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان میں جبر نہیں ہے۔”[٥] لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر دین میں جبر نہیں ہے تو پھر اسلام نے جنگ کو جہاد کا نام دے کر باقاعدہ ارکان دین میں کیوں شامل کر رکھا ہے؟تو اس کا جواب یہی ہے کہ اسلام نے ہر طرح کی جنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کی کچھ خاص شرائط ہیں۔ اسلام ابتدائی جنگ کی مذمت اور دفاعی جنگ کی تائید کرتا ہے بلکہ اسے واجب قرار دیتا ہے۔ اسلامی جنگوں کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ جنگیں دفاعی تھیں اور ان میں اکثر کا مقصد ظلم اور ظالمانہ نظام کو تہ و بالا کرنا تھا تاکہ ہر کوئی اپنے مذہب کے مطابق اجتماعی زندگی امن و سکون سے گزار سکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے جنگ جیتنے کے بعد دیگر مذاہب کو اپنے طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اپنی مذہبی تقریبات منعقد کرنے کی مکمل آزادی دی اور جہاں تک جزیہ کی بات ہے تو وہ بھی ان غیر مسلموں کی حفاظت, ان کے حقوق کی رعایت اور امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے لیا جاتا اور انہی امور میں صرف کیا جاتا تھا۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ”
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے، اور تمہارے زیردست (غلاموں اور باندیوں) میں سے جو پروانہ آزادی کو خواہش کریں تو انہیں پروانہ آزادی لکھ کردے دو اگر تم اس میں موجود بھلائی(کے بارے میں) جانتے ہو، اور تم (خود بھی) انہیں اللہ کے مال میں سے (آزاد ہونے کے لئے) دے (کر رخصت) کرو، (وہ مال) جو اس نے تمہیں عطا فرمایا ہے، اور تم اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کریہہ بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں، اور جو شخص انہیں (باندیوں کو) اس کریہہ بدکاری پر مجبور کرے گا تو اللہ ان (باندیوں) کے مجبور ہو جانے کی وجہ سے (ان کو) بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔”[٦]۔
مذکورہ بالا آیت مجیدہ شاہد ہے کہ قرآنی طرز زندگی میں غلاموں اور باندیوں پر بھی جبر سے روکا گیا ہے۔ جبکہ عام طور پر معاشرہ میں نوکروں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک رکھا جاتا ہے جس کی قرآن سختی سے تردید کی ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اس مستضعف و محروم طبقے کی اس طرح سے مدد کریں کی یہ غلامی سے نجات پا سکے۔
2۔مذہب کی آزادی:۔
قرآنی طرز زندگی میں ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق جینے کی آزادی ہے۔ کوئی کسی کے مذہب کا مذاق اڑانے کا حق نہیں رکھتا۔ دوسروں کا مذاق اڑانا ایک بہت قبیح عمل ہے جو معاشرے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کبھی تو دوسروں کے مذہب کو مذاق کا نشانہ بنایا جات ہے اور کبھی ان کی زات کو۔ قرآن اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَىٰ أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُون۔
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرےکے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں”[٧]۔
تمسخر, غیبت, گمان بد,برے القاب اور تجسس سے منع کیا گیا ہے۔ اور یہ اسلام کی خوبی اور کشادہ قلبی کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام نے مذہب و عقیدہ کے معاملہ میں کسی قسم کی تنگ نظری اور جبر کو پسند نہیں کیا ہے اور ہر شخص کو اپنی پسند کے مذہب پر باقی رہنے اور اسے اختیار کرنے کی آزادی دی ہے، چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔
دین میں کوئی زبردستی نہیں، (کیوں کہ) ہدایت یقیناً گمراہی سے ممتاز ہوچکی ہے۔(البقرۃ: 256)
وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ۔
اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، (جب یہ بات ہے) تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں جس سے وہ ایمان ہی لے آئیں۔(یونس:99)
فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ. لَّسْتَ عَلَیْہِم بِمُصَیْطِرٍ۔
(تو آپ بھی ان کی فکر میں نہ پڑیے) بلکہ صرف نصیحت کردیا کیجیے، کیوں کہ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں۔(الغاشیۃ: 21۔22)
جس معاشرے میں ان احکامات پر من و عن عمل کیا جائے یقینا وہ معاشرہ ایک پرامن معاشرہ کہلائے گا جس میں ہر انسان کی عزت و آبرو محفوظ ہوگی۔قرآن بھی ایسے ہی معاشرے کا خواہاں ہے۔ نا ہی کوئی شخص کسی کی تحقیر و تذلیل کرے نا کسی کی عیب جوئی کرے اور نا ہی برے القاب کے ساتھ کسی کی شخصیت پامال کرنے کی کوشش کرے۔اسی طرح مذہبی آزادی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پہ ارشاد ہوتا ہے۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا۔
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے۔”[۸] -3حصول علم کی آزادی -:
اسلام میں ہر فرد کو علم نافع حاصل کرنے کی آزادی ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو غیر مسلموں سے اور غیر مسلموں کو مسلمانوں سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلام نے علم کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں برتی ہے۔ یہ تنگی زمانۂ قدیم میں ہندومت اور کلیسائی نظام میں پائی جاتی تھی اور آج کارپوریٹ کلچر نے غریبوں کے لیے اعلیٰ علیم کے دروازے عملاً بند کردیے ہیں۔ اسلام نے علم کے حصول کو آسان اور سستا بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں آیات و احادیث اور اسلامی تاریخ شاہدِ عدل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ
پھر اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچادیجیے۔ یہ (حکم) اس سبب سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔(التوبۃ:6)
4۔سچ کے اظہار کی آزادی:
آج کے معاشرے میں انسان کو سچ کے اظہار کی بھی آزادی حاصل نہیں ہے۔ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی بڑے خاندان یا کسی تنظیم کا کوئی شخص کسی کیس میں گرفتار ہو جائے تو اس کے جرم کے عینی شاہدین بھی اس کے خلاف اپنی سچی گواہی پیش نہیں کر سکتے اس لیے کہ انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیں دی جاتی ہیں اور بہت سے بڑے بڑے مجرم محض اسی وجہ سے آزاد کر دیے جاتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی گواہی موجود نہیں ہوتی اور جو کوئی گواہی پر آمادہ ہو اسے گواہی دینے سے پہلے ہی راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اور ان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی گواہیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جبکہ قرآنی طرز زندگی میں انسان کو سچ کے اظہار کی مکمل آزادی دی گئی ہے بلکہ سچ کے اظہار کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ”
"اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ”[۹]۔
احادیث میں بھی اظہار حق اور ہمیشہ سچ بولنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
"تم میں سے کل قیامت میں میرے سب سے زیادہ نزدیک وہی ہوگا جو بات کرنے میں زیادہ سچا اور امانتوں کی ادائیگی کرنے والا اخلاق میں زیادہ اچھا ہو”[١۰]۔
اسی طرح قرآن کتمان حق کی مذت کرتا ہے اور حق کو باطل کے ساتھ مخلوط کرنے کو بھی قبیح عمل جانتا ہے اور حق و سچ کو آشکار کرنے کی مکمل آزادی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ارشاد ہوا:
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
"اے اہلِ کتاب! کیوں گڈ مڈ کرتے ہو تم حق کو باطل کے ساتھ اور (کیوں) چھپاتے ہو حق کو جبکہ تم جانتے ہو”[١١]۔
5۔ازاواج کے انتخاب کی آزادی:۔
قرآن ہمیں ازواج کے انتخاب میں مکمل آزادی دیتا ہے۔ ارشاد ہوا:
وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِى الۡيَتٰمٰى فَانْكِحُوۡا مَا طَابَ لَـكُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‌ ‌ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَةً اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَلَّا تَعُوۡلُوۡا
"اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو”[١۲]۔
مذکورہ بالا آیت مجیدہ میں چار ازواج کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس میں بھی عدالت کی شرط رکھ کر عورت پر جبر کی نفی کرکے اس کے حقوق کا دفاع کیا گیا ہے۔ تعدد ازدواج کا حکم اسلام کا ایک انفرادی حکم ہے۔ اس لیے کہ بعض نہیں دیگر مذاہب میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
آیۃ اللہ حسین مظاہری اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں:
"اسلام کے ضروری اور اہم احکام میں سے ازدواج ہے۔ مسیحیت میں تعدد ازدواج جائز نہیں جس کی وجہ سے وہ ایک عجیب درد سری میں مبتلا ہیں”[١٣] پس مذکورہ بحث سے واضح ہوا کہ قرآنی طرز زندگی میں انسان کی مشروط آزادی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اگرچہ قرآن بھی ہر لحاظ سے انسان کو آزادی نہیں دیتا لیکن اختیار دین, مذہب, سچ کے اظہار, ازواج کے انتخاب اور زاتی زندگی کے حوالے سے انسان کو ایسی آزادی دینے کا خواہاں ہے جو معاشرے کی ترقی کی ضامن ہو۔
2۔عدل و انصاف:۔
عدل ایک الہی صفت ہے جو تمام الہی صفات کے درمیان اپنی ایک ممتاز خصوصیت کی وجہ سے اصول دین میں شامل ہے۔
امیر المومنین علی ابن ابی طالب نہج البلاغہ میں عدل کی یوں تعریف فرماتے ہیں:
"کسی شے کو اس کے اصل مقام پہ رکھنا عدل ہے”[١٤]۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"عدل یہ ہے کہ تم خدا کی طرف کسی ایسی شے کی نسبت نہ دو کہ اگر وہی چیز تم سے سرزد ہوتی تو باعث ملامت ہوتی”[١٥]۔
عام طور پر عدل کو بھی انصاف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ عدل جہل کا متضاد ہے۔ جبکہ انصاف نصف سے ہے۔ جس کا معنی "آدھا” ہے۔ پس انصاف کا مطلب برابری یا برابر کی تقسیم ہے جبکہ عدل کا مطلب حق کو تسلیم کیا جانا یا کسی شے کو اس کے اصل مقام پر رکھنا۔ پس جہاں پر بھی عدل ہوگا وہاں جہالت کا وجود ناممکن ہے۔عدالت جس قدر حسن اور اچھی صفت ہے اس کی ضد یعنی ظلم اتنی ہی قبیح اور بری صفت ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو عقل جیسی وہ عظیم قوت عطا فرمائی ہے جس کے زریعے وہ اچھائی و برائی میں تمیز کر سکتا ہے۔ پس ظلم جہاں بھی ہو اس کے پیچہے جہالت, خوف اور نظریہ ضرورت کارفرما ہوتے ہیں۔عدل و انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کا حسن ہوا کرتا ہے۔ دنیا میں موجود مختلف اقوام کسی نہ کسی طریقے سے عدل و انصاف پہ عمل پیرا ہونے کی دعویدار نظر آتی ہیں۔ لیکن ایک قرآنی معاشرے کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہی ہے کہ اس کی بنیادی تعلیمات اور اولین ترجیحات میں سے ایک معاشرے میں عدک و انصاف کا قیام ہے۔ اس کی روشن مثال حضرت علی کا چار سالہ عادلانہ دور حکومت ہے۔ہمارے معاشرے کے بے شمار مسائل میں سے بنیادی مسائل جہالت, خوف, لالچ, خود غرضی, خود پرستی و مفادپرستی ہیں۔عدل کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جو خاندان کے افراد سے ہوتا ہوا تعلیم و تدریس، انتظامیہ، مقننہ، حکومت اور حکمرانوں کے بعد آخر میں عدلیہ تک اس وقت پہنچتا ہے، جب اس کا اطلاق راستے میں کسی ایک یا تمام جگہوں پر نہ ہو سکا ہو۔ یوں عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ کس شے کا درست مقام کیا ہے، جہاں اس کو ہونا چاہیے۔بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدل اور انصاف دینے والے بھی مختلف پارٹیوں اور گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور جو لوگ صحیح فیصلے کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں انہیں طاقت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ بہت سی خرابیوں میں اس قدر بری طرح جکڑا جا چکا ہے کہ اب اس کو ٹھیک کرنے کے لئے بے رحم اور سخت عدل و انصاف کا رائج ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا محاورہ ہر طرح معاشرہ میں لاگو ہے۔عدل و انصاف کے ادارے کسی معاشرے کے اخلاقی، معاشی، معاشرتی اقتدار اور اس کے نظام کو انصاف اور اعتدال پر قائم رکھنے کے بنیادی عنصر یا جز ہوتے ہیں۔عدلیہ کا ادارہ ظلم، زیادتی، ناانصافی اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں تمام جرائم کو ختم کرنے اور ہر قسم کے استحل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اہم فریضہ ادا کرتا ہے۔
منصف معاشرے میں ہر قسم کی برائی اور جرائم کو قانون کی طاقت سے نیست و نابود کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بناتے ہیں۔جو قومیں عدل و انصاف پر قائم رہتی ہیں، وہ ترقی کی منزلیں طے کرکے دنیا کے ملکوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہیں جو قومیں اس کو چھوڑ دیتی ہیں، تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔عدل و انصاف وہ چیز ہے جو ابتداء سے لے کر اب تک انسان کی ضرورت رہی ہے۔ یہ کسی ایک گروہ, قوم یا مذہب کا خاصہ نہیں بلکہ انسانیت کی فطری ضرورت ہے۔جب مکہ کی وادیوں سے اسلام کا سورج طلوع ہوا تو اس جہالت بھرے معاشرے میں عدالت کا فقدان تھا ۔اسی وجہ سے وہ پستی کا شکار تھے۔ مظلومین اور مستضعفین ظالمین کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے ۔پورے معاشرے میں ظلم و بے انصافی کا راج تھا ۔صدیوں پر محیط جہالت و گمراہی کی چادر میں لپٹاہوامعاشرہ اسلامی نطام عدالت کو فوری طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
عدل و انصاف عقلی لحاظ سے ایک اچھی اور پسندیدہ صفت ہے یہی وجہ ہے کہ اگرچہ اسلام عدل و انصاف کی بہت تاکید کرتا ہے لیکن جو لوگ اسلام اور شریعت کا سرے سے انکار کرتے ہیں وہ بھی عدل و انصاف کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ عدل و انصاف کی ارزش سمجھانے کے لیے فقط یہی جملہ ہی کافی ہے کہ وہ اصول جو کبھی متنازعہ نہیں رہا وہ یہی عدل و انصاف ہے۔ اسی لیے قرآنی طرز زندگی کا ایک اہم اور بنیادی عنصر عدل و انصاف ہے۔
3۔ مساوات
مساوات کا لفظی معنی برابری ہے۔ اسلام نے مساوات کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ البتہ اس میں افراط و تفریط سے کام نہیں لینا چاہیے اور مرد و عورت کے جسمانی فرق اور زمہ داریوں کے اختلاف سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ دونوں صنفوں میں جسمانی و روحانی فرق بہر حال موجود ہے۔ مساوات کا یہ معنی بھی نہیں کہ ہر کسی کو اعلی و ادنی خدمات کا ایک جیسا معاوضہ دیا جائے۔ بلکہ لوگوں کے ساتھ موقع کے حصول میں مساوات کو بڑھایاجائے۔
مساوات کی اقسام:
مساوات کی دو اقسام قابل غور ہیں۔1۔قانونی مساوات 2۔معاشرتی مساوات
1۔قانونی مساوات:۔
قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص مفلس ہو یا خوشحال، کالا ہو یا گورا، عالم ہو یا جاہل قانون سے بالا تر نہیں۔ اگر اس سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو اس کی حیثیت اور دولت کے بناءپر کوئی رعایت نہ برتی جائے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
"کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔”
2۔معاشرتی مساوات:۔
معاشرتی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت حاصل نہیں ہے بزرگی اور عظمت کا معیار صرف تقوی ہے۔بے شک خدا کے نزدیک سب سے زیادہ تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔بقول شاعر:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
حضور ﷺ کی نظر میں سب برابر تھے امیر، غریب، آقا غلام، صغیر و کبیر سب برابر تھے۔ عربی اور عجمی میں کوئی تفریق نہ تھی آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا عمل ہر موقع پر مساویانہ رہا۔اللہ تعالی نے ابن آدم کو پیدائشی طور پر عزت و تکریم عطا فرمائی ہے جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
"بے شک ہم نے اولاد آدم عزت دی اور انھیں خشکی و تری میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں۔ اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پہ فضیلت دی”[١٦]۔
احادیث میں بھی مساوات کی بہت تاکید کی گئی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے ایک بچے سے پیار کر رہا تھا لیکن دوسرے سے نہیں کررہا تھا تو آپ نے فرمایا”تم عدل و مساوات کا خیال کیوں نہیں رکھتے”[١٧]۔
اسی طرح ایک شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ اس کا بیٹا آگیا تو اس نے بیٹے کو چوم کر زانو پر بٹھا لیا۔ اور پھر کچھ دیر بعد اس کی بیٹی آئی تو اس نے اسے سامنے بٹھا لیا۔ یہ دیکھ کر رسول خدا ص نے فرمایا”تم نے اپنی اولاد کے درمیان عدالت و برابری کا لحاظ کیوں نہیں رکھا۔”[١۸] پس معلوم ہوا کہ دین نے اپنی اولاد سے لے کر معاشرے کے ہر طبقہ کے ساتھ مساوات کے برتاؤ کی تاکید فرمائی ہے۔ اور یہی ایک پرامن قرآنی طرز زندگی ہے جس سے معاشرے میں امن و ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔
4۔ احترام انسانیت
انسان مدنی الطبع ہے، وہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے اپنے ہم جنسوں کا محتاج ہے اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ایک دوسرے کا مفاد خیال رکھنے کا پابند ہے۔۔۔ کیونکہ انسانی میل جول سے بہت سے معاملات پیدا ہوتے ہیں جو عام معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے منشائے ایزدی یہ ہے کہ روز مرہ کے معاملات حُسن وخوبی کے ساتھ نمٹائے جائیں اور معاشرتی عمل میں مثبت عمل میں مثبت رویئے اختیار کئے جائیں یہ ہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر بڑا زور دیا ہے یعنی اللہ تعالٰی کی فرماں برداری کے ساتھ اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی ایک بڑی عبادت قرار پائی۔ایک اسلامی معاشرے میں رہنے والے تمام انسانوں کی جان و مال قابل احترام ہے۔ قرآن پاک ایک ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جہاں رہنے والے ایک دوسرے کے غمگسار اور ہمدرد ہوں، جو ایک دوسرے کے جان و مال کا احترام کریں۔اس لیے ’’ناحق قتل‘‘ کو قرآن پاک میں ظلم سے تعبیر کیاگیا ہے۔ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں انسان صرف پانچ صورتوں میں قتل کا سزا وار ہوتا۔ جب اس نے ناحق قتل کیا ہو، دین حق کا دشمن ہو، دین کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہو اور دشمنی سے باز نہ آتا ہو، اسلامی سلطنت میں فساد اور بدامنی کا مرتکب ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو، مرتد ہو۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں قتل ناحق کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ارشاد ہوا:
(مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًاَ)
"جس نے کسی نفس کو بغیر کسی کو قتل کرنے یا زمین میں فساد پھیلانے کے, قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ اور جس نے کسی ایک نفس کو زندہ کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا۔”[١۹] پس یہاں مسلمان یا مومن کی بات نہیں ہورہی بلکہ ایک نفس کی بات ہے چاہے وہ جس مذہب سے بھی تعلق رکھتا ہو پھر بھی اگر وہ خطا کار اور قتل کے اہل نہیں یے تو اس کا نفس بھی محترم قرار دیا گیا ہے۔رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں”قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہوگا وہ خون کا مقدمہ ہوگا”[۲۰]۔
پس اسلام نفس انسانی کے احترام کا درس دیتا ہے۔ ہر شخص کا ایک انفرادی تشخص ہوا کرتا ہے اور اسلام کسی کو بھی اس تشخص کے برباد کرنے کی
اجازت نہیں دیتا۔ اور اگر بات اپنے مسلمان بھائی کی ہو تو یہاں زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
"جو اپنے (مسلمان) بھائی کا احترام کرتا ہے تو گویا وہ خدا کا احترام کرتا ہے”[۲١] 5۔صلح و صفائی:۔
مصالحت اور رحم و مہربانی ایک قرآنی معاشرے کے اساسی اصولوں میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قرآن کا پیغام پہنچانے کے لیے آنے والا الہی نمائندہ بھی عالمین کے لیے رحمت کی نوید بن کر آیا۔ ارشاد ہوا: "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ”[۲۲]۔ اور ہم نے آپ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے”[۲٣]۔
اسلام صلح و صفائی کو کس قدر زیادہ اہمیت دیتا ہے اس بات کا اندازہ خود لفظ "اسلام” سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اسلام کی لغوی جڑیں ، دو کلمے ” سلم ” اور ” سلام ” جو صلح اور امن کے معنی میں ہیں۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عربی میں رحمت کا مطلب
شفقت و مروت اور عطوفت و مہربانی ہے۔[۲٤]یوں حامل قرآنی کو رحمت و عطوفت کا پیکر بنا کر بھیجنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن صلح پسند اور رحمت و عطوفت سے بھرے معاشرے کا خواہاں ہے۔قرآن مجید میں جگہ جگہ صلح اور مصالحت کی جانب اشاره ہوا ہے۔ اس حقیقت کی تائید میں کہ اسلام صلح ، امن اور دوستی کا دین ہے ارشاد ہوتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ”
"اے ایمان والو تم سب مکمل طریقہ سے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطانی اقدامات کی پیروی نہ کرو کہ وه تمہارا کھلا دشمن ہے۔”[۲٥] قرآن کی نظر میں مستحکم عالمی صلح ، اور انسانی سماجوں کا آرام و سکون، صرف خدا پر ایمان کے ذریعے ہی متحقق ہوتا ہے ، اور سبھی انسانی معاشروں (جو زبان ، نسل ، حکومت اور جغرافیائی لحاظ سے مختلف ہیں) کو آپس میں ملانے کا نقطہ صرف خدا پر ایمان ہے۔ اور اگر مسلمانوں کا یہ عقیده ہے کہ عالمی صلح اور سماجی عدل حضرت امام مھدی (عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ) کی حکومت کے ذریعے ھی برقرار ھوگا وه حقیقت میں اس امر پر تاکید کرتے ہیں۔یہاں تک کہ خداوند متعال آیت شریفہ میں فرماتا ہے”
وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا۔۔۔۔۔۔۔
"اگر دشمن انصاف پسند صلح کا خواہاں ہے توتم اس کو قبول کرو”[۲٦]۔البتہ اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ دنیا میں انسانون کے اختیار کے سبب بعض لوگ بغاوت ، سرکشی ، ظلم اورستم کرنے لگتے ھیں اور زمین پر فساد اور تباہی پھیلاتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ ایک جامع اور کامل دین انسانی ہدایت کی راه میں ان رکاوٹوں کے ہٹانے کیلئے ایک جامع دستور العمل پیش کرے۔ البتہ کبھی کبھی بغاوتوں اور سرکشیوں کا سلسلہ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ دفاع اور طاقت کے استعمال کے علاوه اور کوئی چاره نہیں رہتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں جہاد کا قانون بنایا گیا ہے۔ یعنی قرآن مجید ان لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے، جن کے ساتھ منطقی طور پر بات نھیں کی جاسکتی ہے اور انھوں نے گستاخی سے انبیاء علیھم السلام کی ھدایت اور ارشاد کی راهیں بند کردی ہیں اور دشمنی اور ہٹ دہرمی کے ساتھ جان بوجھ کر اسلام سے جنگ کرتےہیں۔ اور اس سلسلے میں فرمایا ہے :
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ُ”
"اے پیغمبر آپ کفار اور منافقین کےساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں”[۲٧]۔
آیۃ اللہ تقی مصباح یزدی لکھتے ہیں :
"اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وه دشمنوں کے دلوں میں رعب اور خوف پیدا کریں تا کہ وه تجاور،خیانت اور دشمنی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا وہم اپنے ذہن میں نہ لاسکیں” [۲۸]۔البتہ اسلامی دستور ، جو فوجی آمادگی اور سرحدوں کی حفاظت سے متعلق ہے اسلام کی صلح اور دوستی کی آئینہ دار ہے ۔ اور خدا کی راه میں جہاد جو حقیقت میں اسلامی عبادت کا اہم حصہ ہے اور خدا کے ساتھ عشق اور انسان دوستی ، ناپاکی اور غیر اقدار کی مخالفت کا اعلی مظہر ہے ، اور جنگ خونریزی ، بغاوت اور سرکشی کے ساتھ بہت فرق رکھتا ہے۔خداوند متعال نے جہاد کی اھمیت کے بارے میں فرمایا ہے :
” جاھدوا فی اللہ حق جہاده” [۲۹]
"اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے”
چونکہ اسلام میں جہاد کشور گشائی اور ذاتی طاقت کو بڑھانے کیلئے واجب نہیں کیا گیا ہے۔ پس جہاد ایک آزادی بخش اقدام ہے نا کہ جنگ اور فساد کا قدم ، اس لئے اگر جہاد کے اہداف تک پہنچنا غیر فوجی طریقے سے میسر ہو تو اس صورت میں فوجی طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ اسی لئے ہر جنگ کے آغاز میں واجب ہے کہ کفار کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے۔پس خداوند متعال نے جہاد کو مستکبروں کے کچلنے اور مستضعفوں کو آزاد کرنے اور ان لوگوں کی معرفت اور واقفیت کیلئے واجب کیا ہے جو جہالت اور بے خبری کے عالم میں توحید کے معارف سے ناواقف ہیں اور دنیا و آخرت میں سعادت حاصل کرنے سے بے خبر رکہے گئے ہیں۔علامہ طباطبائی[٣۰] جنگ طلبی اور جھگڑا مول لینے کی نفی میں جہاد کی حقیقت اور فلسفہ کے بارے میں لکھتے ہیں”جہاد کا مقصد دین کو قائم کرنا اور کلمۃ اللہ کو بلند رکھنا ہے پس جہاد ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں قصد قربت کی شرط ہے جہاد دوسروں کے مال اور عزت پر برتری حاصل کرنے کیلے نہیں ہے بلکہ انسانی حق سے دفاع کرنے کیلئے واجب کیا گیا ہے اور دفاع اپنی ذات میں ہی محدود ہے جبکہ تجاوز حد سے باھر نکلنے کا نام ہے اسی لئے آیہ شریفہ کے آگے ارشاد ہے:
۔۔وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
"زیادتی مت کروبےشک خداوندزیادتی کرنےوالوں کودوست نہیں رکھتا”[٣١]۔
نتیجہ کےطورپرحقیقی اسلام ناصرف زیادتی ، تجاوز، ناسازگاری اور جنگ کا دین نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا دستور و فرمان من جملہ جہاد ، انسان دوستی ، صلح و امن کی حفاظت ، الہی حاکمیت کے مقابل باغی حاکمیت کی نفی اور ظلم و ناانصافی کے خلاف جنگ ہے اور ایک مختصر جملے میں جہاد کا مطلب عادلانہ اور مقدس جنگ کا نام ہے جو بلند الہی اقدار کو متحقق کرنے کیلئے ہے۔پس واضح ہوا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور قرآنی معاشرہ ایک صلح و امن پسند معاشرہ ہے۔ قرآنی طرز زندگی میں غیر مسلموں سے تعلقات کی بنیاد قانون صلح پر استوار ہے اور طاقت کا استعمال اور جنگ ایک استثنائی حالت ہے جو اسلامی سرزمین پر حق دفاع کے عنوان سے ایک قانونی حیثیت رکھتی ہے۔
6۔ایثار و قربانی:۔
ایثار قومِ مسلم کا ایک امتیازی وصف ہے۔ ایثار اور قربانی کے بغیر قوموں کی ترقی ایک خواب ہے۔ وہی قومیں بقا پاتی ہیں جو باہمی ایثار و قربانی اور احترامِ آدمیت جیسے جذبات سے سرشار ہوتی ہیں۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ اجاگر کرنے میں عیدالاضحی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صرف سنت ابراہیمی ہی نہیں، اﷲ کی راہ میں قربانی کی لازوال مثال بھی ہے۔ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ہر مرد مجاہد اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے، لیکن خود اپنے ہاتھوں سے اپنی متاعِ عزیز کو قربان کر دینا، قربانی کی ایسی تابندہ مثال ہے جو رہتی دنیا تک صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ انہی راستوں پر کامیابی کی منزل ملتی ہے، لیکن جب ہم نے ان اصولوں سے روگردانی کی، ملت کے بجائے اپنی ذات کو اولیت دی تو ہماری رسوائی کا دور شروع ہوا۔ اگر آج بھی ہم قربانی کے اصولوں کو اپنالیں تو ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی میراث حاصل کر سکتے ہیں۔
بے شک اﷲ تعالیٰ نے انسانوں اور جانوروں کے اندر قربانی کا جذبہ رکھا ہے جانور اپنے گروہ کے لیے انسانوں سے زیادہ قربانی دیتے ہیں ،کیونکہ ان میں حسد اور بغض کا مادہ کم شامل ہوتا ہے۔ اس کی بہ نسبت انسان ایک دوسرے کے خلاف بر سرِپیکار ہیں۔قربانی قربِ خداوندی کا ذریعہ اور حج اتحاد و اخوت کا پیغام ہے۔ قربانی جذبہ جہاد کی نشانی ہے اس کا انکار خدا کے حکم کی نافرمانی ہے۔عید قربان محض جانور کی قربانی کا نام نہیں، بلکہ اﷲ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہی قربانی کہلاتا ہے۔ آج عالم اسلام کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے پیش نظر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ذاتی حاجت پر ترجیح دینا ایثار کہلاتا ہے ۔ یہ فیاضی اور احسان کا بلند ترین درجہ ہے۔ اسے قربانی سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ایثار کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بڑے جامع الفاظ میں یوں ارشاد فرمایا ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
’’جب تک تم اپنی پیاری چیزوں سے خرچ نہ کرو ۔بھلائی ہر گز حاصل نہیں کر سکتے”[٣۲]۔
اس آیت میں جذبہ ایثار کی تعریف بڑے عمدہ طریقے سے بیان کی گئی ہے کہ انسان اس وقت تک اس خاص نیکی یعنی راستہ کو حاصل نہیں کر سکتا جس سے اللہ کی خاص رحمت اور ولایت کا راز حاصل ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ کی راہ میں محبوب اشیاء کا ایثار اس لیے رضائے الہٰی کے لئے پسندیدہ مال و متاع جسم وجان اور جاہ و منصب وغیرہ کے ایثار سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔ایثار ایک ایسا جذبہ ہے جس کا تعلق دل اور نیت سے ہے کیونکہ جب کوئی اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے تو اس وقت اللہ اس سے پوری طرح راضی ہوتا ہے اور اس کا وہ فعل بارگاہ رب العزت میں بڑا مقبول ہوتا ہے ۔اس لئے اسلام میں اس کی بے پناہ فضیلت ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کو اہل مدینہ کا و صف قرار دیا ہے کیوں کہ مسلمان جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو وہاں پہلے سے رہنے والوں نے مہاجرین کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جس میں جذبہ ایثار قدم قدم پر نمایا ں نظر آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے پیش نظر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ذاتی حاجت پر ترجیح دینا ایثار کہلاتا ہے ۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا تعلق دل اور نیت سے ہے کیونکہ جب کوئی اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے تو اس وقت اللہ اس سے پوری طرح راضی ہوتا ہے اور اس کا وہ فعل بارگاہ رب العزت میں بڑا مقبول ہوتا ہے ۔اس لئے اسلام میں اس کی بے پناہ فضیلت ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کو اہل مدینہ کا و صف قرار دیا ہے کیوں کہ مسلمان جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو وہاں پہلے سے رہنے والوں نے مہاجرین کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جس میں جذبہ ایثار قدم قدم پر نمایا ں نظر آتا ہے ۔درحقیقت خود ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ہر لحاظ سے مدد کی اس لئے اللہ کو ان کا ایثار بہت پسند آیا۔
ایثار اہل تقویٰ کے اوصاف کا خاصہ ہے کیونکہ متقین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اخلاص اور جذبہ ایثار کے تحت اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لئے اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ اللہ ہر طرح سے راضی ہو۔
جذبۂ ایثار کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کے لئے قیمتی سے قیمتی چیز دینے سے دریغ نہ کیا جائے اور دنیا کی اشیاء کی محبت رضائے الہٰی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔
ایثار کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بڑے جامع الفاظ میں یوں ارشاد فرمایا ہے ۔
لن تنالوالبر حتیٰ تنفقو مما تحبون۔’’جب تک تم اپنی پیاری چیزوں سے خرچ نہ کرو ۔بھلائی ہر گز حاصل نہیں کر سکتے ۔(پارہ 4آل عمران)
اس آیت میں جذبہ ایثار کی تعریف بڑے عمدہ طریقے سے بیان کی گئی ہے کہ انسان اس وقت تک اس خاص نیکی یعنی راستہ کو حاصل نہیں کر سکتا جس سے اللہ کی خاص رحمت اور ولایت کا راز حاصل ہوتا ہے اور وہ ہے اللہ کی راہ میں محبوب اشیاء کا ایثار اس لیے رضائے الہٰی کے لئے پسندیدہ مال و متاع جسم وجان اور جاہ و منصب وغیرہ کے ایثار سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔ ایثار کا حقیقی مفہوم بھی یہی ہے کہ خود ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنی زاتی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی جائے۔اسی طرح انصار مدینہ نے بھی خود ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنے مہاجر بھائیوں کی ہر لحاظ سے مدد کی اس لئے اللہ کو ان کا ایثار بہت پسند آیا۔ایثار اہل تقویٰ کے اوصاف کا خاصہ ہے کیونکہ متقین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اخلاص اور جذبہ ایثار کے تحت اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لئے اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ اللہ ہر طرح سے راضی ہو۔
جذبۂ ایثار کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں دوسروں کی تکلیف دور کرنے کے لئے قیمتی سے قیمتی چیز دینے سے دریغ نہ کیا جائے اور دنیا کی اشیاء کی محبت رضائے الہٰی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔قرآن میں خاندان کے اہلبیت کے ایثار کا بہترین نمونہ زکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ,إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا
"اور وہ لوگ جو طعام کی محبت کے باوجود اسے مسکینوں, یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) ہم تو فقط خدا کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں اور تم سے کسی جزا اور شکریہ کے طلب گار نہیں ہیں۔”[٣٣] یہ واقعہ اہل بیت اطہار کے ایثار کے ایک عظیم نمونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جب حسن (ع) وحسین (ع) بیمار ہوئے تو رسول اکرم ایک جماعت کے ساتھ عیادت کے لئے آئے اور فرمایا یا اباالحسن ! اگر تم اپنے بچوں کے لئے کوئی نذرکرلیتے؟ یہ سن کر علی (ع) ، فاطمہ (ع) و فضہ (کنیز خانہ) سب نے نذر کرلی کہ اگر بچہ صحتیاب ہوگئے تو تین دن روزہ رکھیں گے۔خدا کے فضل سے بچے صحتیاب ہوگئے لیکن گھر میں روزہ کیلئے کوئی سامان نہ تھا تو حضرت علی (ع) شمعون یہودی کے یہاں سے تین صباع جو قرض لے آئے اور فاطمہ (ع) نے ایک صاع پیس کر 5 روٹیاں تیار کیں۔ابھی افطار کے لئے بیٹہے ہی تھے کہ ایک سائل نے آواز دی۔ اہلبیت محمد ! تم پر میرا سلام، میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں، مجہے کھانا کھلاؤ، خدا تمھیں دستر خوان جنت سے سیر کرے گا، سب نے ایثار کرکے روٹیاں اس کے حوالہ کردیں اور پانی سے افطار کرلیا۔
دوسرے دن پھر روزہ رکھا اور اسی طرح افطار کے لئے بیٹہے تو ایک سائل نے سوال کرلیا اور روٹیاں اس کے حوالہ کردیں، تیسرے دن پھر یہی صورت حال پیش آئی۔اب جو چوٹہے دن حضرت علی (ع) بچوں کو لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ بچےبھوک کی شدت سے پرند کی مانند کانپ رہے ہیں، یہ دیکھ کر آپ کو سخت تکلیف ہوئی اور بچوں کو لے کر خانہ فاطمہ (ع) میں آئے، دیکھا کہ فاطمہ (ع) محراب عبادت میں ہیں، لیکن فاقوں کی شدت سے شکم مبارک پیٹھ سے مل گیاہے اور آنکھیں اندر کی طرف چلی گئی ہیں۔یہ منظر دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی کہ جبریل امین آگئے اور سورہ دہر دیتے ہوئے کہا کہ یامحمد ؐ! مبارک ہو ، پروردگار نے تمھارے اہلبیت (ع) کے لئے یہ تحفہ نازل فرمایاہے[٣٤]۔
حوالہ جات
[١]_اسلام اور عصر حاضر کی ضرورت ص_113 [۲]_مجلسی, بحار الانوار ج 45 ص 51
[٣]_ البقرۃ آیۃ 256 [٤]_ طبرسی, مجمع البیان ج 1 ص 469
[٥]_ مطہری, جہاد ص 111 [٦]_ النور 33
[٧]_الحجرات 11 [۸]_ الکہف 29
[۹]_ البقرۃ 42 [١۰]_ ارشادات رسول ص 203
[١١]_ آل عمران 71 [١۲]_ نساء 3
[١٣]_ پیارا گھر ص 214 [١٤]_ نہج البلاغہ حکمت
[١٥]_کفایۃ الموحدین ج 1 ص442) [١٦]_ الاسراء 70
[١٧]_ مکارم الاخلاق ج1 ص252 [١۸]_ مجمع الزوائد ج8 ص156
[١۹]_ مائدہ 32 [۲۰]_ کنز العمال حدیث 39887
[۲١]_ میزان الحکمۃ ج 8 ص 597 [۲۲]_ کتاب العین ج7 ص267
[۲٣]_ الانبیاء 107 [۲٤]_ مفردات القرآن مادۂ رحم
[۲٥]_ البقرۃ 208 [۲٦]_ الانفال 61
[۲٧]_ التحریم 9 [۲۸]_ نظریہ سیاسی اسلام ص232
[۲۹]_ حج 78 [٣۰]_ تفسیر المیزان ج2 ص61
[٣١]_ البقرۃ 190 [٣۲]_ آل عمران 92
[٣٣]_ الانسان 8,9 [٣٤]_ کشاف ج4 ص169,کشف الغمہ ج1 ص302

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button