Uncategorizedایمانیات

منافقین اور انکی خصوصیات

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے لئے جذبہ و خلوص رکھتے تھے نہ صریح مخالفت کی جرات کرتے تھے۔ قرآن اس گروہ کو ”منافقین“ کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ یہ لوگ حقیقی مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ چونکہ ان کا ظاہر اسلامی تھا لہذا ان کی شناخت مشکل تھی لیکن قرآن ان کی باریک اور زندہ علامت بیان کرتا ہے تاکہ ان کی باطنی کیفیت کو مشخص کردے۔ اس سلسلے میں قرآن ہرزمانے اور قرن کے مسلمانوں کو ایک نمونہ دے رہا ہے۔
پہلے تو نفاق کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور قیامت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ ان میں ایمان نہیں ہے۔ (ومن الناس من یقول آمنا باللہ و بالیوم الآخر و ماھم بموٴمنین)۔
وہ اپنے اس عمل کو ایک قسم کی چالاکی او رعمدہ تکنیک سمجھتے ہیں او رچاہتے ہیںکہ اپنے اس عمل سے خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں (یخدعون اللہ والذین آمنوا)۔
حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں (و مایخدعون الا انفسھم و ما یشعرون)۔
وہ صحیح راستے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر عمر کا ایک حصہ بے راہ و روی میں گذار دیتے ہیں، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو برباد کردیتے ہیں اور ناکامی و بدنامی اور عذاب الہی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔
اس کے بعد اگلی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نفاق در حقیقت ایک قسم کی بیمار ی ہے کیونکہ صحیح و سالم انسان کا صرف ایک چہرہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم و روح میں ہم آہنگی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر و باطن، جسم وروح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اگر کوئی مومن ہے تو اس کا پورا و جود ایمان کی صدا بلند کرتاہے اور اگر ایمان سے منحرف ہے تب بھی اس کا ظاہر و باطن انحراف کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ جسم و روح میں دوئی ایک درد نو اور اضافی بیماری ہے یہ ایک طرح کا تضاد، ناہم آہنگی اور ایک دوسرے سے دوری ہے جو وجود انسانی پر حکمران ہے۔
قرآن کہتا ہے ان کے دلوں میں ایک خاص بیماری ہے (و فی قلوبھم مرض)۔
نظام آفرینش میں جوشخص کسی راستے پر چلتا ہے اور اس کے لئے زاد راہ فراہم کئے رکھتا ہے تو وہ یقینا آگے بڑھتا رہتا ہے یا بہ الفاظ دیگر ایک ہی راستے پر چلنے والے انسان کے اعمال و افکار کا ہجوم اس میں زیادہ رنگ بھرتا ہے اور اسے زیادہ راسخ کرتا ہے۔ قرآن مزید کہتا ہے : خدا وند عالم ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے ( فزادھم اللہ مرضا)۔
چونکہ منافقین کا اصل سرمایہ جھوٹ ہے لہذا ان کی زندگی میں جو تناقضات رونما ہوتے ہیں وہ ان کی توجیہہ کرتے رہتے ہیں۔ آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے : ان کی ان دروغ گوئیوں کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے (ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون)۔
منافقین کی خصوصیات :
ا س کے بعد ان کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے پہلی اصلاح طلبی کا دعوی کرنا ہے حالانکہ حقیقی فسادی وہی ہیں ”جب ان سے کہا جائے کہ روئے زمین پر فساد نہ کرو تو وہ اپنے تئیں مصلح بتاتے ہیں (و اذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون) اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا تو زندگی میں اصلاح کے علاوہ کوئی مقصد رہا ہے نہ اب ہے۔
اگلی آیت میں قرآن کہتا ہے : جان لو کہ یہ سب مفسد ہیں اور ان کا پروگرام فساد کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن وہ خود بھی شعور سے تہی دامن ہیں (الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون)۔
ان کے اصرار نفاق میں پختگی اور اس باعث ننگ و عار کام کی عادت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہی پروگرام تربیت و اصلاح کے لئے مفید ہے جیسے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اگر گناہ ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر انسان سے حس تشخیص چھن جاتی ہے بلکہ اس کی تشخیص برعکس ہوجاتی ہے اور ناپاکی و آلودگی اس کی طبیعت ثانوی بن جاتی ہے۔
ایسے لوگوں کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاقل و ہوشیار او رمومنین کو بیوقوف ،سادہ لوح اورجلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لے آوٴ جس طرح باقی لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں (و اذا قیل لھم آمنوا کما آمن الناس قالوا انوٴ من کما آمن السفھاء)۔
اس طرح وہ ان پاک دل ، حق طلب اور حقیقت کے متلاشی افراد کو حماقت و بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں جو دعوت پیغمبر اور ان کی تعلیمات میں آثار حقانیت کامشاہدہ کرکے سرتسلیم خم کرچکے ہیں۔ اپنی شیطنت، دو رخی اور نفاق کو ہوش و عقل اور درایت کی دلیل سمجھتے ہیں گویا ان کی منطق میں عقل نے بے عقلی کی جگہ لے لی ہے اسی لئے قرآن کے جواب میں کہتا ہے : جان لو کہ واقعی بیوقوف یہی لوگ ہیں وہ جانتے نہیں (الا انھم ھم السفھاء ولکن لا یعلمون
کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا تعین نہ کرسکے اور ہر گروہ میں اس گروہ کا رنگ اختیار کرکے داخل ہو اور یکسانیت و شخصی وحدت کی بجائے دو گانگی یاکئی ایک بہروپ قبول کرکے اپنی استعداد اور قوت کو شیطنت ، سازش اور تخریب کا ری کی راہ میں صرف کرے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو عقلمند سمجھے۔
ان کی تیسری نشانی یہ ہے کہ ہر روز کسی نئے رنگ میں نکلتے ہیں او رہر گروہ کے ساتھ ہم صدا ہوتے ہیں جس طرح قرآن کہتا ہے : جب وہ اہل ایمان سے ملاقات کرتے ہین تو کہتے ہیں ہم ایمان قبول کرچکے ہیں اور تمہیں غیر نہیں سمجھتے۔
لیکن جب اپنے شیطان صفت دوستوں کی خلوت گاہ میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں ( وا ذا دخلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم) اور یہ جو ہم مومنین سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں یہ تو تمسخر و استہزاء ہے (انما نحن مستھزون) ان کے افکار و اعمال پر دل میں تو ہم ہنستے ہیں یہ سب ان سے مذاق ہے ورنہ ہمارے دوست، ہمارے محرم راز اور ہمارا سب کچھ تو آپ لوگ ہیں۔
اس کے بعد قرآن ایک سخت اور دو ٹوک لب ولہجہ کے ساتھ کہتا ہے : خدا ان سے تمسخر کرتا ہے ( اللہ یستھزی بھم) اور خدا انہیں ان کے طغیان و سرکش میں رکھے گاتاکہ وہ کاملا سرگرداں رہیں(و یمدھم فی طغیانھم یعمھون
یعمھون مادہ ”عمہ“ سے ہے (بروزن ہمہ) جو تردد یا کسی کام میں متحیر ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے او رکور دلی، تاریکی بصیرت کے معنی میں بھی مستعمل ہے جس کا اثر سرگردانی ہے۔ مورد بحث آیات میں سے آخری ان کی آخری سر نوشت ہے جو بہت غم انگیز اور تاریک ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس تجارت خانہ عالم میں ہدایت کے لئے گمراہی کو خریدلیا ہے۔ (اولئک الذین اشتروا الضلالة بالھدی)۔ اسی وجہ سے ان کی تجارت نفع مند نہیں بلکہ سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں (فما ربحت تجارتھم) اور کبھی بھی انہوں نے ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھا (( وما کانوا مھتدین)۔
Source: https://www.makarem.ir/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button