Uncategorized

امامجعفر صادق علیہ السلام اور علمائے اہل سنت

تحریر: ثاقب اکبر
امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ: "میں نے جب بھی امام صادق علیہ السلام کو دیکھا، ان کو تین میں سے ایک حالت میں پایا، یا آپ نماز پڑھ رہے ہوتے، یا روزے سے ہوتے، یا تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے اور میں نے کبھی بھی آپ کو بے وضو نہیں دیکھا۔”
(ابن حجر عسقلانی تہذیب التھذیب، ج۲)
ایک اور روایت میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل ہوا ہے: "جعفر بن محمد سے افضل علم، عبادت اور ورع کے لحاظ سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں آیا۔”
(الامام الصادق، والمذاہب الاربعہ،ج۱)
کیا حسنِ اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اپنوں اور پرایوں میں امین و صادق کی شہرت رکھتے ہیں، ان کی اولاد صالحین و طاہرین میں سے امام جعفر ابن محمد جو صادق کے لقب سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں، اسی ماہ مقدس میں پیدا ہوئے، جو پیغمبر گرامی قدر کی ولادت کا مہینہ ہے۔ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی بہت سی روایات میں ان دونوں سچوں یعنی صادقَین کی ولادت باسعادت کی تاریخ 17ربیع الاول بیان کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مسعود بعض روایات میں 12ربیع الاول اور بعض میں دیگر تواریخ کو بھی منقول ہے.
متعدد علماء و محدثین نے لکھا ہے کہ امام جعفر صادق ابن محمد باقر کی ولادت باسعادت 17ربیع الاول سنہ 83ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا دور اپنی خاص صورت حال کی وجہ سے کچھ مختلف تھا۔ بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ اسی دور میں ہوا اور آپ کی زندگی ہی میں بنی عباس کی حکومت قائم ہوگئی۔ حکومتوں کے اس الٹ پلٹ میں امام صادق علیہ السلام کو اسلامی تعلیمات کی ترویج کا مناسب موقع مل گیا۔ آپ کے خوانِ علم سے ایک کثیر تعداد نے فیض اٹھایا۔ بعض روایات کے مطابق مختلف مواقع اور ادوار میں آپ سے اکتساب علم کرنے والے افراد کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں عالم اسلام کی بہت سی ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ چنانچہ برصغیر کے نامور اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان قنوجی اپنی کتاب ’’تشریف البشر بذکر الآئمۃ الاثنی عشر‘‘میں لکھتے ہیں: ’’ایک جماعت اعیان و اعلام آئمہ کی ان سے راوی ہے، جیسے یحییٰ بن سعید و ابن جریح و مالک بن انس و ثوری و ابن عیینہ و امام ابوحنیفہ و ابو ایوب سجستانی وغیرہ۔
امام ابو حنیفہ کے آپ کی شاگردی اختیار کرنے کے بارے میں بہت سے علماء نے لکھا ہے اور اس سلسلے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ خود امام ابو حنیفہ کے کئی اقوال اس سلسلے میں منقول ہیں اور ایک قول تو شہرہ آفاق ہے: لولا السنتان لھلک النعمان۔ یعنی اگر وہ دو سال نہ ہوتے جن میں، میں نے جعفر ابن محمد سے کسب فیض کیا تو (میں) نعمان ہلاک ہو جاتا۔
حیرت ہے کہ ابن تیمیہ نے اپنے منہج فکر کے مطابق اس مسئلے پر انگشت نمائی کی ہے۔ چنانچہ برصغیر کے نامور محقق علامہ شبلی نعمانی نے امام ابو حنیفہ پر لکھی گئی اپنی کتاب سیرۃ النعمان میں اس کا جواب دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ابو حنیفہ ایک مدت تک استفادہ کی غرض سے امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر رہے اور فقہ و حدیث کے متعلق بہت بڑا ذخیرہ حضرت ممدوح کا فیض صحبت تھا۔ امام صاحب نے ان کے فرزند رشید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی پرفیض صحبت سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا، جس کا ذکر عموماً تاریخوں میں پایا جاتا ہے۔ ابن تیمیہ نے اس سے انکار کیا ہے اور اس کی وجہ یہ خیال کی ہے کہ امام ابو حنیفہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہم عصر تھے، لیکن یہ ابن تیمیہ کی گستاخی اور خیرہ چشمی ہے، امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد اور فقیہ ہوں، لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت جعفر صادق سے کیا نسبت، حدیث وفقہ بلکہ تمام مذہبی علوم اہل بیت کے گھر سے نکلے ہیں۔
’’وصاحب البیت ادری بمافیہا‘‘
[گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں کہ گھر میں کیا ہے]۔
(سیرۃ النعمان ص ۵۴، طبع آگرہ)
نواب صدیق حسن نے اپنی مذکورہ کتاب میں امام صادق علیہ السلام کے بہت سے فضائل و کمالات اور معجزات و کرامات نقل کئے ہیں۔ ہم چند عبارات اپنے قارئین کی نذر کرتے ہیں:
ابو حاتم نے کہا ہے:
جعفر صادق ثقۃ لا یسئل عن مثلہ
جعفر صادق ثقہ ہیں اور ایسی شخصیت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔
جعفر علیہ السلام مجاب الدعوۃ تھے۔
یعنی ان کی ہر دعا اللہ کے حضور قبول ہوتی تھی۔
وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں:
جب اللہ سے کوئی سوال کرتے ہنوز قول تمام نہ ہوتا تھا کہ وہ شے سامنے ان کے آموجود ہوتی۔
داؤد بن علی بن عباس نے معلی بن حسین غلام جعفر صادق علیہ السلام کو قتل کرکے سارا مال اس کا لے لیا تھا۔ یہ خبر جعفر (علیہ السلام) کو پہنچی، اپنے گھر کو چلے گئے اور ساری رات صبح تک کھڑے رہے۔ جب وقت سحر کا ہوا سنا، کہتے ہیں:
یا ذا القوۃ القویۃ یا ذا المحال الشدید یا ذالعزۃ التی کل خلقک لھا ذلیل اکفنا ھذہ الطاغیۃ وانتقم لنا منہ
اے زبردست قوت والے، اے شدید گرفت کرنے والے، اے ایسی عزت والے کہ جس کے سامنے اس کی ساری مخلوق عاجز و ذلیل ہے، اس ظالم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما اور اس سے ہمارا انتقام لے۔
یہ کہہ رہے تھے کہ اتنے میں آوازیں بلند ہوئیں کہ داؤد بن علی [عباسی] ناگہاں مر گیا۔
چند بزرگ علماء کے اقوال امام صادق علیہ السلام کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں:
امام ابو حنیفہ کہتے ہیں:
"میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ فقیہ تر کسی کو نہیں پایا۔”
(تذکرۃ الحفاظ، ج۱)
ابو نعیم اصفہانی اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں عمر وبن المقدام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
"میری نگاہ جعفر بن محمد پر پڑی تو میں جان گیا کہ آپ سلالۃ النبیین میں سے ہیں۔ یعنی آپ انبیاء کا حاصل ہیں۔”
(حلیۃ الاولیاء،ج۳)
ابن حجر عسقلانی نے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں ابن حبان کا یہ قول نقل کیا ہے:
"آپ اہل بیت کے سرداروں میں سے ہیں۔ آپ فقیہ و علیم و فاضل تھے اور ہم آپ کے کلام کے نیازمند تھے۔”
(تہذیب التہذیب،ج۲)
معروف عالم شبلنجی نے اپنی کتاب نور الابصار میں وہی بات لکھی ہے، جو ہم قبل ازیں مولانا صدیق حسن کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
کان جعفر الصادق (رضی اللہ عنہ) مستجاب الدعوۃ واذا سأل اللہ شیئاً لم یتم قولہ الا و ھو بین یدیہ
یعنی جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) مستجاب الدعوۃ تھے، وہ اللہ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کرتے تو ابھی آپ کی بات ختم بھی نہ ہوتی تھی کہ وہ چیز آپ کے سامنے ہوتی تھی۔
ابن خلکان کہتے ہیں:
"آپ اہل بیت کے سرداروں میں سے تھے اور آپ کے کلام کی سچائی کی وجہ سے آپ کا لقب صادق پڑ گیا تھا۔”
(وفیات الاعیان،ج۱)
یہ اور ایسی بہت سی عبارتیں کتب اہل سنت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا وجودِ ذی جود ،امت اسلامیہ اور ساری انسانیت کا اثاثہ و سرمایہ ہے۔ آپ کے بارے میں سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ اہل مغرب نے بھی آپ کے فلسفی اور سائنسی نظریات پر تحقیق کی ہے اور زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دانش و حکمت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ آپ سے منقول ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس مشترکہ علمی ذخیرے کو اپنی قیمتی وراثت سمجھتے ہوئے اس سے استفادہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Source: https://www.islamtimes.org/ur

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button