Uncategorized

ذکر خدا

آیۃ اللہ ابراہیم امینی
ذکر خدا نفس انسانی کو اندرونی اور بیرونی طور پر قرب الہی کی طرف حرکت کرنے کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔ قرب کی طرف حرکت کرنے والا انسان ذکر کے ذریعے مادی دنیا سے بالاتر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ عالم صفا اور نورانیت میں قدم رکھتا ہے اور کامل سے کامل تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے قرب کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالی کی یاد اور ذکر عبادات کی روح اور احکام کے تشریع کرنے کی بزرگ ترین غرض اور غایت ہے۔ اور ہر عبادت کی قدر و قیمت اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کیوجہ سے ہوا کرتی ہے۔ آیات اور احادیث میں اللہ کے ذکر اور یاد کی بہت زیادہ سفارش کی گئی ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے کہ
یا ایها الذین آمنوا ذکروا الله ذکراً کثیراً
(احزاب۴۱)
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں وہ اللہ کے ذکر کو بہت زیادہ کرتے ہیں۔
نیز فرماتا ہے کہ
الذین یذکرون الله قیاماً و قعوداً و علی جنوبهم و یتفکفرون فی خلق السموات و الارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً آمنوا اذکرو الله ذکراً کثیراً
(احزاب۴۱)
عقلمند وہ انسان ہیں کہ جو قیام و قعود یعنی اٹھتے ،بیٹھتے جاگتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمان کی خلقت میں فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اے پروردگار اس عظیم خلقت کو تو نے بیہودہ اور بیکار پیدا نہیں کیا تو پاک اور پاکیزہ ہے ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔
خداوند عالم فرماتا ہے کہ
قد افلح من تزكّی و ذکر اسم ربّه فصلّی
(اعلی۱۵،۱۴)
جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور اللہ تعالی کو یاد کیا اور نماز پڑھی وہی نجات پاگیا۔
خدا فرماتا ہے ۔
و اذکر اسم ربّک بکرة واصیلاً
(انسان۲۵)
اپنے پروردگار کا نام صبح اور شام لیا کرو۔
نیز فرمایا :
و اذکر ربّک کثیراً و سبّح بالعشی و الابکار
(آل عمران۴۱)
اپنے خالق کو زیاده یاد کیاگر اور اس کی صبح اور شام تسبیح کیالر ۔
اور نیز فرمایا ہے کہ
فاذا قضیتم الصلوة فاذکرو الله قیاماً و قعوداً و علی جنوبکم
(نساء ۱۰۳)
جب تم نے نماز پڑھ لی ہو تو خدا کو قیام او رقعود اور سونے کے وقت یاد کیا کر۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ”
عن ابی عبدالله (ع) قال: من اکثر ذکر الله عزّوجل اظلّه الله فی جنته
(وسائل ج ۴ ص ۱۱۸۲)
جو شخص اللہ تعالی کا ذکر زیادہ کرے خدا اسے بہشت میں اپنے لئے لطف و کرم کے سائے میں قرار دے گا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ
عن ابی عبدالله علیه السلام فی رسالته الی اصحابه قال: و اکثرو اذکر الله ما استطعتم فی کل ساعة من ساعات اللیل و النهار، فان الله امر بکثرة الذکر، والله ذاکر لمن ذکره من المؤمنین_ و اعلموا انّ الله لم یذکره احد من عباده المؤمنین الّا ذکره بخیر
(وسائل ج ۴ ص ۱۱۸۳)
جتنا ہو سکتا ہے خدا کو یاد کیا کرو۔ دن اور رات کے ہر وقت میں۔ کیونکہ خداوند عالم نے تمہیں زیادہ یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ خدا اس مومن کو یاد کرتا ہے جو اسے یاد کرے اور جان لو کہ کوئی مومن بندہ خدا کو یاد نہیں کرتا مگر خدا بھی اسے اچھائی میں یاد کرتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
عن ابی عبدالله علیه السلام: قال الله لموسی : اکثر ذکری باللیل و النهار و کن عند ذکری خاشعاً و عند بلائی صابراً و اطمئن عند ذکری و اعبدنی و لا تشرک بی شیئاً اليّ المصیر_ یا موسی اجعلنی ذخرک وضع عندی کنزک من الباقیات الصالحات
(وسائل ج ۴ ص ۱۱۸۲)
خداوند عالم نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرمایا کہ دن اور رات میں مجھے زیادہ یا د کیا اور ذکر کرتے وقت خشوع اورخضوع کرنے والا اور مصیبت کے وقت صبر کرنے والا اور مجھے یاد کرنے کے وقت آرام اور سکون میں ہوا کر۔ میری عبادت کر اور میرا شریک قرار نہ دے تم تمام کی بازگشت اور لوٹنا میری طرف ہی ہوگا۔ اے موسی مجھے اپنا ذخیرہ بنا اور نیک اعمال کے خزانے میرے سپرد کر۔
ایک اور جگہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ
عن ابی عبدالله علیه السلام قال: ما من شیء الّا وله حدّ ینتهی الیه الّا الذکر فلیس له حدّ ینتهی الیه فرض الله عزّوجلّ الفرائض فمن ادّاهنّ فهو حدّهن، و شهر رمضان فمن صامه فهو حدّه_ و الحجّ فمن حجّ فهو حدّه_ الّا الذکر فانّ الله عزّوجل لم یرض منه بالقلیل و لم یجعل له حدّاً ینتهی الیه ثم تلا: یا ایها الذین آمنوا اذکرو الله ذکراً کثیراً و سبحوه بکرة واصیلاً_ فقال: لم یجعل الله له حداً ینتهی الیه قال: و کان ابی کثیر الذکر لقد کنت امشی معه و انّه لیذکر الله و آکل معه الطعام و انّه لیذکر الله و لقد کان یحدّث القوم و ما یشغله ذالک عن ذکر الله و کنت اری لسانه لازقاً بحنکه یقول: لا اله الا الله، و کان یجمعنا فیامرنا بالذکر حتی تطلع الشمس_ (الی ان قال) و قال رسول الله صلی الله علیه و آله: لاا خبرکم بخیر اعمالکم و ارفعها فی درجاتکم و ازکاها عند ملیککم و خیر لکم من الدینار و الدّرهم و خیر لکم من ان تلقوا عدّوکم فتقتلوهم و یقتلوکم؟ فقالوا بلی_ فقال ذکر الله کثیرا ثم قال: جاء رجل الی النبی فقال: من خیر اهل المسجد؟ فقال: اکثرهم الله ذکرا و قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من اعطی لسانا ذاکراً فقد اعطی خیرالدنیا و الآخرة
(وسائل ج ۴ ص ۱۱۸۱)
ہر چیز کی کوئی نہ کوئی حد اور انتہا ہوتی ہے مگر خدا کے ذکر کے لئے کوئی حد اور انتہا نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے جو واجبات ہیں ۔ ان کے بجالانے کی حد ہے۔ رمضان المبارک کا روزہ محدود ہے۔ حج بھی محدود ہے کہ جسے اس کے موسوم میں بجالانے سے ختم ہوجاتا ہے۔ مگر اللہ کے ذکر کے لئے کوئی حد نہیں ہے اور اللہ تعالی نے تھوڑے ذکر کرنے پر اکتفاء نہیں کی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔
یا ایہا الذین امنوا ذکروا اللہ ذکر کثیرا و سبحوہ بکرة و اصیلا
ایمان والو اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو اور اس کی صبح اور شام تسبیح کیا کرو۔
اللہ تعالی نے اس آیت میں ذکر کے لئے کوئی مقدار اور حد معین نہیں کی آپ نے اس کی بعد فرمایا کہ میرے والد بہت زیادہ ذکر کیا کرتے تھے۔ میں آپ کے ساتھ راستے میں جا رہا تھا۔ تو آپ ذکر الہی میں مشغول تھے اگر آپ کے ساتھ کھانا کھاتا تھا تو آپ ذکر الہی کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ لوگوں کے ساتھ بات کر رہے ہوتے تھے تو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل نہ ہوتے تھے اور میں دیکھ رہا ہوتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک آپ کے دہن مبارک کے اندر ہوتی تھی تو آپ لا الہ الا اللہ فرما رہے ہوتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد ہمیں اکٹھا بٹھا دیتے اور حکم دیتے کہ دن نکلتے تک ذکر الہی کرو۔ اور پھر آپ نے فرمایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ کیا میں تمہیں بہترین عمل کی خبر نہ دوں جوہر عمل سے پہلے تمہارے درجات کو بلند کر دے ؟ اور خدا کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ پاکیزہ اور پسندیدہ ہو؟ اور تمہارے لئے در ہم اور دینار سے بہتر ہو یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد سے بھی افضال ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ ۔ ضرور فرمایئےآپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ذکر زیادہ کیا کرو پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک آدمی نے رسول خدا کی خدمت میں عرض کی کہ مسجد والوں میں سب سے زیادہ بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جو دوسروں سے زیادہ اللہ تعالی کا ذکر کرے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
جو شخص ذکر کرنے والی زبان رکھتا ہو اس کو دنیا اور آخرت کی خیر عطاء کی جا چکی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ
فی وصیة ابی ذرّ قال رسول الله صلی الله علیه و آله: علیک بتلاوة القرآن و ذکر الله کثیراً فانّه ذکر لک فی السماء و نور لک فی الارض
(بحار ج ۹۳ ص ۱۵۴)
قرآن کی تلاوت کر اور اللہ تعالی کا ذکر بہت زیادہ کر تیرے لئے ذکر کا اجز آسمان میں ہوگا اور زمین میں تیرے لئے نور ہوگا۔
امام حسن علیہ السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ
عن الحسن بن علی علیه السلام قال: قال رسول الله صلی الله علیه و آله:با دروا الی ریاض الجنة، فقالوا: ما ریاض الجنّة؟ قال: حلق الذکر
(بحارج ۹۳ ص ۱۵۶)
جنت کے باغات کی طرف سبقت اور جلدی کرو اصحاب نے عرض کیا کہ بہشت کے باغ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ذکر کے حلقے اور دائرے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
عن الصادق علیه السلام قال: قال رسول الله صلی الله علیه و آله:ذاکر الله فی الغافلین کالمقاتل فی الفارّین له الجنة
(بحار ج ۹۳ ص ۱۶۳)
جو غافل لوگوں میں اللہ تعالی کے فکر کرنے والا ہو تو گویا وہ جہاد سے بھاگنے والوں کے درمیان مجاہد ہے اور اس طرح کے مجاہد کے لئے بہشت واجب ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا ہے کہ
انّ رسول الله صلی الله علیه وآله خرج علی اصحابه فقال: ارتعوا فی ریاض الجنة_ قالوا یا رسول الله و ما ریاض الجنة؟ قال: مجالس الذکر، اغدوا و روّحوا و اذکروا_ و من کان یحب ان یعلم منزلته عندالله فلینظر کیف منزلة الله تعالی عنده، ینزل العبد حیث انزل العبد الله من نفسه و اعملوا انّ خیر اعمالکم عند ملیککم و ازکاها و ارفعها فی درجاتکم و خیر ما طلعت علیه الشمس ذکر الله فانه تعالی اخبر عن نفسه فقال: انا جلیس من ذکرنی
(بحار ج ۹۳ ص ۱۶۳)
بہشت کہ باغوں سے استفادہ کرو۔ عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ ۔ بہشت کے باغ کیا ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا کہ ذکر کی مجالس۔ صبح شام اللہ کا ذکر کرو۔ جو شخص چاہتا ہے کہ خدا کے ہاں اپنی قدر اور منزل معلوم کرے تو دیکھے کہ خدا کی قدر اور منزلت اس کے نزدیک کیا ہے کیونکہ خدا اپنے بندے کو اس مقام تک پہنچاتا ہے کہ جس مقام کو بندے نے خدا کے لئے اختیار کر رکھا ہے اور جان لو کہ تمہارے اعمال میں سے بہترین عمل خدا کے نزدیک اور اعمال میں پاکیزہ ترین عمل جوہر ایک عمل سے بہتر ہو اور تمہارے درجات کو بلند کرے اور تمہارے لئے اس سے بہتر ہو کہ جس پر سورج چمکتا ہے وہ اللہ تعالی کا ذکر ہے۔
یہ آیات اور روایات کہ جو بطور نمونہ ذکر ہوتی ہیں ان سے ذکر الہی کی قدر اور قیمت کو آپ نے معلوم کر لیا ہے۔ اب یہ دیکھا جائے کہ ذکر خدا سے مراد کیا ہے؟
ذکر خدا سے مراد
یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر عبادت میں سے ایک بڑی عبادت ہے اور نفس کے پاک و پاکیزہ اور اس کی تکمیل اور سیر و سلوک الی اللہ کا بہترین وسیلہ ہے اب دیکھیں کہ ذکر خدا سے جو آیات اور روایات میں وارد ہوا ہے کیا مراد ہے۔ کیا اس سے مراد یہی لفظی ذکر مثل
سبحان و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ
یا اس سے مراد کوئی اور چیز ہے؟ کیا یہ الفاظ بغیر باطنی توجہ کے اتنا بڑا اثر رکھتے ہیں یا نہ؟
لغت میں ذکر کے معنی لفظی ذکر کے بھی آئے ہیں کہ جو زبان سے کئے جاتے ہیں اور توجہ قلب اور حضور باطن کے معنی بھی آئے ہیں احادیث میں بھی ذکر ان دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ
فیما ناجی به موسی علیه السلام ربّه: الهی ما جزاء من ذکرک بلسانه و قلبه؟ قال: یا موسی اظلّه یوم القیامة بظلّ عرشی و اجعله فی کنفی
(بحارج ۹۳ ص ۱۵۶)
حضرت موسی علیہ السلام نے مناجات کرتے وقت عرض کی کہ اے خالق۔ اس کی جزاء اور ثواب کہ جس نے تجھے زبان اور دل میں یاد کیا ہو کیا ہے؟ جواب آیا اے موسی(ع) میں اسے قیامت میں عرش کے سایہ اور اپنی پناہ میں قرار دونگا۔
اس حدیث کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس میں ذکر لفظی جو زبان پر ہوتا ہے اور قلبی ذکر دونوں میں استعمال ہوا ہے اور دوسری بہت سی روایات موجود ہیں کہ جن میں ذکر ان دونوں میں استعمال ہوا ہے لیکن غالبا اور اکثر ذکر کو توجہ قلبی اور حضور باطنی میں استعمال کیا گیا ہے اور حقیقی اور کامل ذکر ابھی یہی ہوا کرتا ہے۔ خدا کے ذکر سے مراد ایک ایسی حالت ہے کہ خدا کو روح کے لحاظ سے دیکھ رہا ہو اور باطن میں جہاں کے خالق کی طرف اس طرح متوجہ ہو کہ خدا کو حاضر اور ناظر جانے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے جانے جو شخص اس طرح کی حالت میں خدا کو یاد کرتا ہو تو و ہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرے گا اور واجبات کو بجالائیگا اور حرام چیزوں کو ترک کرے گا۔ اس معنی کے لحاظ سے اللہ کا ذکر آسان ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے
عن ابی عبدالله علیه السلام قال: اشدّ الاعمال ثلاثة: انصاف الناس من نفسک حتی لاترضی لها منهم بشیء الّا رضیت لهم منها بمثله_ و مواساتک الاخ فی المال و ذکر الله علی کل حال، لیس سبحان الله، و الحمدالله، و الا اله الّا الله، و الله اکبر فقط، و لکن اذا ورد علیک شیء امرالله به اخذت به و اذا ورد علیک شیء نهی عنه ترکته
(بحارج ۹۳ ص ۱۵۵)
سب سے مشکل ترین عمل کہ جو ہر شخص سے نہیں ہو سکتا۔ تین ہیں اپنے آپ سے لوگوں کو اس طرح انصاف دینا اور عدل کرنا کہ را ضی نہ ہو دوسروں کے لئے وہ چیز کہ جس کو وہ خود اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔
۲۔ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور غمگساری کرنا۔ ۳۔ ہر حالت میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا۔
ذکر سے فقط سبحا ن اللہ اور لا الہ اللہ مراد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کا ذکر یہ ہے کہ جب کوئی واجب کام سامنے آئے تو اسے بجالائے اور جب حرام کام سامنے ائے تو اسے ترک کرے۔
رسولخدا (ص) نے فرمایا کہ
فیما اوصی به رسول الله (ص) علیاً: یا علی ثلاث لا تطیقها هذه الامة: المواسات للاخ فی ماله_ و انصاف الناس من نفسه_ و ذکر الله علی کل حال_ و لیس هو سبحان الله و الحمدالله و لا اله الّا الله و الله اکبر، و لکن اذا ورد علی ما یحرم علیه خاف الله عنده وترکه
(بحارج ۹۳ ص ۱۵۱)
تین چیزیں ایسی ہیں جو اس امت کے لئے بلند و بالا اور مشکل ہیں۔ ۱۔ مومن بھائی کے ساتھ مال میں مساوات اور برابری اور غمگساری۔ ۲۔ اپنے آپ سے لوگوں کو انصاف دینا۔ ۳۔ تمام حالات میں خدا کا ذکر۔ یہاں ذکر سے مراد سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد انسان کا خدا کو اس طرح یاد کرنا ہے کہ جب کوئی حرام کام سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترک کردے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
قال علی علیه السلام: لا تذکروا الله سبحانه ساهیا و لا تنسه لاهیاً و اذکره ذکراً کاملاً یوافق فیه قلبک لسانک و یطابق اضمارک اعلانک و لن تذکره حقیقة الذکر حتی تنسی نفسک فی ذکرک و تفقدها فی امرک
(غرر الحکم ص ۸۱۷)
”خدا کا سہو اور غفلت میں ذکر نہ کر اور اسے فراموش نہ کر۔ اللہ تعالی کا کامل ذکر اس طرح کر کہ تیرا دل اور زبان ایک دوسرے کے ہمراہ ہوں تیرا باطن اور ظاہر ایکدوسرے کے مطابق ہو تو اللہ تعالی کا حقیقی ذکر سوائے اس حالت کے نہیں کرسکتا مگر تب جب کہ تو ذکر کی حالت میں اپنے نفس کو فراموش کردے اور بالاخرہ تو اپنے آپ کو نہ پائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے
قال الصادق علیه السلام: من کان ذاکراً علی الحقیقة فهو مطیع و من کانه غافلاً عنه فهو عاص و الطاعة علامة الهدایه و المعصیة علامة الضلالة و اصلهما من الذکر و الغفلة فاجعل قلبک قبلة و لسانک لا تحرّکه الّا باشارة القلب و موافقة العقل و رضی الایمان، فان الله عالم یسرّک و جهرک، و کن کالنارع، وحه او کا لواقف فی العرض الاکبر غیر شاغل نفسک عما عناک ممّا کلّفک به ربّک فی امره و نهیه و وعده و وعیده و لا تشغلها بدون ما کلّفک و اغسل قلبک بماء الحزن و اجعل ذکر الله من اجل ذکره لک فانّه ذکرک و هو غنی عنک فذکره لک اجلّ و اشهی و اتّم من ذکرک له و اسبق، و معرفتک بذکره لک یورثک الخضوع و الاستحیاء و الانکسار و یتولد من ذلک رؤیه کرمه و فضله السابق و یصغر عند ذلک طاعاتک و ان کثرت فی جنب مننه_ فتخلّص بوجهه و رؤیتک ذکرک له تورثک الریا و العجب و السفه و الغلظة فی خلقه و استکثار الطاعة و نسیان فضله و کرمه_ و ما تزداد بذلک من الله الّا بعداً و لا تستجلب به علی مضيّ الایام الّا وحشة_ و الذکر ذکران: ذکر خالص یوافقه القلب، و ذکر صارف ینفی ذکر غیره کما قال رسول الله صلی الله علیه و آله:انّی لا احصی ثناء علیک، انت کما اثنبت علی نفسک فرسول الله لم یجعل لذکره لله عزّوجل مقداراً عند علمه بحقیقة سابقة ذکر الله له من قبل ذکره له_ فمن دونه اولی_ فمن اراد ان یذکر الله تعالی فلیعلم انه ما لم یذکر الله العبد بالتوفیق لذکره لا یقدر العبد علی ذکره
(بحار ج ۹۳ ص ۱۵۸)
جو شخص حقیقتاً اللہ تعالی کی یاد میں ہو گاہ وہ اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہوگا جو شخص اللہ سے غافل ہوگا وہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی کرے گا۔ اللہ تعالی کی اطاعت ہدایت کی علامت ہے اور اللہ تعالی کی نافرمانی گمراہی کی نشانی ہے۔ ذکر اور غفلت معصیت اور اطاعت کی بنیاد میں ہے۔
لہذا اپنے دل کو قبلہ قرار دے اور زبان کو سوائے دل کے حکم اور عقل اوررضا الہی کی موافقت کے حرکت نہ دے کیونکہ اللہ تیرے باطن ظاہر سے آگاہ ہے اس شخص کی طرح ہو کہ جس کی روح قبض ہو رہی یا اس شخص کی طرح جو اعمال کے حساب دینے میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہے۔ اپنے نفس کو سوائے الہی احکام کے جو تیرے لئے بہت اہم ہیں۔ یعنی اوامر اور نواہی الہی اور اس کے وعدے اور عہد کے علاوہ کسی میں مشغول نہ کر حزن اور ملال کے پانی سے اپنے دل کو دھوئے اور پاک و پاکیزہ کرے۔ جب کہ خدا تجھے یاد کرتا ہے تو تو بھی خدا کو یاد کر کیونکہ خدا نے تجھے اس حالت میں یاد کیا کہ وہ تجھ سے بے نیاز ہے اسی لئے خدا کا تجھے یاد کرنا زیادہ ارزش اور قیمت رکھتا ہے اور زیادہ لذیذ اور کاملتر ہے اور تیرے یاد کرنے سے بہت پہلے ہے۔
تیری اللہ تعالی کی صفت اور اس کا ذکر تیرے لئے خضوع اور حیاء اور اس کے سامنے تواضع کا موجب ہوگا اور اس کا نتیجہ اس کے فضل اور کرم کا مشاہدہ ہے اس حالت میں اگر تیری اطاعت زیادہ بھی ہوئی تو وہ اللہ تعالی کے عطاء کے مقابلے میں کم ہوگی لہذا اپنے اعمال کو صرف خدا کے لئے بجالا۔ اگر اپنے خدا کے ذکر کرنے کو بڑا سمجھے تو یہ ریا اور خودپسندی جہالت اور لوگوں سے بداخلاقی اپنی عبادت کو بڑا قرار دینے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے غفلت کا موجب ہوگا۔ اس طرح کا ذکر سوائے اللہ تعالی سے دور ہونے کے اور کوئی ثمر اور نتیجہ نہیں دے گا اور زمانے کے گذرجانے سے سوائے غم اور اندوہ کے کوئی اور اثر نہیں رکھے گا۔ اللہ تعالی کا ذکر دو قسم پر تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک خالص ذکر کہ جس میں دل بھی ہمراہی کر رہا ہو۔ دوسرا وہ ذکر جو غیر خدا کی یاد کی نفس کردیتا ہو جیسے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں تیری مدح نہیں کرسکتا تو اس طرح ہے کہ جس طرح تو نے اپنی صفت خود بیان کی ہے۔
لہذا رسول خدا نے اپنے ذکر کی کوئی وقعت اور ارزش قرار نہیں دی کیونکہ اس مطلب کی طرف متوجہ تھے کہ بندے کا خدا کے ذ کر کرنے پر اللہ تعالی کا بندے کا ذکرکرنا مقدم ہے لہذا وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے کمتر ہیں وہ اپنے اللہ کے ذکر کو ناچیز اور معمولی قرار دینے کے زیادہ سزاوار ہیں لہذا جو شخص اللہ تعالی کا ذکر کرنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک اللہ اسے توفیق نہ دے اور خود بندے کو یاد نہ کرے وہ اللہ کے ذکر کرنے پر قدرت نہیں رکھے سکتا۔
جیسے کہ ملاحظہ کر رہے ہیں ان روایات میں قلبی توجہ اور باطنی حضور کو ذکر کرنے کا مصداق بتلایا گیا ہے نہ صرف قلبی خطور اور بے اثر ذہنی تصور کو بلکہ باطنی حضور جو یہ اثر دکھلائے کہ جس کی علامتوں میں سے اوامر اور نواہی الہی کی اطاعت کو علامت قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ لفظی اور زبانی ذکر و اذکار لا الہ الا اللہ سبحان اللہ الحمد و غیرہ کے اللہ کے حقیقی ذکر کا مصداق نہیں ہیں بلکہ خود یہ کلمات بھی اللہ تعالی کے ذکر کا ایک مرتبہ اور درجہ ہیں علاوہ اس کے کہ یہ اذکار بھی قلب اور دل سے پھوٹتے ہیں۔
جو شخص ان لفظی اذکار کو زبان پر جاری کرتا ہے وہ بھی دل میں گرچہ کم ہی کیوں نہ ہو خدا کی طرف توجہ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ خدا کی طرف توجہ رکھتا تھا تب ہی تو اس نے ان اذکار کو زبان پر جاری کیا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں ان کلمات اور اذکار کا کہنا بھی مطلوب ہے اور ثواب رکھتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قصد قربت سے ہوں جیسے کہ ظاہری نماز انہیں الفاظ اور حرکات کا نام ہے کہ جس کے بجالانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اگرچہ نماز کی روح قلب کا حضور اور باطنی توجہ ہے۔
(’’خودسازی (یعنی)تزكیہ و تہذيب نفس‘‘ سے اقتباس)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button