سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

مؤاخات مدینہ سماجی باہمی روابط کا عظیم شاہکار

اقتباس از الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (تیسری جلد) مؤلف: جناب حجۃ الاسلام والمسلمین سید جعفر مرتضی عاملی مؤاخات کرنے والوں کی تعداد:

کہتے ہیں کہ مؤاخات کے وقت مسلمانوں کی تعداد نوّے افراد تھی _پینتالیس آدمی انصار میں سے اور اتنے ہی مہاجرین میں سے تھے_ ابن الجوزی کا دعوی ہے کہ اس نے انہیں شمار کیا ہے وہ کل چھیاسی آدمی تھے_ ایک قول کے مطابق سو آدمی تھے۔
( طبقات ابن سعدج/۲ص۱، المواھب اللدنیة ج/۱ ص ۷۱، فتح الباری ج/۷ ص۲۱۰،سیرة الحلبیة ج/ ۲ص ۹۰، البحارج /۱۹، ص۱۳۰ ،از المنتقی و المقریزی)۔
البتہ ہوسکتاہے کہ یہ مواخات کل مسلمانوں کی تعداد کے برابر نہیں بلکہ اس واقعہ میں موجود مہاجرین کی تعداد کے برابر افراد کے درمیان ہوئی ہو کیونکہ یہ ایک نادر اتفاق ہی ہوسکتاہے کہ مسلمان مہاجرین کی تعداد بغیر کسی کمی بیشی کے اتنی ہی ہوجتنی انصار مسلمانوں کی تھی _ بہر حال پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کام جاری رکھا یعنی جو بھی اسلام قبول کرتا یا کوئی مسلمان مدینہ میں آتا تو حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے ساتھ اس کی مؤاخات قائم فرماتے۔ (فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱)
اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر اور منذر بن عمرو کے درمیان مؤاخات قائم فرمایا حالانکہ ابوذر جنگ احد کے بعد مدینہ میں آئے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر اور ابن مسعود کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ (فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵) لیکن اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتاہے کہ مسلمانوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی کیونکہ عقبہ ثانیہ میں اہل مدینہ میں سے اسی (80) سے زیادہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی تھی _اسی طرح مدینہ میں تشریف فرمائی کے صرف دس یا تیرہ مہینے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو سپاہ جنگ بدرکے لیے تشکیل دی اس کی تعداد تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی _
اس کا جواب یہ دیا جاسکتاہے کہ :
اولاً: بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین کے ڈیڑھ سو افراد کی انصار کے ڈیڑھ سو افراد کے ساتھ مؤاخات برقرار کی تھی۔ (البحار ج/۱۹ ص ۱۳۰)
ثانیاً :اگر ہم قائل بھی ہوں کہ یہ قول درست نہیں کیونکہ جنگ بدر کے لئے جانے والے مہاجرین کی تعداد ساٹھ یا اسّی کے درمیان تھی ( بناء پر اختلاف اقوال) ، تو ہم یہ جواب دیں گے کہ روایت میں مؤاخات کرنے والوں کی تعداد ان مہاجرین کی ہے جنہوں نے اپنے انصار بھائیوں کے ساتھ بھائی چارہ کیا تھا_ کیونکہ انصار مہاجرین سے بہت زیادہ تھے جبکہ مہاجرین کی تعداد پینتالیس تھی پس مؤاخات ان کے اور اسی تعداد میں انصار کے درمیان تھی پھر جوں جوں مہاجرین کی تعدادبڑھتی گئی مؤاخات کا یہ عمل بھی جاری رہا یہاں تک کہ ان کی تعداد ایک سو پچاس تک پہنچ گئی جیسا کہ گذشتہ روایت میں وارد ہوا ہے_ پس مذکورہ تعداد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی انصار بھائی چارہ کئے بغیر رہ گئے تھے_

ہر ایک کا اس جیسے کے ساتھ بھائی چارہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شخص اور اس جیسے کے درمیان مؤاخات برقرار فرماتے جیسا کہ ہجرت سے پہلے اور بعد والی مؤاخات سے ظاہر ہے کیونکہ بظاہر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے حضرت ابوبکر اورحضرت عمر،طلحہ اور زبیر ، عثمان اور عبدالرحمان بن عوف اور اپنے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ ‌السلام کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی۔
(مستدرک الحاکم ج/۳ص۱۴، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۶۷ و ص۲۶۸، السیرةالحلبیةج/۲ص۲۰، السیرة النبویہ دحلان ج/۱ ص ۱۵۵ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۱۱ نیز الاستیعاب) لیکن ابن حبان کہتاہے کہ یہ مدینہ میں دوسری مؤاخات تھی اور اس نے سعد بن ابی وقاص اور عمار بن یاسر کا اضافہ کیا ہے اور یہ سب کے سب مہاجرین میں سے تھے_( الثقات ج/۱ص ۱۳۸ ، ۱۴۲_)
اور مدینہ میں ابوبکر اور خارجہ بن زھیر نیز عمر اور عتبان بن مالک کے درمیان رشتہ اخوّت برقرار فرمایا _ پھر علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ” میرا بھائی ہے ”_ اسی طرح حمزہ اور زید بن حارثہ کے درمیان نیز جعفر بن ابی طالب اور معاذ بن جبل کے درمیان بھی مؤاخات برقرار فرمائی اور اسی آخری مؤاخات پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ جعفر تو اس وقت حبشہ میں تھے (سیرة ابن ھشام ج/۲ ص ۱۵۱ نیز السیرة الحلبیة) اور اس کا جواب وہی ہے جو پہلے گزر چکاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان مؤاخات قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا یعنی جب بھی کوئی مدینہ میں آتا تو اسے کسی کا بھائی بنادیتے بعض نے یہ جواب بھی دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جعفر علیہ ‌السلام کی آمد پر معاذ کوجعفر کے ساتھ مؤاخات کے لئے تیار کررکھا تھا۔ (البدایة النہایةج/۳ ص ۲۲۷ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۹۱)
البتہ یہاں پر ایک سوال سامنے آتاہے کہ جعفر کو اس امر کے ساتھ خاص کرنے کی کیا وجہ تھی ؟ یہاں یہ کہا جاسکتاہے کہ شاید جعفر کی شان اور اہمیت کا اظہار اور اس کی بیان فضیلت مقصود تھی_
علی علیہ السلام کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مؤاخات :
احمد بن حنبل و غیرہ نے روایت کی ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی اور علی علیہ السلام کو آخر تک چھوڑے رکھا یہاں تک کہ ان کے لئے کوئی بھائی نہ بچا تو علیعليه‌السلام نے عرض کیا :”یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کے درمیان تورشتہ اخوت قائم کردیا لیکن مجھے چھوڑ دیا ”؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے تجھے صرف اپنے لئے رکھاہے _تو میرا بھائی ہے اور میں تیرا بھائی ہوں_پس اگر کوئی تجھ سے پوچھے تو کہنا انا عبداللہ و اخو رسول اللہ ” میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں _ تیرے بعدصرف بہت بڑا جھوٹا شخص ہی اس چیز کا دعوی کرے گا مجھے حق کے ساتھ مبعوث کرنے والی ذات کی قسم میں نے تجھے مؤخر نہیں کیا مگر اپنے لئے اور میرے ساتھ تیری وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ‌السلام کی موسی علیہ السلام سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے”

(نہج الحق (دلائل الصدق کے متن کے ضمن میں) ج/۲ ص ۲۶۷ ، ینابیع المودة ص ۵۶ تذکرة الخواص ص ۲۳ ، احمد سے ( اس کی کتاب الفضائل سے ) اور اس نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور ابن جوزی نے بھی نیزکنز العمال ج/۶ ص ۳۹۰ ، الریاض النضرة ج/ ۲ ص ۲۰۹ ، تاریخ ابن عساکر ج/۶ ص ۲۱ ، کفایة الشنقیطی ص ۳۵ ، ۴۴، الثقات ج ۱ ص ۱۴۱ تا ص ۱۴۲)
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی جملہ’‘انا عبدالله و اخو رسوله (میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں) حضرت علی علیہ‌السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اس وقت فرمایا جب حادثات زمانہ کے سبب پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشین سے خلافت غصب کرلی گئی_ لیکن صحابہ نے آپ کو جھٹلایا اور جواب میں کہنے لگے : ”خدا کے بندے ہونے والی بات تو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہونے والی بات نہیں ”(الامامة والسیاسة ج۱ ص ۱۳ ، اعلام النساء ج۴ ص ۱۱۵ نیز تفسیر البرہان ج۲ ص ۹۳)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ” تو میرا بھائی اور میرا وارث ہے ” سے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی ”کہ علی علیہ‌السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے وارث ہیں نہ کوئی اور” تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و منصب کا علی علیہ‌السلام کے علاوہ اور کون حقدار ہوسکتاہے؟ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ (علی علیہ‌السلام ہر لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث ہیں حتی کہ مال و جائیداد کے بھی) تو یقیناً مال و جائیداد حضرت فاطمہ علیہا السلام کا ہی حق تھا۔ (ملاحظہ ہو: الکافی ج۱ ص ۴۵۸ با تحقیق غفاری ، بحار طبع تختی ج۸ ص ۲۳۱ نیز طبع جدید ج ۱۰۰ ص ۱۹۷ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳۲ امالی شیخ طوسی ج۱ ص ۱۰۸ ، العوالم ج۱۱ ص ۵۱۸ ، امالی شیخ مفید ص ۲۸۳ مطبوعہ جامعہ مدرسین نیز ملاحظہ ہو: مرآة العقول ج۵ ص ۳۳۱و غیرہ) جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلافت کے غاصب ، حضرت فاطمہ علیھا السلام کے اموال پربھی مسلّط ہوگئے اورفدک و غیرہ بھی انہی اموال میں سے تھا جس کا ذکر انشاء اللہ اسی کتاب میں غزوہ بنی نضیر پر گفتگو کے دوران ہوگا_ بہر حال بات جو بھی ہو، بھائی چارے والے واقعہ میں غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس کا م میں لوگوں کی سنخیت ، مشابہت اور دلی رجحان کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا اور اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرحوم ازری نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا :
لک ذات کذاته حیث لو لا
انها مثلها لما آخاها
(یا علی علیہ السلام ؟) آپ علیہ ‌السلام کی ذات اور شخصیت بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی مانند تھی _ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی آپ علیہ السلام کو اپنا بھائی نہ بناتے_
حدیث مؤاخات کا تواتر:
بہر حال حدیث مؤاخات متواتر ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں بلکہ اس میں شک و شبہہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے _ خصوصا ً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام کے درمیان مؤاخات چاہے مکہ میں ہونے والی پہلی مؤاخات ہو یا مدینہ میں ہونے والی دوسری مؤاخات اور یہ حدیث دسیوں صحابہ اور تابعین سے مروی ہے جیسا کہ درج ذیل منابع سے معلوم ہوتاہے_
( تاریخ الخمیس ج/۱ص۳۵۳،وفاء الوفاء ج/۱ص ۲۶۷،و ص۲۶۸، ینابیع المودة ص ۵۶ ، ۵۷ (مسند احمد سے ) تذکرة الخواص ص ۲۲ ، ۲۴ میں ترمذی سے نقل ہواہے کہ اس نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے، السیرہ الحلبیةج/۲ص ۲۰وص ۹۰ ، مستدرک الحاکم ج/۳ ص ۱۴ ، الثقات لابن حبان ج/۱ ص ۱۳۸ ، فرائد السمطین ج / ۱، باب ۲۰ ، الفصول المہمة ابن الصباغ ص۲۲، ۲۹، البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۲۶، اور ج/۷ ص ۳۵ ، تاریخ الخلفاء ص ۱۷۰، دلائل الصدق ج/۲ص ۲۶۸ ، ۲۷۰ ، صاحب دلائل الصدق نے یہ حدیث کنز العمال، سنن بیہقی اور ضیاء کی کتاب المختارة سے، عبداللہ بن احمد بن حنبل کے زیادات المسند سے آٹھ احادیث اور اس کے و الد کی المسند اور الفضائل ،سے ابویعلی ، الطبرانی ، ابن عدی اور الجمع بین الصحاح الستة سے نقل کیا ہے ۔)
اور مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ” جب قیامت کا دن ہوگا تو عرش کے درمیان سے مجھے یہ کہا جائے گا کہ بہترین باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابا ابراہیم علیہ السلام اور بہترین بھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ‘(ربیع الابرار ج۱ ص ۸۰۷ و ص ۸۰۸)
اس بناء پریہ دعوی قابل سماعت ہی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام اور عثمان کے درمیان مؤاخات برقرار فرمائی۔ (تاریخ ابن خلدون ج/۲ص ۳۹۷ اور الغدیر ج/۹ ص۹۴ ، ۹۵ اور ۳۱۸ میں الریاض النضرة ج/۱ ص ۱۷، طبری ج/۶ ص ۱۵۴ ، کامل ابن اثیر ج/۳ ص ۷۰ اور معتزلی ج/ ۱ ص ۱۶۵ سے نقل کی ہے لیکن خود اس نے ج/۲ ص ۵۰۶ میں اس حدیث کونقل کیا ہے اور مؤاخات میں اس کا ذکر نہیں کیا ) یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عثمان کے درمیان مؤاخات ہوئی ، کیونکہ یہ بات بلاشک و شبہہ درست نہیں ہے۔( طبقات ابن سعد مطبوعہ لیڈن ج/۳ ص ۴۷ ، الغدیر ج/۹ ص ۱۶ طبقات سے) اس لئے کہ اس بات سے ان کامقصد عثمان کی شان کو بڑھانا اور علی علیہ السلام کی فضیلت کو جھٹلانا ہے بلکہ عثمان اور علی علیہ السلام کو ایک ہی مقام پر لاکھڑا کرناہے _یہ کیسے ہوسکتاہے ؟ اور کب ایسا ہوا ہے ؟
حضرت علی علیہ السلام کو ابوتراب کی کنیت ملنا :
یہاں پر کچھ حضرات نے ذکر کیا ہے کہ جب علی علیہ السلام نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اور کسی اور شخص کے درمیان مؤاخات برقرار نہیں فرمائی تو غمگین اور دل برداشتہ ہوکر مسجد کی طرف گئے اور مٹی پر سوگئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ علیہ السلام کے پاس آئے اور آپ علیہ السلام کی پشت سے مٹی جھاڑنا شروع کی اور فرمانے لگے ( قم یا اباتراب) یعنی اے ابوتراب کھڑے ہو جاؤ اور پھر علی علیہ السلام کے اور اپنے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درمیان مؤاخات برقرار فرمائی۔ ( الفصول المہمة لا بن الصباغ ص ۲۲، مجمع الزوائد ج/۹ ص ۱۱۱طبرانی کی الکبیر اور الاوسط سے، مناقب الخوارزمی ص ۷، کفایة الطالب ص ۱۹۳ ،از ابن عساکر)
کچھ مواخات کے متعلق :
الف : بہترین متبادل
واضح سی بات ہے کہ یہ نو مسلم اپنے قوم ، قبیلے اور برادری سے در حقیقت بالکل کٹ کر رہ گئے تھے_حتی کہ ان کے عزیز ترین افراد بھی دھمکیوں اور ایذاء رسانیوں کے ساتھ ان کے مقابلے پر اتر آئے تھے_ ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ اپنے رشتہ داروں نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا اور وہ بے کس اور لا وارثوں کی طرح ہوگئے تھے_ اور بعض افراد کو یہ احساس بھی تھا کہ اب وہ بالکل اکیلے اور بے یار و مدد گار ہوگئے ہیں_ یہاں پر اسلامی برادری اور اخوت ان کے اس خلاء کو پر کرنے، اکیلے پن کے احساس کو ختم کرنے اور ان کے اندر مستقبل کی ا مید اور اس پر یقین جگانے کے لئے آئی _ اور اس مواخات نے ان کے اندر اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ وہ اتنا تک سمجھنے لگے کہ یہ بھائی چارہ تمام امور میں ہے حتی کہ وراثت میں بھی برابری اور ساجھا ہے_ جس کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے_
ب: انسانی روابط کا ارتقاء
عمل مواخات سے غرض یہ تھی کہ اس سے انسانی روابط کو مصلحت اندیشی کے دائرہ سے بلند تر کر دیا جائے اور انہیں اتنے حد تک خالص الہی روابط میں تبدیل کردیا جائے کہ وہ حقیقی اخوت و برادری تک پہنچ جائیں اور مسلمانوں کے باہمی لین دین میں یہ تعلق داری ہماہنگی و ہمنوائی کی صورت میں ظاہر ہو اور ایسی ذاتی رنجشوں سے بہت دور ہو جو بسا اوقات آپس میں تعاون کرنے والے دو بھائیوں کے درمیان چاہے نجی اور ذاتی طور پر ہی سہی ، کسی نہ کسی معاملے میں قطع تعلق کا باعث بنتی ہیں_
اگر چہ اسلام نے نظریاتی طور پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ ہر مؤمن دوسرے مؤمن کابھائی ہے چاہے وہ اسے اچھا لگے یا بُرا _ اور ہر مؤمن کے لئے یہ ضروری قراردیا ہے کہ وہ اس اخوت اور برادری کے تقاضوں کو پورا کرے _ لیکن اس کے با وجود اس محبت ، صداقت اور عشق کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے اس برادری کا عملی مظاہرہ بھی ضروری تھا_ کیونکہ ایک اعلی مقصد کے لئے بے مثال نمونہ کا ہونا ضروری ہے_
ج: نئے معاشرے کی تشکیل میں مؤاخات کا کردار:
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسے جدید معاشرے کی تشکیل کے در پے تھے جو فلاح و بہبود کی بہترین مثال ہو اور ہر قسم کے حالات و شرائط میں دعوت الی اللہ اور دین خدا کی نصرت کی راہ میں پیش آنے والی ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو_
مسجد نبوی کی تعمیر کی بحث میں گزر چکاہے کہ خود مہاجرین ،خود انصار اور ان دونوںکے درمیان بہت زیادہ معاشرتی ، قبائلی ،خاندانی ، ذاتی ، جذباتی حتی کہ گہرے عقائدی اور نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے_ علاوہ ازیں کچھ ایسے اقتصادی اور نفسیاتی حالات بھی تھے جو خاص کر مہاجرین کے لئے پریشان کن تھے _اس کے ساتھ ساتھ مزید کچھ خطرات بھی اس نو خیز معاشرے کو در پیش تھے یہ خطرات چاہے داخلی ہوں جیسے اوس اور خزرج کے باہمی اختلافات کے خطرات تھے جن میں سے اکثر ابھی تک بھی مشرک تھے، پھر ان میں سے بعض منافق بھی تھے ، ساتھ ہی مدینہ کی یہودیوں سے بھی خطرات در پیش تھے_ اور چاہے وہ خارجی ہوں جیسے جزیرة العرب کے یہودیوں اور مشرکوں کے خطرات بلکہ پوری دنیا سے خطرات در پیش تھے_
اس نئے دین کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے اور اسکے دفاع کیلئے عملی طور پر ایک عظیم ذمّہ دار ی اس معاشرے کے کندھوں پر تھی، ان حالات میں قبیلوں ، گروہوں اور افراد میں بٹے اور بکھرے اس معاشرے میں مضبوط روابط کو وجود میں لانا ضروری تھا تا کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک محکم رشتہ میں منسلک ہوجائیں_ اور مضبوط احساسات اور جذبات کی ایسی عمارت کھڑی کرنے کی ضرورت تھی جو عقیدے کی بنیاد پر استوار ہو _اس طرح اس نئے معاشرے میں کسی بھی فرد پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور معاشرے کے تمام افراد عدل و انصاف اورنظم و انتظام سے بہرہ مند ہوں_ لوگ محبت و اخوت کا اعلی اور مکمل نمونہ دیکھیں، اسی طرح کا معاشرہ ان نفسیاتی کشمش اور تاریخی اختلافات سے پاک ہوگا (بلکہ انہیں آہستہ آہستہ جڑ سے اکھاڑے گا) جنہیں معاشرے کے افراد نے باہمی تعلقات میں اپنا شیوہ بنالیا تھا_ اور جس کے کئی وجوہات کی بنا پر ظاہر ہونے کاخطرہ وسیع ، سخت اور زیادہ تباہ کن ہو سکتا تھا_ پس ایسے مضبوط باہمی روابط برقرار کرنے کی ضرورت تھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”مواخات ”کے عمل سے انجام دیا ، مؤاخات کے اس عمل میںآخری ممکنہ حد تک دقت نظری اور صدیوں کی ایسی منصوبہ بندی شامل تھی جس میں باہمی روابط اور امداد کے فروغ اور استحکام کے لئے انتہائی حد تک کامل ضمانت فراہم کی گئی تھی خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو ایک جیسے افرادکے درمیان مؤاخات قائم کردی تھی _
یہ مواخات دو بنیادوں پر قائم تھی:_
اوّل : حق : _
حق ،انسانی تعلقات میں ایک بنیادی عنصر ہے_ اسی بنیاد پر انسانوں کے روابط و تعلقات قائم ہیں اورزندگی کے مختلف شعبوں میں معاملات اور باہمی لین دین پر یہی چیز حکم فرما ہے _ہاں حق ہی اساس و بنیاد ہے، ذاتی اور انفرادی شعور و ادراک اور ذاتی ، قبائلی اور گروہی مصالح اورمفادات نہیں _واضح ہے کہ اخوت ، باہمی ہمدردی اور احساسات کے ذریعہ سے جب حق بیان ہو اور یہ امور حق سے آراستہ ہوں تو یہ چیز حق کی بقاء ،دوام اور ان لوگوں کی حق کے ساتھ وابستگی اور حق سے دفاع کی ضمانت فراہم کرتی ہے لیکن اگر حق کو بزور بازومسلط کیا جائے تو جوں ہی یہ قوت غائب ہوگی تو حق کے بھی غائب ہونے کا خطرہ لا حق ہوجائے گا کیونکہ اس کی بقاء کی ضمانت چلی گئی ہے پس اب اس کی بقاء اور وجود کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہی_ بسا اوقات اس طرح سے حق کی بقاء بھی کینہ اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے جس سے بسا اوقات ظلم و طغیان اپنی انتہائی ، بدترین او رخوفناک صورت میں ظاہر ہوتاہے_
دوم : باہمی تعاون:
پس یہ برادری صرف جذبات کو بھڑکانے اور ذاتی شعور کو بیدار کرنے کیلئے نہ تھی بلکہ نتیجہ خیز احساس ذمہ داری تھی جس پر اسی وقت ہی فوری عملی اثرات مرتب ہوئے اور انسان اسی وقت سے ہی اس کی گہرائی اور تاثیر کو واضح طور پر محسوس کرسکتاہے بالکل اسی بھائی چارے کی طرح جس طرح قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے ” انما المؤمنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات ۱۰) کیونکہ اس آیت مجیدہ میں خداوند نے مؤمنین کے درمیان صلح کی ذمہ داری کو ایمانی بھائی چارے کا حصہ بیان فرمایا ہے _جب بھائی چارہ ثمر آور اور نیک نیتی پر مشتمل ہو توفطری بات ہے کہ یہ برداری اور اسی طرح اس کی حفاظت اور پابندی بھی ممکن ترین حد تک دائمی ہوگی_ اس مؤاخات کے عظیم اور گراں قدر نتائج جہاد کی تاریخ میں بھی ظاہر ہوئے_ خداوند کریم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنگ بدر میں احسان جتلاتے ہوئے فرمایاہے : وان یریدوا ان یخدعوک، فان حسبک اللہ، ھو الّذی ایدک بنصرہ و بالمومنین و الف بین قلوبھم، لو انفقت ما فی الارض جمیعاً ما الفت بین قلوبھم ، و لکن اللہ الف بینہم ، ان اللہ عزیز حکیم_() الانفال ۶۲) اور اگر وہ تمہیں دھو کہ دینا بھی چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطمینان ہے کہ آپ کی حمایت کے لئے خداہی کافی ہے جس نے اپنی مدداور مومنوں کے ذریعہ سے پہلے سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تائید اور حمایت کر رکھی ہے اور اسی نے ہی مومنوں کے دلوں کو آپس میں (محبت کے ذریعہ) جوڑ دیا ہے وگر نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہے تمام دنیا و مافیہا کو بھی خرچ کر ڈالتے تب بھی ان کے دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتے تھے ، لیکن خدا نے یہ محبت ڈال دی ہے اور خدا تو ہے ہی عزت والا اور دانا_
حضرت ابوبکر کے خلیل:
مؤرخین یہاں روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” اگر مجھے کسی کو دوست بناناہو تا تو میں ضرور ابوبکر کو دوست بناتا” (مصنف عبدالرزاق ج / ۱۰ از ابن الزبیر اور اس کے حاشیہ میں سعید بن منصور سے روایت نقل کی گئی ہے الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ،از صحیح البخاری ج/۵ ص ۲۴۳ باب المناقب اور باب الہجرة ج/۶ ص ۴۴_نیز الطب النبوی ابن قیم ص ۲۰۷) لیکن یہ کس طرح صحیح ہو سکتاہے حالانکہ خود ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:
_بے شک میری امت میں سے میرا دوست ابوبکر ہے۔
( ارشاد الساری ج/۶ ص ۸۳ ،۸۴، کنزالعمال ج/۶ ص ۱۳۸ ، اور ص ۱۴۰ ، الریاض النضرة ج/۱ ص)
_ ہر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست ہوتاہے اور میرا دوست سعد بن معاذ یا عثمان بن عفان ہے۔( الغدیر ج/۹ ص ۳۴۷ ، از کنزالعمال ج/۶ ص۸۳،منتخب کنزالعمال (مسند کے حاشیہ پر ) ج/۵ ص /تاریخ بغداد خطیب ج۶ ص ۳۲۱ و الغدیر ج۹ ص ۳۴۶ و ۳۴۷)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ : حضرت عثمان کی دوستی والی حدیث کو اسحاق بن نجیح ملطی نے گھڑا ہے۔(ملاحظہ ہو: الغدیر ج ۹ ص ۷۴۳)اور حضرت ابوبکر کی دوستی والی حدیث ( جیسا کہ معتزلی نے بھی اس کی تصریح کی ہے۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۱ ص ۴۹ ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی علیہ السلام کے درمیان مواخات والی حدیث کے مقابلہ میں گھڑی گئی ہے۔
۴_ جدید معاشرے میں تعلقات کی بنیاد:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے کچھ عرصہ بعد اور بعض کے بقول پانچ مہینوں (تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۳) کے بعد اپنے اور یہودیوں کے درمیان ایک تحریر یا سند لکھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے دین اور اموال کا مالک رہنے دیا لیکن ان پر یہ شرط عائد کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہیں کریں گے اور جنگ اور اضطراری صورت حال میں ان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرنا ضروری ہوگا جیسا کہ اس کے بدلہ میں مسلمانوں پر بھی یہ چیز لازم ہے لیکن یہود یوں نے بہت جلدی اس عہد و پیمان کو توڑدیا اور مکر وفریب سے کام لینے لگے _ لیکن جو دوسروں کے لئے کنواں کھودتا ہے ، اسی کے لئے کھائی تیار ملتی ہے _
قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ اس سند میں صرف اغیار کے ساتھ مسلمانوں کے روابط کی نوعیت و کیفیت کے بیان پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ اس کا اکثرو بیشتر حصہ خود مسلمانوں کے درمیان روابط کے ایسے ضروری اصولوں اور قواعد پر مشتمل ہے جو احتمالی غلطیوں کے واقع ہونے سے پہلے ہی ان کی روک تھام کرسکے اور یہ سند ایک ایسے دستور العمل کی مانند ہے کہ جس میں نئی حکومت کے داخلی و خارجی روابط کا بنیادی ڈھانچہ پیش کیا گیا ہو _حق بات تو یہ ہے کہ یہ سند ان اہم ترین قانونی اسناد میں سے ایک ایسی سند ہے جس کا مطالعہ ماہرین قانون اور قانون گذاروں کو پوری دقت اور توجہ کے ساتھ کرنا چاہیے تا کہ اس سے دلائل او ر احکام استخراج کرسکیں اور اسلام کے اعلی مقاصد اور قوانین کی عظمت و بلندی کو درک کرسکیں _ نیزاس سند کا دیگر انسانوں کے بنائے ہوئے ان قوانین کے ساتھ موازنہ کرنا چاہئے جن پر اس امت کے فکری طورپر مستضعف افرادبھی مرے جا رہے ہیں حالانکہ یہ قوانین انسان کی فطری و غیر فطری ضروریات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں_یہاں پر ہم سند کے متن کو درج کرتے ہیں_
سند کا متن
ابن اسحاق کے بقول :
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا نے مہاجرین اور انصار کے لیے ایک قرار داد تحریر فرمائی جس میں یہود یوں کے ساتھ بھی عہد و پیمان کیا اور انہیں اپنے دین اور مال کا مالک رہنے دیا اور طرفین کے لئے کچھ شرائط بھی طے پائیں_
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے یہ معاہدہ یثرب اور قریش کے مسلمانوں ، مومنوں، ان کے پیروکاروں ، ان سے ملحق ہونے والوں اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کرنے والوں کے درمیان ہے_ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ سب کے سب ایک امت ہیں _ قریشی مہاجرین اپنے رسوم و رواج کے مطابق آپس میں خون بہا کے معاملات طے کریں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مسلمانوں سے لے کرادا کریں گے_ (البتہ یہ شقیں ذو معنی الفاظ رکھتی ہیں لیکن ان کا یہی معنی مناسب لگتاہے_مترجم)
بنی عوف بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کریں گے جبکہ ہر قبیلہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کرادا کرے گا _
اسی طرح بنی ساعدہ ، بنی الحارث ، بنی جشم، بنی نجار، بنی عمرو بن عوف ، بنی النبیت اور بنی اوس بھی اپنے رسوم و رواج کے مطابق خون بہا کے گذشتہ معاملات طے کرلیں گے جبکہ اپنے قیدیوں کا فدیہ بہتر طریقے سے اور برابر برابر مؤمنین سے لے کراداکریں گے _
اور مومنین اپنے درمیان کسی کثیر العیال مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور مناسب طریقے سے اسے فدیہ اور خون بہا کا حصہ عطا ء کریں گے _
اور پرہیزگار مؤمنین سب مل کربا ہمی طور پر بغاوت کرنے والے یا ظلم ، گناہ، دشمنی یا مومنین کے درمیان فساد پھیلانے جیسے کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے کے خلاف اقدام کریں گے چا ہے وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو_
اور کسی مومن کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مومن کو کسی کافر کی خاطر قتل کرے اور مومن کے خلاف کافر کی مدد کرے_
اور خدا کا ذمہ ایک ہی ہے اسی لئے مسلمانوں میں سے ادنی ترین شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے_
اور دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تمام مؤمنین ایک دوسرے کے دوست اور ساتھی ہیں_
اورجو یہودی بھی ہماری پیروی کرے گا تو اس کی مدد اور برابری کے حقوق ضروری ہیں_اور اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا اور اس کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی جائے گی _
اورتمام مومنین کی صلح و سلامتی ایک ہے اور کوئی مومن بھی دوسرے مومن کی موافقت کے بغیر جہاد فی سبیل اللہ میں کسی سے صلح نہیں کرسکتا مگر سب اکٹھے ہوں اور عدالت کی رعایت کی جائے _
اور جو قبیلہ بھی ہمارے ساتھ مل کر جنگ کرے گا اس کے سب افراد ایک دوسرے کی مدد کریںگے _
اور مومنین کا جو خون راہ خدا میں بہے گا وہ اس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور(راضی بہ رضا رہنے والے) متقی مومنین بہترین اور محکم ترین ہدایت پر ہیں _
کسی مشرک شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ قریش کے کسی شخص یا اس کے مال کو پناہ دے اور مومن کے اس پر مسلط ہونے سے مانع ہو_
اور جو شخص بھی ناحق کسی مومن کو قتل کرے گا اور قتل ثابت ہوجائے تواسے اس کے بدلے قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ مقتول کے وارثین ( دیت لینے پر) راضی ہوجائیں اور تمام مؤمنین کواس قاتل کے خلاف قیام کرناپڑے گا اوران پر قاتل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ضروری اور واجب ہوگا_
اور جو مومن اس معاہدے میں درج امور کا اقرار کرتا ہے اور خدا اور قیامت پر ایمان رکھتاہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی بدعت گزار کی مدد کرے یا اس کو پناہ دے اورجو شخص بھی اس کو پناہ دے گا یا اس کی مدد کرے گا تو قیامت کے دن خدا کی لعنت اور غضب کا مستوجب قرار پائے گا اور اس سے اس چیز کا معاوضہ یا بدلہ قبول نہیں کیا جائے گا_
اور جب بھی کسی چیز کے متعلق تمہارے درمیان اختلاف واقع ہو تو ( اس اختلاف کو حل کرنے کا ) مرجع و مرکز خدا اور ( اس کے رسول ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں_
اور جنگ کے دوران یہود ی بھی مومنین کے ساتھ ساتھ جنگ کے اخراجات برداشت کریں گے اور بنی عوف کے یہودیوں کا شمار بھی مومنین کے ساتھ ایک گروہ میں ہوگا( اس فرق کے ساتھ کہ ) یہود یوں اور مسلمانوں کا اپنا اپنا دین ، دوستیاں اور ذاتیات ہوں گے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کا ارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈال دے گا _ بنی نجار کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے_ اسی طرح بنی حارث ، بنی ساعدہ ، بنی اوس اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرح ہے مگر جو شخص ظلم یا گناہ کاارتکاب کرے گا تو ( اس صورت میں ) وہ صرف اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو ہی ہلاکت میں ڈالے گا_ ثعلبہ کے خاندان ، جفنہ کا معاملہ بھی ثعلبہ کی طرح ہے_ اسی طرح بنی شطیبہ کا معاملہ بھی بنی عوف کے یہودیوں کی طرف ہے_ اور نیکی اور برائی کا علیحدہ علیحدہ حساب کتاب ہے_ ثعلبہ کے ساتھیوں کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_ نیز یہودیوں کے قریبی افراد کا معاملہ بھی انہی کی طرح ہے_
اور(حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی بھی یہودی مدینہ شہر سے خارج نہیں ہوگا نیز کسی بھی قبیلہ کو اس معاہدے سے خارج نہیں کیا جائے گا_ اور زخمیوںکا بدلہ لینے میں بھی کوئی زیادہ روی نہیں کی جائے گی اور جو ناحق خونریزی کرے گا اس کا اور اس کا گھر والوں کا خون بہایا جائے گا_ لیکن مظلوم ہونے کی صورت میں اسے اس بات کی اجازت ہے اور خدا بھی اسی بات پر راضی ہے_
یہودی اور مسلمان ہر ایک اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور اس معاہدے کو قبول کرنے والوں میں سے کسی فریق کے خلاف جنگ کی گئی تو یہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے_
اوریہ لوگ پند و نصیحت اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ، گناہ کے کاموں میں نہیں _ کوئی شخص بھی اپنے حلیف سے بدی نہیں کرے گا اور (اس صورت میں)مظلوم کی مدد کی جائے گی _
اور یہود ی مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگی اخراجات برداشت کریں گے جب تک وہ جنگ میں مصروف ہیں _اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے یثرب (مدینہ) شہر جائے امن وا حترام ہے_
اور ( ہر شخص کا)ہمسایہ اور پناہ گیر خود اسی کی طرح ہے اور اسے ضر ر اور تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے _ کسی شخص کو نا حق پناہ نہیں دی جائے گی مگر اس کے خاندان کی اجازت سے_
اور اگر اس معاہدے کو قبول کرنے والے اشخاص کے درمیان ایسا جھگڑا اور نزاع واقع ہو جس سے فساد کا خوف ہو تو اسے حل کرنے کا مرجع و مرکز خدا اور ( اس کا رسول ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور خداوند متعال یقیناً اس عہد و پیمان کے مندرجات پر ر اضی خوشنود ہے_ مشرکین قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی یثرب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سب ایک دوسرے کی مدد کریںگے_ اگر (مؤمنین ) انہیں صلح کی دعوت دیں (کتاب الاموال ابوعبید کی روایت ہے کہ اگر ( مومنوں میں سے) یہودیوں کا کوئی حلیف انہیں صلح کی دعوت دے گا تو سب کو ان کے ساتھ صلح کرنی پڑے گی اور اگر وہ یہ کام کریں تو مومنوں کی طرح ان کابھی یہ حق بنتا ہے مگر جو دین کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں)اور وہ قبول کرلیں تو تمام مؤمنین بھی اس کے مطابق عمل کریں گے اور اگر وہ مومنین کو صلح کی دعوت دیں گرچہ ان کامؤمنین کی طرح یہ حق ہے مگر جو شخص دین کے بارے میں جنگ کرے تو اس کی پیشکش کو قبول نہیں کیا جائے گا_ اور ہر شخص کو اپنے ذمہ لئے جانے والا حصہ ادا کرنا چاہئے۔( الاموال کے مطابق ، ہر کسی کو اپنے ذمہ لئے جانے والے خرچہ کا حصہ ادا کرنا چاہئے )اوس کے یہود ی خود اور ان کے ساتھیوںکے بھی وہی حقوق ہیں جو اس معاہدے کو قبول کرنے والوں کے لئے ثابت ہیں_ ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے_ اچھائی اوربرائی کا علیحدہ حساب کتاب ہے اور جو بوئے گا وہی کاٹے گا_ خداوند اس معاہدے کے مندرجات پر خوشنود وراضی ہے اوراس قرار داد کی خلاف ورزی صرف ظالم اور گناہگار افراد ہی کریں گے_ ( اور اس قرارداد کو قبول کرنے والے اشخاص میں سے ) جو شخص بھی مدینہ سے خارج ہو یا مدینہ میں رہے امان میں ہے مگر یہ کہ ظلم کرے اور گناہ کا مرتکب ہو _یقینا خدا اور اس کا رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک اور پرہیزگار لوگوں کی پناہ گاہ ہیں۔
یہ ایک اہم اور بلند پایہ سند ہے لیکن مؤرخین نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور محققین و مؤلفین نے اس میں تحقیق کرنے میں کوتاہی کی ہے ، ہم روشن فکر اشخاص کو اس سند میں غور و خوض اور گہرے سوچ بچار کی دعوت دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس کی عظمت کے مطابق اسے اہمیت دی جائے گی واللہ ھو الموفق والمسدد۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button