سیرتسیرت امام زین العابدینؑ

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں چند جملے

حضرت امام زین العابدین ،سیدسجاد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے صرف چند دعائیں ہی ہم تک کتابی صورت میں پہنچیں ہیں جو دنیا میں صحیفہ سجادیہ کے نام سے جانی جاتی ہیں لیکن ان دعاؤں میں موجود عظیم ترین مفاہیم و معانی کے لعل و جواہر کو مد نظر رکھتے ہوئے با بصیرت لوگ دعاؤں کے اس مجموعے کو "زبور آل محمد” کہتے ہیں۔ ان دعاؤں نے عارفین کے دلوں کو حرمِ خدا اور معرفتِ الہی کی ناقابلِ تصور کی بلندیوں تک پہنچا دیا، عابدوں کے لیے محرابِ عبادت میں وہ لذت مہیا کردی کہ جس نے ان کے لیے فانی دنیا کی لذتوں کو بے معنی کر دیا، زاہدوں کو ایسا زادِ راہ عطا کیا جس سے وہ دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہو گئے۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام ایسے بلند اخلاق کے مالک تھے کہ مومنین کے دل ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور بشری پیکر میں موجود اس مشعلِ نور سے ہدایت حاصل کرتے تھے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام ہی وہ شخضیت ہیں کہ جن کا خشوع و خضوع، زہد و تقوی اور عبادت و خدا پرستی ضرب المثل بن گئی اور آج تک آپ کو زین العابدین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام ہی وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کے برپا کردہ انقلاب کو اپنی پھوپھی اور اسیران کربلا کے ہمراہ آب حیات پلایا اور انقلاب عاشوراء کا زندگی کی آخری سانسوں تک دفاع کیا اور دنیا کو اس عظیم انقلاب کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور اس کے ثمرات کو ہر خطے تک پہنچا دیا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام ہی ان آنکھوں کے مالک ہیں جن سے دس محرم کے بعد جاری ہونے والے آنسو کبھی خشک نہ ہوئے۔
ہم اس مختصر تحریر میں امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں کچھ ہی سطور کے ذریعے اپنے قلم کو شرف اور قارئین کی آنکھوں کو نور بخشیں گے۔ ہمارے چوتھے امام کا نام "علی” ہے کہ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کا فرزند اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے پوتے ہیں۔
حضرت امام علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام کے القاب میں سے دو لقب بہت زیادہ مشہور ہیں سجاد ،زین العابدین کتابوں اور لوگوں کے درمیان گفتگو میں ہمارے چوتھے امام کو اکثر طور پر نام کی بجائے لقب سے ہی یاد کیا جاتا ہے اور امام سجاد علیہ السلام یا امام زین العابدین علیہ السلام کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی والدہ کا نام "شاہ زنان” تھا اور بعض روایات میں ا مام سجاد علیہ السلام کی والدہ کا نام "شہر بانو” بھی مذکور ہے۔ امام علیہ السلام کی والدہ ایران کے بادشاہ یزدجر بن شہریار کی بیٹی تھیں۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ولادت باسعادت حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت سے تقریبا دوسال پہلے پانچ شعبان 38ہجری میں ہوئی۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنے دادا حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السلام اور اپنے بابا حضرت امام حسینعلیہ السلام کے دورِ امامت میں زندگی گزاری اور دنیا کے اتار چڑھاؤ اور بے وفا مسلمانوں کے بدلتے رنگوں اور منافقین کے مکر وحیلوں کو بہت قریب سے دیکھا اور جوانانِ جنت کے سرداروں حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو امت کے ہاتھوں ملنے والے مصائب و آلام اور دکھوں میں ان کے برابر کے شریک رہے اور اہل بیت رسول خدا(ص) پر گرنے والی کائنات کی سب سے بڑی مصیبت کو کربلا سے شام اور شام سے مدینہ تک اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسی مصیبت نے ہی امام سجاد علیہ السلام کو آخری دم تک خون کے آنسو رلایا۔
سیرتِ طیبہ:
حضرت امام سجاد علیہ السلام بہت ہی عظیم اوصاف، اعلی ترین اخلاق اور بلند ترین صفات کے مالک تھے اور لوگوں کے ساتھ اِس اخلاق سے ملتے تھے کہ ہر ملنے والا آپ کا گرویدہ ہو جاتا تھا، آپ ہمیشہ لوگوں کی حاجات اور ضرورتوں کا خیال رکھتے اور اپنا تعارف کروائے بغیر ان کے گھروں میں ان کی ضرورت کی اشیاء پہنچادیتے۔ ہم اس مختصر تحریر میں اس عنوان کے تحت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں چند روایات قارئین کی نذر کرتے ہیں:
1:۔ عن عمرو بن ثابت: انه لمّا مات علي بن الحسين علیہ السلام فغسلوه، جعلوا ينظرون إلى آثار سواد في ظهره وقالوا: ما هذا؟فقيل: كان يحمل جرب الدقيق ليلا على ظهره يعطيه فقراء أهل المدينة
عمرو بن ثابت کہتا ہے: جب امام علی بن حسین علیہ السلام کی وفات ہوئی اور انھیں غسل دیا گیا تو غسل دینے والے ان کی کمر پر سیادہ نشانات دیکھنے لگے اور کہنے لگے:یہ کیا ہے؟ تو کسی نے انھیں بتایا کہ: امام زین العابدین علیہ السلام رات کو آٹے کی بوریاں اپنی کمر پر اٹھا کر اہل مدینہ کے فقراء میں تقسیم کرتے تھے اور یہ انھی بوریوں کے نشانات ہیں۔
2:۔ وروى زرارة في علي بن الحسين علیہ السلام قوله: لقد حج على ناقة عشرين حجة فما قرعها بسوط
زرارہ سے مروی ہے: حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک اونٹنی پر سوار ہو کر بیس مرتبہ حج کے لیے گئے لیکن کبھی ایک مرتبہ بھی اسے چھڑی سے نہ مارا۔
3:۔ وروي أيضا أنه قيل له: إنك أبر الناس ولا تأكل مع أمك في قصعة وهي تريد ذلك؟ فقال(ع): أكره أن تسبق يدي إلى ما سبقت إليه عينها
زرارہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے کہ کسی نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے کہا: آپ لوگوں میں سے سب سے زیادہ نیک و برگزیدہ ہیں لیکن آپ اپنی والدہ کے ساتھ ایک برتن میں کھانا نہیں کھاتے حالانکہ وہ یہ چاہتی ہیں؟ تو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرا ہاتھ اس لقمہ کی طرف سبقت لے جائے جس لقمہ کی طرف میری ماں کی آنکھیں سبقت لے چکی ہیں۔
4:۔ وروي أن رجلا شتمه فقال علیہ السلام له: يا فتى إن بين أيدينا عقبة كؤودا، فإن جزت منها فلا أبالي بما تقول، وان أتحير فيها فأنا شر مما تقول
ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام پہ سب و شتم کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: اے جوان ہمارے سامنے ایک بہت ہی دشوار ترین رکاوٹ ہے اگر میں اس رکاوٹ کو عبور کر لیتا ہوں تو مجھے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے جو تم نے کہیں ہیں اور اگر میں اسے عبور نہ کرسکا تو میں اس سے بھی بد تر ہو جو تم نے کہا ہے۔
5: وروي أن جارية كسرت له قصعة فيها طعام فاصفرّ وجهها، فقال(ع): إذهبي فأنت حرّة لوجه الله
ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ایک کنیز سے کھانے سے بھرا برتن ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے اس کا چہرہ خوف سے پیلا ہو گیا۔ تو امام سجاد علیہ السلام نے اسے فرمایا: جاؤ تم خدا کی راہ میں آزاد ہو۔
6:۔ وروي أنه علیہ السلام انتهى إلى قوم يغتابونه فوقف عليهم وقال لهم: إن كنتم صادقين فغفر الله لي، وإن كنتم كاذبين فغفر الله لكم
مروی ہے کہ ایک دن حضرت امام سجاد علیہ السلام کا گزر کچھ ایسے افراد کے پاس سے ہوا جو اُن کی برائیاں کر رہے تھے، امام سجاد علیہ السلام اُن کے پاس رکے اور اُن سے فرمایا: اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خدا میری مغفرت فرمائے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو خدا تمہاری مغفرت فرمائے۔
7:۔ وروي أنه كان علیہ السلام خارجا فلقيه رجل فسبّه، فثارت إليه العبيد والموالي، فقال لهم(ع): مهلا كفّوا)، ثم أقبل على ذلك الرجل فقال:ما ستر من أمرنا عنك أكثر، ألك حاجة نعينك عليها؟ فاستحيا الرجل، فألقى علیہ السلام عليه خميصة(كساء) كانت عليه وأمر له بألف درهم، فكان ذلك الرجل بعد ذلك يقول: أشهد أنك من أولاد الرسل
ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام سجاد علیہ السلام باہر نکلے تو آپ سے ایک شخص ملا جس نے آپ کو گالی دی، جس کی وجہ سے آپ کے ساتھ موجود غلام اور چاہنے والے اس شخص پر غضبناک ہو گئے تو آپ نے اُن سے فرمایا: ٹھہر جاؤ، پھر آپ علیہ السلام نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا: ہمارا معاملہ تم پر زیادہ پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے، کیا تمہاری کوئی ایسی حاجت ہے کہ جسے ہم پورا کر سکتے ہیں؟ یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہو گیا۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنی چادر اس پر ڈال دی اور اسے ایک ہزار درہم دینے کا حکم دیا۔ اس کے بعد وہ شخص امام سجاد علیہ السلام کو کہا کرتا تھا کہ: میں گواہی دیتا ہوں واقعی آپ رسولوں کی اولاد ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام کی عبادت:
ہم حضرت امام سجاد علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں اس سے زیادہ کیا لکھ سکتے ہیں کہ تاریخ نے آپ علیہ السلام کو "زین العابدین” اور "سید الساجدین” کا لقب دیا اور سجاد کے نام سے یاد کیا۔ تاریخی کتب میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں موجود روایات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم اپنے قارئین کی خدمت میں فقط چند روایات پیش کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں:
1:۔ روي أنه سقط له بن في بئر، فتفزّع أهل المدينة لذلك حتى أخرجوه، وكان علیہ السلام قائما يصلّي فما زال في محرابه، فقيل له في ذلك فقال(ع): ما شعرت، إني كنت أناجي ربا عظيما
روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام سجاد علیہ السلام کا بیٹا کنوئیں میں گر گیا تو اہل مدینہ نے بہت زیادہ چیخ و پکار شروع کردی اور پھر امام کے فرزند کو کنوئیں سے نکال لیا، اس دوران حضرت امام سجاد علیہ السلام محراب عبادت میں نماز پڑھ رہے تھے، جب بعد میں آپ علیہ السلام کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:مجھے کچھ محسوس نہیں ہوا میں اس دوران اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا۔
2:۔ وعن طاووس أنه قال: رأيت رجلا يصلي في المسجد الحرام تحت الميزاب، يدعو ويبكي في دعائه، فجئته حين فرغ من الصلاة فإذا هو علي بن الحسين علیہ السلام ، فقلت له: يا بن رسول الله رأيتك على حالة كذا ولك ثلاثة أرجو أن تؤمنك من الخوف، أحدها انك ابن رسول الله، والثاني: شفاعةجدك،والثالث: رحمةالله،فقال: (ياطاووس،أمّاإنيبنرسولاللهفلايؤمننيوقدسمعتاللهتعالىيقول: «فَلَاأَنسَابَبَيْنَهُمْيَوْمَئِذٍوَلَايَتَسَاءلُونَ»،وأماشفاعةجديفلاتؤمننيلأناللهتعالىيقول: «وَلَايَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى»،وأمارحمةاللهفإناللهتعالىيقول«إنهاقريبةمنالمحسنين»ولاأعلمأنّيمحسن
طاؤوس کہتا ہے کہ میں نے ایک دن مسجد الحرام میں میزاب کے نیچے ایک نمازی کو دیکھا کہ جو دعا کر رہا تھا اور دعا میں بہت گریہ کر رہا تھا، جب اس آدمی نے نماز ختم کی تو میں اس کے پاس گیا تو دیکھا تو وہ امام علی بن حسین علیہ السلام ہیں۔ میں نے امام علیہ السلام سے کہا: اے اللہ کے رسول کے فرزند!میں نے آپ کو اس حالت میں د یکھا ہے حالانکہ آپ کے پاس تین ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو خوف سے امان دے سکتی ہیں ان میں سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ رسول خدا(ص) کے فرزند ہیں، دوسری چیز آپ کے جد امجد کی شفاعت ہے اور تیسری چیز خدا کی رحمت ہے۔
امام سجاد علیہ السلام نے یہ سن کر فرمایا: اے طاؤوس جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میں رسول خدا کا فرزند ہوں تو یہ چیز مجھے امان نہیں دے سکتی کیونکہ میں نے خدا کا یہ فرمان سن رکھا ہے "اس دن ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہ رہے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے” اور جہاں تک میرے جد امجد کی شفاعت کی بات ہے تو وہ بھی مجھے امان نہیں دے سکتی "کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جس سے اللہ راضی ہو گا” اور جہاں تک خدا کی رحمت کی بات ہے تو اللہ فرماتا ہے "خدا کی رحمت محسنین کے قریب ہے اور میں یہ نہیں جانتا کہ میں محسن ہوں یا نہیں”۔ امام سجاد علیہ السلام کا جہاد: حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اپنی سیرت اور نہج کے ذریعے کبھی بھی گوشہ نشینی، صوفیت یا رہبانیت کی نمائندگی نہیں کی، امام سجاد علیہ السلام نے سانحہ کربلا سے ناقابل تصور صدمہ اٹھایا اور اس کے بعد اپنی سیرت و کردار اور سچے گفتار و بیان کے ذریعے جہاد کیا اوراپنے گرد موجود لوگوں کو ایسے ہدایت یافتہ گروہوں میں تبدیل کر دیا کہ جنہوں نے ظالموں کے دلوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور ان کے تاج و تخت کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب اسیرانِ کربلا کا قافلہ ابن زیادہ ملعون کے دربار میں لایاگیا تو اس لعین نے امام سجاد علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ یہ علی بن حسین علیہ السلام ہے۔ تو ابن زیادہ لعین کہتا ہے: علی بن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کردیا؟ یہ سننا تھا کہ امام سجاد علیہ السلام نے نہایت شجاعت اور بغیر کسی خوف و ڈر کے گرجتی ہوئی آواز میں اس ملعون سے کہا: میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی بن حسین ہے لوگوں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ اس لہجے میں یہ جواب سن کر ابن زیادہ ملعون نے کہا:لوگوں نے نہیں بلکہ اسے اللہ نے قتل کیا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے رسول خدا(ص) سے ورثے میں ملنے والی دانائی اور امیر المومنین علیہ السلام کی شجاعت کے ساتھ اس ملعون کو اپنے دلیرانہ لہجے میں کہا: اللہ تو موت کے وقت روحوں کو قبض کرلیتا ہے،اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔ ابن زیادہ ملعون نے جب یہ جواب سنا تو اس نے کہا: تمہاری یہ جرأت کہ تم مجھے جواب دیتے ہو، پھر اس ملعون نے جلادوں سے کہا: اسے لے جا کر اس کی گردن اڑا دو۔ اس ملعون کی یہ بات سنتے ہی حضرت زینب علیہ السلام نے بڑھ کر فرمایا: اے ابن زیاد تو ہم سے میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو تو اس کے ساتھ مجھے بھی قتل کر دو۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: اے میری پھوپھی جان آپ مجھے اس سے بات کرنے کی مہلت دیں۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے ابن زیاد ملعون کو مخاطب کر کے اپنے علوی لہجے میں فرمایا: اے ابن زیاد کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دیتے ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ قتل ہو جانا تو ہماری عادت ہے اور شہادت تو ہمارے لیے اللہ کی طرف سے عطا کردہ سعادت ہے۔ امام سجاد سانحہ کربلا کے بعد تمام ھم و غم او رالم و دکھوں کے باوجود معاشرے کے درمیان رہے جس کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد آپ کے گرد جمع ہو گئی اور چشمہ امامت سے سیراب ہونے لگی، آپ کے علم و فضل، بزرگی و دانائی اور فضائل و مناقب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
https://alkafeel.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button