سلائیڈرسیدہ خدیجۃ الکبریٰؑشخصیات

شریکۃ الحسین جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا کا بازار کوفہ میں تاریخی خطبہ

یہ وہ خطبہ ہے جسے حضرت زینب(س) نے واقعہ عاشورا کے بعد اسیران کربلا کے کوفہ میں داخل ہوتے وقت کوفہ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ اس خطبے میں حضرت زینب(س) نے واقعہ عاشورا میں امام حسین(ع) کی مدد کرنے میں کوتاہی کرنے پر کوفہ والوں کی سرزنش کرتے ہوئے ان کے اس کام کو بہت بڑا گناہ قرار دیا۔
مسلم حصاص بیان کرتا ہے کہ ابن زیاد نے مجھے دارالامارہ کی اصلاح کیلئے بلایا ہوا تھا۔ اور میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک کوفہ کے اطراف و جوانب سے شورو غل کی آوازیں آنے لگیں۔ اسی اثنا میں ایک خادم آیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آج کوفہ میں شورو غل ہو رہا ہے۔اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک خارجی(خاکم بدہن )قاتل کا سر لایا جا رہا ہے جس نے یزید پر خروج کیا تھا۔ میں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟ کہا حسین ابن علی(علیہم السلام)۔ میں یہ سنتے ہی دم بخود ہو کر رہ گیا۔ جب خادم چلا گیا تو میں نے دوہتھڑ اپنے منہ پر مارے۔ قریب تھا کہ میری آنکھیں ضائع ہو جائیں۔ اس کے بعد میں ہاتھ منہ دھو کر دارالامارہ کی پچھلی طرف سے کناسہ کے مقام پر پہنچا جہاں لوگ سروں اور قیدیوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک قافلہ پہنچا جو چالیس اُونٹوں پر مشتمل تھا۔ جن پر اولاد حضرت فاطمۃ الزہرا(س) سوار تھی۔ ان میں کچھ بچے اور مستورات تھیں۔ امام زین العابدین (ع)بے پلان اُونٹ پر سوار تھے۔رگہائے بدن سے خون جاری تھااور آپ کی حالت بیماری اور ضعف کی وجہ انتہائی کرب ناک تھی۔
آلِ محمد (ص)کی خستہ تنی دیکھ کر اہل کوفہ صدقہ کی کھجوریں اور روٹیوں کے ٹکڑے بچوں کی طرف پھینکتے تھے۔ جناب امّ کلثوم یہ فرما کر:یا اہل کوفہ ان الصدقۃ علینا حرامکہ اے اہل کوفہ! صدقہ ہم پر حرام ہے کھجوریں وغیرہ بچوں کے ہاتھوں سے لے کر نیچے پھینک دیتی تھیں۔ لوگ خاندانِ نبوت کی یہ حالت زار دیکھ کردھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔جناب امّ کلثوم (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا۔
اے اہل کوفہ خاموش ہو جاؤ! تمھارے مرد ہمیں قتل کرتے ہیں اور تمھاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔ خدا وند عالم روز قیامت تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔
اس وقت لوگوں کے گریہ و بکا اور شور و شغب کی وجہ سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔لیکن راویان اخبار کا بیان ہے کہ جونہی شیرِ خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ انصتوا خاموش ہو جاؤ ! تو کیفیت یہ تھی کہ "ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس "آتے ہوئے سانس رک گئے اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئی اور اونٹوں کے گردن میں باندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں بھی بند ہو گئیں ۔اس کے بعد خطیب منبر سلونی کی دختر نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کا لب و لہجہ اور ان کاعہد معدلت انگیز یاد آگیا۔
راوی (حذام اسدی یا بشیر بن خریم اسدی) کہتا ہے:
خدا کی قسم میں نے کبھی کسی خاتون کو دختر علی (ع)سے زیادہ پرزور تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا(بی بی کے لب و لہجہ اور اندازِ خطابت سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ) گویا جناب امیر المومنین کی زبان سے بول رہی ہیں۔ بالفاظ دیگر یوں محسوس ہوتا کہ حضرت امیر آپ کی زبان سے بول رہے ہیں۔
جب ہر طرف مکمل خاموشی چھا گئی تو امّ المصائب نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
ثُمَّ قَالَتْ بَعْدَ حَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى وَالصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِهِ (ص):
أما بعد :
يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ وَمَلَقُ الْإِمَاءِ وَغَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ
اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے
سب تعریفیں خدا وند ذوالجلال و الاکرام کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو میرے نانا محمدؐ پر اور ان کی طیب و طاہر اور نیک و پاک اولاد پر۔ اما بعد! اے اہلِ کوفہ!اے اہل فریب و مکر !کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو ! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیااور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طورپر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو۔جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے ، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی ،کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔
تشریح: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اہل کوفہ کی مذمت کرتے ہوئے ان میں پائی جانے والی بری صفات کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی کلمہ حصر “إِلّا” کے ساتھ یعنی سوائے ان صفات کے تم میں کچھ نہیں پایا جاتا، وہ صفات مندرجہ ذیل ہیں (پہلے لغوی معانی اور پھر وضاحت بیان کی جائے گی):
صَلِف: خودستائی (اپنی تعریف اور بڑائی)، بے مزہ کھانا، دعویدار، بے اثر اور کم بارش والے بادل کی گرج۔ نَطِف: عیب اور برے کام سے بھرا ہوا، نجس، جس چیز پر شک و شبہ ہو۔ شَفْ: کینہ رکھنے والا۔ مَلِق: چاپلوس (خوشامدی)، فَرَسٌ مَلِق وہ گھوڑا ہوتا ہے جس کے دوڑنے پر اعتماد نہ ہو۔ غَمْز: ابرو اور آنکھ کے کونے سے اشارہ۔ اس فقرے میں بنت علی زینب کبری (علیہماالسلام) نے کوفیوں کی چار صفات بیان فرمائی ہیں: ذلت میں ملی جلی ہوئی خودستائی، کینہ سے بھرا ہوا سینہ، خوشامد کرنا، دشمن ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔
أَلَا وَ هَل فِيكُم إِلّا الصَّلِفُ النَّطِفُ: اس جملہ میں آنحضرتؑ کوفیوں کو خودستائی کی مرض کا شکار سمجھ رہی ہیں جو اپنے تخیلات اور توہمات میں چکر کاٹتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ لوگ اولاً: اپنے آپ کو اہل بیت (علیہم السلام) کے حبدار اور پیروکار سمجھتے تھے اور ثانیاً: ماضی میں اہل بیت (علیہم السلام) سے کی ہوئی حمایت پر فخر کرتے تھے۔ جناب زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) کا یہ فرمان اس حقیقت کو واضح کررہا ہے کہ جن باتوں پر تم فخر کررہے ہو، وہ جھوٹے دعووں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ گھمنڈ، نفس کی دھوکہ بازیوں سے جنم لیے ہیں جو تمہاری خودستائی کا باعث بنے ہیں، کیونکہ مخلص اور حقیقت بین شخص ہرگز اپنے اعمال پر خوش نہیں ہوجاتا اور مسلسل اپنی کیفیت سے خائف رہتا ہے۔ نیز محبت اہل بیت (علیہم السلام) کا صرف اظہار اور دکھاوا ہی خودستائی اور فخر کا باعث نہیں بن سکتا خصوصاً جب یہ دکھاوا نازک حالات میں دشمنی میں بدل جائے جیسا کہ آپؑ اگلے جملہ میں فرماتی ہیں:
وَ الصَّدرُ الشَّنَفِ: کیا تم میں سوائے … اور کینہ سے بھرا ہوا سینہ اور … پایا جاتا ہے؟! ایسے لوگ جن کے وجود میں تضاد اورتنافی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف سے تم اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے دوسروں پر فخر کرتے ہو اور حالات کے بدل جانے سے اپنے سینہ کو ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے کینہ سے بھرکر ہمارے خلاف فوج تیار کرتے ہو!
وَ مَلِقُ الامَاءِ:یہ کوفیوں کی تیسری بری صفت ہے یعنی دشمن کی خوشامد کرنا۔ “مَلِق الإماءِ “کے الفاظ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ منافقت تم لوگوں میں اتنی گہری ہوچکی ہے کہ تمہاری زبان خوشامد اور چاپلوسی کرنے میں ان کنیزوں کی طرح ہے جو اپنے آقا کی مدح و ثناء اور خوشامد کرتی ہیں تا کہ اسے اپنی طرف متوجہ کرسکیں، زبان سے ایسی باتیں کرتی ہیں جن پر دل میں کوئی عقیدہ نہیں ہوتا اور صرف اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے چرب زبانی اور چکنی چپڑی باتیں کرتی ہیں چاہے اس خوشامد کے لیے ذلت و خواری اٹھانا پڑے، تم اہل کوفہ بھی اسی طرح یزید اور ابن زیاد اور ان کے ساتھیوں جیسے خیانتکار حکمرانوں کی خوشامد کرتے ہو اور تم جو ان کا احترام کرتے ہو اپنے فائدہ کے لئے کرتے ہو نہ کہ صداقت، سچائی اور وفاداری کی بنیاد پر۔ اس صفت سے بالکل واضح ہورہا ہے کہ کوفیوں کے وجود میں منافقت رچ گئی تھی۔ ایسی بری صفت کا پایا جانا، انسانی معاشرے سے نکل جانے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ یہ صفت اتنی بری اور نقصان دہ ہے کہ ان لوگوں کی کسی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ معاشرہ لوگوں کے باہمی اعتماد پر قائم ہوتا ہے۔
وَ غَمزُ الأَعدَاءِ: دشمنوں کے سامنے ذلت اور حقارت۔ غمز یعنی آنکھ اور ابرو سے اشارہ کرنا۔مرحوم سید محمد کاظم قزوینی اس فقرہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شاید حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کا اس جملہ سے مراد یہ ہو کہ اے کوفہ کے لوگو! تم وہ لوگ ہو کہ دشمن، جیسے ابن زیاد اور اس کے ساتھی، حقارت کرتے ہوئے تمہیں آنکھ کے کنارے سے دیکھتے ہیں اور تمہارے ساتھ انتہائی تحقیر اور ذلت سے برتاو کرتے ہیں اور تم ان کے ہاں کسی عزت و احترام کے حامل نہیں ہو، بلکہ وہ تمہیں صرف اپنی غلامی اور بندگی کے لئے اور پُل کے طور پر اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لئے چاہتے ہیں اور دل میں تمہارے لیے کوئی احترام اور قدر کے قائل نہیں ہیں۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی یہ بات کوفہ کے لوگوں کے لئے انتباہ اور بیدار کرنے والی صدا ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ کس حد تک اپنی خوداعتمادی اور وقار کھو بیٹھے ہیں کہ اپنے آپ کو ایسے پست اور حقیر افراد کا آلہ کار بنا دیا ہے۔
أَلَا بِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَفِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أتَبْكُونَ أَخِي؟! أَجَلْ، وَاللَّهِ فَابْكُوا فَإِنَّكُمْ أَحْرَى بِالْبُكَاءِ فَابْكُوا كَثِيراً وَاضْحَكُوا قَلِيلًا فَقَدْ أَبْلَيْتُمْ بِعَارِهَا وَمَنَيْتُمْ بِشَنَارِهَا وَلَنْ تَرْحَضُوهَا أَبَداً وَأَنَّى تَرْحَضُونَ قُتِلَ سَلِيلُ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنِ الرِّسَالَةِ وَسَيِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَلَاذُ حَرْبِكُمْ وَمَعَاذُ حِزْبِكُمْ وَمَقَرُّ سِلْمِكُمْ وَآسِي كَلْمِكُمْ وَمَفْزَعُ نَازِلَتِكُمْ وَالْمَرْجِعُ إِلَيْهِ عِنْدَ مُقَاتَلَتِكُمْ- وَمَدَرَةُ حُجَجِكُمْ وَمَنَارُ مَحَجَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ وَسَاءَ مَا تَزِرُونَ لِيَوْمِ بَعْثِكُمُ فَتَعْساً تَعْساً وَنَكْساً نَكْساً لَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَتَبَّتِ الْأَيْدِي وَخَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَبُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ :وَضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ۔۔
آگاہ رہو! تم نے بہت ہی برے اعمال کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کی وجہ سے خدا وند عالم تم پر غضب ناک ہے۔ اس لئے تم اس کے ابدی عذاب و عتاب میں گرفتار ہو گئے۔ اب کیوں گریہ و بکا کرتے ہو ؟ ہاں بخدا البتہ تم اس کے سزاوار ہو کہ روؤ زیادہ اور ہنسو کم۔تم امام علیہ السلام کے قتل کی عار و شنار میں گرفتار ہو چکے ہو اور تم اس دھبے کو کبھی دھو نہیں سکتے اور بھلا تم خاتم نبوت اور معدن رسالت کے سلیل(فرزند) اور جوانان جنت کے سردار، جنگ میں اپنے پشت پناہ ،مصیبت میں جائے پناہ، منارئ حجت اور عالم سنت کے قتل کے الزام سے کیونکر بری ہو سکتے ہو۔ لعنت ہو تم پر اور ہلاکت ہے تمہارے لئے۔تم نے بہت ہی برے کام کا ارتکاب کیاہے اور آخرت کے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ تمھاری کوشش رائیگاں ہو گئی اورتم برباد ہو گئے۔تمہاری تجارت خسارے میں رہی اور تم خدا کے غضب کا شکار ہو گئے ۔تم ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوئے۔
أَ تَدْرُونَ وَيْلَكُمْ أَيَّ كَبِدٍ لِمُحَمَّدٍ ص فَرَثْتُمْ وَأَيَّ عَهْدٍ نَكَثْتُمْ وَأَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَأَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ هَتَكْتُمْ وَأَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ دَماً وَلَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى‏ وَهُمْ لا يُنْصَرُونَ- فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَلَا يُخْشَى عَلَيْهِ فَوْتُ النَّارِ كَلَّا إِنَّ رَبَّكَ لَنَا وَلَهُمْ لَبِالْمِرْصادِ۔۔
افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول ؐ کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا ؟ اور ان کا کون سا خون بہایا ؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ؟ ۔اگر اس ظلم پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو ؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔کیونکہ خدا وندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے”۔
ثُمَّ أَنْشَأَتْ تَقُولُ (ع‏):
مَا ذَا تَقُولُونَ إِذْ قَالَ النَّبِيُّ لَكُمْ
مَا ذَا صَنَعْتُمْ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ‏
بِأَهْلِ بَيْتِي وَأَوْلَادِي وَمکْرمَتِي
مِنْهُمْ أُسَارَى وَمِنْهُمْ ضُرِّجُوا بِدَمٍ‏
مَا كَانَ ذَاكَ جَزَائِي إِذْ نَصَحْتُ لَكُمْ
أَنْ تَخْلُفُونِي بِسُوءٍ فِي ذَوِي رَحِمِي‏
إِنِّي لَأَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ يَحُلَّ بِكُمْ
مِثْلُ الْعَذَابِ الَّذِي أَوْدَى عَلَى إِرَمٍ‏
پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے:
تم اس وقت کیا جواب دو گے جب نبی اکرم ؐ تم سے پوچھیں گے تم آخری امت ہو تم نے یہ کیا کیا؟
میرے اہل بیت ؑ، میری اولاد، میری ناموس کے ساتھ؟ ان میں سے کچھ کو اسیر بنایا اور کچھ کو خون میں نہلا دیا
میری ہدایت و نصیحت کی یہ جزاء نہ تھی کہ میرے بعد میرے عزیزوں کے ساتھ یہ سلوک کرو
مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو شداد اور قوم ارم پر آیا تھا۔
اہلیانِ کوفہ کی حالت
قارئین ! پھر بی بیِ عالم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حیران و سرگرداں ہیں اور تعجب سے انگلیاں منہ میں ڈالے ہوئے ہیں۔میں نے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو میرے پہلو میں کھڑا رو رہا تھا۔اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور وہ اس حال میں کہ رہا تھا:
بابی انتم و امی کھو لکم خیر الکھول و شبابکم خیر الشباب و نساءکم خیر النساء و نسلکم خیر نسل و فضلکم فضل عظیم
"میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ کے بزرگ سب بزرگوں سے بہتر، آپ کے جوان سب جوانوں سے افضل، آپ کی عورتیں سب عورتوں سے اشرف، آپ کی نسل سب نسلوں سے اعلیٰ اور آپ کا فضل عظیم ہے۔”

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button