مصائب شھداء بنو ہاشم در کربلامکتوب مصائب

مصائب جناب شہزادہ علی اکبر علیہ السلام

خطیب: علامہ انور علی نجفی

نواسہ رسول اکرم امام حسین علیہ السلام نے کربلاء میں بڑی قربانیاں دی ہیں جب اصغر ؑ کو لے کر گئے تو دشمن نے سمجھا کہ قرآن لے کر آرہا ہے اور دشمن کی طرف علی اکبرؑ گئے تو دوست دشمن سب نے کہا کہ رسول خداؐ تشریف لے آئے ہیں اہل بیت ؑ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول خداؐ کی زیارت کا اشتیاق کرتے تو ہم علی اکبر ؑ کو دیکھنے چلے جاتے تھے ” اشبہ الناس برسول اللہ” رسول خداؐ سے شبیہ ترین فرد علی اکبرؑ ہیں۔
جتنے اور مجاہد آئے جو بھی اذنِ جہاد لینے کے لیے امام ؑ کے حضور آئے امامؑ نے اجازت نہ دی جب تک انہوں نے اصرار نہیں کیا لیکن جب علی اکبرؑ تشریف لائے تو فوراً اجازت دے دی اور کہا بیٹا جس نے پالا ہے اس سے جا کر اجازت لو ۔ علی اکبر ؑ زینب کبری ٰ سلام اللہ علیھا سے اجازت لینے جاتے ہیں زینب ؑ کے لئے کتنا سخت مرحلہ ہے۔کربلاء میں دو شہداء کے اہلحرم سے وداع کے مصائب نہایت سخت ہیں ایک حسینؑ کا اور ایک علی اکبرؑ کا ، علی اکبر ؑ بار بارالوداع کر کے خیمے سے نکلتے ہیں اور ایک ہاتھ آتا ہے اور پھر علی اکبرؑ کو پکڑ کر خیمے میں لے جاتا ہے اور مقتل کے الفاظ ہیں پھر جب علی اکبرؑ نکلے تو ایسے نکلے ہیں جیسے کسی گھر سے جوان کا جنازہ نکلتا ہے ۔
شبیہ پیمبر ؑ تیار ہوئے بابا سے اجازت لی اور گھوڑے پر بیٹھے علی اکبرؑ کا بابا ہے علی اکبرؑ کو دیکھ رہے ہیں علی اکبرؑ کو سوار کیا علی اکبرؑ جب چلے تو پیچھے پیچھے چلنا شروع کیا ” مھلا مھلا” ذرا آہستہ چلے ۔ علی اکبرؑ نے مڑکر کہا بابا آپ نے تو اجازت دے دی تھی کہا علی اکبرؑ اگر تیرا جوان بیٹا ہوتا اور خود چل کر موت کی طرف جارہا ہوتا تو میں تجھ سے پوچھتا ۔۔اجرکم علی اللہ
علی اکبرؑ گئے اور جہاد کیا اور امام حسینؑ ایک بلندی پر ہیں علی اکبرؑ کو دیکھ رہے ہیں زینب ؑ و کلثوم اور باقی بیبیاں امام حسین ؑ کو دیکھ رہی ہیں جب تک امام ؑ کا چہرہ دمکتا رہا تب تک بیبیاں بھی چین میں رہیں ایک وقت ایسا آیا جب امامؑ نے کہا لیلیٰ دعا کروکہ علی اکبرؑ واپس آجائے لیلیٰ نے دعا کے لئے ہاتھوں بلند کیا واسطہ تلاش کیا حسینؑ سے زیادہ غریب لیلیٰ کو کوئی نہ ملا، خدا کو حسینؑ کی غربت کا واسطہ دیا ، خدایا ! اے یوسف کو یعقوبؑ سے ملانے والی ذات! تجھے غریب حسین ؑ کا واسطہ علی اکبرؑ کو واپس بھیج دے ۔
کا ش علی اکبرؑ واپس نہ آتے علی اکبرؑ واپس آئے ایک مطالبہ کیا کہا ” العطش قد قتلنی ” بابا !پیاس مارے جارہی ہے کوئی پانی کی سبیل ہو سکتی ہے ؟ بابا نے کہا ذرا اپنی زبان میری زبان میں دو، علی اکبرؑ نے اپنی زبان فوراً باہر نکالی اور کہا بابا آپ کی زبان پر تو میری زبان سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں ۔۔
امام حسین ؑ اور اہل بیت کے لئے شبیہ پیمبر سے ایک دفعہ پھر الوداع کرنا کتنا سخت تھا علی اکبرؑ چلے دادِ شجاعت دی ایک گرز بڑھا ایک نیزہ قلب اکبر ؑ پر پڑا اکبرؑ اب گھوڑے پر نہ سنبھل سکتے تھے اکبرؑ کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ، گھوڑا بھی زخمی تھا کہتے ہیں گھوڑے نے خیام کی طرف آنے کے بجائے لشکر اعداء کا رخ کر لیا جب اکبرؑ لشکر اعداء میں پھنس گیا چاروں طرف سے لعینوں نے گھیر لیا یہ اہل بیت کا تیسرا فرد ہے ایک عباس کے ساتھ ایسا ہوا تنہا عباس تھا چاروں طرف لعین تھے ایک حسین ؑ جب تنہا رہ گئے مقتل کہتی ہے تنہا حسین ؑ تؑھا زخمی حسینؑ چاروں طرف اعداء تھے اور ایک شبیہ پیمبر علی اکبرؑ چاروں طرف سے لعینوں نے گھیر لیا " فقطعوہ اربا اربا ” اپنی تلواروں سے علی اکبرؑ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔
کتنا سخت ہے ذرا سوچیئےگا ۔ خیمہ گاہ کہاں ہے مقام علی اکبرؑ کہاں ہے (خدا سب کو ان مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب فرمائے) وہ علی اکبرؑ جو نرغہ اعداء میں ہیں جو زخمی ہیں اس کے گلے میں اتنی توانائی بھی نہیں کہ بابا کو پکار سکے نحیف سی آواز میں آخری سلام دیا: السلام علیک یا ابتاہ ، وہ مظلوم امامؑ جو آپ کے گریے کو سنتا ہے آپ کے سلام کو سنتا ہے حسین ؑ نے اکبرؑ کا آخری سلام سنا رخ کیا وہ جو عقاب کے مانند جاتا تھا اب اس کی آنکھوں میں نور نہ رہا اب وہ چل نہیں سکتا ہے کبھی گرتا ہے کبھی اٹھتا ہے کبھی یا علیؑ کہتا ہے نہ جانے بابا علی کو پکار رہا ہے یا بیٹے علی کو پکار رہا ہے یا علی ، یا قرة عینی ، یا ثمرۃ فؤادی ، میرے کلیجے کی ٹھنڈک ،میرے آنکھوں کا نور ! تیرے جانے سے حسین ؑ کی آنکھوں میں نور ختم ہوا ۔ علی اکبرؑ کے پاس پہنچے علی اکبرؑ کا حسین ؑ نے کس حال میں دیکھا کیسے کہوں۔ جوان بیٹے کے زخمیوں سے چور جسم اطہر کے پاس بیٹھ گئے کہا علی اکبرؑ بولو ! دیکھا علی اکبرؑ کا ایک ہاتھ سینے پر ہے ہاتھ ہٹایا برچھی سینے میں ٹوٹی ہوئی ہے ۔یا علیؑ کہہ کر برچھی کو سینے سے نکالا ۔۔مولا کلیجہ سنبھال لیجیے،برچھی کے ساتھ اکبر کا کلیجہ باہرآگیا ۔
جناب سکینہ یہ روایت کرتی ہےشاید آپ برداشت نہ کر سکے نہ جانے جناب سکینہ نے اس روایت کو کیسے برداشت کیا کیسے اس منظر کو برداشت کیا کہا” ابی یختنع و یشحق میرا باپ اس حالت میں تھا کہ سانسیں رک رہی تھی آواز گلے سے نہیں نکل پاتی تھی موت نزدیک آگئی تھی اور فرمایا ” علی الدنیا بعد ک العفا” تیری موت سے پہلے حسینؑ کو موت آجاتی۔ جناب زینبؑ نے جب یہ منظر دیکھا تو خیمہ سے نکل آئیں اور دوڑتی ہوئی حسینؑ کے پاس آئیں حسینؑ نے جب دیکھا بہن آرہی ہیں کہا بہن تم جانتی ہو نا اکبرؑ کتنا پیارا ہے اکبر ؑ کتنا عزیز ہے لیکن تیری چادر تیرا حجاب اکبر ؑ سے زیادہ عزیز ہے بہن ابھی میں زندہ ہوں خیام میں واپس جا ۔
وسیعلم الذین ظلمو ایّ منقلب ینقلبون، انا لِلّہ وانا الیہ راجعون

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button