عقائدعقائد کا مطالعہ

امتحان اور آزمائش کا فلسفہ قرآن و احادیث کی روشنی میں

علامہ شیخ محمد شفاء نجفی
جب ایک شخص الٰہی دستور کو قبول کرتے ہوئے اسلام قبول کرتا ہے اورایمان کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس پر کچھ دینی ذمہ داریاں بھی عائد ہو جاتی ہیں۔یعنی اسلام اور ایمان محض زبان سے کلمہ شہادت ادا کرنے کا نام نہیں اور نہ ہی فقط دل میں خود کو مومن سمجھ لینے سے ذمہ داری ادا ہوتی ہے بلکہ ایمان کے عملی تقاضے پورے کرکے اپنے عمل کے ذریعے اپنے عقیدے و ایمان کا اظہار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ایمان ایک نظام اور دستور حیات کو اپنانے اور اسے اپنانے کی راہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات و مصائب کا مجاہدانہ مقابلہ کرنے نیز کردار و امانت کا نام ہے۔ ایسے ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا انسان کے کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔اگر ایمان کا رتبہ اتنا سستا ہوتا کہ لب ہلانے سے حاصل ہو جائے تو سچے و جھوٹے میں تمیز نہ ہوتی۔ مجاہد اور فراری میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ ایمان کے لیے قربانی دینے اور ایمان کے نام پر مفاد حاصل کرنے والوں میں کوئی امتیاز نہ ہوتا۔پس ایمان لانے والوں کی مختلف مقامات پر آزمائش ہوتی رہتی ہے کیونکہ امتحان و آزمائش اللہ تعالیٰ کا دائمی قانون ہے جو تمام امتوں میں جاری رہا ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَن یُّترَکُوۤا اَن یَّقُولُوۤا اٰمَنَّا وَ ہُم لَا یُفتَنُونَ
(عنکبوت:2)
کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟
اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے،اسی آزمائش کے قانون کو یوں بیان فرمایا:
اَم حَسِبتُم اَن تَدخُلُوا الجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاتِکُم مَّثَلُ الَّذِینَ خَلَوا مِن قَبلِکُم ؕ مَسَّتہُمُ البَاسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلزِلُوا حَتّٰی یَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذِینَ اٰمَنُوا مَعَہٗ مَتٰی نَصرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصرَ اللّٰہِ قَرِیبٌ
البقرۃ:۲۱۴
کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
خدا اپنے برگزیدہ بندوں کو جن تربیتی مراحل سے گزارتاہے، ان کی نشاندہی فرما رہا ہے نیز یہاں ایک غلط تصور کا ازالہ بھی مقصود ہے۔
غلط تصور: عام تصور یہ ہے کہ لوگ صرف ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے کو ہر چیز کے لیے کافی سمجھتے ہیں حتیٰ کہ طبیعی علل و اسباب کے لیے بھی اپنے ایمان و اسلام سے توقع رکھتے ہیں کہ بغیر کوشش کیے مفت میں کامیابی مل جائے گی۔
الٰہی سنت یہ رہی ہے کہ مفت میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر مفت میں ملے توسب کو ملنی چاہیے اور سب کو ملے تو بغیر استحقاق اور اہلیت کے بھی ملنی چاہیے اور یہ ایک عبث کام بن جاتا ہے۔ اس لیے حکمت الٰہی کے تحت ضروری ہوا کہ کامیابی کے راستوں کو دشوار بنا دیا جائے اور تمام کامیابیوں کے لیے جدوجہد کرنا ضروری ہو۔ پھرجنت اور ابدی زندگی کے حصول کے لیے آزمائش اور امتحان کے کٹھن مراحل سے گزرنا اور ایسی مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ ضروری ہو جہاں کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے اور سچے اہل ایمان دوسروں سے جدا ہوجاتے ہیں اور صرف صبر و تحمل کرنے والے ہی اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ البتہ وہ بھی اتنی تکلیف دہ اور طاقت فرسا مشکلات کے بعد کہ رسول جیسی ہستی اور مؤمنین اللہ کی نصرت کے لیے چیخنے پر مجبور ہوجاتے ہیں : ’’ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟‘‘ تاکہ استحقاق اور اہلیت کے حامل افراد ہی مَتٰی نَصرُ اللّٰہِ سے آگے کامیابی کی حقیقی منزل کو پا سکیں۔ آیت سے ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے جن سے مومنین کو آزمایا جاتا ہے۔
ایک اور غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ خداوند عالم کسی بندے کو اس لیے امتحان میں نہیں ڈالتا کہ اللہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بندہ کتنی صلاحیت رکھتا ہے اورکیا کچھ کر سکتا ہے۔ کیونکہ خدا تو پہلے ہی سے ہر چیز کا علم رکھتا ہے، بلکہ امتحان و آزمائش کا مقصد بندے کو میدان عمل فراہم کرنا ہے تاکہ وہ حسن کارکردگی کی بنا پر اللہ کے فضل و کرم کا مستحق ٹھہرے یا بدکرداری کی وجہ سے غضب الہٰی کا سزاوار قرار پائے۔قرآن میں اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر آزمائش کی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ کو مختلف قسم کی آزمائشوں سے گزارا گیا حتی ٰ کہ انہیں اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلانی پڑی۔پس اللہ کی مرضی یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیاجائے تاکہ امتحان میں کامیابی کے نتیجے میں استحقاق کی بنیاد پر انہیں برگزیدہ فرمائے اور منصب امامت و رسالت پر فائز کرے۔ یہ درست ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے، مگر یاد رہے کہ اللہ کی مشیت اور چاہت ایک حکیمانہ بنیاد پرقائم ہے، جس کے مطابق وہ صرف اہل اور مستحق افراد کو عزت دیتا ہے اور نااہل و غیرمستحق افراد کو عزت و وقار سے محروم کر دیتا ہے ۔
فلسفہ امتحان و آزمائش
فلسفہ امتحان و آزمائش کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام کے مندرجہ ذیل اقوال پہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا:
ألاَ إن اللهَ تعالى قد كَشفَ الخَلقَ كَشفةً ، لا أنه جَهِلَ ما أخفَوهُ مِن مَصُونِ أْرارِهِم و مَكنونِ ضَمائرِهِم ، ولكن لِيَبلُوَهُم أيُّهُم أحسَنُ عَملاً ، فيكونَ الثّوابُ جَزاءً والعِقابُ بَواءً
نہج البلاغہ : خطبہ ۱۴۴
خبردار!خداوندعالم نے اپنی مخلوق کے مخفی حالات کو اس لئے ظاہر نہیں فرمایا کہ وہ ان کے پوشیدہ رازوں اور مخفی کیفیات سے انجان اور بے علم تھا،بلکہ اس لئے ایسا کیا کہ انہیں آزمائے کہ ان میں سے زیادہ اچھے عمل والا کون ہے۔اسی آزمائش کی بنیاد پر ہی ثواب کی صورت میں جزا ملتی ہے اور عذاب کی صورت میں سزا ملتی ہے۔
كُلّما كانتِ البَلوى والاختبارُ أعظمَ كانتِ المَثُوبهُ والجَزاءُ أجزَلَ ، ألاَ تَرَونَ أنَّ الله سبحانه اختَبرَ الأوَّلِينَ مِن لَدُن آدمَ صلواتُ الله عليهِ إلى الآخِرينَ مِن هذا العالَمِ بأحجارٍ لا تَضُرُّ ولا تَنفَعُ ، ولا تُبصِرُ ولا تَسمَعُ ، فجَعَلَها بَيتَهُ الحَرامَ الّذي جَعَلَهَ اللهُ للنّاسِ قِياما ۔۔۔؟! ولكنّ الله يَختبِرُ عِبادَهُ بأنواعِ الشَّدائدِ ، ويَتَعبّدُهُم بأنواعِ الَمجاهِدِ ، ويَبتَليهِم بضُروبِ المَكارِهِ ؛ إخراجا للتَّكَبُّرِ مِن قلوبهِم ، وإسكانا للتَّذَلُّلِ في نُفوسِهِم ، ولِيَجعلَ ذلكَ أبوابا فُتُحا إلى فضلِهِ ، وأسبابا ذُلُلاً لِعَفوِهِ
نہج البلاغہ : خطبہ ۱۹۲
آزمائش جتنی کڑی ہوگی اتنا ہی اجروثواب زیادہ ہوگا۔تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہ نے آدمؑ سے لے کر اس جہاں کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا جو نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ،نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔اس نے ان پتھروں ہی میں اپنا محترم گھر قراردیا کہ جسے لوگوں کے لئے (امن کے)قیام کا ذریعہ ٹھہرایا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گوناگوںسختیوں سے آزماتا ہے، ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے جو طرح طرح کی مشقتوں سےبجالائی گئی ہواور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت وغرور کو نکال باہر کرے،ان کے نفوس میں عجزوفروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس ابتلاء وآزمائش کی راہ سے فضل وامتنان کے کھلے ہوئے دروازوں اور بخشش وعطا کے موافق اسباب تک (انہیں) پہنچائے۔
لَتُبَلبَلُنّ بَلبَلةً ، ولَتُغربَلُنّ غَرْبَلةً ، حتّى يعودَ أسفلُكُم أعلاكم وأعلاكم أسفلَكُم و ليَسبقنّ سَبّاقونَ كانوا قَصَّروا ، وليُقَصِّرَنَّ سبّاقونَ كانوا سَبَقوا
بحارالانوار : ۵ / ۲۱۸ / ۱۲
تمہیں آزمائش کی بھٹّی سے ضرور گزرنا ہے۔ تمہیں چھلنی سے ضرور چھانا جانا ہے حتیٰ کہ تمہارا نچلے درجے کا آدمی اوپر آجائے اور اوپر کا آدمی نیچے چلاجائے۔اِسی طرح جو کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے وہ آگے بڑھیں اور جو سبقت کرچکے تھے وہ پیچھے رہ جائیں۔
لا تَفرَح بالغَناءِ والرَّخاءِ ، ولا تَغتمَّ بالفقرِ والبلاءِ ؛ فإنّ الذَّهبَ يُجَرَّبُ بالنّارِ ، والمؤمنُ يُجَرَّبُ بالبلاءِ
غرر الحكم : ۱۰۳۹۴
تونگری اور خوشحالی پر اتراو نہیں اور فقرو آزمائش سے گھبراو نہیں کیونکہ سونے کو آگ کے ذریعہ ہی پرکھا جاتا ہے اور مومن کو آزمائش کے ذریعہ۔
فَاِنَّ اللّٰہَ لَم یَقصِم جَبَّارِی دَھرٍ قَطُّ اِلَّا بَعدَ تَمھِیلٍ وَ رَخَائٍ وَ لَم یَجْبُر عَظمَ اَحَدٍ مِنَ الاُمَمِ اِلَّا بَعدَ اَزلٍ وَ بَلَاء
نہج البلاغۃ خطبہ :۸۶ ص۲۵۰
اللہ تعالیٰ نے زمانے کے کسی سرکش کی گردن نہیں توڑی، جب تک اسے مہلت نہیں دی اور کسی امت کی (شکستہ) ہڈی نہیں جوڑی جب تک اسے سختی اور آزمائش میں نہیں ڈالا۔
اللہ تعالیٰ خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَۃً وَ اِلَینَا تُرجَعُونَ
انبیاء : ۳۵
اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہاری آزمائش کرتے ہیں۔
بلکہ امتحان سے توا نسان کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے اور اس کی عظمت کے خد و خال روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے انبیاء اور علماء کی آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آزمائش جتنی کڑی ہو گی اجر و ثواب اتناہی زیادہ ہو گا:
کُلَّمَا کَانَتِ البَلوَیٰ وَ الاِختِبَارُ اَعظَمُ کَانَتِ المَثُوبَۃُ وَ الجَزَاءُ اَجزَلُ
نہج البلاغۃ خطبہ : ۱۹۰
جتنی کڑی اور سخت آزمائش ہو گی، اتنی ہی جزا بڑی ہو گی۔
آزمائش و امتحان سے گناہ معاف ہوتے ہیں:
آزمائش کا ایک بڑا مقصد دنیا ہی میں مومن کے گناہوں کی معافی ہے تاکہ وہ آخرت میں گناہوں سے پاک ہو کر قدم رکھے۔
امام علی ؑ فرماتے ہیں:
الحَمدُ لله ِ الّذي جَعلَ تَمحيصَ ذُنوبِ شِيعتِنا في الدُّنيا بمِحنتِهِم ، لِتَسلَمَ بِها طاعاتُهُم ويَستَحِقّوا علَيها ثَوابَها
بحارالانوار : ۸۱ / ۲۳۲ / ۴۸
تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو دنیا میں ہمارے شیعوں کے گناہوں کو ان کی مشقّت اور سختی کے بدلہ میں مٹا دیتاہے تاکہ اس طرح سے ان کی اطاعت وعبادت صحیح وسالم رہے اور وہ ثواب کے بھی مستحق قرار پائیں۔
اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
إنَّ اللهَ تباركَ وتعالى إذا كانَ مِن أمرِهِ أن يُكرِمَ عَبدا وله عِندَه ذَنبٌ ابتَلاهُ بالسُّقمِ ، فإن لَم يَفعَل فبِالحاجةِ ، فإن لَم يَفعَل شَدَّدَ علَيه عندَ المَوتِ ۔ وإذا كانَ مِن أمرِهِ أن يُهينَ عَبدا ولَه عندَهُ حَسَنةٌ أصَحَّ بَدنَهُ ، فإن لم يفعل وسَّعَ علَيهِ في مَعيشتِهِ ، فإن لَم يَفعل هَوّنَ علَيهِ المَوتَ
اعلام الدين : ۴۳۳
جب خداوندکریم اپنے کسی بندے کو شرف عطاکرنا چاہتا ہے ،جبکہ بندہ گناہگار بھی ہوتاہے،تو اللہ تعالیٰ اسے بیماری میں مبتلا کردیتاہے۔اگر بیماری سے اس کا کفارہ نہ ہو تو اسے دوسروں کا محتاج بنادیتاہے۔اگر پھر بھی کفارہ نہ ہوتو اس پر موت کوسخت کردیتاہے۔اِس طرح اس کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے اور بندہ خدا کے شرف سے مشرف ہوجاتاہے۔اِسی طرح کِسی بندہ کو اپنے شرف سے محروم کرنا چاہتا ہے، جبکہ اس کی کچھ نیکیاں بھی ہوتی ہیں،تو اسے بدن کی صحت وسلامتی عطا کردیتاہے اس طرح سے وہ شرف سے محروم نہیں ہوسکتاتو پھر اس کی معیشت کوآسان کردیتاہے۔اگر پھر بھی وہ بندہ شرف سے محروم نہیں ہوتاتو پھر اس پر موت آسان کردیتاہے۔اِس طرح وہ بندہ خدا کے شرف سے محروم ہوکر آخرت میں قدم رکھتاہے۔
امام علیؑ فرماتے ہیں:ما عاقَبَ اللهُ عَبدا مؤمنا في هذهِ الدُّنيا إلاّ كانَ اللهُ أحلَمَ وأمْجَدَ وأجوَدَ وأكرَمَ مِن أن يَعودَ في عِقابِهِ يومَ القيامةِ
بحارالانوار : ۸۱ / ۱۷۹ / ۲۵
جب خداوندعالم کسی مومن بندے کو اس دنیا مں سزادے دیتا ہے تو پھر اس کے حلم،بزرگواری،کرم نوازی اور شانِ کریمی سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اسے دوبارہ قیامت میں بھی سزادے۔انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی آزمائش ان کے عظیم مقام اور بلند رتبے کے لحاظ سے زیادہ کڑی ہوتی ہے۔
انبیاء علیھم السلام کی آزمائش کے سلسلے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام سے روایت ہے:
وَ لَو اَرَادَ اللّٰہُ سُبحَانَہٗ لِاَنبِیَائِہٖ حَیثُ بَعَثَہُم اَن یَفتَحَ لَہُم کُنُوزَ الذَہَبَانِ وَ مَعَادِنَ العِقیَان وَ مَغَارِسَ الجِنَانِ وَ اَن یَحشُرَ مَعَھُم طُیُورَ السَّمَاءِ وَ وُحُوشَ الاَرَضِینَ لَفَعَلَ وَ لَو فَعَلَ لَسَقَطَ البَلَائُ وَ بَطَلَ الجَزَائُ وَ اِضمَحَلَّتِ الاَنبَاءُ
نہج البلاغۃ خطبہ : ۱۹۰ ص ۵۲۲
انبیاء علیھم السلام کو مبعوث کرتے وقت اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ ان کے لیے سونے کے خزانوں اور خالص طلاء کی کانوں کے منہ کھول دے اور باغوں کے کشت زار انہیں مہیا کرے نیز فضا کے پرندوں اور صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دے، تو  کر سکتا تھا۔ لیکن اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم، جزا و سزا بیکار اور آسمانی خبریں اکارت ہو جاتیں۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنا بار امانت ایسے لوگوں کے کندھوں پر ڈالتا ہے جنہیں وہ کڑی سے کڑی آزمائش سے گزار چکا ہوتا ہے۔ امانت و رسالت کا بارگراں تواپنی جگہ، ان ہستیوں سے وابستگی کے لیے بھی آزمائش کا کٹھن راستہ عبور کرنا پڑتا ہے۔ اہل بیت اطہار علیہم السلام سے وابستہ رہنا انتہائی مشکل امر ہے۔حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے روایت ہے:
اِنَّ اَمرَنَا صَعبٌ مُستَصعَبٌ لَا یَحمِلُہٗ اِلَّا عَبدٌ اِمتَحَنَ اللّٰہُ قَلبَہٗ لِلاِیمَانِ
بحار الأنوار ج‏2، ص: 183
ہمارا معاملہ مشکل اور دشوار ہے۔ جس کا متحمل وہی بندہ مؤمن ہو گا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے آزما لیا ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امتحان و آزمائش ارتقاء و تکامل کا ذریعہ ہے، جس سے گزرے بغیر کوئی شخص خدا کی جانب سے کسی منصب پر فائز نہیں ہو سکتا ۔جس شخص کا جتنا زیادہ قوی ایمان ہوگا اس کا اتنا امتحان بھی ہوگا۔پس اگر کوئی مومن کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے تو وہ اللہ سے اس امتحان میں کامیابی کی دعا مانگے اور یوں دعا نہ مانگے کہ اللہ اسے کسی مشکل میں ہی مبتلا نہ کرے بلکہ یوں دعا کرے کہ اللہ اسے ہر آزمائش میں کامیاب فرمائے۔پس کسی بھی مشکل یا مصیبت میں انسان کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس کی عبادات و دیگر شرعی ذمہ داریوں میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہو سکے۔
جِن کی آزمائش نہیں ہوتی اُن پر خُدا ناراض ہوتاہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ اللهَ يُبغِضُ العِفرِيَةَ النِّفرِيَةَ الّذي لَم يُرزَأْ في جِسمِهِ ولا مالِهِ ۔ ۔
بحارالانوار : ۸۱ / ۱۷۴ / ۱۱
خداوندعالم ایسے خبیث اور سرکش و نافرمان بندے پر سخت ناراض ہوتاہے جس کی جان ومال میں کوئی آزمائش یا آفت نہ آئے۔
امام زین العابدینؑ نے فرمایا:
إنّي لَأكرَهُ أن يُعافى الرَّجُلُ في الدُّنيا ولا يُصيبَهُ شَيءٌ مِن المَصائبِ
بحارالانوار : ۸۱ / ۱۷۶ / ۱۴
’’میں اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہوں کہ دنیا میں انسان کو معافی مل جائے اور وہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو‘‘۔
واقعہ:
اللہ کی طرف سے حضرت موسٰیؑ کو حکم ہوا کہ تورات کی تختیا ں لینے تیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جائیں تب وہ اس وعدہ کی اطلاع اپنی قوم کو دے کر پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئےلیکن بعد میں لوگوں کی آزمائش کے لئے دس راتوں کا اضافہ کر دیا گیا ۔اس تاخیر کی وجہ سے لوگ کہنے لگے کہ معاذ اللہ موسی بھاگ گئے ہیں۔ سامری جو ایک مکار اور فریب کار آدمی تھا اس نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور بنی اسرائیل کے پاس جو سونا اور جواہرات فرعونیوں کی یادگار کے طور پر موجود تھے۔ جب اللہ نے فرعون کے لشکر کو غرق کیا تھا تو اس وقت سامری نے دیکھا تھا کہ جبرائیل یا حضرت موسیؑ جس حیوان پر سوار تھے اس کے قدموں کی خاک میں ایک خاص حرکت ہوتی تھی اس نے وہ خاک اٹھا کر اپنے پاس محفوط کرلی۔پھر اس نے بنی اسرائیل سے زیورات لے کر ان سے ایک بچھڑا بنایا جس کے اندر وہ خاک ڈالی تو اس سے ایک خاص قسم کی آواز سنائی دیتی تھی۔ وہ بنی اسرائیل کو اس کی عبادت وپرستش کی دعوت دیتا تھا ۔بنی اسرائیل کی ایک بڑی اکثریت اس سے مل گئی اور وہ اس بچھڑے کو خدا سمجھ کر اس کی عبادت و پوجا میں مصروف ہوگئے۔ حضرت ہارونؑ جو حضرت موسٰیؑ کے جانشین اور بھائی تھے ایک اقلیت کے ساتھ آئین توحید پر باقی رہے انہو ں نے جس قدر کوشش کی کہ انہیں اس غلط راستے سے روکیں وہ نہ رک سکے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ حضرت ہارونؑ کو ختم کرنے پر تیار ہوگئے۔
اللہ نے حضرت موسیؑ کو بتا دیا تھا کہ تمہارے پیچھے تمہاری قوم کا امتحان لیا گیا جس میں وہ ناکام ہو چکے ہیں اور ایک بچھڑے کی پرستش کرنے لگے ہیں کہ جو بولتا ہے۔حضرت موسیؑ نے عرض کی گوسالہ تو سامری نے بنایا پھر اس میں آواز کیسے پیدا ہوگئی تو جواب ملا کہ جب میں نے دیکھا کہ وہ لوگ دین سے منہ پھیر رہے ہیں تو ان کا امتحان مزید سخت ہوتا گیا اور وہ ایک خدا کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی عبادت کرنے لگے ہیں۔
(حیات القلوب ج1 ص454)
https://wifaqtimes.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button