مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان: اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات ( حصہ سوئم)

فاطمہ علیھا السلام سیدۃ النساء العالمین
قال اللہ تعالی: لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا ﴿احزاب:۲۱ ﴾
بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔
اور اسی رسول نے جنکو عالم انسانیت کے لئے نمونہ عمل قرار دیا جہاں جنب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو فاطمۃ بضعۃ منی کہہ کر اپنے وجود کا حصہ قرار دیا وہاں ایک طویل حدیث کے ضمن میں اپنی دختر نیک اختر کے بارے ارشاد فرمایا:
«ابنتی فاطمة و إنّہا لسیدة نساء العالمین، فقیل یا رسول اللّہ ! أ ہی سیدة نساء عالمہا؟ فقال(ص) ذاک لمریم بنت عمران فأمّا ابنتی فاطمة فہی سیدة نساء العالمین مِن الاولین و الاخرین و انّہا لتقوم فی محرابہا فیسلّم علیہا سبعون ألف ملک مِن الْمقربین و ینادونہا بما نادتْ بہ الملائکةُ مریمَ فیقولون: یا فاطمة، إنّ اللّہ اصطفیکِ و طَہّرکِ و اصْطفیکِ علی نساء العالمین؛(محمدباقرمجلسی، بحارالانوار، ج43، ص24، ح20۔)
میری بیٹی فاطمہ (س) عالمین کی خواتین کے سردار ہیں ؛ کہا گیا کہ: اے رسول اللہ (ص)! کیا سیدہ فاطمہ (س) اپنے زمانے کی خواتین کی سردار ہیں ؟ حضرت رسول اللّہ(ص) نے فرمایا: مریم بنت عمران اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں لیکن میری بیٹی فاطمہ (س) اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں ؛ جب فاطمہ (ع) محراب عبادت میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں ستر ہزار مقرّب فرشتے ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور مریم کی مانند انہیں ندا دیتے ہیں : اے فاطمہ! بلاشبہ اللہ تعالی ٰنے تمہیں منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک وپاکیزہ بنایاہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے۔”
اسی طرح ابن عباس روایت کرتے ہیں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے حضرت فاطمہ ؑ سے فرمایا:اَمَا تَرْضِیْنَ اَنْ تَکُوْنِیْ سَیِّدَۃَ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ۔ قَالَتْ: فَاَیْنَ مَرْیَمُ بِنْتِ عِمْرَان؟ قَالَ لَھاَ: اَیْ بُنَیَّ تِلْکَ سَیِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِھَا وَ اَنْتِ سَیِّدَۃُ نِسَآئِ الْعَالَمِیْنَ۔”کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں؟ عرض کیا: مریم بنت عمران پھر کہاں ؟ فرمایا: بیٹی! وہ اپنے عالم کی عورتوں کی سردار ہیں اور آپ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔” (،بحار الانوار ،الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ،ج/37،ص/8)
نیز حدیث میں منقول ہے: انّ آسیة بنت مزاحم و مریم بنت عمران و خدیجة یمشین أمام فاطمة کالحجاب لها إلی الجنة؛
حضور (ص) نے فرمایا: "بے شک آسیہ بنت مزاحم، مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد پردے اور حجاب کی مانند فاطمہ (س) کے آگے آگے جنت کی طرف رواں دواں ہونگی”۔
(مسند فاطمۃ الزہراء، (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، 1377)، ص72)
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا سیدة النساء اہل جنت
جناب سیدہ کونین حضرت فاطمۃ الزہراء ؑ کے حوالے سے ایک قسم کی احادیث وہ ہیں کہ جن میں یہ وارد ہوا ہے کہ جناب سیدہ ؑعالمین کے عورتوں کی سردار ہیں اور دوسری قسم کے احادیث وہ ہیں کہ جسمیں یہ وارد ہوا ہے کہ آپ جنت کی خواتین کی سردار ہیں یا بعض روایات میں مومنین خواتین کی سرداری کا ذکر ہے چونکہ یہ دونوں الگ الگ امتیازات ہیں ۔رسول اللہ سے روایت ہے کہ:‏‏‏فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ۔"فاطمہؑ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن ؑو حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔”
اس بات کی عظمت میں کچھ کلام نہیں کہ نہ فقط جناب سیدہ کونینؑ بذات خود خواتین جنت کی سردار ہیں بلکہ آپ کے دو فرزندان حسن و حسین علیھما السلام جوانان جنت کے سردار ہیں
شیعہ منابع حدیثی میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ابْنَتِی فَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَاءِ الْعَالَمِین‏َ؛ میری بیٹی فاطمہ خواتین عالم کی سردار ہے۔ اہل سنت کے معتبر مصادر میں آیا ہے کہ پیغمبرؐ نے حضرت فاطمہؑ سے فرمایا: اے فاطمہ! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم عالمین کی مومنہ عورتوں کی سردار ہو؟
( المستدرک علی الصحیحین: ۱۷۰/۳ ح ۴۷۴۰؛) ،بعض اہل سنت منابع میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فاطمہ (س) کو مومنہ خواتین کی سردار، مسلمان عورتوں کی سردار اور اہل بہشت خواتین کی سردار کا خطاب دیا ہے۔ (بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۲۲ق، ج۴، ص۲۰۳، ج۸، ص۶۴)
امام علیؑ نے بھی حضرت فاطمہؑ کے مزار پر ہونے والی گفتگو میں آپ کو اسی لقب سے یاد کیا ہے۔اسی طرح بعض زیارت ناموں جیسے: زیارت وارثہ، زیارت عاشورا نیز حضرت زہراء(س)، امام رضاؑ اور حضرت معصومہ(س) کی ماثورہ زیارتوں میں بھی حضرت زہرا کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے۔
کائنات کی سب سے برتر خاتون
.وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ” (ـ آل عمران، 42)
اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک وپاکیزہ بنایاہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے۔
اہل سنت علماء نے اس آیت کی ذیل میں چارعورتوں کی فضیلت میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔ یہ روایات ابن عباس، انس، ابی لیلی، ابوہریرہ، عایشہ، عبدالرحمن بن ابی لیلی، جابر بن عبداللّہ ، ابوسعید، حذیفہ، ام سلمہ، ابواسلمی، ابن مسعود، ابن عمر، عمران بن حصین، جابر بن سمرہ، ابی بریدہ اسلمی اور دیگر جیسے اہم راویوں سمیت خود اہل بیت (ع) اور امام علی و حضرت سیدہ فاطمہ (س) اور ان کے فرزندان معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں ان میں سے بعض صحیح السند روایات نقل کرتے ہیں۔
رسول خدا (ص) نے سیدہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: «یا فاطمة ألا ترضین أنْ تکونی سیدة نساء العالمین، و سیدة نساء هذه الامة، و سیدة نساء المؤمنین” (حاکم نیشابوری، المستدرک، (بیروت: دارالمعرفۃ)، ج3، ص156)
اے فاطمہ! کیا آپ خوشنود نہیں ہے کہ آپ جہانوں میں برترین اور افضل ترین خاتون ہوں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ اور اور با ایمان خواتین کی سردار ہوں؟”
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف مواقع پر مختلف تعبیروں سے دنیا کی تمام خواتین پر سیدہ (ع) کی افضلیت اور برتری پر تأکید فرمائی ہے۔ ایک دفعہ جب سیدہ (س) بیمار ہوئیں تو پغمبر اکرم (ص) نے صحابۂ کرام کو سیدہ (ع) کی بیماری کے بارے میں بتایا اور صحابہ عیادت کی غرض سے آپ (ص) کے ہمراہ سیدہ (ع) کے گھر کی طرف چلے۔ رسول اللہ (ص) نے گھر کے باہر کھڑے ہوکر آواز دی کہ: جان پدر! پردہ کریں، میرے ساتھ بعض اصحاب بھی عیادت کے لئے آرہے ہیں؛ سیدہ عالم کے پاس پردے کے لئے لباس کافی نہ تھا چنانچہ رسول اللہ (ص) نے اپنی عبا دروازے کے پیچھے سے بیٹی کو عطا کردی۔ رسول اللہ (ص) اور صحابہ عیادت کے بعد سیدہ (س) کے گھر سے باہر نکلے۔ وہ سب ایک دوسرے سے سیدہ (س) کی بیماری پر افسوس کا اظہار کررہے تھے اسی اثناء میں رسول اللہ (ص) نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اما إنّها سیدة النساء یوم القیامة؛ جان لو کہ وہ قیامت کے روز تمام خواتین کی سیدہ ہیں”۔( ابی نعیم اصبہانی، حلیۃ الاولیاء، ، ج2، ص42)
عائشہ ام المؤمنین روایت کرتی ہیں: ایک روز سیدہ فاطمہ (س) رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ (ص) کی چال بالکل رسول کی چال جیسی تھی؛ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: بیٹی! خوش آمدید اور بعدازاں آپ (ص) نے سیدہ کو اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھایا اور سیدہ سے رازداری میں ایک بات کہہ دی سیدہ (س) رونے لگیں۔ میں نے عرض کیا: رو کیوں رہی ہیں؟ [سیدہ (س) نے جواب نہیں دیا] اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دوسرا راز بیٹی کو سنایا تو سیدہ (س) مسکرانے لگیں۔
میں نے عرض کیا: آج تک میں نے ایسی خوشی نہیں دیکھی جو غم سے اتنی قریب ہو اور پھر میں نے سبب دریافت کیا۔ فاطمہ (س) نے فرمایا: میں اپنے بابا کا راز فاش نہیں کرتی۔ یہ رازداری جاری رہی حتی کہ رسول اللہ (ص) کا وصال ہوا اس کے بعد میں نے سیدہ (س) سے اس روز کا راز پوچھا تو فرمانے لگیں: رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا: جبرائیل (ع) ہر سال قرآن مجید کو ایک بار مجھے پیش کیا کرتے تھے مگر اس سال نے انھوں نے دوبار یہ کام دہرایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سبب یہ ہے کہ میرا وصال قریب ہے اور آپ میری اہل بیت (ع) میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہونگی؛ تو میں رونے لگی اور پھر آپ (ص) نے فرمایا: "أَ ما تَرضِیَنَّ أنْ تکونی سیدة نساء اہل الجنة أو نساء المؤمنین؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہوتیں کہ بہشتی خواتین یا با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟” (صحیح البخاری، (ج4، ص248)
البتہ بعض دیگر روایات میں ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عنقریب میرا وصال ہوگا تو میں رو پڑی اور جب آپ (ص) نے فرمایا کہ میں سب سے پہلے آپ (ص) سے ملحق ہونگی تو مجھے خوشی ہوئی اور مسکرانے لگی۔بعض روایات میں چار خواتین کی سیادت کی بات ہوئی ہے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "افضل نساء العالمین خدیجة، و فاطمة و مریم و آسیة امرأة فرعون»۔ افضل ترین خواتین چار ہیں خدیجہ (ص)، فاطمہ (س)، مریم (س) اور فرعون کی اہلیہ آسیہ۔ (جلال الدین سیوطی، الدر المنثور، ، ج2، ص193)
مختلف روایات میں عبارات و تعبیرات مختلف ہیں جیسے ایک روایت میں رسول اللہ (ص) سے مروی ہے کہ: 1- "خیر نساء العالمین أربع مِنْهُنّ فاطمة” دنیا کی بہترین خواتین چار ہیں جن میں ایک فاطمہ (س) ہیں، 2- "أفضل نساء أهل الجنة أربع منهن فاطمة” جنت کی افضل ترین خواتین چار ہیں جن میں سے ایک فاطمہ (س) ہیں، ۔ ان سب روایات خاتون آفتاب کا مضمون ایک ہی ہے کہ سیدہ (س) کائنات کی بہترین خاتون ہیں۔
فاطمہ برتر ہیں یا مریم؟!
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دو اصلی منابع یعنی قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قرآنی آیات اور روایات کریمہ میں کس کو افضل گردانا گیا ہے:
قرآن مجید کی رو سے سیدہ فاطمہ (س) حضرت مریم (س) سے افضل و برتر
اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: "وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ ۔ يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ” (آل عمران ،42 و 43)
اور یاد کرو جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بلاشبہ اللہ نے تمہیں (اپنے خاص اہداف کے لئے) منتخب کیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے منتخب قرار دیا ہے * اے مریم ! اپنے پروردگار کی بارگاہ میں خاضع، فروتن اور اطاعت گزار رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والے کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔
ان دو آیات میں دو نکتے قابل غور ہیں:
1ـ دنیا کی عورتوں پر حضرت مریم (س) کا اصطفاء اور برگزیدگی:
ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں ذہن میں یہ بات آئی کہ مریم (س) حضرت فاطمہ (س) اور غیر فاطمہ (س) سمیت تمام عورتوں سے افضل ہیں کیونکہ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "علی نساء العالمین” کہہ کر انہیں فضیلت عطا کی ہے۔
یہ آیت بالکل سورہ بقرہ کی آیت 47 کی مانند ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: "یا بنی اسرائیل اْذکروا نعمتی التی انعمتُ علیکم و إنّی فضَّلتُکم علی العالمین؛ اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام خلائق سے زیادہ عطاکیا”۔ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنی زمانہ میں دوسروں کی نسبت افضل امت قرار دیئے گئے ہیں اور تمام امتوں اور تمام اعصار اور ازمنہ میں آنے والی صاحب ایمان قوموں سے افضل نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے امت اسلامی سے مخاطب ہوکر فرمایا: «کنتم خیر امة»( آل عمران، 110) یعنی تم (مسلمان) بہترین امت ہو۔ سب سے خیر، بہتر، برتر اور افضل امت بنی اسرائیل نہیں بلکہ امت مسلمہ ہے۔ [اور یہ بات بھی اس آیت سمیت متعدد قرآنی آیات ہی سے ثابت ہے] اسی طرح حضرت مریم برگزیدہ خاتون ہیں اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت؛ یہی بات روایات سے بھی ثابت ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس، حسن و ابن جریج نے کہا ہے: "اصطفاءِ مریم سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی نسبت افضل اور برگزیدہ تھیں”۔ ابن انباری نے یہی قول اکثر مفسرین و محدثین سے منسوب کی ہے اور کہا ہے کہ مریم اپنے زمانے کی عورتوں سے برتر اور ان کی نسبت پسندیدہ اور برگزیدہ تھیں۔
(عبدالرحمن بن جوزی، زادالمسیر، ج1، ص315)
2ـ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا:
مریم کو امر ہوا ہے کہ "و ارکعی مع الراکعین” (اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتے رہو) جیسا کہ بنی اسرائیل کو بھی امر ہوا تھا کہ "و اقیموا الصلاة و اتوا الزکوة و ارکعوا مع الراکعین؛ اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو”۔ (بقرہ، 43)
دو آیتوں میں حضرت مریم اور بنی اسرائیل کو حکم ہوا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کریں۔ اور ان ہی دو آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم اور بنی اسرائیل سے بہتر و برتر لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ بنی اسرائیل اور حضرت مریم سے کہا گیا ہے کہ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کریں اور ان کی ہمراہی کریں اور ان کی اقتداء کریں۔ رکوع کرنے والے درحقیقت حضرت مریم اور بنی اسرائیل کے امام و پیشوا ہیں چنانچہ وہ حضرت مریم اور بنی اسرائیل سے افضل ہیں۔
اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ خداوند متعال رکوع کرنے والوں کو متعارف کراتا ہے: ارشاد ہوتا ہے: "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ” ۔تمہارا حاکم و سر پرست بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور خیرات دیتے ہیں جبکہ وہ رکوع کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کہ رکوع کرنے والے اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام ہیں بالخصوص ابوالائمہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔

سیدہ فاطمہ (س) فخر مریم (س) ہیں کیونکہ خداوند متعال نے قرآن کی دو سورتیں ان کی مدح و تعریف و تمجید میں نازل فرمائی ہیں۔ 1. سورہ دہر (یا سورۃ الانسان) اور 2. سورہ کوثر؛ اور اسی طرح آیت تطہیر خاتون جنت کی عصمت و طہارت پر تأکید کرتی ہے۔ یہ آیت اہل بیت (ع) بالخصوص حضرت فاطمہ (س) کے لئے مخصوص ہے۔ آیت مودت میں سیدہ (س) کی مودت کو تمام مسلمانوں پر تا روز قیامت فرض فرمایا گیا ہے۔ سورہ احزاب میں مؤمنین کو سیدہ (س) کے وجود مبارک پر پیوستہ درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح درجنوں آیتیں سیدہ (س) کی فضیلت و برتری پر دلالت کرتی ہیں۔ اتنے سارے فضائل کا حضرت مریم کے لئے نہیں ملتے!
سیدہ فاطمہ (س) انسانوں کے لئے اللہ کی حجت ہیں ، آخرت میں مقام شفاعت کی مالکہ ہیں ،سیدہ (س) کی مودت 100 مقامات پر انسان کے کام آتی ہے ، آپ (س) رسول اللہ (ص) کے بدن کا ٹکڑا ہیں ، اور سیدہ (س) کا غضب اللہ کا غضب اور آپ (س) کی رضا اللہ کی رضا ہے ، مریم (س) فاطمہ (س) کے ساتھ قابل قیاس ہی نہیں ہیں۔ گو کہ مریم (س) عیسی روح اللہ (ع) کی والدہ ماجدہ اور دنیائے خلقت کی چار عظیم خواتین میں سے ایک ہیں اور ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور سنی عالم دین "النسفی” نے کہا ہے کہ مریم (س) کو اس لئے برگزیدہ خاتون قرار دیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت عیسی (ع) کو بغیر باپ کے جنم دیا۔
اہل سنت علماء کی نگاہ میں سیدہ فاطمہ علیھا السلام کی برتری
1ـ آلوسی مفسر:

آلوسی نے سورہ آل عمران کی آیت 42 کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ "اس آیت سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پر حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ اس آیت میں "نساء العالمین” سے مراد تمام زمانوں اور تمام ادوار کی خواتین مراد ہوں مگر چونکہ کہا گیا ہے کہ اس ایت میں مراد حضرت مریم کے زمانے کی عورتیں ہیں لہذا ثابت ہے کہ مریم (س) سیدہ فاطمہ (س) پر فضیلت نہیں رکھتیں”۔
آلوسی لکھتے ہیں: رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا ہے: "اِنّ فاطمة البتول أفضل النساء المتقدمات و المتأخرات؛ فاطمہ بتول (س) تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں”۔
آلوسی کے بقول "اس حدیث سے تمام عورتوں پر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیدہ (س) رسول اللہ (ص) کی روح و جان ہیں، چنانچہ سیدہ فاطمہ (س) عائشہ ام المؤمنین پر بھی برتری رکھتی ہیں”۔ ( روح المعانی، ج3، ص138)
2ـ السہیلی:
السہیلی رسول اللہ (ص) کی معروف حدیث "فاطمة بضعة منی” کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں: "میری رائے میں کوئی بھی "بضعةالرسول (ص)” سے افضل و برتر نہیں ہو سکتا”۔
3ـ السفارینی: انہوں نے تحریر کیا ہے: "فاطمہ ام المؤمنین خدیجہ (س) سے افضل ہیں، لفظ سیادت کی خاطر اور اسی طرح مریم (س) سے افضل و برتر ہیں”۔( روض الانف، ج1، ص279)

5۔ڈاکٹر محمدطاہر القادری:
مشہور و معروف سنی عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری چار خواتین کی افضلیت سے متعلق احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: "احادیث میں کسی قسم کا تعارض (تصادم) نہیں ہے کیونکہ دیگر خواتین یعنی: مریم، آسیہ اور خدیجہ (س)، کی افضلیت کا تعلق ان کے اپنے زمانوں سے ہے یعنی وہ اپنے زمانوں کی عورتوں سے بہتر و برتر تھیں لیکن حضرت سیدہ عالمین (س) کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور پورے عالم اور تمام زمانوں پر مشتمل [یعنی جہانشمول اور زمانشمول] ہے” ۔( ـ الدرة البیضاء فی مناقب فاطمۃ الزہراء، ص33، )
حضرت مریم (س) پر سیدہ فاطمہ (س) کی افضلیت شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی نگاہ میں:
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراا عزیز
مریم عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہراء تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں
نور چشم «رحمۃ للعالمین»
آن امام اولین و آخرین
سیدہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں؛ جو اولین و آخرینِ عالَم کے امام و رہبر ہیں
بانوی آن تاجدار «ھل اتی»
مرتضی مشکل کشا شیر خدا
وہ "ہل اتی” کے تاجدار، مرتضی مشکل گشا، شیرخدا علیہ السلام کی زوجۂ مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں
مادر آن مرکز پرگار عشق
مادر آن کاروان سالار عشق
ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار
در نوای زندگی سوز از حسین
اہل حق حریت آموز از حسین
زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین (ع) سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین (ع) سے سیکھی ہے۔
سیرت فرزندھا از اُمھات
جوہرصدق و صفا از اُمھات
فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماؤں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماؤں سے ملتا ہے
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوه کامل بتول
تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول سلام اللہ ہیں اور ماؤں کے لئے نمونۂ کاملہ حضرت بتول (س) ہیں۔
نیز آپ (ص) نے فرمایا: "میری بیٹی فاطمہ اولین سے آخرین تک تمام خواتین کی سیدہ اور سردار ہیں؛ وہ میرے بدن کا ٹکڑا، میری آنکھوں کا نور اور میرے دل کا پھل ہیں؛ وہ میرے بدن میں میری روح و جان ہیں؛ وہ انسانی حور ہیں جو مجھ سے معرض وجود میں آئی ہیں۔ جب محراب عبادت میں خدا کی بارگاہ میں عبادت کے لئے کھڑی ہوتی ہیں ان کا نور آسمانوں میں مقیم فرشتوں پر چمکتا ہے جس طرح کہ اہل زمین کے لئے آسمان کے فرشتوں کی روشنی چمکتی ہے اور خدائے عزیز و جلیل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: میرے فرشتو! میری خادمہ ، میرے خادموں کی سردار فاطمہ کی طرف دیکھو جو میری بارگاہ میں کھڑی ہیں اور ان کے اعضاء و جوارح میرے خوف سے کانپ رہے ہیں۔ اپنے قلب سے میری عبادت کے لئے آئی ہیں؛ میرے فرشتو! گواہ رہو کہ میں نے ان کے پیروکاروں کو دوزخ کی آگ سے امان عطا کی…”۔
اہل سنت کے بعض علماء جیسے سبکی (حلبیات میں)، سیوطی، نسائی، ابو داود، قاضی قطب الدین وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت زہراء علیھا السلام مختلف دلائل کی بنا پر دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ہیں منجملہ ان دلائل میں سے بعض درج ذیل ہیں:
پیغمبر اکرمؐ کی حدیث: فاطمۃ بضعۃ منی، فاطمہ میرا پارۂ تن ہے چونکہ پیغمبر اکرمؐ تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں تو آپ کا پارہ تن بھی تمام عورتوں سے افضل ہے۔
خود پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اما ترضین ان تکونی سیدۃ النساء المومنین کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ تمام مومنہ عورتوں کی سردار ہیں۔
حدیث: افصل صحابہ ازواج پیغمبر ہیں، کا مردود، ضعیف اور غیر مستند ہونا۔
(حیاۃ نساء اہل البیت، ۱۴۲۹ق، ص۶۶۰-۶۶۳)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button