سلائیڈرسیرتسیرت امام مھدیؑ

امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا فلسفہ اور حکمت

ازسید راحت کاظمی
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مبعوث کرنا چاہا تو فرمایا:”انی جاعل فی الارض خلیفہ
میں زمین پر خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب تک زمین رہے گی اس کا کوئی نہ کوئی قائم مقام ضرور رہے گا چاہے وہ اس کا رسول ہو یا خلیفہ و امام اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے جو خالص ایمان والے ہیں اور ان کے تمام عمل صالح او رنیک ہیں اللہ تعالیٰ انہیں زمین پر ضرور اس طرح سے خلیفہ بنائے گا جیسےاس سے قبل خلیفہ بناتا رہا ہے کس نبی کے خلیفہ کا انتخاب امت کے سپرد نہیں کیا گیا اور نہ کسی کا انتخاب اجماع سے اور نہ ہی شوریٰ اور قیاس وغیرہ سےکیا جا سکتا ہے۔ سب کا انتخاب خدا ہی کرتا رہا ہے اور ہر پہلے آنے والا بعد میں آنے والے کے صفات و کمالات و خصوصیت بلکہ اس کے نام سے قوم کو مطلع و با خبر کرتا رہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمارے نبی کا اپنی امت کے سامنے ان الفاظ مین اعلان فرمایا ہے:
یاتی من یعدی اسمہ احمد
میرے بعد آنے والے نبی کا نام احمد ہو گا۔ چنانچہ رسول اکرمؐ بار بار فرماتے ہیں کہ میرے بعد بارہ امام ہوں گے اور سب قریش سے ہوں گے پھر آپؐ نے متعدد بار اصحاب کے سامنے نام لے کر فرمایا کہ ان بارہ کے اول علی مرتضیٰ علیہ السلام ہیں ان کے بعد ان کےفرزند امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے بعد امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں نو ہوں گے جن کا آخری اس امت کا مہدی علیہ السلام ہو گا ان کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی وہ انقلاب زمانہ کی وجہ سے ایک پردہ غیبت میں رہیں گے امام مہدی علیہ السلام وہ مبارک مولود ہے جو آج سے ایک ہزار ایک سو پینتیس برس پہلے اس دنیا میں آچکیں ہیں آج تک زندہ و پائندہ ہیں روئے ارض پر زندگی گزار رہا ہے نعمات الہیٰ سے مستفید ہو رہیں ہے عبادات الہیہ میں مصروف ہے اور ظہور میں امر الہیٰ کا انتظار کر رہے ہیں آنکھوں سے غائب ہیں اور جب آپ علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے آپ یہ بھی بار بار فرماتے ہیں:
من مات ولم یعرف امام زمانہ علیہ السلام مات میتہ الجاہلیہ۔
جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرا اس فرمان سے ظاہر ہو گیا ہے کہ ہر زمانہ کا امام الگ ہے جس کی معرفت اس زمانہ کے والوں پر فرض ہے جو اس کی معرفت سے محروم رہے گا وہ کفر کی موت مرے گا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا طویل ہونا، اور آپ کی عمر مبارک کا زیادہ ہونا، یہ قدرت خدا میں سے ہے اس میں کوئی شک نہیں کر سکتا، جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہود کے شر سے نجات دینے کے لئے چوتھے آسمان پر بلا لیا اورفرمایا۔”انی متوفیک ورافعک الی“جس نے حضرت خضر علیہ السلام کو ہزاروں سال غائب رکھا،جس نے اصحاب کہف کو ہزاروں سال غائب رکھا جس نے حضور اکرمؐ کو شب ہجرت محاصرہ کرنے والوں کے بیچ سے غائب کر کے نکال دیا اور وہ محسوس بھی نہ کر سکے تو امام زمانہؑ کی غیبت میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک مقررہ وقت امام مہدی علیہ السلام کو حسب ضرورت غائب رکھے بلکہ متقین کا معیار ہی یہ ہے کہ وہ غیبت پر ایمان رکھیں،کیونکہ ہمارا خدا غائب، روز حشر غائب، جنت غائب، دوزخ غائب، صراط غائب، میزان غائب، اعراف غائب،حوریں غائب، غلمان غائب، ملائکہ غائب، جن جو اس زمین پر موجود ہیں مگر نظروں سے غائب، تو اس کے لیے کیا تعجب ہے کہ امام علیہ السلام کو ایک وقت مقررہ تک حسبِ ضرورت غائب رکھے بلکہ متقین کا معیار یہ ہے کہ وہ غیبت پر ایمان رکھیں اگر مانع نہ ہوتا تو آپؑ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر ہوتا لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندعالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و واقع کے مطابق ہوتے ہیں لہذا امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ضرور ہو گی اگرچہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہےلیکن پھر بھی درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کا بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیا صرف آئمہ علیہ السلام کو معلوم ہے عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:صاحب الامر علیہ السلام کے لیے غیبت ضروری ہے تا کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہو جائیں میں نے عرض کی کیوں؟آپ علیہ السلام نے فرمایا ہمیں اس کی علت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس کا فلسفہ وہی فلسفہ جو گزشتہ حجت خدا کی غیبت میں تھااس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہو گی بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر علیہ السلام کا کشتی میں سوراخ کرنا، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی علت، جناب موسیٰ علیہ السلام کو جدا ہوتے وقت معلوم ہوئی تھی اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع خدا کے اسرار اور الہیٰ غیوب میں سے ایک ہے چونکہ ہم خدا کو تسلیم کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیےکہ اس کے امور حکمت کی رو سے انجام پاتے ہیں اگرچہ ہم اس کی تفصیل نہیں جانتے(بحارالانوار ج۲۵ ص۱۹) مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی حقیقت و سبب اس لیے بیان نہیں کی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں فلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے پہلا فائدہ امتحان و آزمائش ہے تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے ان کی باطنی حالت ظاہر ہو جائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں غیبت پر ایمان انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت ظاہر ہو جائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ غیبت کے ذریعے ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے حسن بن فضال کہتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: گویا میں اپنے تیسرے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام مہدی علیہ السلام کو تلاش کر رہے ہیں میں نے عرض کی فرزند رسولؐ آپؑ نےایسا کیوں فرمایا؟ ان کے امام مہدی علیہ السلام کیوں غائب ہو جائیں گے؟ فرمایا تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپؑ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو گی۔ (بحارالانوار ج۱۵ص۴۵۱) اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ غیبت کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ نے قتل سے نجات پائی۔ زرارہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا قائم علیہ السلام کے لیے غیبت ضروری ہے عرض کی کیوں؟ مولا علیہ السلام نے فرمایا قتل ہو جانے کا خوف کی وجہ سے۔ (اثبات الہدیٰ ج۴ص۷۳۴)
غیبت پر ایمان لانا نہایت عظمت رکھتا ہے اور یہ نعمت یقین کامل کے ساتھ ایمان والوں کو ہی حاصل ہے ابن قاسم کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے الم ذالک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین الذین
جو غیبت پر ایمان رکھتے ہیں ان کے بارے میں دریافت کیا آپ علیہ السلام نے فرمایا متقین سے مراد علی علیہ السلام کے شیعہ ہیں اور بالغیب سے مراد حجت غائب ہیں اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ اس (رسول) پر اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نازل نہیں ہوتا۔اے رسول کہہ دو کہ غائب کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ (سورہ یونس آیت نمبر۰۲)
امام جعفر صادق علیہ السلام اور آپ علیہ السلام نے اپنے آبائے کرامؑ سے روایت نقل کی کہ رسول خداؐ نے ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا اے علی علیہ السلام تمہیں معلوم ہے کہ لوگوں میں سے سب سے بڑا صاحب یقین وہ ہو گا جو آخری زمانہ میں پیدا ہو گا انہوں نے اپنے نبی کو نہ دیکھا ہو گا اور حجت خدا امام علیہ السلام بھی پردہ غیبت میں ہوں گے مگراس کے باوجود یہ سیاہ و سفید پر ایمان رکھتے ہوں گے۔(اکمال الدین)
کہتا ہے کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ غیبت امام علیہ السلام کا فائدہ کیا ہے یوں تو بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جن میں امام غائب کا شمار کیا گیا ہے جابر جعفی نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں نے پیغمبرؐ خدا سے سوال کیا کہ کیا شیعہ غیبت کے زمانہ میں حضرت قائم علیہ السلام کے وجود سے فائدہ اُٹھائیں گے یا نہیں تو آپؐ نے فرمایا اس کی قسم! جس نے مجھے پیغمبری پر مبعوث کیا ہے آپ علیہ السلام کی غیبت میں شیعہ اس کے نور ولایت سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح بادل کے باوجود سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے (صواعق محرقہ) حضرت علی علیہ السلام نے رسول خداؐ سے روایت بیان کی ہے کہ ستارے اہل آسمان کے لیے امان ہیں جب یہ ستارے ختم ہوگے تو اہل آسمان ختم ہو جائیں گے اور میرے اہل بیت علیہم السلام اہل ارض کے لیے امان ہیں جب اہل بیت علیھم السلام نہ رہیں گے تو اہل ارض نہ رہیں گے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: ہم مسلمانوں کے امام، دنیا پر حجت، مومنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولا ہیں ہم زمین والوں کے لیے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لیے ستارے امان ہیں۔ ہماری وجہ سے آسمان اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے لیے باران رحمت نازل کرتا ہے اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم روئے زمین پر نہ ہوتے تو اہل زمین دہنس گئے ہوتے۔پھر حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: جس دن سے خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے اس دن سے آج تک زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہو گی۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ رب ذوالجلال کی قسم کہ وہ ذات جلیل جدوجہد کے ذریعے اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور امتحان میں مبتلا کرتا ہے تا کہ ان کے دلوں سے تکبر نکلے اور ان میں عاجزی و انکساری پیدا ہو اس طرح اس کو اپنے فضل و کرم اور ان کی بخشش کا ذریعہ بنائے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ صرف یہ کہنے پر ان کو چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کاامتحان نہیں لیا جائے گا خداوند عالم نے مسلمانوں کا کبھی ہجرت کے ذریعے امتحان لیا، کبھی جنگوں اور جہاد کے ذریعے کبھی فتح و نصرت دے کر اور کبھی شکست میں مبتلا کر کے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسلمانوں کو ساری جنگوں میں فتح و نصرت سے ہم کنار کرتا مگر یہ سب امتحان اور آزمائش ہی تھے صدر اسلام رسول اعظم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تابعین اور تبع تابعین کا امتحان اس طرح لیا کہ وہ ایسے زمانے میں زندگی گزاریں جب بلا وجہ ان کے امام مظلومیت میں گرفتار ہوں اور قید و بند در بدری جلا وطنی وغیرہ جیسے کہ موسیٰ بن جعفر کو تو قید و بند میں مبتلا دیکھیں اور ان پر عورتیں اور خادم حکومت کر رہے ہوں۔ آج خدائے عزوجل نے ہمیں امام علیہ السلام کی غیبت اور آپؑ کے عیاں نہ ہونے کے ذریعے آزمایا ہے اور امتحان لیا ہے۔ اور امتحان ہمیشہ مصیبت اور مشکلات کے ذریعے سے لیا جاتا ہے،اور زندگی کی بہت سی سختیاں شدائد اور مصائب اور تکالیف ہمارے نفوس کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہیں اور ہماری اچھی صفات ان سے اُجا گر ہوتی ہیں یہ مشکلیں اور تکالیف اس بات کا باعث بنتی ہیں کہ ہم اس دنیا سے رشتہ کم سے کم کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ کا رخ موڑ دیں ہمارے امام علیہ السلام کی غیبت بھی ان مصیبتوں میں سے ایک ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ کے لیے حق کی نصرت معاشرے کی اصلاح، خدا کی طرف رخ موڑنے کے لیے ہے اس امتحان میں کتنے ہی نفوس کی تکمیل صفات کی درستگی مضمر ہے دور غیبت میں آئمہ اہل بیت علیہ السلام کی محبت میں شیعوں کی سخت آزمائش ہو گی اور شیعوں کے سر کی قیمت رکھی جائے گی احوال و اولاد بلا اور آفات کے ذریعے ان کو آزمایا جائے گا۔
یہ مسلم ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام جملہ انبیاءکے مظہر تھے اس لیے ضرورت تھی کہ انہیں کی طرح ان کی غیبت بھی ہوتی یعنی جس طرح بادشاہ وقت کے مظالم کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد اپنے عہد حیات میں مناسب مدت تک غائب رہ چکے ہیں اسی طرح امام مہدی علیہ السلام بھی غائب ہیں۔اور حکم خدا سے ظھور پر نور فرمائے گے۔
https://www.duas.org/urdu/URDU-www-alhassanain-com/AHLEBAIT/IMAM-MEHDI/imam_gheibat_kubra_hamri_zimadarian/018.html

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button