مناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

اميرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت

تحریر : مختار حسین توسلی
قرآن و حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے بہت زیادہ فضائل بیان ہوئے ہیں منجملہ ان فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نفس رسول قرار دیا ہے، آیہ مباہلہ اس پر شاہد ہے، اس آیہ شریفہ کے ذیل میں تمام شیعہ اور اکثر سنی مفسرین، محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ رسول اکرم نے ” أنفسنا ” کی جگہ پر علی کو ساتھ لیا ۔
(المیزان فی تفسیر القران ، تفسیر الکشاف ، تفسیر الکبیر و انوار التنزیل و اسرار التاویل، ذیل آیت مباہلہ )
چنانچہ اہل سنت کے مشہور مفسر زمخشری نے اپنی تفسیر الکشاف میں، فخررازی نے اپنی تفسیر الکبیر میں، بیضاوی نے اپنی تفسیر أنوار التنزیل وأسرار التاویل میں آیہ مباہلہ کے ذیل میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ أبناءنا سے مراد حسنین کریمین  نساءنا سے مراد فاطمہ زہرا اور أنفسنا سے مراد امیرالمومنین ہیں۔
( حوالہ سابق )
واضح رہے کہ ہم آیہ مباہلہ کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی اس بات کو ثابت کرسکتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نفس رسول ہیں، جیسا کہ سورہ برات کی تبلیغ کے مرحلے میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پہلے جناب ابوبکر کو مشرکین مکہ کی طرف بھیجا، لیکن اس کے فوراً بعد جبرائیل آمین اللہ کی طرف سے یہ خصوصی پیغام لے کر نازل ہوئے اور کہا کہ ان آیات کو یا تو آپ خود پہنچائیں یا پھر اس شخص کو بھیج دیں جو آپ میں سے ہو۔
(خصائص امیر المومنین ، الامام نسائی : ص : 91)
رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوبکر کو واپس کرکے ان کی جگہ پر امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو آیات براءت کے ابلاغ کے لیے مکہ مکرمہ کی جانب بھیج دیا کیونکہ آپ آیہ مباہلہ کی روشنی میں نفس رسول کے طور پر پہلے سے ہی متعارف ہوئے تھے۔
پس جبرائیل امین کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام کو بلا کر فرمایا کہ جلدی سے جا کر ابو بکر سے  قرآن کی آیات کو لے کر آپ ہی انہیں مشرکین مکہ تک پہنچائیں، چنانچہ مولائے کائنات نے جاکر جناب ابو بکر کو واپس کردیا، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، اے اللہ کے رسول ! کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  نہیں لیکن جبرائیل امین نے آکر مجھے اللہ تعالی کا یہ حکم پہنچایا کہ یا تو میں خود ان آیات کو مشرکین تک پہنچادوں یا پھر کوئی ایسا شخص پہنچا دے جو مجھ سے ہو ۔
یہاں پر یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نہیں بلکہ اہل سقیفہ ( حزب قریش ) کے خلیفہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ سے اعلان برات کے موقع پر خدا و رسول اس بات پر راضی نہیں تھے کہ حضرت ابوبکر قرآن مجید کی فقط دس آیتوں کی تبلیغ پر معمور ہو جائیں چہ جائے کہ وہ پورے قرآن مجید کے احکام کو تمام عالم اسلام تک پہنچانے پر معمور ہو جائیں، حالانکہ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بقید حیات تھے چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت ابو بکر کو مشرکین مکہ سے اعلان برات سے روک دیا تو وہ کیسے اس بات پر راضی ہو سکتے تھے کہ اپنے وصال کے بعد جناب ابو بکر ان کے خلیفہ بن جائیں؟
نیز حضرت ابو بکر خود اصحاب کے سامنے اعتراف کر چکے تھے کہ وہ ان سے بہتر نہیں یعنی وہ ان سے ذیادہ علم نہیں رکھتے، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اصحاب سے کہا : ” اے لوگو ! تمہارے امور کی باگ دوڑ میرے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے جب کہ میں تم سے بہترین فرد نہیں ہوں اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو۔”
( حنبل، مسند احمد بن حنبل جلد: 1 صفحہ:192 ، الامینی، الغدیر جلد: 6 صفحہ: 87 )
مذکورہ بالا  آیات و روایات اور دلائل و براہین سے معلوم ہوتا ہے کہ باہمی صفات و کمالات کے اعتبار سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے جو صفات و کمالات رسول خدا کے ہیں وہی صفات  و کمالات امیرالمومنین کے بھی ہیں، مگر یہ کہ آپ نبی نہیں ہیں لہذا ان ہستیوں کے درمیان مقام و مرتبے کا فرق ہے ۔
ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے کہ امیر المومینین حضرت امام علی علیہ السلام حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کائنات کی سب سے عظیم ترین ہستی ہیں آپ کی صفات و کمالات ان گنت ہیں آپ کے صفات و کمالات اور فضائل و مناقب کی کوئی انتہا نہیں، لہذا ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم کے علاوہ  تمام انبیاء کرام سلام اللہ علیہم سے بھی افضل ہیں، آیت مباھلہ اس پر واضح دلیل ہے تمام شیعہ سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم "انفسنا” کی منزل پر صرف حضرت علی کو لیکر میدان مباھلہ میں گئے، علاوہ ازیں حدیث غدیر بھی اس پر شاہد ہے ۔
آیت مجیدہ میں مولا علی کو نفس رسول قرار دیا ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ نفس یعنی خود ۔۔۔ بنفس نفیس ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اول تا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حاصل تھا نفس ہونے کے ناطے وہی کچھ امیر المومنین علیہ السلام کو بھی حاصل تھا، سوائے ایک چیز کے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود الگ کر دیا چنانچہ فرمایا :
          ” یا علي ! أنت مني بمنزلت ہارون من موسی إلا لا نبی بعدي، یعنی اے علی ! آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر میرے بعد کوئی بنی نہیں ہو گا ۔ باین معنی علی نبی و رسول نہیں ہیں ۔
( الصدوق، الأمالي للشيخ الصدوق ص 491 ،مجلس 63 ، حدیث: 10، الطوسي، الأمالي للشيخ الطوسي ص : 253 ، مجلس : 9 ، حدیث: 45 ، نشر دار الثقافة قم المقدس، طبع اول 1414ھ )
اہل سنت کی بعض کتابوں میں حدیث منزلت کچھ یوں مذکور ہے :” قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی سے فرمایا : کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ ”
( صحیح بخاری حدیث : 3706 ، ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن، سنن ابن ماجہ ج : 1 ، ص: 42، باب فضل علی ابن ابی طالب، حدیث 115)
نیز صحیح بخاری میں ایک اور مقام پر یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے : أَنّ رَسُولَ اللّہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا ، فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ ، قَالَ : أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ) وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا، علی نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ ( وآلہ) وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔”
( صحیح بخاری حدیث : 4416 ، ماخوذ از اسلام 360 اپلیکیشن )
صحیح مسلم میں کچھ یوں مذکور ہے :” وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: خَلَّفَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ : « أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ۔»
ترجمہ: محمد بن جعفر ( غندر )  نے کہا : ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی ، انھوں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ، انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت کی  ، کہا :  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں اپنا) خلیفہ بنایا ،  تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا ،  لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے ۔”
( صحیح مسلم حدیث: 6218 ، اسلام 360 اپلیکیشن سے ماخوذ )
حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں اس حدیث مبارک کو یوں نقل کیا ہے قال : الا ترضى أن تكون منى بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدي ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہو گی ۔”
( مستدرک علی الصحیحین ج: 3 ، ص: 109 ، دارالمعرفت بیروت لبنان )
کتاب السنة کے مولف ابن ابی عاصم شیبانی نے بھی ابن عباس سے اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے :” عن ابن عباس قال : قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) لعلي: أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنك لست نبيا (إنه لا ينبغي أن أذهب إلا) وأنت خليفتي في كل مؤمن من بعدي.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی سے فرمایا : یا علی ! تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو، البتہ تم میرے بعد اہل ایمان میں میرے خلیفہ ہو، مولف لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن اور راوی ثقہ ہیں۔”
( الشیبانی ، حافظ ابی بکرعمرو بن ابی عاصم الشیبانی متوفی 287 ھ ، کتاب السنة ص : 551 ، تحقیق : محمد ناصر الدین البانی، تاریخ اشاعت 1413ھ)
علاوہ ازیں حدیث منزلت مسند احمد بن حنبل، سنن ابن ماجہ،  سنن نسائی، سنن ترمذی اور دیگر مصادر میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ حدیث فریقین کے نزدیک صحیح احادیث میں شمار ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں اس حدیث شریف کو شیعہ سنی دونوں تسلیم کرتے ہیں لیکں ان کے درمیان اس کی فہم میں اختلاف ہے، اہل تشیع کے نزدیک یہ حدیث امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت پر دلالت کرتی ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث صرف آپ کی فضیلت کے پہلو کو بیان کرتی ہے، البتہ اس حدیث کے مطلب کو سمجھنے کے لیے حضرت موسی اور جناب ہارون علیہما السلام کے درمیان موجود نسبت کو سمجھنا ضروری ہے تب جاکر اس کا معنی واضح ہوگا، الغرض نفس رسول ہی امت کا ہادی و امام اور قرآن مجید کا وارث و مفسر ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت پر حدیث غدیر بھی ایک واضح دلیل ہے، چنانچہ شیعہ اور سنی دونوں کی متعدد کتب حدیث و تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر 18 ذی الحج سن 10 ہجری قمری کو غدیر غم کے میدان میں حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا : بَلَى يَا رَسُولَ اللہ ! قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ ۔
یعنی مومنو ! کیا تمہارے نفسوں پر میں تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا، لوگوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں (آپ ہمارے نفسوں پر ہم سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں) آپ نے مولا علی کے ہاتھ کو بلند کرکے فرمایا ! آگاہ ہوجاؤ کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے، اس کے بعد آپ نے دعایہ انداز میں فرمایا : پروردگار ! تو بھی اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہے، تو بھی اس سے دشمنی رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے، تو بھی اس کی مدد کر جو علی کی مدد کرتا ہے اور تو بھی اسے چھوڑ دے جو علی کو چھوڑ دیتا ہے ۔ ”
( کلینی، ثقة الاسلام أبی جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق كلينی، تعليق : علی اكبر غفاری، الکافی، ناشر : دار الكتب الاسلامية تهران، طبع ثالث 1388ھ، ج 1، ص 295،ھیثمی، حافظ نور الدين علی بن أبی بكر هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دار الكتب العلمية بيروت لبنان، نشر 1408ھ / 1988م، ج 9، ص 103 تا 108، باب مناقب علی، باب قول رسول من کنت مولاہ ۔۔۔ حنبل، امام احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، دار صادر بیروت، ج 1، صفحات 84 – 118، 331 )
اس حدیث کی روشنی میں جس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا یعنی حاکم ہیں اس کے علی بھی مولا اور حاکم ہیں، واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے سید و سردار ہیں، لہٰذا امیرالمومنین علیہ سلام بھی ان سب کے مولا و آقا ہیں ۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے مسواک اور بیت الخلاء سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات و فرامین کو تو یاد رکھا لیکن غدیر جیسے اہم واقعے کو بھلا دیا جو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور اسلامی معاشرے کی نظم و نسق کو درست رکھنے کے لیے الہی نمائندوں کے تقرر سے متعلق تھا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button