خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:188)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک10فروری2023ء بمطابق 18 رجب المرجب1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
کھانے پینے کے آداب
انسان کو فطری طور پر غذا اور کھانے کی ضرورت ہے اسی بنیاد پر مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ، ائمہ طاھرین علیھم السلام اور دین اسلام کی بزرگ اور عظیم ہستیوں اور شخصیتوں کی غذا اور خورد و نوش کی اشیاء نیز اس کے طور طریقہ پر خاص توجہ رہی ہے کہ انسان کیا کھائے اور کس طرح کھائے ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غذا اور کھانے کے حوالے سے فرماتے ہیں :
بارِکْ لَنا فِی الْخُبْزِ وَلا تَفَرَّقَ بَیْنَنا وَبَیْنَه فَلَوْلا الْخُبْزُ ما صَلَّیْنا وَلا صُمْنا وَلا اَدَّیْنا فَرائِضَ رَبِّنا عَزَّ وَ جَلَّ؛
پرورگارا ! ہماری روٹیوں میں برکت عنایت کر، میرے اور میری روٹیوں کے درمیان جدائی نہ ڈال کیوں کہ اگر روٹی نہ ہوگی تو ہم نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے اور دیگر عبادتوں کے انجام پر قادر نہ ہوں گے۔( کافی، ج 6، ص 287 )
کھانا کھانے کے حوالے سے امام موسیٰ کاظم ؑ کی سیرت:
محمد بن جعفر بن عاصم‏ نقل کرتے ہیں کہ میں ایک سال حج سے واپسی پر مدینہ گیا اور وہاں امام کاظم علیہ السلام کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے اور حضرت کے ساتھ کھانے کا شرف حاصل ہوا ، ہم سب کھجوروں کے درختوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ ناگہاں امام کاظم (ع) بھی تشریف لائے، اپ نے سب سے پہلے طشت میں موجود پانی سے ہاتھ دھویا اور پھر اپکے بعد آپ کے دائیں طرف سے شروع کرتے ہوئے تمام اصحاب نے اپنے ہاتھوں کو دھویا ، حضرت (ع) نے اپنا کھانا نمک سے شروع کیا اور سب کو «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کہکر کھانا شروع کرنے کی تاکید کی ، اس کے بعد سرکہ لایا گیا اور پھر گوسفند کی بھنی ہوئی ران لائی گئی ، حضرت نے فرمایا «اللہ کے نام سے» شروع کرو ، یہ وہ کھانا ہے جو مرسل آعظم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھا، پھر اس کے بعد زیتون لایا گیا اور حضرت نے فرمایا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» کہکر شروع کرو ، یہ وہ غذا ہے جو معصومہ کونین حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کو بہت زیادہ پسند تھی ۔
اس کے بعد دسترخوان سمیٹ دیا گیا، ایک صاحب گرے ہوئے کھانے کے دانے اکٹھا کرنے کے لئے اٹھے تو حضرت نے فرمایا : اسے اکٹھا نہ کرو، گھروں کے اندر کھانا کھانے کی صورت میں اس عمل کی تاکید ہے مگر اس مقام پر(گھر سے باہر کھلی جگہ پر) یہ دانے پرندوں اور حیوانوں کے مورد استفادہ قرار پائیں گے ، اس کے بعد خلال(دانتوں میں پھنسی غذا نکالنے کے لیے)لایا گیا ، حضرت (ع) نے خلال کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ اپنی زبان دہن میں گھماؤ اور جو کچھ بھی زبان کے ذریعہ دانتوں سے باہر نکلے اسے نگل جاو اور جو کچھ بھی خلال کے ذریعہ دانتوں سے باہر نکالا جائے اسے باہر تھونک دو ، اس کے بعد پانی کا طشت لایا گیا ، اس بار حضرت کے بائیں طرف سے ہاتھ دھلنا شروع ہوا اور سبھی نے اپنے ہاتھ دھوئے ۔( مكارم الأخلاق‏، ص145)
اس روایت سے کھانا کھانے اور آداب دسترخوان کے مندرجہ ذیل آداب سامنے آتے ہیں:
1: ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاو ۔
2: کھانے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھوں کو دھولو ۔
3: ہاتھ دھونے میں ادب کا خیال رکھو ( پہلے میزبان اور پھرمہمان) ۔
4: کھانا خدا کے نام سے شروع کرو ۔
5: نمک سے کھانے کا آغاز کرو ۔
6: دہن میں بچے ہوئے دانے کو نگل لو اور خلال سے نکالے جانے والے دانے کو تھوک دو ۔
7: کھلے آسمان تلے کھانا کھانے کی صورت میں گرے ہوئے دانے کو حیوانوں اور پرندوں کے لئے چھوڑ دو ۔
(مكارم الأخلاق‏، ص145)
کھانے سے پہلے بسم اللہ کہنا:
اس حوالے سے سابقہ روایت میں بھی تاکید موجود ہے اور اسی طرح امام على عليه السلام کی یہ روایت بھی: :
امام علی (علیہ السلام) نے فرمایا:مَا اتَّخَمْتُ قَطُّمیرا ہاضمہ کبھی خراب نہیں ہوا ۔
فَقيلَ لَهُ: وَ لِمَ يا وَلىَّ اللّه ِ؟پوچھا گیا کیسے؟
قالَ: ما رَفَعْتُ لُقْمَةً اِلى فَمى اِلاّ ذَكَرْتُ اِسْمَ اللّه ِ سُبحانَهُ عَلَيْها؛
فرمایا:میں نے کوئی لقمہ اللہ کا نام لیئے بغیر دہن میں نہیں رکھا۔
محاسن، ج 2، ص 438، ح 288
پیٹ بھر کر کھانے کی ممانعت:
نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد گرامی ہے:
” لاتَشْبَعُوا فَيُطْفَأُ نُورُ الْمَعْرِفَةِ مِنْ قُلُوبِكُمْ "
پیٹ بھر کے مت کھاؤ؛ کیونکہ تمہارے دل میں معرفت کا نور بجھ جائے گا۔
معلوم ہوا پیٹ بھر کر کھانا ایک طرف تو صحت کے لیے مضر ہے ہی دوسری طرف انسان پر معنوی طور پر بھی برے اثرات ڈالتا ہے جن میں سے بہت بڑا برا اثر یہ ہے کہ انسان کی معرفت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے انبیاء و آئمہ طاہرین پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے اور اکثر روزے رکھتے تھے۔
غریبوں کو کھلانے کی تاکید:
غریبوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، اسکے بارے میں امام محمد باقر(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: «لَئِنْ اُطْعِمَ اَخَاً لی مُسْلِماً اَحَبُّ اِلیَّ مَنْ اَنْ اُعْتِقَ اُفُقاً مِنَ الناس،قیلَ: و کَمِ اِلْاُفُقُ؟قال(ع): عَشرَهُ آلافٍ؛اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کو کھانا کھلائے تو میرے نزدیک وہ اس شخص سے بہتر ہے جو ایک افق غلاموں کو آزاد کرے، آپ سے پوچھا گیا کہ ایک افق کتنا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: دس ہزار»[اصول کافی، ج:۲، ص:۴۰۲].
خالق کائنات کی اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلقات کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن اﷲ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں سب سے اولین جو اپنا تعارف کرایا ہے وہ ’’ رب‘‘(پالنے والا) ہے، جس کا براہ راست تعلق کھانا کھلانے سے بھی ہے،خدا نے اس زمین پر انسان کو بھیجنے سے پہلے طرح طرح کے کھانوں کا انتظام فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں سب سے بزرگ عبادت نماز کے ساتھ زکوۃ کی تکرار اس کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید زکوۃ کے لیے ہی نماز کی فرضیت عمل میں لائی گئی ہے تاکہ اجتماعی ماحول میں نماز کے ذریعہ خالق اورمخلوق کے فاصلوں کو کم سے کم تر کیا جا سکے، اور زکوۃ کے ذریعے مخلوق کو ایک دوسرے کا ہمدرد بنایا جاسکے۔

کھانے پینے میں اسراف کی ممانعت:
اسلام دنیاکاوہ واحدمذھب ہےکہ جس نےدینی اوردنیوی ہرمرحلےمیں اپنےماننےوالوں کوبہترین  اورزرین اصولوں سےنوازاہے۔جہاں اسلام نےہمیں اپنےجسم وجان اپنےاہل وعیال اوراللہ کی راہ میں مال خرچ کرنےکاحکم دیاہےوہاں ہمیں یہ بھی تاکید فرمائی ہے کہ خرچ کرنے میں راہ اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں ۔اسراف کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ :” خرچ کرنے میں شرعی حدود سے تجاوز کر جانا اسراف ہے یا یہ کہ ناجائز اور حرام کاموں میں مال خرچ کرنا اسراف ہے۔”
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ﴿الاعراف:۳۱﴾
کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
اس آیت مجیدہ میں وَ لَا تُسۡرِفُوۡا کا یہ مختصر جملہ بتاتا ہے کہ کتنا کھانا ہے۔ انسان کے لیے اللہ تعالی نے بہت سی چیزیں حلال کی ہیں اس لیے کہ وہ اس کے جسم کی ضرورت ہیں۔لہٰذا انسانی جسم کو زندہ اورمتحرک رکھنے کے لیے جتنی غذا کی ضرورت ہے، اس کا کھانا مباح ہے اور کبھی واجب ہے۔یعنی اگر کوئی غذا نہ کھانے سے جسم کوناقابل برداشت نقصان کا اندیشہ ہوتو اس کا کھانا ضروری ہوجاتا ہے جیسے دوائی کھانا۔البتہ ضروری ہے کہ انسان وہ چیزیں شریعت کے بتائے ہوئے جائز طریقوں کے مطابق حاصل کرے۔
اگر کوئی چیز ضرورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ کھا پی لے تو یہ اس نظام کی خلاف ورزی ہے، جس نظام کے تحت اس کا وجود قائم ہے۔ یہ اس ماحول سے خارج ہے، جس میں یہ پیدا ہوا ہے اور اس راستے سے انحراف ہے، جس راستے کو قدرت نے اس کے لیے منتخب کیا ہے۔ اسراف خلاف ورزی ہے۔ اسراف ظلم ہے اپنی جان پر، اپنے جسم پر، اپنی اقتصاد پر اور اپنے ملک پر۔ بالآخر پوری انسانیت پر ظلم ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے اسراف کی یہ تعریف روایت ہوئی ہے :
اِنَّمَا الْاِسْرَافُ فِیمَا اَفْسَدَ الْمَالَ وَ اَضَرَّ بِالْبَدَنِ ۔۔۔۔(اصو ل الکافی ۴: ۵۳۔ المیزان)
اسراف یہ ہے کہ مال کا ضیاع ہو اور بدن کا ضرر۔
یعنی مال میں اسراف یہ ہے کہ مال کو ضائع کیا جائے اور بدن میں اسراف یہ ہے کہ بدن کو ضرر و بے جا تکلیف پہنچائی جائے۔قرآن مجید میں ایک مقام پریوں ارشادباری تعالی ہےکہ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ﴿البقرۃ:۱۶۸﴾
۔لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اس آیت کا خطاب پوری انسانیت سے ہے۔ زیر بحث مسئلہ سب انسانوں سے مربوط ہے کہ زمین کی حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ یہ سب کچھ انسان کے لیے خلق ہوا ہے:
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۔۔۔(۲ بقرہ : ۲۹)
جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا۔
اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام ایک مذہب اعتدال ہے اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئي ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید میں فضول خرچی کے لیے کبھی اسراف اور کبھی تبذیر کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا﴿الاسراء:۲۶﴾
۲۶۔اور قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو۔
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕوَکَانَالشَّیۡطٰنُلِرَبِّہٖکَفُوۡرًا﴿الاسراء:۲۷﴾
۲۷۔ فضول خرچی کرنے والے یقینا شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔
خرچ کرنے کے بارے میں اولین استحقاق قریب ترین رشتہ داروں کا ہے۔یہاں اگرچہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے لہٰذا ذَاالۡقُرۡبٰی کے اولین مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتے دار ہیں تاہم آیت کا مفہوم وسیع ہے اور تمام رشتے داروں کو شامل کرتا ہے۔یہاں قریبی رشتہ دار،مسکین اور مسافروں جیسے مصارف کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ مادی اقدار کا تعلق انسانی قدروں کے ساتھ ہے۔ مصرف اگر قریبی رشتے دار، مساکین اور راہ ماندہ مسافر ہیں تو ان کا حق ادا کرنا واجب ہے۔ اگر مصرف انسانی اور الٰہی قدروں کے خلاف ہو تو وہ تبذیر و اسراف ہے۔

اسراف اور تبذیر میں فرق:
اگر کسی مال کا مصرف اصولاً درست ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ ہوتا ہے تو یہاسراف ہے۔ مثلا گھر انسانی ضرورت ہے مگر اس پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے۔جبکہ تبذیر میں اس کا مصرف اصولاً درست نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً فسق و فجور اور ریاکاری پرخرچ کرنا، اسی طرح کتوں ، بلیوں اور جوئے پر خرچ کرنا تبذیر ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ ؑنے فرمایا:
مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فِی غَیْرِ طَاعَۃِ اللّٰہِ فَھُوَ مَبّذِّرٌ ۔۔۔۔(مستدرک الوسائل ۱۵:۲۶۹)جو شخص اپنا مال اطاعت الٰہی کے علاوہ دیگر جگہوں پر خرچ کرے، وہ تبذیر کرنے والا ہے۔
البتہ جہاں تبذیر ہے وہاں اسراف بھی ہے لیکن جہاں اسراف ہے وہاں تبذیر کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَائَ الْمَالِ فِی غَیْرِ حَقِّہِ تَبْذِیرٌ وَ اِسْرَافٌ۔۔۔۔(نہج البلاغۃ خ ۱۲۶)
واضح رہے کہ ناحق جگہ پر مال خرچ کرنا تبذیر اور اسرافہے۔
شیطان کا بھائی:
مال، اطاعت الٰہی کا بہترین ذریعے ہے۔ اس ذریعے کا اتلاف تبذیر ہے اور شیطان کا بنیادی ہدف ذرائع کا اتلاف ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو ان ذرائع کو بے مقصد چیزوں پر خرچ کر کے تلف کر دیتے ہیں وہ عمل میں شیطان کے بھائی قرار پاتے ہیں۔جس عمل سے انسان شیطان کا بھائی قرار پاتا ہے اس عمل سے اس کی زندگی سے خیر و برکت بھی اٹھ جاتی ہے اور نعمتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔چنانچہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت ہے کہ :وَ مَنْ‏ بَذَّرَ وَ أَسْرَفَ‏ زَالَتْ عَنْهُ النِّعْمَة(ج‏75، ص: 327)
جو شخص اسراف و تبذیر کرتا ہے اس سے نعمت زائل ہوجاتی ہے۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی یہ صفت بیان کی گئي ہےکہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بخل و کنجوسی کرتے ہیں اور نہ اسراف و فضول خرچی کرتے ہیں بلکہ (خرچ کرنے میں )میانہ رواورمعتدل ہوتے ہیں ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴿الفرقان:۶۷﴾
۶۷۔ اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔
مؤمن کی صفت یہ ہے کہ وہ نہ اسراف کرتے ہیں نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں۔ اسراف طاقت کا ضیاع اور کنجوسی طاقت کا جمود ہے۔
احادیث میں اس اعتدال کو دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی قرار دیا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت امام محمد باقر نے حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے فرمایا:یا بنی عَلَیْکَ بِالْحَسَنَۃِ بَیْنَ السَّیِّئَتَیْنِ ۔۔۔ (بحار الانوار ۶۸: ۲۱۶)
بیٹا! تم دو برائیوں کے درمیان ایک نیکی اختیار کرو۔پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

اسراف کرنے واالے کی علامات:
رسول خدا ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
أمّا علامةُ المُسرِفِ فأربَعةٌ : الفَخرُ بالباطِلِ ، ويَأكُلُ ما لَيسَ عِندَهُ ، ويَزهَدُ في اصطِناعِ المَعروفِ ، ويُنكِرُ مَن لا يَنتَفِعُ بِشَيءٍ مِنهُ.(تحف العقول : ۲۲)اسراف کرنے والے کی چار علامتیں ہیں: ۱۔غلط کاموں پر فخر کرتا ہے۔ ۲۔جو اس کا مال نہیں ہوتا اسے کھاتا ہے۔ ۳۔کارِ خیر میں حصہ نہیں لیتا۔۴۔جس سے فائدہ اٹھاتاہے اس کا انکار کرتا ہے۔
کم ترین اسراف:
امام حسن عسکری ؑ:إنَّ للسَّخاءِ مِقدارا ، فإن زادَ علَيهِ فهُو سَرَفٌ .( الدرّة الباهرة : ۴۳)سخاوت کی ایک حد مقرر ہے۔ اگر اس سے زیادہ ہوجائے تو وہ اسراف (فضول خرچی) ہے۔
رسول اللہ ﷺ :انَّ مِنَ السَّرَفِ أن تَأكُلَ كُلَّ ما اشتَهَيتَ.(كنز العمّال : ۷۳۶۶)جب چاہو کھانے لگ جانا بھی اسراف (فضول خرچی) ہے
امام جعفر صادق ؑ: لَيسَ فيما أصلَحَ البَدَنَ إسرافٌ ۔۔۔ إنّما الإسرافُ فيما أتلَفَ المالَ وأضَرَّ بالبَدَنِ .(بحارالانوار : ۷۵ / ۳۰۳ / ۶)جو چیز بدن کی اصلاح کرے اس میں اسراف نہیں ہوتا۔۔۔ اسراف تو اس بات میں ہوتا ہے جو مال کو تلف کردے اور بدن کو نقصان پہنچائے۔
قد سُئلَ عَن عَشَرَةِ أقْمِصَةٍ هَل ذلكَ مِنَ الاسراف؟ قال: لا ، ولكن ذلكَ أبقى لِثِيابهِ ، ولكنَّ السَّرَفَ أن تَلبَسَ ثَوبَ صَونِكَ في المكانِ القَذِرِ .(بحارالانوار : ۷۹ / ۳۱۷ / ۱)امام موسیٰ کاظم ع سے سوال کیا کہ ایک شخص کے پاس دس قمیصیں ہیں۔ تو کیا یہ اسراف ہوگا؟ فرمایا: نہیں بلکہ اس سے کپڑوں کو زیادہ بقا ملتی ہے۔ اسراف تو یہ ہے کہ تم سنبھال کر رکھنے والے کپڑوں کو گندی جگہوں پر استعمال کرو ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں محمد و آل محمد کا پیروکار بنائے اور ان کے بتائے ہوئے زندگی کے رہنما اصولوں پہ کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 

 

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button