خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:129)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 31 دسمبر2021ء بمطابق 26 جمادی الاول 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
روایات کے مطابق، ہر کام کی اہمیت اس کی نیت سے معلوم ہوتی ہے۔اور اگر نیت میں ریا کاری پائی جائے تو یہ عمل کے باطل ہونے کا سبب بنتی ہے، لیکن اگر کوئی کام خالص نیت سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے انجام دیا جائے، تو یہ عمل کو کمال تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے،معروف حدیث کے مطابق انما الاعمال بالنیات، اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔(تہذیب الاحکام، ص۸۴) چہاردہ معصومین نے بہت سی روایات میں پاک اور خالص نیت کی تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ فاسد اور خراب نیت رزق و روزی میں برکت ختم ہونے اور بلا و مصیبت کے نازل ہونے کا باعث بنتی ہے۔
ہمارے سامنے ایسی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں کہ کوئی شخص پہلے ظاہری طور پر اچھا اور نیک لگتا تھا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد بالکل الٹ ظاہر ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کا مقصد پہلے سے ہی یہی تھا جیسا بعد میں ظاہر ہوا، لیکن اپنے اِس مقصد تک صرف اُس ظاہری خوش مزاجی کے ساتھ پہنچ سکتا تھا، جب اپنے مقصد تک پہنچ گیا تو اپنی حقیقت ظاہر کردی اور حقیقت ظاہر کرنے میں اب اسے کوئی نقصان نہیں ہے۔ اب دوسرے شخص کا تصور کریں جو وہ بھی پہلے اِسی شخص کی طرح خوش مزاج تھا اور منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد بھی اسی خوش مزاجی پر باقی ہے اور اس میں کوئی منفی تبدیلی نہیں آئی۔ ان دونوں میں فرق کس چیز کا ہے؟ فرق نیت کا ہے۔ یعنی پہلے شخص کی نیت ابتدا سے خراب تھی تو اس کا مطلب وہ پہلے سے ہی خراب آدمی تھا اور دوسرے شخص کی نیت ابتدا سے ہی اچھی تھی، لہذا وہ نیک نیتی کے ساتھ ہمیشہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کرتا رہا۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إنما الاعمال بالنيات ولكل امرئ ما نوى” (مصباح الشریعہ، ص۵۳)، "اعمال نیتوں کے مطابق ہیں اور ہر آدمی کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے”۔ لہذا انسان عمل کے ذریعہ اسی طرف جارہا ہے جو اس کی نیت ہے، اگر مال و دولت تک پہنچنا مقصد ہے تو وہ عمل کے ذریعہ دولت کی طرف جارہا ہے اور اگر رضائے الہی تک پہنچنے کا ارادہ ہے تو عمل کے ذریعہ رضائے پروردگار کی طرف جارہا ہے۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ روایت قابل غور ہے:
عنهﷺ لَمّا أغزى علِيّاثفيِ سَرِيَّةٍ ، فَقَالَ: رَجُلٌ لِأَخٍ لَّہٗ: اُغْزُبِنَا فِیْ سَرِیَّۃِ عَلیٍّ لَعَلَّنَا نُصِیْبُ خَادِماً أَوْ دَآبَّۃً أَوْ شَیْئاً نَتَبَلَّغُ بِہٖ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيّاتِ ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَّا نَوىٰ ، فَمَن غَزَا ابْتِغَآءَ مَا عِندَ اللهِ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللهِ ، وَمَنْ غَزَا يُريدُ عَرَضَ الدُّنيا أَوْ نَوىٰ عِقَالاً لَم يَكُن لَهُ إلاّ مَا نَوىٰ. (أمالي الطوسيّ : ۶۱۸ / ۱۲۷۴)
جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک سریہ میں جنگ کی طرف روانہ کیا تو ایک شخص نے اپنے بھائی سے کہا ’’تم بھی علی علیہ السلام کے سریہ میں مل کر ہمارے ساتھ چلو ہو سکتا ہے کہ ہمیں کوئی خادم مل جائے یا کوئی سواری یا کوئی اور چیز جس سے ہم اپنے مقصد کو پہنچ جائیں ‘‘ تو اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا اعمال نیتوں ہی سے وابستہ ہیں اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق ملے گا ۔ لہٰذا جو شخص خدا کی رضا کے لئے جنگ کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے پاس واقع ہو گا اور جو دینوی مال و متاع کے لیے لڑے گا تو اسے اس کی نیت کے مطابق ملے گا ۔
اسی سے متعلق مزید احادیث میں یوں رہنمائی ملتی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
النِّيَّةُ أساسُ العَمَلِ. (غرر الحكم : ۱۰۴۰)
نیت عمل کی بنیاد ہے۔
اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے : لا عَمَلَ إلاّ بِنِيَّةٍ. (الكافي : ۲ / ۸۴ / ۱)
نیت کے بغیر عمل بے کار ہے ۔
نیت کے بعد عمل میں کمزوری کی وجہ
انسان اچھے کاموں کی نیت اور ارادہ کرتا ہے، لیکن بعض اوقات عمل کے موقع پر کہتا ہے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا۔ مثلاً ارادہ کیا کہ پانچوں وقت کی نماز، بالکل فضیلت کے وقت میں پڑھوں گا، مگر جب نماز کا وقت ہوا تو باتوں اور کاموں میں مصروف رہا اور سوچ لیا کہ کچھ دیر کے بعد پڑھ لوں گا۔ ارادہ کیا کہ ہر رات نماز تہجد پڑھوں گا، لیکن رات ہوئی توساری رات نیند میں گزار دی اور نماز شب نہ پڑھی، ارادہ کیا کہ آج کے بعد میں بےجا غصہ بالکل نہیں کروں گا، مگر جب کسی سے تھوڑی سی بحث ہوئی تو غصہ میں آگیا، ارادہ کیا کہ آئندہ گانے نہیں سنوں گا اور نامحرم کی طرف نہیں دیکھوں گا، لیکن جونہی دوستوں سے ملا اور بازار میں جانا ہوا تو اس ارادہ پر عمل نہ کیا، اس کی وجہ کیا ہے؟ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
ما ضَعُفَ بَدَنٌ عمّا قَوِيَت علَيهِ النِّيَّةُ .(الفقيه : ۴ / ۴۰۰ / ۵۸۵۹)
جس عمل کی نیت قوی ہو بدن (اسے انجام دینے میں)کبھی کمزور نہیں ہوتا ۔
آپؑ کی اس نورانی حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر انسان کی نیت اور ارادہ طاقتور، پختہ اور مضبوط ہو تو بدن ہرگز کمزوری نہیں دکھائے گا، بلکہ بدن، روح کی تابعداری کرے گا، اور بدن کی کمزوری، نیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

اللہ کی مدد، انسان کی نیت کے مطابق
انسان جو اعمال انجام دیتا ہے اور جو نیکیاں بجالاتا ہے وہ اللہ کی طاقت اور مدد سے ہیں، قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے: "أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً” (سورہ بقرہ، آیت ۱۶۵)، "ساری قوت صرف اللہ کے لئے ہے”۔ جب انسان کوئی نیک کام بجالانا چاہے تو اللہ سے مدد مانگتا ہے کہ اسے صحیح اور مکمل طور پر بجالاسکے۔ مگر بعض اوقات مکمل بجالا پاتا ہے اور کبھی نامکمل طور پر۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إنّما قَدَّرَ اللّه ُ عَونَ العِبادِ على قَدرِ نِيّاتِهِم، فمَن صَحَّت نِيَّتُهُ تَمَّ عَونُ اللّه ِ لَهُ، و مَن قَصُرَت نِيَّتُهُ قَصُرَ عَنهُ العَونُ بقَدرِ الّذي قَصُرَ” (بحارالانوار، ج۷۰، ص۲۱۱)، "درحقیقت اللہ نے بندوں کی مدد، ان کی نیتوں جتنی قرار دی ہے، تو جس کی نیت صحیح ہو، اللہ اس کو مکمل مدد کرتا ہے، اور جس کی نیت کم ہو اللہ کی مدد، (نیت) کی کمی جتنی کم ہوجاتی ہے”۔ لہذا انسان جب کسی نیکی کو بجالانے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتا تو وہ اپنی نیت کے بارے میں غور کرے کہ رکاوٹ نیت میں ہے، کیونکہ اگر اس کی نیت میں کمی نہ ہوتی تو نیک عمل میں بھی کمی نہ ہوتی، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انسان نے جتنی محنت کرنی ہو، اللہ کی طاقت سے ہی کرسکتا ہے اور اللہ بھی سخی اور بے نیاز ہے،اگر اس شخص کی نیت صحیح ہوتی تو اللہ تعالی مکمل طور پر اس کی مدد کردیتا۔
نیک نیت کا ثواب
نیک نیت پر ناصرف اللہ کی مدد نصیب ہوتی ہے بلکہ اگر کسی وجہ سے انسان اس نیک عمل کو انجام نہ دے سکے تب بھی اس کی نیک نیت کی وجہ سے اللہ اپنی بے پناہ رحمت میں سے ثواب عطا فرماتا ہے۔ اس بابت یہ روایات قابل غور ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
تَـرَكنا فـي المَدينَةِ أقـواما لا نَقطَعُ وادِيا ولا نَصعَدُ صُعودا ولا نَهبِطُ هُبوطا إلاّ كانُوا مَعَنا ۔ قالُوا : كَيفَ يَكونونَ مَعَنا ولَم يَشهَدوا ؟! قالَ : نِيّاتُهُم .(كنزالعمّال : ۷۲۶۱)
ہم مدینہ میں کچھ ایسے لوگ چھوڑ کر آئے ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں اور ہم جس وادی سے گزر تے یا جس پہاڑی پر چڑھتے یا اترتے تھے وہ ہمارے ساتھ ساتھ تھے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ تو ہمارے ساتھ ہی نہیں تھے ؟آپ ص نے فرمایا !ان کی نیتیں ہمارے ساتھ ہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر سے فرمایا:
يا أبا ذرٍّ ، هِمَّ بالحَسَنَةِ وإن لَم تَعمَلْها ، لِكَيلا تُكتَبَ مِن الغافِلينَ . (مكارم الأخلاق : ۲ / ۳۷۸ / ۲۶۶۱)
اے ابوذر رح !نیکی کا ارادہ کئے رکھنا اگرچہ اس پر عمل نہ بھی کرسکو ، تاکہ تم عاملین (عمل کرنے والوں) میں لکھے جائو
امام علی علیہ السلام:
النِّيَّةُ الصّالِحَةُ أحَدُ العَمَلَينِ. (غرر الحكم : ۱۶۲۴)
نیک نیت دو عملوں میں سے ایک(بہتر) عمل ہے ۔
یعنی ایک بہتری تو اس نیک عمل میں ہے جسے بندہ انجام دینا چاہتا ہے اور دوسری بہتری اس نیک کام کو انجام دینے کی نیت کرنے میں ہے۔
اسی طرح روایت ہے کہ امام علی جب ایک جنگ سے پلٹ رہے تھے تو ایک صحابی نے کہا کہ میرا فلاں بھائی بھی یہاں موجود ہوتا تو وہ بھی دیکھتا کہ اللہ نے آپ کو دشمنوں پر کیسی فتح و کامرانی عطا فرمائی ہے ؟
عنہ ع لِرجُلٍ يَوَدُّ حُضورَ أخيهِ ليَشهَدَ نَصْرَ اللهِ عَلٰی اَعْدَائِہٖ فِی الْجَمَل: أهَوى أخيكَ مَعَنا ؟ فقالَ : نَعَم ، قالَ : فَقد شَهِدَنا ، ولَقد شَهِدَنا في عَسكَرِنا هذا أقوامٌ (قَومٌ) في أصلابِ الرِّجالِ وأرحامِ النِّساءِ ، سَيَرعَفُ بهِمُ الزَّمانُ ويَقوى بهِمُ الإيمانُ .(نهج البلاغة : الخطبة ۱۲)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا !کیا تمہارا بھائی ہمیں دوست رکھتا ہے ۔ اس نے کہا !ہاں ! تو آپ ع نے فرمایا!وہ ہمارے پاس موجود تھا بلکہ ہمارے لشکر میں وہ اشخاص بھی موجود تھے جو مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں ہیں ۔ عنقریب زمانہ بہت جلد ظاہر کرے گا اور ان سے ایمان کو تقویت پہنچے گی ۔
اسی طرح بہت سی روایات میں ملتا ہے کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بھی بہتر ہوتی ہے کیونکہ مومن ہوتا وہی ہے جو ہمیشہ اچھے عمل کی نیت کرتا ہے اور پھر اسے انجام بھی دیتا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
نِيَّةُ المُؤمنِ خَيرٌ مِن عَمَلِهِ ، ونِيَّةُ الكافِرِ شَرٌّ مِن عَمَلِهِ ، وكُلُّ عامِلٍ يَعمَلُ على نِيَّتِهِ . (الكافي : ۲ / ۸۴ / ۲)
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے اور کافر کی نیت اس کے عمل سے بد تر ہوتی ہے ۔ اور ہر ایک اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے ۔
امام باقر علیہ السلام:
نِيَّةُ المُؤمنِ أفضَلُ مِن عَمَلِهِ ؛ وذلكَ لأ نّهُ يَنوي مِن الخَيرِ ما لا يُدرِكُهُ ، ونِيَّةُ الكافِرِ شَرٌّ مِن عَمَلِهِ ؛ وذلكَ لأنَّ الكافِرَ يَنوي الشَّرَّ ويأمَلُ مِن الشَّرِّ ما لا يُدرِكُهُ . (علل الشرائع : ۵۲۴ / ۲)
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ کسی خیر کی نیت کرتا ہے مگر اسے حاصل نہیں کرپاتا اور کافر کی نیت اس کے عمل سے بدتر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ برائی کی نیت کرتا ہےاور برائی کا امیدوار ہوتا ہے۔ لیکن اس برائی کو حاصل نہیں کرپاتا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام:
في الجَوابِ عَن عِلَّةِ فَضلِ نِيَّةِ المُؤمنِ عَلٰی عَمَلِہٖ: لأنَّ العَمَلَ رُبَّما كانَ رِياءً لِلمَخلوقينَ ، والنِّيَّةُ خالِصَةٌ لرَبِّ العالَمينَ ، فيُعطي تَعالى علَى النِّيَّةِ ما لا يُعطي علَى العَمَلِ . (علل الشرائع : ۵۲۴ / ۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے جوب میں فرمایا جس نے سوال کیا کہ مومن کی نیت کو اس کے عمل پر کیوں فضیلت حاصل ہے ؟ کیونکہ بعض اوقات عمل میں لوگوں کے لئے دکھاوا بھی شامل ہو جاتا ہے جبکہ نیت خاص طور پر اللہ رب العا لمین کے لئے ہوتی ہے لہٰذا اللہ رب العزت نیت پر وہ کچھ عطا کرتا جو عمل پر نہیں ۔
ہر کام کو خالص نیت سے عبادت بنایا جاسکتا ہے:
ہم اپنی زندگی کے کچھ وقت کو کھانے پینے اور سونے میں گزارتے ہیں کیونکہ یہ جسم کی ضرورت ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالی نے ہمیں صرف اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے تو ہم تو سارے دن میں سے کچھ وقت نماز اور دعا وغیرہ کو دیتے ہیں اور باقی سارا وقت، زندگی کے عام کاموں میں مصروف رہتے ہیں، تو کیا وہ مقصدِ خلقت پورا ہورہا ہے، جبکہ خلقت کا مقصد، عبادت کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف نماز، روزہ وغیرہ ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان جو کچھ اللہ کی رضا کے لئے کرے وہ عبادت ہے، یعنی ہم اپنے ہر معمولی کام جو حرام اور مکروہ نہیں ہے، اس میں اخلاص کی نیت کرسکتے ہیں، تو وہ کام عبادت بن جائے گا، ورنہ عبادت نہیں کررہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لا بُدَّ لِلعَبدِ مِن خالِصِ النِّيَّةِ في كُلِّ حَرَكَةٍ و سُكونٍ؛ لأنّهُ إذا لَم يَكُن هذا المَعنى يَكونُ غافِلاً ” (بحارالانوار، ج۷۰، ص۲۱۰)، "بندہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر حرکت و سکون میں (اللہ کے لئے) خالص نیت رکھتا ہو، کیونکہ اگر یہ معنی نہ ہو تو وہ غافل ہے”۔ لہذا انسان کھانے پینے جیسے کاموں کو بھی اللہ کے لئے خالص نیت سے کرتے ہوئے غفلت سے پرہیز کرتا ہوا حتی نیند میں بھی عبادت میں مصروف رہ سکتا ہے۔
نیت اور عمل کا باہمی تعلق
انسان جب کسی کام کو انجام دینے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی سوچ کئی طرح کی ہوسکتی ہے:
۱۔اس کام اور عمل کو بس انجام دےدے۔
۲۔اس کام کو بہتر طریقہ سے انجام دے۔
۳۔اس کام کو بہتر سے بہتر طریقہ سے انجام دے۔
ان تینوں سوچوں میں مشترکہ بات یہ ہے کہ کام تو ہو ہی جائے گا، لیکن فرق یہ ہے کہ صرف کام کا ہوجانا کافی نہیں، بلکہ اس کو بہترین شکل میں انجام دینا بھی مقصد میں شامل ہے۔ لیکن بہترین شکل میں تب انجام دے سکتا ہے کہ اس بات پر غور کرے اور اس کو بہترین شکل میں انجام دینے کی نیت کرے یعنی بہترین شکل میں انجام دینے کا پختہ ارادہ کرے، ورنہ عمل انجام ہوجائے گا، لیکن بہترین شکل میں نہیں، جیسے مہمان کے لئے جیسا کھانا تیار کردیا جائے تو مہمان اسے کھا لے گا، لیکن میزبان کی محبت، خلوص اور نیک نیت تب ثابت ہوگی جب بہترین شکل میں بنائے اور اس کا عمل اس کی نیت کی حقیقت کو واضح کردے گا۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"النِّيَّةُ أفضَلُ مِن العَمَلِ، ألا و إنّ النِّيَّةَ هِيَ العَمَلُ ـ ثُمّ تلا قَولَهُ تعالى: ـ »قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ على شاكِلَتِهِ «يَعني على نِيَّتِه "(وسائل الشيعة، ج۱، ص۵۱)، "نیت، عمل سے افضل ہے، جان لو نیت وہی عمل ہے، پھر آپؑ نے اللہ کے اس کلام کی تلاوت فرمائی: »آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے«، یعنی اپنی نیت پر”۔ لہذا عمل بتادیتا ہے کہ یہی تو نیت تھی۔
قیامت کے دن نیت کے مطابق محشور کیا جائے گا
انسان جو عمل انجام دیتا ہے، ہوسکتا ہے ظاہری طور پر اچھا عمل انجام دے رہا ہو لیکن اس کی نیت کچھ اور ہو۔ مکہ جاتا ہے، لیکن حج کے لئے نہیں، سیروسیاحت کے لئے، عزاداری کرواتا ہے، مگر شہرت کے لئے۔ غریبوں کی مدد کرتا ہے، لیکن لوگوں سے داد تحسین لینے کے لئے اور کوئی شخص اچھی نیت کرتا ہے، جبکہ اس کام کے مقدمات فراہم نہیں ہوتے، لیکن وہ دل کی گہرائی سے چاہتا ہے کہ اس نیکی کو بجالائے۔ ان دو قسم کے آدمیوں کا حساب و کتاب اور حشر و نشر کیسا ہوگا؟ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
"إنّ اللّه َ يَحشُرُ النّاسَ على نِيّاتِهِم يَومَ القِيامَةِ "(وسائل الشيعة، ج۱، ص۳۴)، "یقیناً اللہ لوگوں کو ان کی نیت کے مطابق قیامت کے دن محشور کرے گا”۔ مثلاً جو شخص حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے مصائب کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے: "يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَكُمْ فَأَفُوزَ فَوْزا عَظِيماً"یعنی آرزو کرتا ہے کہ "اے کاش میں آپ شہدائے کربلا کے ساتھ ہوتا تو عظیم کامیابی تک پہنچ جاتا”، تو اس شخص کو شہدائے کربلا جیسا ثواب دیا جائے گا۔ یہ شخص اگرچہ کربلا میں موجود نہیں تھا، لیکن اس کی نیت یہ ہے کہ کاش میں شہدائے کربلا کے ساتھ امامؑ کی مدد کرتا۔ انسان نے اپنے اعمال میں اگر اللہ کی قربت کا قصد کیا ہو تو اسی کے مطابق اور اگر نہ کیا ہو تو اسی کے مطابق محشور ہوگا۔ بعض لوگ محاذ جنگ پر جاتے تھے، مگر اسلام کی مدد کے لئے نہیں، بلکہ جنگی غنیمتوں کو جمع کرنے کے لئے، قیامت کے دن جن لوگوں نے اللہ کی رضا کے لئے جہاد کیا ہوگا وہ جنت میں جائیں گے اور جو مال اکٹھا کرنے کے لئے محاذ جنگ پر گئے ہوں، ان کو کوئی ثواب نہیں دیا جائے گا۔
اسی طرح آخرت میں دائمی ثواب یا دائمی عذاب میں بھی نیت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
إنّما خُلِّدَ أهلُ النّارِ في النّارِ لأنّ نِيّاتِهِم كانَت في الدُّنيا أن لَو خُلِّدوا فيها أن يَعصُوا اللہَ أبدا ، وإنّما خُلِّدَ أهلُ الجَنّةِ في الجَنّةِ لأنّ نِيّاتِهِم كانَت في الدُّنيا أن لَو بَقُوا فيها أن يُطِيعوا اللہَ أبَدا ، فبِالنِّيّاتِ خُلِّدَ هؤلاءِ وهؤلاءِ ، ع مّ تَلا قولَهُ تعالى : -قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلى شاكِلَتِهِ)(الإسراء : ۸۴)قالَ : على نِيَّتِهِ .(الكافي : ۲ / ۸۵ / ۵ )
اہل جہنم کو ہمیشہ کی سزا اس لئے ملے گی کیونکہ دنیا میں ان کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے تو ہمیشہ خدا کی نافرمانی کرتے رہیں گے ۔ اور اہل بہشت کو دائمی بہشت اس لئے ملے گی کہ ان کی نیت دنیا میں یہ تھی کہ اگر وہ اس میں ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گے تو اس کی فرمانبرداری میں رہیں گے ۔ پس یہی وہ وجہ ہے کہ وہ دائمی جہنم کے مستحق قرار پا ئے اور یہ ہمیشہ کی بہشت کے مستحق قرار پائے ۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام سے روایت ہے:
على قَدرِ النِّيَّةِ تَكونُ مِن الله العَطِيَّةُ. (غرر الحكم : ۶۱۹۳)
نیت کی مقدار کے تحت ہی اللہ کی طرف سے عطیہ ملتا ہے ۔

ہر کام میں اچھی نیت ملحوظ رکھنی چاہیئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
يا أبا ذرٍّ، لِيَكُن لَكَ في كُلِّ شَيءٍ نِيَّةٌ صالِحَةٌ، حتّى في النَّومِ والأكلِ . (مكارم الأخلاق : ۲ / ۳۷۰ / ۲۶۶۱)
اے ابو ذر رح !ہر کام میں تمہاری نیت خالص ہونی چاہیے حتیٰ کہ نیند او ر کھانے میں بھی ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام:
لابُدَّ لِلعَبدِ مِن خالِصِ النِّيَّةِ في كُلِّ حَرَكَةٍ وسُكونٍ ؛ لأ نَّهُ إذا لَم يَكُن هذا المَعنى يَكونُ غافِلاً .(بحارالانوار : ۷۰ / ۲۱۰ / ۳۲)
بندہ کے لئے ہر حرکت اور سکو ن میں خالص نیت ہونی چا ہئے ۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو وہ غافل شمار ہو گا۔
نیک نیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أفضَلُ العَمَلِ النِّيَّةُ الصّادِقَةُ. (كنزالعمّال : ۷۲۳۸)
افضل ترین عمل سچی نیت ہے ۔
امام علی علیہ السلام:
جَميلُ النِّيَّةِ سَبَبٌ لِبُلوغِ الاُمنِيَّةِ. (غرر الحكم : ۴۷۶۶)
اچھی نیتیں امیدوں تک پہنچنے کا سبب ہوتی ہیں ۔
امام جعفر صاد ق علیہ السلام: مَن حَسُنَت نِيَّتُهُ زادَ اللهُ في رِزقِهِ .(المحاسن : ۱ / ۴۰۶ / ۹۲۲)
جس کی نیت نیک ہوتی ہے اللہ اس کے رزق میں اضافہ کر دیتا ہے ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام سے عبادت کی کم سے کم حد کے بارے میں سوال کی گیا:
لَمّا سُئلَ عن حَدِّ العِبادَةِ التي إذا فَعَلَها: حُسنُ النِّيَّةِ بالطاعَةِ.(الكافي : ۲ / ۸۵ / ۴)
تو آپ ع نے فرمایا :نیک نیتی کے ساتھ اطاعت گزاری کرنا
امام علی علیہ السلام: عِندَ فَسادِ النِّيَّةِ تَرتَفِعُ البَرَكَةُ . (غرر الحكم : ۶۲۲۸)
نیت کی خرابی کے وقت برکت اٹھ جاتی ہے۔
امام علی علیہ السلام:
إذا فَسَدَتِ النِّيَّةُ وَقَعَتِ البَلِيَّةُ . (غرر الحكم : ۴۰۲۱)
جب نیت خراب ہو جاتی ہے تو بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام: إنّ المُؤمنَ لَيَنوي الذَّنبَ فيُحرَمُ رِزقَهُ .(بحارالانوار : ۷۱ / ۲۴۷ / ۶)
مومن جب گناہ کی نیت کرتا ہے تو روزی سے محروم ہوجاتا ہے ۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button