خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:120) موضوع: بھائی چارہ گی کی اہمیت و ضرورت

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 29 اکتوبر 2021ء بمطابق 22 ربیع الاول 1443 ھ)

                         تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آبادخطبہ کے متعلق اپنی قیمتی آراء اور تبصروں کے لیے اس نمبر پر وٹس ایپ کریں:
03465121280ہادی ہیلپ لائن
دینی و فقہی مسائل سے آگاہی اور سوالات کے جوابات کے لیے ایک منفرد سروس "ہادی ہیلپ لائن” کے نام سے بنائی گئی ہے کہ جہاں مستند علماء کرام کی رہنمائی میں آپ اپنے شرعی و فقہی مسائل سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مندرجہ ذیل نمبر پر اپنا سوال وٹس ایپ ٹیکسٹ یا وائس میسج کے ذریعے ارسال کریں۔
HadiHelpline Whatsapp: 03465121270

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

اسلام ایک عالمی دین ہے اور اُس کے ماننے والے عرب ہوں یا عجم، گورے ہوں یا کالے، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں، مختلف زبانیں بولنے والے ہوں، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اُخوت کی بنیاد ہی ایمانی رشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اُخوت کی بنیادیں ہیں، سب کمزور ہیں اور اُن کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اُخوتِ اسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی۔

قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ ربانی ہے:

’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘                 (الحجرات:۱۰ )

مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں،

ایمان کا رشتہ ایک آفاقی رشتہ ہے۔ اس آفاقی رشتہ اخوت سے منسلک ہونے سے ایک عالمی برادری قائم ہو جاتی ہے۔ اگر مسلمان اس عالمی برادری سے فائدہ اٹھاتے تو کرۂ ارض کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ یہ عالم گیریت کا اسلامی تصور ہے جو ایمان پر قائم ہے۔

اسلامی اخوت کا تصور وہ نہیں ہے جسے دوسرے لوگ بھی عالمی برادری وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں بلکہ یہاں اخوت کا صحیح معنوں میں مطلب دو انسانوں کے درمیان موجود مضبوط و نزدیک ترین رشتہ ہے۔ یہ صرف ایک تعبیر یا لفظی تعارف نہیں ہے بلکہ یہ رشتہ ایک حقیقت ہے۔ حدیث میں ہے:

۔۔۔ لِاَنَّ الْمُؤْمِنُ اَخُ الْمُؤْمِنِ لِاَبِیہِ وَ اُمِّہِ۔۔۔۔ (مستدرک الوسائل ۸۵: ۲۳۱)چونکہ مومن دوسرے مؤمن کا ماں باپ دونوں طرف سے بھائی ہے۔

اس حقیقت پر بہت سے آثار و نتائج مترتب ہوتے ہیں اور مومن بھائی کے ذمے دوسرے مومن بھائی کے وہ حقوق ہیں جنہیں ائمہ علیہم السلام بیان کرنے سے اس لیے تأمل کرتے تھے کہ ان حقوق کا علم ہو جانے کے بعد کہیں ادا نہ ہوں تو ذمہ داری آ جاتی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا عُبِدَ اللہُ بِشَیْئٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَائِ حَقِّ الْمُؤْمِنِ۔ (الکافی ۲: ۱۷۰)مومن کا حق ادا کرنے سے بہتر کسی اور چیز سے اللہ کی بندگی نہیں کی گئی۔

متعدد روایات میں مومن برادر کے حقوق کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں:

I۔ اسے بھوکا نہ رکھنا۔

Ii۔ اسے لباس کی ضرورت ہو تو لباس فراہم کرنا۔

Iii۔ اس کی پریشانی دور کرنا۔

Iv۔ اس کا قرض ادا کرنا۔

V۔ فوت ہونے کی صورت میں اس کے بال بچوں کی سرپرستی کرنا۔ (الکافی ۲: ۱۶۹)

Vi۔ ظالم کے خلاف اس کی مدد کرنا ۔

Vii۔ اس کے غائب ہونے کی صورت میں مسلمانوں میں تقسیم ہونے والی چیزیں اس کی طرف سے وصول کرنا۔

Viii۔ اس کی مدد نہ چھوڑنا۔

Ix۔ اس کے لیے اف نہ کرنا۔ (الکافی ۲: ۱۷۱)

X۔ مریض ہو تو عیادت کرنا۔

Xi۔ اس کی دعوت قبول کرنا۔

Xii۔ اسے چھینک آنے کی صورت میں دعا دینا۔ (الکافی ۲: ۶۵۴)

Xiii۔ اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دینا۔ (مستدرک الوسائل ۷: ۲۱۲)

Iv۔ بیٹھنے کے لیے اسے جگہ دینا۔

Xv۔ وہ آپ سے بات کر رہا ہو تو اس کی طرف توجہ دینا۔

Xvi۔ جب اٹھ کر جانا چاہے، خدا حافظی کرنا۔ (مستدرک الوسائل ۸: ۳۲۰)

Xvii۔ اگر آپ کے پاس خادم ہو، اس کے پاس نہ ہو تو اپنا خادم اس کی خدمت گزاری کے لیے بھیجنا۔ (مستدرک الوسائل۹:۴۸)

انماالمؤ منون اخوة    کاجملہ جواوپر والی آ یت میں آ یاہے ایک اساسی اور بنیادی اسلامی شعار ہے .ایسا شعار جوبہت ہی مضبوط ،عمیق ، مؤ ثر اورپُر معنی شعار ہے ۔

دوسرے مسلک کے لوگ جب اپنے ہم مسلک لوگوں کے ساتھ زیادہ تعلق اورلگاؤ کااظہار کرتے ہیں  تووہ انہیں رفیق کے عنوان سے یاد کرتے ہیں، لیکن دوسرے کے ساتھ نزدیک ترین تعلق کی صورت میں ، اور اس تعلق کو بھی مساوات اور برابری کی بنیاد پرپیش کرتاہے، اوروہ دو بھائیوں کاایک دوسرے کے ساتھ تعلق ہے ۔

اس اہم اسلامی اصل کی بناپر مسلمان چاہے،جس نسل سے ہوں ، یاجس قبیلہ سے ، چاہے کوئی سی زبان بولتے ہوں، اورکسی سن وسال کے ہوں، ایک دوسرے سے برادری کاعمیق احساس رکھتے ہیں ،چاہے ان میں سے ایک دُنیا کے مشرق میں رہتاہو اور دوسرا مغرب میں زندگی بسرکرتاہو ۔ اسلام تمام مسلمانوں کوایک خاندان سمجھتاہے اور سب کوایک دوسرے سے بہن بھائی کہہ کر خطاب کرتاہے،نہ صرف الفاط میں اورنعرے کے طورپر ،بلکہ عمل میں، اور آپس کی ذمہ داریوں میں سب بہن بھائی ہیں ۔

اسلامی روایا ت میں بھی اس مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے،خاص طورپراس کے عمل پہلو ؤ ں کواُجاگر کیاگیاہے ۔

ہم ذیل میں چند پُر معنی احادیث آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

١۔ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام  سے منقول ہے ۔

اَلْمُسْلِمُ أَخُو اَلْمُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَ لاَ يَخْذُلُهُ وَ لاَ يَحْرِمُهُ

مسلمان مسلمان کابھائی ہے، وہ ہرگز اس پرظلم وستم نہیں کرتا، اس کی مدد سے دستبردار نہیں ہوتااوراس کو محروم نہیں رکھتا۔ط( الکافی  ,  جلد۴  ,  صفحہ۵۰ ) ۔

٢۔ایک اورحدیث میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نقل ہواہے ۔

مثل الاخوین مثل الیدین یغسل الحداھما الاخر۔

دو دینی بھائی دونوں ہاتھوں کے مانند ہیں، جن میں سے ہرایک دوسرے کودھوتاہے (ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہمکاری رکھتے ہیں اورایک دوسرے کے عیوب کوپاک صاف کرتے ہیں)( المحجۃ البیضائ ،صفحہ ٣١٩۔) ۔

٣۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ۔

اَلْمُؤْمِنُ أَخُو اَلْمُؤْمِنِ كَالْجَسَدِ اَلْوَاحِدِ إِذَا اِشْتَكَى شَيْئاً مِنْهُ وَجَدَ أَلَمَ ذَلِكَ فِي سَائِرِ جَسَدِهِ

مو من ، مومن کابھائی ہے ،اوروہ سب ایک جسم کے اعضاء کے مانند ہیں، اگران میں سے کسی ایک عضو کوتکلیف ہوتی ہے تو  اس کا درد پورے جسم میں محسوس ہوتا ہے۔ (یعنی ایک مومن کا درد دوسرا مومن محسوس کرتا ہے)(  المؤمن  ,  جلد۱  ,  صفحہ۳۸)

٤۔ ایک دوسری حدیث میں اسی امام علیہ اسلام سے منقول ہے ۔

اَلْمُؤْمِنُ أَخُو اَلْمُؤْمِنِ عَيْنُهُ وَ دَلِيلُهُ لاَ يَخُونُهُ وَ لاَ يَظْلِمُهُ وَ لاَ يَغُشُّهُ وَ لاَ يَعِدُهُ عِدَةً فَيُخْلِفَهُ .

مو من ،مو من کابھائی ہے،وہ اس کی آنکھ کی مانند ہے اور اس کارہنماہے ،وہ اس کے ساتھ کبھی خیانت نہیں کرتااوراس پر ظلم وستم روانہیں رکھتا، اس سے پھرتانہیں ،اورجو وعدہ اس کے ساتھ کرتاہے اس سے تخلف نہیں کرتا،( اصول کافی جلد٢،صفحہ ١٣٣ ( باب اخوة المؤ منین بعضہم لبعض حدیث ٣، ٤)

حدیث کے معروف اسلامی مآخذوں اورمنابع میں، مو من کے اپنے مسلمان بھائی پرحقوق اورمو منین کے ایک دوسرے پرحقوق کے انواع واقسام ،ایمانی بھائیوں کے دیدار مصافحہ ، معانقہ اورانہیں یاد کرنے اوران کے دل کو مسرور اور خوش کرنے ،خصوصاً مو منین کی حاجات کوپوراکرنے اوران امور کی انجام دہی میںسعی وکوشش کرنے ،اوران کے دل سے غم واندوہ کودُور کرنے اورانہیں کھانا کھلانے ،کپڑے پہنانے اوران کااکرام واحترام کرنے کے ثواب کے بارے میں بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں ، جس کے اہم حصّوں کو اصولِ کافی کے مختلف ابواب میں اوپروالے عنوانات کے تحت مطالبہ کیاجاسکتاہے ۔

٥۔ اس بحث کے آخر میں ہم ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مؤ من کے اس کے مو من بھائی پرتیس حقوق کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جواس سلسلہ میں جامع ترین روایت ہے ۔

قال رسول اللہ (ص):  لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ ثَلاَثُونَ حَقّاً – لاَ بَرَاءَةَ لَهُ مِنْهَا إِلاَّ بِالْأَدَاءِ أَوِ اَلْعَفْوِ يَغْفِرُ زَلَّتَهُ وَ يَرْحَمُ عَبْرَتَهُ وَ يَسْتُرُ عَوْرَتَهُ وَ يُقِيلُ عَثْرَتَهُ وَ يَقْبَلُ مَعْذِرَتَهُ وَ يَرُدُّ غِيبَتَهُ وَ يُدِيمُ نَصِيحَتَهُ وَ يَحْفَظُ خُلَّتَهُ وَ يَرْعَى ذِمَّتَهُ وَ يَعُودُ مَرْضَتَهُ وَ يَشْهَدُ مَيِّتَهُ وَ يُجِيبُ دَعْوَتَهُ وَ يَقْبَلُ هَدِيَّتَهُ وَ يُكَافِئُ صِلَتَهُ وَ يَشْكُرُ نِعْمَتَهُ وَ يُحْسِنُ نُصْرَتَهُ وَ يَحْفَظُ حَلِيلَتَهُ وَ يَقْضِي حَاجَتَهُ وَ يَشْفَعُ مَسْأَلَتَهُ وَ يُسَمِّتُ عَطْسَتَهُ وَ يُرْشِدُ ضَالَّتَهُ وَ يَرُدُّ سَلاَمَهُ وَ يُطِيبُ كَلاَمَهُ وَ يَبَرُّ إِنْعَامَهُ وَ يُصَدِّقُ إِقْسَامَهُ وَ يُوَالِي وَلِيَّهُ وَ لاَ يُعَادِيهِ وَ يَنْصُرُهُ ظَالِماً وَ مَظْلُوماً فَأَمَّا نُصْرَتُهُ ظَالِماً فَيَرُدُّهُ عَنْ ظُلْمِهِ وَ أَمَّا نُصْرَتُهُ مَظْلُوماً فَيُعِينُهُ عَلَى أَخْذِ حَقِّهِ وَ لاَ يُسْلِمُهُ وَ لاَ يَخْذُلُهُ وَ يُحِبُّ لَهُ مِنَ اَلْخَيْرِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ وَ يَكْرَهُ لَهُ مِنَ اَلشَّرِّ مَا يَكْرَهُ لِنَفْسِهِ

پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: مُسلمان اپنے مسلمان بھائی پرتیس حق رکھتاہے،جن سے وہ بری الذ مہ نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ ان حقوق کوادانہ کردے، یااس کامسلمان بھائی اس کو معاف کردے ۔

اس کی لغزشو ںکو معاف کردے ، اس کی پریشانی میں اس پرمہربانی کرے ، اس کے رازوں کوپوشیدہ رکھے اس کی غلطیوں کی تلافی کرے ،اس کے عذر کوقبول کرے، بدگوئی کرنے والوں سے اس کادفاع کرے ،ہمیشہ اس کاخیر خواہ رہے ، اس کی دوستی کی پاسداری کی حالت میں اس کے جنازہ میں حاضر ہو ۔

اس کی دعوت کوقبول کرے ،اس کے ہدیہ کوقبول کرے اس کے عطیہ کابدلہ دے ،اس کے احسان کاشکر یہ اداکرے اس کی مدد کرمیں کوشش کریاس کی عز ت و ناموس کی حفاظت کرے ، اس کی حاجت پوری کرے .اس کی درخواست کی شفاعت کرے، اوراس کی چھینک پر یرحمک اللہ کہے ۔

اس کی گمشدہ چیزوں کی رہنمائی کرے ،اس کے سلام کاجواب دے ،اس کی گفتگو کواچھا سمجھے، اس کے انعام کوخوب قرار دے ، اس کی مدد میں کوشش کرے چاہے وہ ظالم ہویامظلو م ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اس کوظلم کرنے سے رو کے ، اور مظلو م ہونے کی صورت میں اس کی مدد یہ ہے کہ اس کی اس کاحق حاصل کرنے میں مدد کرے ۔

اسے حوادث زمانہ کے مقابلہ میں تنہانہ چھوڑ ے ،نیکیوں اوراچھائیوں میں سے جن چیزوں کواپنے لیے پسند کرتاہے اس کے لیے بھی پسند کرے اور برائیوں میں سے جن چیزوں کواپنے لیے نہیں چاہتااس کے لیے بھی نہ چاہیے۔ (بحارالانوار ،جلد ٧٤ ،صفحہ ٢٣٦۔)

بہرحال مسلمانوں کے ایک دوسرے پرحقوق میں سے ایک مدد کرنا اورآپس میں اصلاح کرناہے، جس طرح سے کہ اوپروالی آ یت اورروایت میں آ یاہے ۔

اُمت میں اُخوتِ اسلامی پیدا کرنے کے لیے محبت، اخلاص، وحدت اور خیر خواہی جیسی صفات لازمی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی نعمت شمار ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے اس صفت کو بطور نعمت ذکر فرمایا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:

’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْکُنْتُمْ أَعْدَائً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ إِخْوَانًا۔‘‘    (آلِ عمران: ۱۰۳)

اور تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے

اس امت کے حال کو ماضی سے مربوط کر کے یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ ایک قیمتی تجربہ ہے کہ اللہ کی مضبوط رسی کو تھامنے سے پہلے آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے اور کفر و گمراہی اور دشمنی کے شعلوں کی لپیٹ میں تھے۔ اسلام کے زیر سایہ آنے کے بعد، امن و محبت اور سکون و اطمینان کی فضا اور اسلامی اخوت و برادری کے پرکیف ماحول میں تمہاری یہ سرگزشت تمہارے سامنے ہے۔ اسی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا حال بھی متعین کرو اور خبردار رہو کہ کہیں لا علمی کی وجہ سے آگ کے گڑھے کے کنارے کی طرف دوبارہ پلٹ نہ جاؤ۔

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔

اللہ کی رسی سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسول (ص) ہیں۔ بعض احادیث کے علاوہ سابقہ آیت (۱۰۱) اس بات کی دلیل ہے جس میں فرمایا: تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ۔۔۔ تمہیں اللہ کی آیات سنائی جا رہی ہیں اور تمہارے درمیان اللہ کا رسول بھی موجود ہے۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا:

وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔اور جو اللہ سے متمسک ہو جائے، وہ ضرور راہ راست پا لے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے متمسک ہونے سے مراد اس کی کتاب اور اس کے رسول (ص)سے متمسک ہونا ہے۔ اللہ سے متمسک ہونے کا حکم دینے کی بجائے اللہ کی رسی سے متمسک ہونے کا حکم دیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی اس کی کتاب اور اس کے ر سول (ص) ہیں۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ حَبْل اللہ سے مراد قرآن ہے۔(المیزان ۳: ۳۷۸)

تفسیر عیاشی میں مذکورہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

آلُ مْحَمَّدٍ ُھْم حَبْلُ اللہِ الَّذِیْ اَمَرَ بِالْاِعْتِصَامِ بِہِ۔ (بحار الانوار ۲۴: ۸۵۔ تفسیر العیاشی ۱: ۱۰۴ (چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ))آل محمدؐ ہی وہ حَبْل اللہ ہیں جن سے متمسک ہونے کا حکم قرآن میں آیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے ابان بن تغلب اور ابو حفص الصائغ روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:

نَحْنُ حَبْلُ اللہِ۔ (شواہد التنزیل ۱: ۱۶۹۔ تفسیر ثعلبی بنقل الصراط المستقیم ۱: ۲۸۶)حبل اللہ ہم ہیں۔

ابن جبیر نے اپنی کتاب نخب میں عبدی سے روایت کی ہے اور محمد بن علی عنیری نے بھی اپنی سند سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (ص) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

ہَذَا حَبْلُ اللّٰہِ فَاعْتَصِمُوْا بِہِ۔ (الصراط المستقیم ۱: ۲۸۶۔ المناقب لابن شہر آشوب ۳: ۷۶)یہ حبل اللہ ہیں ان سے متمسک رہو۔

ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ حدیث ثقلین سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن و اہل البیت (ع) دونوں حَبْل اللہ ہیں اور یہ اس بات کے بھی منافی نہیں ہے کہ قرآن اور سنت رسول (ص) حَبْل اللہہیں۔ کیونکہ اہل بیت رسول (ص) ہی سنت رسول (ص)کے محافظ، امت رسول (ص) کے امام اور جانشین رسول (ص) ہیں۔

حدیث ثقلین

عن ابی سعید الخدری ، قال رسول اللہ: اِنِّیْ تَاِرِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کَتَابَ ﷲِ عَزَّ وَ َجَّل حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَیْنَ السَمَائِ وَ اْلَارَضِ وَ عِتْرَتْیِ اَھْلَ بَیْتِیْ۔ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک اللہ کی کتاب جو ایک لمبی رسی ہے آسمان اور زمین کے درمیان، دوسری میری عترت، میرے اہل بیت ہیں۔

یہ حدیث رسول اکرم (ص) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔

واضح رہے کہ قرآن و رسول (ص) اور اہل بیت رسول (ص) حَبْل اللہ کی تشکیل کے لیے ارکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ مجموعی طور پریہ سب حَبْل اللہ ہیں۔

تمت بالخیر

ڈاؤنلوڈ PDF:

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button