سیرت امام حسین سید الشھداؑ

تحریک کربلا میں غلاموں کا کردار

تحریر: ڈاکٹر سید مشتاق مہدی مظفر گڑھ

تحریک کربلا میں غلاموں کا کردار

تحریر: ڈاکٹر سید مشتاق مہدی مظفر گڑھ

ظہور اسلام کے وقت دنیا میں غلامی کا دور تھا۔ اس وقت تک غلامی معاشرتی،ثقافتی اور معاشی نظام کا ناگزیر جز بن چکی تھی اور اس کی جڑیں اجتماعی معاشرتی ڈھانچے میں گہری پیوست ہو چکی تھیں۔ ابنائے زمانہ کے مزاج مکمل اس کی گرفت میں آ چکے تھے۔  ان کی نفسیات اسے نارمل معاشرتی رویہ تسلیم کر چکی تھی جبکہ شخصی،سماجی،اقتصادی زندگی کی بے شمار مصلحتیں اس سے وابستہ ہو چکی تھیں لہٰذا ممکن نہ تھا کہ ایک حکم نامے کے ذریعے غلامی پر پابندی لگا دی جاتی اور بغیر کسی متبادل نظام کے تمام کنیزوں اور غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا۔ آبادی کا بڑا حصہ جو غلاموں اور کنیزوں کی شکل میں موجود تھا، ان کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں تھا، نہ خاندان، نہ مکان اور نہ ہی کوئی وسیلہ روزگار۔ ان غلاموں اور کنیزوں کی تمام تر ضروریات ان کے آقا اور مالک پورا کرتے تھے اگرچہ کہ وہ ان سے کمر توڑ مشقت لیتے۔

ریاست اسلامی جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی،اتنے وسائل نہیں رکھتی تھی کہ ان نو آزادگان کی ضرورتوں کا بوجھ اٹھا سکتی۔ اس مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور تدریجی پالیسی اختیار کی گئی۔ اس پالیسی کے بنیادی نکات یہ تھے:

1) اسلامی ریاست کے سامنے اہم ترین کام غلاموں میں ایک ذہنی انقلاب لانا تھا اور یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ اسی طرح مکمل انسان ہیں جس طرح کہ ان کے مالک اور آقا ہیں۔ غلام بھی وہ تمام انسانی صلاحیتیں اور قابلیتیں رکھتے ہیں جو دوسرے انسان رکھتے ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ہر انسانی شرف سے نوازا ہے  لہٰذا وہ کسی لحاظ سے اپنے آقاؤں سے کم تر نہیں ہیں بلکہ وہ اسلامی ریاست کے معزز اور مفید شہری ہیں۔ قرآن نے سورہ نساء میں فرمایا:

بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۔۔۔ تم سب ایک ہی پیکر کے مختلف اجزاء ہو

یعنی ہر صاحب ایمان خواہ وہ غلام ہے یا آزاد امت مسلمہ کا اہم حصہ اور جز ہے جبکہ ارزش اور منزلت کا معیار تقوی ہے۔

2) نبی کریمؐ نے غلامانہ ذہنیت کے خاتمے اور غلاموں کی نفسیاتی کیفیات کو آزاد منشی میں بدلنے کے لیے مدینے میں مؤاخات کا نظام قائم کیا تو آپؐ نے عرب سرداروں کو غلام مومنوں کا بھائی بنا دیا۔ اس مؤاخات میں بلال بن رباح کو خالد بن رویحۃ الخثعمی کا، زید کو حضرت حمزہ کا اور خارجہ بن زید کو حضرت ابوبکر کا بھائی قرار دیا اور یوں غلامی کے احساس کمتری کو برابری کے احساس میں بدل دیا۔ غلامانہ ذہنیت سے چھٹکارا بہت بڑی انسانی خدمت تھی

3 غلاموں اور کنیزوں کو اسلامی معاشرے میں جذب کرنے کے لیے یہ حکم ہوا کہ مسلمان کنیزوں سے نکاح کیا جائے،یوں انہیں آزادی کی نعمت بھی مل جائے گی اور محکم سہارا بھی میسر آ جائے گا،ارشاد ہوا:وَ مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ مِّنۡ فَتَیٰتِکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕوَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِکُمۡ ؕاور اگر تم میں سے کوئی مالی رکاوٹ کی وجہ سے آزاد مسلم عورتوں سے نکاح کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو تو (اسے چاہیے کہ) وہ تمہاری مملوکہ مسلمان لونڈی سے نکاح کرے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے۔(سورہ نساء)

4) اسلام نے اپنے دستورالعمل میں مسلمانوں کو حکم دیا جو خود کھاؤ، وہی غلاموں کو کھلاؤ ۔ جو خود پہنو وہی غلاموں کو پہناؤ۔ یہاں تک تو بات برابری اور مساوات کی تھی مگر اس سے اگلا حکم احسان کرنے کا دیا اور احسان کا درجہ بھی وہی رکھا جو والدین کے لیے رکھا۔

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَااور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کے ساتھ احسان کرو، بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔(سورہ نساء)

5) ان تمام باتوں کے علاوہ غلاموں کی کامل آزادی کے لیے دو مزید قدم اٹھائے گئے:

العتق۔ مکاتبت

العتق یعنی آقاؤں کا غلاموں کو رضا کارانہ آزاد کر دینا۔ اس رضا کارانہ کام کی ترغیب و تحریص کے لیے بہت زیادہ اجر و ثواب بیان کئے گئے، سورہ بلد میں اصحاب المیمنہ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ گردنوں کو چھڑاتے ہیں ۔فَکُّ رَقَبَۃٍگردن کو (غلامی سے) چھڑانا

مختلف گناہوں کے کفارے میں غلاموں کی ازادی کی شرط عائد کر دی اور پھر ریاستی وسائل یعنی سرکاری خزانے اور بیت المال سے ان کی آزادی کے لئے فنڈنگ کی گئی یہاں تک کہ زکوٰۃ و صدقات میں ایک حصہ غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے مختص کر دیا گیا اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔

یہ صدقات تو صرف فقیروں،مساکینوں اور صدقے وصول کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (سورہ توبہ)

مکاتبت یعنی آقا اور غلام کے درمیان تحریری معاہدے کے تحت آزادی،اس معاہدے میں ایک رقم طے ہو جاتی جسے ادا کرنے کے بعد غلام آزاد ہو جاتا۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی ممکن نہ تھی کیونکہ اسلامی ریاست نہ صرف غلام کی پشت پناہی کے موجود ہوتی تھی بلکہ اس رقم کی ادائیگی میں معاون و مددگار بھی تھی۔ ان تمام حکیمانہ اقدامات کے ذریعے غلامی کا قلع قمع بھی ہو گیا اور سب غلام معاشرہ اسلامی کے مفید شہری بھی بن گئے پھر انہوں نے معاشرے کی ترقی و خوشحالی کے لیے وہ مثالی کار ہائے نمایاں انجام دیئے جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے۔

اسلامی معاشرے کی مثالی اکائی علی و فاطمہ علیہما السّلام کا گھرانہ تھا جس میں فضہ کنیز بن کر آئیں تو علی مولا نے بہن کہہ کر پکارا، حسنین شریفین نے اماں کہا، سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا نے تقسیم کار کچھ یوں کی کہ ایک دن فضہ کام کرے گی اور فاطمہ آرام کرے گی، دوسرے دن فاطمہ کام کرے گی اور فضہ آرام کرے گی۔ ایسی کنیزی پر تو ہزاروں آزادیاں قربان۔ ایک دن مولا علی مرتضیٰ علیہ السلام دو جوڑے کپڑوں کے لائے، ایک ذرا بہتر تھا اور دوسرا ذرا کم تر، دونوں قنبر کے سامنے رکھ کر کہا جو پسند آئے، لے لو۔ قنبر نے سوچا بہتر کپڑا آقا کا حق ہے لہٰذا نسبتاً کمتر کو چن لیا۔مولائے کائنات علی علیہ السلام نے فرمایا:  ” قنبر تم جوان ہو،تم میں جوانی کا ولولہ ہے لہٰذا یہ بہتر جوڑا تم پر خوب سجے گا”بہتر غلام کو عطا اور کمتر کو اپنے لیے رکھا۔ اس پر احسان نہیں جتایا بلکہ جوان کہہ کر اس کی عزت نفس کو بلند کر دیا۔

ہمارا موضوع کربلا ہے تو اس مناسبت سے امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے دو واقعے بیان کیے دیتے ہیں تاکہ توضیح مطالب میں آسانی ہو۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے پہلے ایک کنیز کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنے عقد میں لے لیا۔ اس پر معاویہ بن سفیان نے اموی جبلت کے تحت اعتراض کیا اور اس بارے میں آنجناب کو خط لکھا۔ امام عالی مقام نے جواب میں تحریر فرمایا:تمہارا نوشتہ ملا جس میں تم نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ میں نے اپنی آزاد کردہ کنیز سے عقد کر لیا ہے اور قریش میں سے کسی برابر کی لڑکی سے شادی نہیں کی تو ظاہر ہے رسول اللہ کی قرابت سے بڑھ کر (جو مجھے حاصل ہے) نہ تو کوئی شرف ہے، نہ ہی کوئی نسب ہے۔ وہ پہلے میری کنیز تھی جسے میں نے ثواب کے لیے آزاد کر دیا اور پھر پیغمبر ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسے عقد میں لے لیا۔ خدا وند عالم نے اسلام کے ذریعہ ہر پستی کو بلندی بخش دی ہے اور اسلام کے ذریعہ ہم (مسلمانوں) سے ہر کمی دور کر دی ہے لہٰذا مرد مسلمان اسی وقت مستحق ملامت ہے جب اس سے گناہ کا ارتکاب ہو۔ ذلیل،گھٹیا اور بڑی کمینگی تو یہ ہے کہ مسلمان ہو کر کوئی جاہلیت کی ذہنیت پر برقرار رہے۔(رسالہ بلاغۃ الحسین/ سعادتِ الدارین)

حضرت امام حسین علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کتے کو روٹی کھلا رہا ہے۔ آپ نے سبب پوچھا تو اس نے کہا: میں غمزدہ ہوں اور اس جانور کو خوش کر کے اپنی خوشی کا خواہشمند ہوں۔ میں مسلمان ہوں اور میرا مالک یہودی ہے جس سے آزادی چاہتا ہوں۔ امام علیہ السّلام فرماتے ہیں: اس وقت میرے سامنے نانا کا یہ فرمان آیا: افضل الاعمال بعد الصلاۃ دخال السرور فی قلب المومنین بما لا اثم فیہ نماز کے بعد بہترین عمل یہ ہے کہ بغیر گناہ کا ارتکاب کئے اہل ایمان کو خوش کیا جائے۔چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے دو سو دینار لیے اور یہودی کے پاس جا کر اپنا مدعا بیان کیا۔

یہودی نے کہا: " الغلام فداہ لخطاک و ھذا البستان لہ و رددت علیک المال ” غلام آپ کے قدموں کا صدقہ،آپ کا ہوا اور یہ باغ بھی اس کا ہوا مزید یہ کہ آپ کی رقم بھی واپس کرتا ہوںامام نے کہا: " و انا قد وھبت لک المال” میں یہ رقم آپ کو ہبہ کرتا ہوں۔

یہودی نے کہا: ” قبلت المال و وھبتہ للغلام۔” میں اسے قبول کر کے غلام کو ہبہ کرتا ہوں۔

امام نے فرمایا: ” اعتقت الغلام و وھبت لہ جمیعا ” اور میں نے غلام کو (جو میری ملکیت میں داخل ہوچکا ہے) آزاد کرتا ہوں اور یہ سب مال منال اسے بخشتا ہوں۔یہ دیکھ کر یہودی کی بیوی نے کہا: ” قد اسلمت و وھبت زوجی مھری ” میں اسلام قبول کرتی ہوں اور اپنا حق مہر بھی شوہر کو معاف کرتی ہوں۔ یہودی کی بیوی اسلام لا چکی تو یہودی نے کہا: ” و انا ایضاً اسلمت و اعطیتھا ھذا الدار۔” میں بھی اسلام لاتا ہوں اور یہ گھر بھی اپنی بیوی کو عطا کرتا ہوں۔ (دمعۃ الساکبہ/ مناقب شہر آشوب/ سعادت الدارین)

یہ اخلاقی قدریں ان کی ہیں جنہوں اخلاق اسلامی کو بلا واسطہ رسول اکرم سے لیا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ غلام دکھ و مصیبت کی گھڑی میں ان کا ساتھ چھوڑ جاتے، یہ نفوس قدسیہ تو غلاموں کی تعلیم و تربیت اسی طرح کرتے جس طرح اپنے بچوں کی جاتی ہے۔ آئیے اب چند جانثار غلاموں کا تذکرہ کرتے ہیں:

منجح بن سہم   :

امام حسین علیہ السلام کی "حسنیہ” نامی ایک کنیز تھی. جسے آپ علیہ السلام نے نوفل بن الحارث بن عبدالمطلب سے خریدا تھا اور اس کی شادی "سہم” کے ساتھ کردی. اس کنیز کے بطن سے منجح پیدا ہوئے. ” حسنیہ ” حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے گھر کام کرتی تھیں . عالی مقام امام حسین علیہ السلام کو سفر عراق درپیش ہوا تو منجح والدہ سمیت ہمسفر بنے اور میدان کربلا میں بہادری کے ساتھ اپنے آقا پر قربان ہو گئے ۔

اس بات کو علامہ شیخ عبداللہ مامقانی نے "تنقیح المقال فی علم الرجال "میں درج کیا ہے. البتہ شیخ محمد بن طاہر سماوی نجفی نے ” ابصارالعین ” میں منجح کو امام حسن علیہ السلام کا غلام  لکھا ہے. زیارت شہدأ جو ناحیۂ مقدسہ کی طرف نسبت رکھتی ہے، اس میں ان کو امام حسین کا غلام کہہ کر سلام کیا گیا ہے۔کتاب "شہدأ کربلا ” میں علامہ سید علی نقی نے ان کا نام ” منحج ” لکھا ہے۔ آپ حملۂ اولی میں شہید ہوئے اور حسان بن بکر حنظی نے آپ کو قتل کیا۔

نصر بن ابی نیزر   :

ابی نیزر کون تھے؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔

محدث نوری نے "مستدرک” میں اور عسقلانی نے "اصابہ ” میں لکھا ہے کہ ابی نیزر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے فرزند تھے۔ابھی چھوٹے سے تھے کہ مدینہ آئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔نجاشی کی وفات کے بعد اہل حبشہ نے چاہا کہ وہ باپ کی مسند پر متمکن ہوں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ان کی درخواست رد کر دی کہ زندگی بھر کی تمہاری بادشاہت سے خدمت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک ساعت میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے۔

ابو العباس المبرد نے ” الکامل” میں انہیں سلاطین عجم کی اولاد قرار دیا ہے۔ رسول اللہ کی وفات کے بعد علی امیرالمومنین علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہو گئے۔ حضرت علی علیہ السلام کے کنویں کھودنے اور وقف کرنے کی طویل روایت انہیں سے منقول ہے۔

انہی بزرگوار کے فرزند "نصر ” مدینہ سے قافلہ حسینی کے ساتھ چلے اور روز عاشور درجہ شہادت پر فائز المرام ہوئے۔

سعد بن حارث: 

یہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کے غلام تھےعلامہ مامقانی کے مطابق انہوں نے زمانہ پیغمبر گرامی کو درک کیا۔ امیرالمومنین علیؑ کے دور حکومت میں محکمہ پولیس کے آفسر رہے، پھر آذربائیجان کے حاکم مقرر کئے گئے۔ مدینہ سے کربلا تک امام حسین کے ہمسفر رہے اور فرزند رسول پر جان نچھاور کر کے شہادت پائی۔شیخ سماوی نجفی نے ان کے والد کا نام حرث لکھا ہے۔ (شہدائے کربلا /  ابصارالعین)

جابر بن حجاج   :

قبیلۂ "تیم اللہ بن ثعلبہ ” کے فرد عامر بن نہشل تیمی کے آزاد کردہ غلام تھے. شجاعان کوفہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا. جناب مسلم بن عقیل کی حمایت میں کمر بستہ رہے، پھر رو پوش ہو گئے۔ جب اطلاع پائی کہ امام حسین علیہ السلام وارد کربلا ہو چکے ہیں تو عمر ابن سعد ملعون کے لشکر کی ہمراہی اختیار کر کے کربلا پہنچے اور موقع پا کر لشکر حسینی میں شامل ہو گئے. حملۂ اولی میں شہادت نصیب ہوئی. ( شہدائے کربلا)

   سعد :

عمرو بن خالد اسدی صیداوی کے غلام تھے. زیارت شہدأ میں  سعید کے نام سے ان پر سلام کہا گیا ہے جبکہ علامہ مامقانی نے "تنقیح المقال ” میں انہیں "سعد بن عبداللہ ” لکھا ہے.  یہ نہایت ہی شریف النفس اور بلند ہمت انسان تھے. اپنے مالک کے ہمراہ نواسہ رسول ﷺ سے مقام عذیب الہجانات پر آ ملے جبکہ شیخ سماوی صاحب ابصارالعین کے مطابق حاجز کے مقام پر آ ملے، بہر حال آئے اور عاشور کے دن رتبۂ شہادت پر فائز ہوئے.                                        (شہدائے کربلا)

شبیب بن عبداللہ نہشلی:

یہ حارث بن سریع ہمدانی کے غلام تھے. نسابہ کلبی وغیرہ کا بیان ہے کہ واقعہ کربلا میں حارث بہت سن رسیدہ تھے اور انہوں نے صحبت رسول اللہ کا شرف پایا تھا۔ دور خلافت امیرالمومنین علی علیہ السلام میں جنگ جمل , جنگ نہروان اور جنگ صفین میں فدا کارانہ جوہر دکھائے. اپنے شہر کوفہ سے سیف بن حارث اور مالک بن سریع کے ہمراہ نکلے اور قافلہ شہادت میں شامل ہوئے۔ بقائے دین کی خاطر یوم عاشور راہ خدا میں مردانہ وار لڑتے ہوئے، جان جاں آفریں کے سپرد کر دی. زیارتِ شہدأ میں ان پر سلام کہا گیا ہے۔(شہدائے کربلا/ سعادت الدارین)

حرث بن نبہانی:

آپ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور بڑے بہادر شہسوار تھے. جناب حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خدمت میں رہے. پھر سبط اکبر حضرت امام حسن علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور شہادت امام حسن کے بعد امام حسین علیہ السلام کے دامن سے منسلک ہو گئے، حتیٰ کہ مدینہ سے کربلا تک ہمسفر رہے اور بالآخر روز عاشور پہلے حملے میں شہید ہو کر ہمیشہ ہمیش کے لئے فردوس مکانی ہو گئے۔(ابصارالعین)

سالم غلام عامر بن مسلم العبدی : بصرہ میں جب امام حسین علیہ السلام کا خط پہنچا تو عامر بن مسلم عبدی اپنے دو بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ اور "سالم” نامی غلام کے ہمراہ نصرت کے لئے روانہ ہوئے. روز عاشور شمع امامت کی پروانہ وار حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔(سعادۃ الدارین)

زیارت شہداء میں ان پر سلام کہا گیا ہے ۔السلام علی سالم مولیٰ عامر بن مسلم۔( شہدائے کربلا)

رافع بن عبداللہ:

یہ مسلم بن کثیر الازدی الاعرج جنہیں عسقلانی نے” الاصابہ” میں صحابی رسول اللہ لکھا ہے, کے غلام تھے. کوفہ سے اپنے آقا کے ساتھ آئے اور خوب جنگ کی. بہت سے یزیدیوں کو جہنم رسید کیا اور بعد از نماز ظہر شہید ہوئے۔

سالم بن عمرو:

سالم بنی مدینہ جو کہ بنی کلب قضاعہ کی ایک شاخ تھی , کے آزاد کردہ غلام تھے اور کوفہ کے معروف شیعہ شمار ہوتے تھے. حامیان حسین علیہ السلام کی ایک جماعت جس میں سالم بھی شامل تھے, کو بد بخت کثیر بن شہاب نے گرفتار کر کے ابن زیاد کے سامنے پیش کرنا چاہا مگر سالم کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور مخفی طور پر کربلا پہنچ گئے۔. اہداف اسلامی کے حصول کیلئے نصرت امام علیہ السلام میں قتال کیا اور شہید ہوئے۔زیارت شہدأء میں ان پر یوں سلام آیا ہے. ” السلام علی سالم مولی بنی المدینۃ الکلبی”

قارب بن عبداللہ بن اریقط لیثی:

ان کی والدہ فکیہہ امام حسین علیہ السلام کی کنیز تھیں اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی خدمت گزاری پر مامور تھیں۔  عبداللہ بن اریقط سے ان کی شادی ہوئی اور قارب پیدا ہوئے۔ قارب اپنی والدہ کے ساتھ مدینہ سے کربلا پہنچے اور کار زار کربلا میں شہید ہوئے۔زیارت شہدأ میں ان پر سلام کہا گیا ہے.

السلام علی قارب مولی الحسین بن علی. (شہدائے کربلا)

غلام ترکی:

علامہ مامقانی کے مطابق:آپ کا نام اسلم بن عمرو ہے ۔

امام حسن علیہ السّلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام نے انہیں خریدا اور اپنے فرزند امام زین العابدین علیہ السلام کو ہبہ کر دیا ۔

ان کے والد ترکستان کے رہنے والے تھے ۔آپ امام علیہ السلام کے پاس خطوط کی کتابت کی خدمت انجام دیتے تھے ۔آپ حافظ قرآن تھے ۔

چونکہ انہیں امام زین العابدین علیہ السلام کو ہبہ کر دیا گیا تھا اس لیے اذن جہاد کے لیے انہیں امام زین العابدین کے پاس بھیجا گیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام کو جب معلوم ہوا کہ آپ کا غلام مصروف جہاد ہے تو آپ کے لیے اس کی جنگ دیکھنے کے لیے قنات کو ہٹایا گیا۔ وہ دوران جنگ یہ رجز پڑھ رہے تھے ۔سمندر میں میرے نیزے اور شمشیر کی گرمی سے آگ لگ جائے گی۔ فضا میرے تیروں کی پرواز سے مملو ہو جائے گی۔ جب میری تلوار میرے ہاتھ میں چمکتی ہے تو مغرور حاسد کا دل شگافتہ ہو جاتا ہے(شہدائے کربلا ۔۔ علامہ علی نقی)

یہ بھی لکھا ہے کہ اپ یہ رجز پڑھتے ہوئے امتحان گاہ وفا میں اترے

امیری حسین و نعم الامیر

سرور فواد البشیر النذیر

یعنی میرے امیر حسین ہیں اور وہ بہترین امیر ہیں جو پیغمبر خدا کے دل کا چین ہیں ۔

 

زخموں سے چور ہو کر زمین پر گرے تو امام علیہ السلام غلام کے پاس آئے۔ اپنا چہرہ مبارک اسلم کے رخسار پر رکھ دیا۔اسلم مسکرائے اور کہا : میرے برابر کون ہو سکتا ہے کہ نواسہ رسول کے رخسار میرے رخساروں پر رکھے ہوئے ہیں اور اسی اثنا میں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔     (ابصارالعین)

سلیم:

آپ امام حسن علیہ السّلام کے باوفا غلام تھے جو کربلا میں امام حسین علیہ السلام پر فدا ہو گئے۔(شہدائے کربلا)

جون:

جون حبشی تھے اور فضل بن عباس بن عبد المطلب کی ملکیت میں تھے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ڈیڑھ سو اشرفی میں خرید کر جناب ابوذر غفاری کو بخش دیا۔ جون حضرت ابوذر غفاری کی خدمت میں رہے۔ یہاں تک کہ ربذہ کی جلا وطنی میں بھی ساتھ نبھایا۔ جب 32 ھ میں ابوذر غفاری کی وفات ہوئی تو مدینہ لوٹ آئے اور علی علیہ السّلام کی خدمت میں رہنے لگے۔ پھر امام حسن و امام حسین کے پاس رہے۔

روز عاشور جب جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو جہاد کی اجازت چاہی تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں آپ کو خصوصی طور پر اجازت دیتا ہوں کہ میرا ساتھ چھوڑ کر چلے جاؤ اور ہماری وجہ سے مصیبت میں مبتلا نہ ہو”یہ سننا تھا کہ اشکبار ہوگئے، خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا اور عرض کیا:

فرزند رسول! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ راحت کے دنوں میں تو آپ کے ہاں پیالے چاٹوں اور سختی میں آپ کا ساتھ چھوڑ دوں۔ خدا کی قسم میرے جسم سے بدبو آتی ہے، میراحسب و نسب پست ہے، میرا رنگ سیاہ ہے۔ آپ اپنے صدقے میں مجھے جنت کا حقدار بنا دیجئے کہ میری بو خوشبو سے بدل جائے اور میرا حسب شریف ہو جائے اور میرا رنگ سفید ہو جائے۔ بخدا میں آپ سے جدا نہ ہوں گا۔ جب تک کہ یہ سیاہ خون آپ لوگوں کے باشرف خون میں نہ مل جائے”.             (شہدائے کربلا)

آخر اس پرجوش فداکار کو نواسہ رسولﷺ نے اذن جہاد عطا کیا اور وہ یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان کار زار میں اترے اور مصروف قتال ہوئے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:

کیف یری الکفار ضرب الاسود

بالمشرفیی القاطع المھند

بالسیف ضربا عن بنی محمد

اذب عنھم باللسان و الید     ( بحار الانوار)

کفار لوگ دیکھیں گے، ایک سیاہ غلام کی جنگ کو، جو وہ اپنی صیقل شدہ شمشیر کے ساتھ کرے گا، جو کاٹنے والی ہے اور یہ تلوار آل محمد کے دفاع میں چلے گی اور وہ یہ دیکھیں گے کہ یہ حبشی غلام کیسے اپنی زبان اور ہاتھ سے اولاد رسول کا دفاع کرتا ہے۔

جون بے جگری سے لڑے اور رتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ فرزند بتول سر ہانے تشریف لائے۔ جون کا سر اپنے زانو پر رکھا اور پھر اپنے رخ انور کو جون کے چہرے پر رکھ دیا۔ جون نے آنکھیں کھولیں اور متبسم ہوئے اور مباہات کرتے ہوئے کہا:من مثلی و ابن رسول اللہ خدہ علی خدی” مجھ جیسا کون ہو گا جس کے رخساروں پر فرزند رسول کے رخسار ہیں ۔         ( ابصار العین)

اب امام علیہ السّلام نے بارگاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ ” اللھم بیض وجھہ و طیب ریحہ و احشرہ مع الابرار و عرف بینہ و بین محمد و آلہ ” (اعیان الشیعہ)پرودگارا اس کے چہرے کو روشن کر دے، اس کی بو کو خوشبو سے بدل دے اور اسے نیکو کاروں کے ساتھ محشور فرما اور جون اور ہم محمد و آل محمد کے درمیان رشتہ معرفت قرار دے۔”قبیلہ بنی اسد کے لوگ جب شہدائے کربلا کو دفن کرنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ جون کے بدن سے مشک کی خوشبو آ رہی ہے۔ (شہدائے کربلا)

سعد بن حارث:

یہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے غلام تھے۔ علامہ مامقانی کے مطابق آپ نے زمانہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی پایا یعنی آپ کو شرف صحابیت بھی حاصل ہے ۔ یہ مولائے کائنات علی علیہ السلام کے زمانہ حکومت میں محکمہ پولیس کے افسر رہے پھر آذربائجان کے حاکم بھی رہے۔

جب نواسہ رسول عازم کربلا ہوئے تو ہمسفر ہوئے اور دس محرم الحرام کو حملہ اولی میں رتبہ شہادت کو پا لیا ۔ (شہدائے کربلا)

رافع بن عبداللہ:

رافع بن عبداللہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور مسلم بن کثیر اعرج کے غلام تھے۔ ان کے آقا مسلم پہلے حملے میں شہید ہوئے جبکہ رافع نے بعد از ظہر شہادت پائی ۔زیارت ناحیہ میں آپ پر ان الفاظ میں سلام کہا گیا ہے:

"السلام علی رافع بن عبداللہ مولی مسلم بن کثیر "۔       ( انصار حسینی۔۔۔۔حسن ظفر نقوی)

اَلسَّلامُ عَلَی الْحُسَیْنِ وَ عَلی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَ عَلی اَوْلادِ الْحُسَیْنِ وَ عَلی اَصْحابِ الْحُسَیْنِ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button