حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک
حصہ دوم
امام حسینؑ کی دوبارہ روانگی
امام حسین علیہ السلام "عذیب” اور "قادسیہ” کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ آپؑ عذیب سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور حر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ (99)
ابن زیاد کے قاصد کی آمد
پو پھٹتے وقت امام حسین علیہ السلام البیضہ کی منزل (100) پر رک گئے اور نماز صبح ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ظہر کے وقت سرزمین نینوا میں پہنچے۔ (101) ابن زیاد کے قاصد نے خط حر کے حوالے کیا جس میں اس نے لکھا تھا: "میرا خط تم تک پہنچے، میرا قاصد تمہارے پاس آئے تو امام حسین علیہ السلام پر سختی کرو اور انہیں مت اتارو مگر لق و دق اور بےآب و گیاہ زمین پر! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو تاکہ وہ میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ والسلام”۔ (102)حر نے ابن زیاد کا خط امام حسین علیہ السلام کو پڑھ کر سنایا۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ہمیں نینوا یا غاضریہ (103) میں اترنے دو۔ (104)
حر نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عبید اللہ یہ خط پہنچانے والے قاصد کو مجھ پر جاسوس قرار دیا ہے!۔
زہیر بن قین نے کہا:”خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا یابن رسولِ اللہ! اس وقت اس گروہ (حر اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں۔میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں جنگ شروع کرنے والا نہ ہونگا۔ (105)
زہیر بن قین قریب ہی فرات کے کنارے ایک بستی ہے جہاں حفاظت کے لئے قدرتی انتظام موجود ہے اور اس کو ایک طرف کے ساتھ تمام اطراف سے فرات نے گھیر لیا ہے”۔امام حسینؑ نے فرمایا: "اس بستی کا نام کیا ہے؟”
عرض کیا: اس کا نام "عقر” ہے (106)
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "خدا کی پناہ مانگتا ہوں عقر سے!”۔ (107)
پس ساتھ ساتھ چلتے رہے حتی کہ "کربلا” پہنچ گئے۔ حر اور اس کے ساتھی امام حسینؑ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔ (108)
امام حسینؑ کربلا میں
بیشتر تاریخی منابع نے اپنی روایات میں پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے کربلا میں اترنے کی تاریخ قرار دیا ہے۔ (109) تاہم دینوری نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی آمد کی تاریخ چہار شنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام، قرار دی ہے۔ (110) اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جب حر نے امام حسین علیہ السلام سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ فرات قریب ہے”۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟”۔
سب نے کہا: كربلا۔فرمایا: یہاں كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ امام علی علیہ السلام میرے والد جنگ صفین کی طرف عزیمت کرتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اور آپؑ نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے”لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے فرمایا: "خاندان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| کا ایک قافلہ یہاں اترے گا”۔ (111)
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اوریہاں ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔ (112) اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان وہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو محرم الحرام کا دن تھا۔ (113) اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم محرم الحرام سنہ 61 کا دن تھا۔ (114)
منقول ہے کہ کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد،امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے اور فرمایا:اللّٰهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللّٰهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين؛خداوندا! ہم تیرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی عترت اور خاندان ہیں جنہیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے حرم سے نکالا گیا ہے۔ اوربار خدایا! بنو امیہ نے ہمارے خلاف جارحیت کی خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما”۔
اس کے بعد آپؑ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
"إن الناس عبيد الدنيا، والدين لعق (115) على السنتهم، يحوطونه ما درت معايشهم، فإذا محصوا بالبلاء قل الديانون:
ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں کا چٹخارہ ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک کہ وہ ان کی زندگی فلاح و رفاہ کا باعث ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔ (116)
اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے سرزمین کربلا کو ـ جس کا رقبہ 4×4 میل تھا ـ نینوا اور غاضریہ کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ آپؑ کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔ (117)
دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو امام حسین علیہ السلام اور اصحاب کربلا میں حسین علیہ السلام کے سرزمین کربلا پر اترنے کے بعد، (118) حر بن یزید ریاحی نے ایک خط عبید اللہ بن زیاد کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔ (119) حر کا خط موصول ہونے پر ابن زیادعبید اللہ نے ایک خط امام حسین علیہ السلام کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:
"امّا بعد، اے حسین علیہ السلام! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! یزید نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور یزید کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام”۔
مروی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:
"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے”۔ ابن زیاد کے قاصد نے کہا: "یا ابا عبداللہ! آپؑ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا”۔
قاصد ابن زیاد واپس چلا گیا اور امام حسین علیہ السلام کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور عبید اللہ نے امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ (120)
عمر بن سعد کی کربلا آمد
عمر بن سعد بن ابی وقاص امام حسین علیہ السلام کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز یعنی تین محرم الحرام کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔ (121) عمر بن سعد کی کربلا آمد کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:
"عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان کوفیوں کو رے اور دَستَبی” (یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج2، ص454۔) لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ عبید اللہ نے قبل ازیں رے کی حکومت کا حکم عمر بن سعد کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو رے کا والی مقرر کیا تھا۔ عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے باہر نکلا اور "حمام اعین” کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ رے جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مسئلہ پیش آیا، اور جب امام حسین علیہ السلام نے کوفہ کی طرف عزیمت کی تو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے امام حسین علیہ السلام کی جنگ پر جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد ”اپنی حکومت” کے مقام کی طرف کوچ کرو۔ عمر بن سعد امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا چنانچہ اس نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو” لیکن ابن زیاد نے اس جنگ سے ابن سعد کی معافی کو رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔ (122)
عمر بن سعد نے جب چون اصرار ابن زیاد کا اصرار دیکھا تو کہا: میں کربلا جاتا ہوں۔ (123) چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر کربلا پہنچا اور نینویٰ کے مقام پر امام حسین علیہ السلام کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔ (124)
امام حسین علیہ السلام اور عمر بن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز
عمر بن سعد نے کربلا پہنچتے ہی امام حسین علیہ السلام کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ آپ سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟”۔ اس نے یہ کام عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی اور امام حسین علیہ السلام کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔ (125) تاہم کثیر بن عبداللہ شعیبہ نے تجویز مان لی اور خیام حسینی کی جانب روانہ ہوا، لیکن او ثمامہ صائدی نے اس کو ہتھیار لے کر امام حسین علیہ السلام کے حضور پنچنے سے روک لیا، کثیر نامراد ہوکر عمر بن سعد کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔ (126) کثیر کی واپسی پر عمر بن سعد نے قرۃ بن قیس حنظلی سے (127) امام حسین علیہ السلام کے پاس جانے کی درخواست کی۔
امام حسین علیہ السلام نے عمر کے پیغام کے جواب میں قروہ بن قیس سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہیں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں”۔ عمر ابن سعد اس جواب سے خوش ہوا (128) پس ایک خط ابن زیاد کو لکھا اور اس کو امام حسین علیہ السلام کے اس کلام سے آگاہ کیا۔ (129)ابن زیادابن زیاد نے عمر بن سعد کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب سے یزید کے لئے بیعت لے۔ (130)
ابن زیاد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی آمد کے بعد ابن زیاد نے کوفیوں کو مسجد میں جمع کیا اور ان کے زعماء کے درمیان یزید کے ارسال کردہ تحائف تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ کربلا جاکر امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ میں عمر بن سعد کی مدد کریں۔ (131)
ابن زیاد نے کوفہ کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔ (132) اور کوفیوں کو کربلا جاکر امام حسین علیہ السلام سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل کوفہ پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔ (133)
ابن زیاد نے حصین بن نمیرکو 4000 کے لشکر کے ساتھ قادسیہ سے نخیلہ بلوایا۔ (134) ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی اور کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کی جنگ کے لیے تیار کریں۔ (135) ابن زیاد نے سوید بن عبدالرحمن منقری کو چند سوار دے کر کوفہ میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو ابو عبداللہ الحسینؑ کی جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید بن عبدالرحمن منقری نے کوفہ میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس بھجوایا جو اپنی میراث طلب کرنے کوفہ آیا تھا۔ ابن زیاد نے کوفیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔ (136)
نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو ابن زیاد نے حصین بن نمیر، حجار بن أبجر، شبث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن کو ابن سعد کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔ (137) شمر نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہوا۔ (138) شمر کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مصاب ماری (مضایر بن رہینہ مازِنی) 3000 کے لشکر کے ساتھ (139) اور حصین بن تمیم طہوی (140) وہی ہے جس کو بعض کتب میں "حصین بن نمیر” کہا گیا ہے (141) اور بعض کتب میں "حصین بن تمیم ” کہلایا ہے (142) دو ہزار کے لشکر کے ساتھ (143) اور نصر بن حَربہ (حَرَشہ) 2000 کے لشکر کے ساتھ عمر بن سعد سے جا ملے۔ (144) اس کے بعد ابن زیاد ایک آدمی شبث بن ربعی ریاحی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ عمر بن سعد سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر عمر بن سعد کی لشکر گاہ میں پہنچا۔ (145) اور اس کے بعد محمد بن اشعث بن قیس کندی ایک ہزار سوار (146) لے کر کربلا پہنچا اور ان کے بعد حارث بن یزید بن رویم بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے کربلا روانہ ہوا۔ (147)
ابن زیاد ہر روز صبح اور شام کوفیوں فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے کربلا روانہ کرتا تھا (148) حتی کہ چھ محرم الحرام کو عمر بن سعد کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔ (149) ابن زیاد نے عمر بن سعد کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔
حبیب بن مظاہر اسدی اور امام حسینؑ کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش
کربلا میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد حبيب بن مظاہر امامؑ کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر،امام حسین علیہ السلام کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ بنی اسد پہنچے اور ان سے بنت رسولؐ کے لئے مدد کی درخواست کی۔
بنی اسد رات کے وقت خیام امام حسین علیہ السلام کی جانب رواں دواں تھے کہ عمر بن سعد نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا۔ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور بنی اسد جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے چنانچہ حبیب بن مظاہر اکیلے واپس آگئے۔ (150)
سات محرم اور پانی کی بندش
سات محرم کو ابن زیاد نے عمر بن سعد کو حکم دیا کہ حسینؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔
خط وصول کرتے ہی عمر بن سعد نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔ (151)
بعض منابع میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، امام حسین علیہ السلام نے بھائی عباس کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی پانی کے حصول کی خاطر فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نافع بن ہلال جملی پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے۔ یہ افراد عباس ؑ کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، جو فرات کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب حسین علیہ السلام کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب حسین علیہ السلام کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور علمدار حسینؑ اور نافع بن ہلال سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں حسین علیہ السلام کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہؤا۔ (152)
عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے آخری مذاکرات
عمر بن سعد کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد امام حسین علیہ السلام عمرو بن قرظہ انصارى کو عمر بن سعد کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا”، امام حسین علیہ السلام اور عمر بن سعد دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھائی ابوالفضل العباسؑ اور بیٹے علی اکبرؑکے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ عمر بن سعد نے بھی بیٹے حفص بن عمر سعد اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں امام حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور اخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔”۔ (153) عمر نہ مانا۔ امام جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم عراق کی گندم نہ کھا سکوگے”۔ (154)
امام حسین علیہ السلام اور عمر بن سعد کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔ (155)
ایک افسانوی روایت
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں عمر بن سعد نے ایک خط میں میں ابن زیاد کو لکھا:
حسین بن علی نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں، یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں،یا پھر خود یزید کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ یزید ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!” (156)
خط ابن زیاد نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!”۔ ابن زیاد اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ شمر بن ذی الجوشن جو مجلس میں حاضر تھا رکاوٹ بنا چنانچہ ابن زیاد نے شمر بن ذی الجوشن کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط عمر بن سعد کو پہنچا دو تا کہ وہ حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے۔ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو حسین بن علیؑ کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ اس کے بعد سالار قوم تم ہو، اس کے بعد عمر بن سعد کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔” (157)
اس کے بعد ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
"۔۔۔ میں نے تمہیں (کربلا) نہیں بھیجا کہ حسین بن علیؑ سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو، دیکھو اگر حسین بن علیؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور یزید کی بیعت کرتے ہیں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں جب حسین مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو شمر بن ذی الجوشن کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔ (158)
حوالہ جات
99۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص251؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص171؛ تاریخ الطبری، ج3، ص404۔
100۔ یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج1، ص532؛ صفی الدین عبدالمؤمن البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنة و البقاع، ج1، ص243۔
101۔ تاریخ الطبری، ج3، ص403۔
102۔ تاریخ الطبری، ج3، ص408؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، ص51۔
103۔ الحموی، یاقوت، معجم البلدان، ج4، ص183۔
104۔ شیخ مفید، الارشاد، ص84؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔
105۔ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔
106۔ الحموی، معجم البلدان، ماخذ، ج4، ص136، الفراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، ج1، صص149-150۔
107۔ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔
108۔ عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔
109۔ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص84؛ تاریخ الطبری، ج5، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔
110۔ الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔
111۔ عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔
112۔ سید بن طاوس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، کشف الغمہ، ج2، ص47؛ ابن شہر آشوب، المناقب، ج4، ص97۔
113۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص83؛ ابن اثیر، الکامل، ص52؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص181؛ شیخ مفید، الارشاد، ص84؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص68؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص96۔
114۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص53۔
115- لعق علی السنتہم سے مراد یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ لوگ دین کو ایسی چیز سمجھتے ہیں جس کا مزہ چاٹ اور چکھ کر معلوم کیا جاتا ہے؛ اور جب تک اس کا مزہ محسوس کرتے ہیں اس کو پاس رکھتے ہیں لیکن جب آزمائش کی گھڑی آن پہنچتی ہے؛ دینداروں کی تعداد گھٹ جاتی ہے[www۔ghorany۔com/karbala1۔htm|وبسایت ختم قرآن کریم]۔
116۔ بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص193۔
117۔ المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص196۔
118۔ تاریخ الطبری، ج5، ص409؛ الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص84۔
120۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص85؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص239؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب،ج4، ص98۔
119۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص84؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص239۔
121۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409؛ ابن اثیر، الکامل، ص52۔
122۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص176؛ تاریخ الطبری، ج3، ص409۔
123۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص86؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص239-240۔
124۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176و تاریخ الطبری، ج3، ص409۔
125۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص86؛ شیخ مفید، الارشاد، صص84-85۔
126۔ تاریخ الطبری، ج3، ص410؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص86-87؛ شیخ مفید، الارشاد، ص85؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص240۔
127۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص253۔
128۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص253-254؛ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، صص85-86۔
129۔ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، ص86؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص241۔
130۔ تاریخ الطبری، ج3، ص411؛ شیخ مفید، الارشاد، ص86۔
131۔ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص178؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص242۔
132۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔
133۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466۔
134۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔
135۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔
136۔ الدینوری، الاخبار الطوال، صص254-255؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔
137۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254و البلاذری، انساب الاشراف، ص178۔
138۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ ابن اعثم، ج5، الفتوح، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔
139۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔
140۔ مقاتل، تراجم اور تواریخ کی کتب میں حُصَیْنُ بْنُ نُمَیْرٍ (بحارالأنوار، ج45، ص335۔
141۔ الدینورى ابو حنیفہ احمد بن داود (م 282) الأخبارالطوال،ص246۔
142۔ الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310) تاریخ الأمم و الملوک (تاریخالطبری، (مطبوعہ دارالتراث)، ج5، ص439۔
143۔ ابن سعد، الطبقات، خامسہ1، ص466۔
144۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔
145۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص178؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔) شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار (البلاذری، انساب الاشراف، ص178؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص89؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص242۔
146۔ شیخ صدوق، الامالی، ص155۔
147۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص254؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔
148۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص179۔
149۔ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص90؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، صص242-243؛ سید بن طاؤس؛ اللہوف، ص85؛ حلی، ابن نما، مثیر الاحزان، ص50۔
150۔ ابصار العين ص85-78؛ اسدالغابہ؛ الاصابہ؛ تاريخ طبري؛ رجال کشي ص191۔
151۔ الدینوری، الاخبار الطوال، ص255؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص180؛ تاریخ الطبری، ج5، ص412؛ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص86۔
152۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص181؛ تاریخ الطبری، ج3، صص412-413؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، صص117-118؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص244۔
153۔ تاریخ الطبری، ج3، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص70-71؛ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص245۔
154۔ الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص245؛ با اختلاف در مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ماخذ، صص71-72۔
155۔ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص71۔
156۔ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، ص87؛ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، ص71؛ ابن اثیر، الکامل، ص55۔
157۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص182؛ تاریخ الطبری، ج3، ص414؛ شیخ مفید، الارشاد، ص89۔ مسکویہ، تجارب الامم، ج2، صص71-72؛ ابن اثیر، الکامل، ص55۔
158۔ البلاذری، انساب الاشراف، صص183؛ تاریخ الطبری، ج3، ص415؛ ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص93۔ شیخ مفید، الارشاد، صص88۔
https://ur.abna24.com/story/1381285