قرآن امام سجاد علیہ السلام کے کلام میں

قرآن امام سجاد علیہ السلام کے کلام میں
قرآن ایک ایسی گرانقدر اور ارزشمند کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر ہدایت کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن کے مطابق تا روز قیامت نہ ایسی کوئی کتاب پیدا ہوسکتی ہے اور نہ اس سے بہتر۔ قرآن کی حکمت تمام دانشمندوں کو اپنے سامنے تعظیم سے سر خم کرواتی ہے۔ جتنا بھی انسان پاک فطرت صفای روح و قلب اور طھارت ظاہری و باطنی سے بہرہ مند ہو اتنا ہی وہ اس نورانی کتاب سے فیضیاب ہوسکتا ہے اور اس کے جمال کو اپنی بصیرت سے مشاہدہ کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :لايمسُّهُ الاّ المطهّرون (1)
جہاں تک پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس کے اہل بیت علیہم السلام کا تعلق ہے وہ خدا کے طرف سے منتخب ہوئے ہیں اور آیت تطہیر کے مطابق وہ پاکیزگی اور قداست سے بہرہ مند ہیں اور ہر پلیدی و برائی سے مبرا ہیں یہی قرآن کے حقیقی مفسر ہیں ان کی عصمت کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ انہی نورانی چہروں میں ایک تابناک چہرہ جناب سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ہے۔ اس مقالہ میں قرآن کو امام زین العابدین علیہ السلام کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ۔
عظمت قرآن
اامام زین العابدین علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے، "من اعطاه اللّٰه القرآن فَرَأى انّ احداً اُعطى افضل ممّا اُعطى فقد صغّر عظيما و عظّم صغيراً"جس آدمی کو خداتعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا ہو اگر وہ یہ تصور کرے کہ کسی کو اس سے بہتر الہٰی ہدیہ عطا کیا گیا ہے ۔ حقیقت میں اس نے عظیم کو پست اور پست کو عظیم سمجھا ہے۔ (2)
خصوصیات قرآن
امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نورانی دعاؤں میں قرآن کی اس طرح توصیف کرتے ہیں۔
الف) نور ہدایت
قرآن مجید نے اپنی صفت کلمہ نور سے بیان کی ہے جیسے اس آیۃ شریفہ میں ذکر ہوا ہے ۔ و انزلنا اليكم نوراً مبيناً(3)، لیکن یہ نورانیت کن افراد کے لیے ہے؟ امام علیہ السلام اس کا جواب یوں بیان کرتے ہیں: "و جَعَلْتَهُ نوراً نَهتَدِى مِن ظُلَمِ الضَّلالَة والجَهالة باتّباعه” خدایا تم نے قرآن کو نور قرار دیا جس کی پیروی سے ہم ظلمت کے اندھیرے اور جہالت سے نجات حاصل کرسکیں۔ (4)
قرآن کے نہ بجھنے والے نور کی تشریح امام سجاد علیہ السلام کچھ اس طرح کرتے ہیں۔ "و نور هُدىً لايُطْفَأ عَنِ الشّاهِدين برهانه” اور اس کو ہدایت کا نور قرار دیا جو مشاہدہ کرنے والوں کے لیے کبھی خاموش نہ ہونے والی دلیل ہے۔(5)
ب)مرض کی دوا
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:”و َنُنَزِّلُ مِنَ القرآن ما ھو شفاءٌ و رحمةٌ للمؤمنين” اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے (6)۔لیکن سوال یہ ہے کہ کب اور کن لوگوں کے لئے؟ امام زین العابدین علیہ السلام اس سوال کا جواب اپنے پربرکت الفاظ سے کچھ اس طرح دیتے ہیں۔”و شفاءً لِمَنْ اَنْصَتَ بِفهم التّصديق الى اسْتماعه” (7)قرآن شفا ہے اس شخص کے لئے جو اِس کو یقین اور تصدیق کے ساتھ سمجھنا چاہتا ہے اور اس کے سننے کے لیے خاموش رہتا ہے۔
میزان عدالت :
قرآن مجید کا ارشاد ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّٰهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّٰهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (8)اے ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ قرآن پیغمبر اکرم کو مخاطب قرار دے کر فرماتا ہے۔ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اور کہو کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔(۹) اور عدالت خانوادہ تشکیل دینے کے لیے پایہ و کرسی جانتے ہوئے فرماتا ہے فَاِنْ خفتم الاّ تعدلوا فواحدة (10)(آیت ۳) اور اسی طرح اقتصادی روابط کے لئے بھی بنیاد قراردیا ہے: و اوفوا الكيل و الميزان بالقسط اور ناپ تول میں انصاف سے پورا پورا دینا (۱۱) اور اسی طرح اختلافات کا حل بھی عدالت کے مطابق ہی چاہتا ہے۔ فاصلحوا بينهما بالعدل و اقسطوا اِنّ الله يُحِبُّ المُقْسطين ان میں عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(۱۲)۔ لیکن عدالت کو یقینی بنانے کے لئے کن قوانین و ضوابط اور معیاروں کی ضرورت ہے ؟ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں : و ميزان عدلٍ لايَحيفُ عن الحقّ لسانه قرآن عدالت کی ترازو ہے اس کی زبان حق گوئی سے باز نہیں رہتی ہے۔ (۱۳)
قرآن سے الفت:
زہری کہتا ہے میں نے امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا :« لو مات مَنْ بين المشرق و المغرب لما استوحشتُ بعد اَنْ يكون القرآن معى» اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مر جائے، چونکہ قرآن میرے ساتھ ہے؛ مجھے کوئی وحشت نہیں ہوگی۔(14)
قرآن اور آخری زمانے کے لوگ :
امام سجاد علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھا گیا آپ نے فرمایا ” خداوند جانتا تھا کہ آخر زمانے میں لوگ زیادہ تفکر کرتے ہونگے اس لیے خداوند نے سورہ توحید اور سورہ حدید تا (علیم بذات الصدور ) نازل فرمایا۔ ۔۔۔۔(15)
قرآن میں تفکر :
زہری کہتا ہے : میں نے امام علی بن الحسین علیہ السلام سے سنا کہ :آیات القرآن "خزائن فكلما فتحت خزانةٌ ينبغى لك ان تنظر ما فيها” قرآن مخفی خزانہ ہے پس جب بھی اس خزانے کا دروازہ کھولا جائے بہتر ہے کہ جوکچھ بھی اس میں ہے اس پر نظر ڈالو۔ (16)
حروف مقطعات کی تفسیر :
قرآن مجید کے انتیس سورے حروف مقطعات سے آغاز ہوتے ہیں مفسروں نے ان کے مختلف معنی ذکر کئے ہیں۔ مہم ترین تفسیروں میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم انہی حروفوں کا نمونہ ہے جو تمام انسانوں کے اختیار میں ہیں اگرتونائی رکھتے ہو تو اس جیسا اختراع کرو۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں ” قریش اور یہود قرآن کو بے جا نسبت دیتے تھے۔ اور کہتے تھے قرآن سحر ہے اس کوپیغمبرؐ نے خود ایجاد کیا ہے اور خدا سے منسوب کیا ہے خدا نے ان کو اعلان فرمایا (الم۔۔۔) یعنی اے محمد! یہ کتاب جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے انہی حروف مقطعات (الف۔لام۔میم) میں سے ہیں جو آپ کی زبان اور آپ کے ہی حروف ہیں۔( انکو کہو) اگر اپنے مطالبے میں سچے ہو تو اس جیسا لاؤ۔(17)
البتہ حتمی تفسیر کا علم تو فقط خدا اور اس کے رسول کو ہے۔
خدا کے خاص بندوں کی خصوصیتیں
قرآن کریم کا ارشاد ہے”أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ” ۔آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے (18)اولیاء خدا کی خصوصیتیں کیا ہوتی ہیں؟ عیاشی امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ میں نے علی بن الحسین علیہ السلام کی کتاب میں یہ دریافت کیا کہ اولیاء خدا کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی غم و بریشانی چونکہ واجب الٰہی کو انجام دیتے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو پکڑا ہے(پر عمل کرتے ہیں)۔جو کچھ خدا نے حرام قرار دیا ہے اس سے پرہیز کرتے ہیں اوردنیا میں جلد فانی ہونے والی زندگی کی زینت سے زھد اختیار کیا ہے اور جوکچھ خدا کے پاس ہے اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور پاک رزق کے تلاش میں رہتے ہیں اور فخرفروشی اور زیادہ طلبی کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنے واجب حقوق انجام دینے کےلئے انفاق کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی آمدنی میں اللہ تعالٰی نے برکت عطا کی ہے اور جو کچھ آخرت کیلئے پہلے سے ہی بھیجتے ہیں اس کا ثواب ان کو دیا جائےگا۔(19)
حقیقی سپاہی
مکہ کے راستے میں عباد بصری امام زین العابدین علیہ السلام سے ملاقات کرتا ہے۔اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: جہاد اور اس کی سختی کو چھوڑدیا اور حج اور اسائش کی طرف آئے ہو؟ اس کے بعد آیہ کریمہ "اِنّ اللّٰه اشترى من المؤمنين انفسهم و اموالهم بأنّ لهم الجنّة” کی تلاوت کی۔ امامؑ نے فرمایا: آیت کا اگلا حصہ بھی بڑھ لو ! عباد بصری نے دوسری آیت کی تلاوت کی "التّائبون العابدون السّائحون الرّاكعون السّاجدون الآمرون بالمعروف و النّاهون عن المنكر و الحافظون لحدود الله و بشّر المؤمنين”(20)؛ یہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے ، حمد پروردگار کرنے والے، راس خدا میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے اور حدود الٰہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔اس وقت امامؑ نے فرمایا: جب بھی ایسے افراد پاؤں جن میں یہ اوصاف ہو ان کے ہمراہ جھاد حج سے افضل ہے۔
زھد کی معنی
کچھ لوگ تصور کرتے ہیں کہ زھد کی معنی اجتماع سے دوری اور زندگی کی خوبصورتی سے ہاتھ دھو لینا ہے۔جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے: (مَنْ حَرَّمَ زينة الله الّتى اخرج لعباده و الطّيّبات من الرّزق) کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے(21)، اور اسی طرح دعا کی صورت میں انسان کو سکھایا کہ خدا سے دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کرے "ربّنا آتنا فى الدّنيا حسنة و فى الاخرة حسنة”(22) اس بارے میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔”اَلا و انّ الزهد فى آية من كتاب الله لكيلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما آتيكم” خبردار! زھد جو قرآن کی اس آیت میں ہے فرماتا ہے جو کچھ آپ نے کھویا ہے اس کے بارے میں افسوس نہ کرو اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے وابستہ اور خوش نہ ہوجاؤ، (23)
اسی طرح نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ امام فرماتے ہیں: زھد قرآن کے دو کلموں میں ہے جیسے خدا فرماتا ہے "لكيلا تأسوا ۔۔۔” جو بھی اپنے گزشتہ پر افسوس نہ کرے اور اپنے مستقبل پر مغرور اور وابستہ نہ ہوجائے اس نے زہد کو دونوں جانب سے حاصل کیا ہے۔(24)
عالم برزخ
امام سجاد علیہ السلام نے آیہ کریمہ "وَ مِنْ وَرائهم بَرْزَخٌ الى يوم يُبْعَثُون”(25) ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے کی تلاوت کے بعد فرمایا: "هو القبر و انّ لهم فيها معيشةً ضنكا و اللّٰه اِنّ القبر لروضةٌ من رياض الجنة او حُفْرَةٌ مِن حُفَرِ النّار” بزرخ قبر ہے جس میں ان کے لئے زندگی گزارنا سخت ہے خدا کی قسم بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
منابع و مآخذ:
1۔ سورہ واقعه آیت 79۔
2۔ اصول كافى، ج 2، ص 605، باب فضل حامل القرآن، ح 7۔
3۔ سورہ نساء آیت 174۔
4 و 5۔ صحيفه سجاديه، دعاى 42۔
6۔ سورہ اسراء آیت 82 ۔
7۔ صحيفه سجاديه، دعاى 42۔
8۔ سورہ مائده آیت 8۔
9۔ سورہ شورى آیت 15۔
10۔ سورہ نساء آیت 4۔
11۔ سورہ انعام آیت 152۔
12۔ سورہ حجرات آیت 9۔
13۔ صحيفه سجاديه، دعاى 42۔
14۔ وہی مأخذ، باب فضل القرآن، ح 13۔
15۔ تفسير صافى، ج 2، ص 866 ۔
16۔ اصول كافى، ج 2، ص 609، باب فى قرائته، ح 2۔
17۔ تفسير برهان، ج 1، ص 54۔
18۔ سورہ يونس آیت 62۔
19۔ تفسير صافى، ج 2، ص 757۔
20۔ توبه آیت 111 و 112۔
21۔ سورہ اعراف آیت 32۔
22۔ سورہ بقره آیت 201۔
23 و 24۔ تفسير صافى، ج 2، ص 665، ذيل آيه 23 سوره حديد۔
25۔ سورہ مؤمنون آیت 100۔
https://erfan.ir/urdu/55855.html