Uncategorizedخطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:196)

موضوع: ماہ بندگی/ولادت امام حسن مجتبیٰؑ

(بتاریخ: جمعۃ المبارک07 اپریل 2023ء بمطابق 16 رمضان المبارک 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ماہ بندگی/ولادت امام حسن مجتبیٰؑ
ماہ رمضان بھی بندگی کا مہینہ ہے بلکہ یہ مہینہ بندگی کی بہار ہے۔اس ماہ کا پہلا عشرہ جسے عشرہ رحمت کہتے ہیں وہ ہم گزار چکے ہیں، دوسرا عشرہ مغفرت تقریبا نصف باقی ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں ایسی بندگی اور عبادت انجام دیں اور خدا کو اس طرح راضی کریں کہ جب یہ ماہ ختم ہو رہا ہو تو ہم خود کو جہنم سے آزاد کرا چکے ہوں۔
ماہ رمضان، امام علی رضا علیہ السلام کی نظر میں:
اس ماہ کی فضیلت کے لیے ہم امام رضا علیہ السلام کی ایک حدیث پیش کر رہے ہیں:
الحَسَناتُ في شَهرِ رَمَضانَ مَقبولَةٌ ماه مبارک رمضان میں نیکیاں قبول ہوتی ہیں،
وَالسَّيِّئاتُ فيهِ مَغفورَةٌ اور گناہ بخش دیے جاتے ہیں ،
مَن قَرَأَ في شَهرِ رَمَضانَ آيَةً مِن كِتابِ اللّهِ عز و جل كانَ كَمَن خَتَمَ القُرآنَ في غَيرِهِ مِنَ الشُّهورِ
رمضان میں ایک ایت کی تلاوت کرنے والے کو عام دنوں میں پورے قران کی تلاوت کے برابر ثواب ملتا ہے ،
ومَن ضَحِكَ فيهِ في وَجهِ أخيهِ المُؤمِنِ لَم يَلقَهُ يَومَ القِيامَةِ إلاّ ضَحِكَ في وَجهِهِ وبَشَّرَهُ بِالجَنَّةِ
اس ماہ میں جو بھی مومن بھائی کا خندہ پیشانی کے ساتھ دیدار کرے ، قیامت میں اس برادر مومن کی صورت میں اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرے گا اور اسے جنت کی بشارت دے گا ۔
ومَن أعانَ فيهِ مُؤمِنا أعانَهُ اللّهُ تَعالى عَلَى الجَوازِ عَلَى الصِّراطِ يَومَ تَزِلُّ فيهِ الأَقدامُ
ماہ رمضان میں جو کسی مومن کی مدد کرے گا خداوند متعال اسے پل صراط سے گزرنے اور اس دن جس دن لوگوں کے قدم لڑکھڑائیں گے مدد کرے گا ،
ومَن كَفَّ فيهِ غَضَبَهُ كَفَّ اللّهُ عَنهُ غَضَبَهُ يَومَ القِيامَةِ
جو بھی اپنے غصہ پر کنٹرول کرے گا خداوند متعال قیامت کے دن اسے اپنےغضب سے دور رکھے گا ،
ومَن نَصَرَ فيهِ مَظلوما نَصَرَهُ اللّهُ عَلى كُلِّ مَن عاداهُ فِي الدُّنيا ، ونَصَرَهُ يَومَ القِيامَةِ عِندَ الحِسابِ وَالميزانِ
جو کسی مجبور اور ستم دیدہ کی اس ماہ میں مدد کرے گا خداوند متعال دنیا میں اسے اس کے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا اور قیامت میں بھی حساب و کتاب کے وقت اس کی مدد کرے گا ۔
شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ البَرَكَةِ ، وشَهرُ الرَّحمَةِ ، وشَهرُ المَغفِرَةِ ، وشَهرُ التَّوبَةِ وَالإِنابَةِ ؛
ماہ رمضان ؛ ماہ برکت ، ماہ رحمت ، ماہ بخشش ، ماہ توبہ اور خدا کی جانب لوٹنے کا مہینہ ہے ،
مَن لَم يُغفَر لَهُ في شَهرِ رَمَضانَ فَفي أيِ شَهرٍ يُغفَرُ لَهُ
اس میں جو بھی بخشا نہ گیا تو پھر کس ماہ میں بخشا جائے گا ؟!
فَاسأَلُوا اللّهَ أن يَتَقَبَّلَ مِنكُم فيهِ الصِّيامَ ، ولا يَجعَلَهُ آخِرَ العَهدِ مِنكُم ، وأن يُوَفَّقَكُم فيهِ لِطاعَتِهِ ويَعصِمَكُم مِن مَعصِيَتِهِ ، إنَّهُ خَيرُ مَسؤولٍ
لہذا خداوند متعال سے درخواست کرو کہ اس ماہ میں تمھارے روزے کو قبول کرلے اور اسے تمھارا آخری رمضان قرار نہ دے ، تمہیں اپنی اطاعت کی توفیق دے ، گناہوں اور عصیان سے دور رکھے کہ وہ دعاوں کا قبول کرنے والا ہے۔
( بحار الأنوار : ج ۹۶ ص ۳۴۱ ح ۵ )
تاریخی مناسبت: ولادت باسعادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام15 رمضان المبارک 3 ہجری کی شبِ مبارک، مدینہ منورہ میں پیداہوئے، آپؑ کی ولادت سے قبل جناب اُم فضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم ﷺکے جسمِ مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آیا ہے۔ انہوں نے اپنا خواب رسول خداﷺسے بیان کیا تو آنحضرتؐ نے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ میری لختِ جگر ‘‘فاطمہ ؑ ’’ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیدا ہو گا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورّخین کا کہنا ہے کہ رسولؐ کے گھر میں آپؑ کی ولادت اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی جس نے رسول اکرمؐ کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کر دیا اور دنیا کے سامنے سورۂ کوثر کی عملی تفسیر پیش کی۔
جب اس مولودِ سعید کا نام مبارک تجویز ہو رہا تھا تو سرورِ کائنات نے بحکمِ خدا، حضرت موسیٰؑ کے وزیر، حضرت ہارون ؑ کے دو بیٹوں، شبّر و شبّیر کے نام پر آپؑ کا نام ‘‘حسن’’ اوربعدمیں آپؑ کے چھوٹے بھائی کا نام ‘‘حسین’’ رکھا۔ بحارالانوارکے مطابق امام حسنؑ کی ولادت کے بعدجبرئیل أمین ؑ نے سرور کائناتؐ کی خدمت میں ایک سفیدریشمی رومال پیش کیا جس پر ‘‘حسن’’ لکھا ہوا تھا۔ ماہرِ علم الانساب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوند عالم نے حضرت فاطمہ ؑ کے دونوں شہزادوں کے نام أنظارِ عالم سے پوشیدہ رکھے، یعنی اس سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن ؑ کو ولادت کے بعد سرور کائناتؐ کی خدمت میں لایا گیا تورسول خداؐ بے انتہاء خوش ہوئے اوراُن کے دہنِ مبارک میں اپنی زبانِ رسالت دیدی اور بحارالانور میں ہے کہ آنحضرتؐ نے نومولود بچے کوآغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت دینے کے بعد اپنی زبان اُن کے منہ میں دیدی اور امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعد آپؐ نے دعافرمائی: "خدایا! اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھ”۔
آپؑ کی ولادت کے ساتویں روز سرور کائناتﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے آپؑ کا عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر ان کے ہم وزن چاندی تصدّق کی۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرتؐ نے امام حسنؑ کا عقیقہ کرکے اس کے سنّت ہونے کی دائمی بنیاد ڈال دی۔
پیغمبر اکرمﷺ کے نزدیک مقام و منزلت:
ایک دن سرور کائناتﷺ امام حسن علیہ السلام کو کاندھے پر سوار کئے، سیر کرا رہے تھے، ایک صحابی نے کہا: اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے! یہ سن کر آنحضرتؐ نے فرمایا: "یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے”۔
ایک صحابی کا بیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسنؑ کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن سے میں نے رسول خداؐ کی آغوش مبارک میں بیٹھ کر انہیں آپؐ کی داڑھی سے کھیلتے دیکھا ہے۔
رسولِ خداؐ نے فرمایا: حسنؑ اورحسینؑ جوانانِ جنت کے سردار ہیں اوران کے والدِ بزرگوار، یعنی علی بن ابی طالبؑ ان دونوں سے بہترہیں۔
بخاري میں ابوبکر سے منقول ہے: رايت النبي صلي الله عليه و آله علي المنبر والحسن بن علي معه وهو يقبل علي الناس مرة و ينظر اليه مرة و يقول: ابني هذا سيد[الجامع الصحيح ج 3، ص 31] ؛
میں نے نبي اكرم صلی الله عليه و آله وسلم کو دیکھا کہ آپ منبر پر تشریف فرما تھے اور حسن بن علیؑ بھی آپکی آغوش میں تھے، آپ صلی الله عليه و آله کبھی لوگوں کو دیکھتے تھے اور کبھی حسن کواور فرماتے تھے: میرا یہ فرزند سید و سردار ہے۔
سيوطي اپنی تاريخ میں لکھتا ہے: كان الحسن رضي الله عنه له مناقب كثيرة، سيدا حليما، ذا سكينة و وقار و حشمة، جوادا، ممدوحا [تاريخ الخلفا، ص 189]؛
حسن ابن علي ؑ بہت سارے اخلاقي امتيازات اورانسانی فضائل کے حامل تھے، وہ عظیم [شخصيت ] کے مالک تھے، بُردبار، با وقار، متين، سخی، اور ہر ایک کی تعریف کا مرکز تھے۔
اور بالکل درست بھی ہے کہ پيغمبر اكرم صلی الله عليه و آله کےسبط اكبر کو ایسا ہونا بھی چاہیئے، کیونکہ متقين بہترین فضائل کے مالک ہوا کرتے ہیں، امام علي عليه السلام فرماتے ہیں: فالمتقون هم اهل الفضائل ؛ پرہیزگار، صاحب فضائل ہیں۔[نهج البلاغه، خطبه 193] امام زین العابدین ؑ کی نظر میں آپ کا مقام:
اگر کسی معصوم کی حقیقی فضیلت کو سننا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے سنے جو اس کی حقیقی تعریف جانتا ہو. ایک معصوم کی حقیقی فضیلت کو ایک دوسرا معصوم ہی جانتا ہے اسی غرض کے تحت یہاں پر امام حسن مجتبی(علیہ السلام) کے بارے میں امام زین العابدین(علیہ السلام) نے جو فرمایا اس کو بیان کیا جارہا ہے:
عباد ت کے وقت: سب سے زیادہ عبادت کرنے والے اور زہد رکھنے والے۔
حج کے وقت: پیدل حج کیا کرتے تھے، اور بہت زیادہ پابرہنہ حج کیا کرتے تھے۔
موت کی یاد: جب موت کا ذکر آتا تھا تو گریہ کیا کرتے تھے
جب اعمال خدا کے حضور میں پیش کئے جائینگے: بلند آواز سے گریہ کیا کرتے تھے۔
نماز کے وقت: جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے بدن میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا۔
جنت اور جھنم کو جب یاد کرتے تھے: سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح جنت کے لئے دعا مانگتے تھے اور جھنم سے پناہ مانگتے تھے(بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۳۱)۔
امام جعفر صادق ؑ کی نظر میں امام حسن علیہ السلام کا مقام:
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے بعض فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
أن الحسن بن علي بن أبي طالب (عليه السلام) كان أعبد الناس في زمانه، وأزهدهم وأفضلهم، …
بیشک حسن ابن علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اپنے زمانہ میں سب لوگوں سے زیادہ عبادت گزار اور زاہد اور افضل تھے، اور جب آپؑ حج پہ جاتے تو پیدل اور کبھی ننگے پاؤں چلتے، اور جب موت کو یاد کرتے تو روتے، اور جب قبر کو یاد کرتے تو روتے، اور جب حشر و نشر (قبروں سے اٹھائے جانے) کو یاد کرتے تو روتے، اور جب صراط سے گزرنے کو یاد کرتے تو روتے، اور جب اللہ کی بارگاہ میں (اعمال) کے پیش ہونے کو یاد کرتے تو ایسی فریاد کرتے جس کی وجہ سے بیہوش ہوجاتے، اور جب اپنی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپؑ کے کندھے آپؑ کے پروردگارِ عزوجل کی بارگاہ میں لرزتے، اور جب جنت اور جہنم کو یاد کرتے تو سانپ کے ڈسے ہوئے کی طرح بے تاب ہوتے اور اللہ تعالی سے جنت طلب کرتے اور جہنم سے اللہ کی پناہ مانگتے۔ آپؑ جب بھی اللہ عزوجل کی کتاب میں "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا” (اے ایمان والو) پڑھتے تو کہتے: "لبّيك اللّهم لبّيك” اور آپؑ اپنے سب حالات میں اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے۔(امالی شیخ صدوق، ج۱، ص۲۴۴)، ”
امام حسن ؑ کا استغفار و دعا کا انداز:
استغفار کرنا اور خدا سے اپنی بخشش طلب کرنا انسان کے دل سے گناہ کو دور کردیتا ہے، اس کے ذریعہ خدا اور انسان کا رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور انسان کے اندر معنویت پیدا ہوجاتی ہے،بالخصوص ماہ رمضان کے اس دوسرے عشرے میں کثرت سے استغفار کرنا چاہیے کیونکہ یہ عشرہ عشرہ مغفرت کہلاتا ہے۔ امام رضا(علی السلام) سے استغفار کے بارے میں منقول ہے: «استغفار کے ذریعہ اپنے آپ کو معطر کرو تا کہ گناہ کا تعفن تمھارے وجود کو خراب نہ کرے»
(جامع احادیث‌الشیعه، ج ۱۴، ص ۳۳۷).
امام حسن(علیہ السلام) اپنی زندگی میں کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے اس کے باوجود وہ خدا کی بارگاہ میں خدا سے استغفار کوطلب کیا کرتے تھے اور جب بھی مسجد کو جایا کرتے تھے دروزے کے کنارے کھڑے ہوکر خدا کی بارگاہ میں استغفار کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: «إِلَهِی ضَیْفُکَ به بابک یَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاکَ الْمُسِیءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِیحِ مَا عِنْدِی به جمیل مَا عِنْدَکَ یَا کَرِیم؛ خدا یا تیرا مہمان تیرے دروزے پر کھڑا ہوا ہے اے پروردگار جو اچھائیاں تیرے پاس ہیں وہ مجھے عطا کردے اے کریم»(مناقب ابن شهرآشوب، ج۴، ص۱۷).
امام حسن(علیہ السلام) ہم کو خدا سے دعا مانگنے کا سلیقہ سکھارہے ہیں۔
فقیر کا لوگوں سے مانگنا کب درست ہے؟
ایک دن عثمان مسجد کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے، ایک فقیر نے ان سے مدد مانگی، عثمان نے اسے پانچ درہم دئے، اس فقیر نے کہا: مجھے اس شخص کا پتا بتلاؤ جو میری زیادہ مدد کرے؛ عثمان نے امام حسن(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا، وہ فقیر ان لوگوں کی جانب گیا اور ان لوگوں سے مدد مانگی، امام حسن(علی السلام) نے فرمایا:
إنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ دَمٌ مُفْجِعٌ أَوْ دَيْنٌ مُقْرِحٌ أَوْ فَقْرٌ مُدْقِعٌ
دوسروں سے صرف ان تین مقامات پر مدد مانگنا صحیح ہے: اگر انسان کے سرپر دیت ہو جس کو اداء کرنے سے وہ عاجز ہو، یا اس کے سرپر قرض ہو جس کو وہ اداء نہیں کرسکتا، یا فقیر ہو جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔
ان تینوں میں سے کیا تم کسی چیز میں گرفتار ہو؟
اس شخص نے کہا: ہاں میں ان تینوں میں سے ایک میں گرفتار ہوں۔
اس وقت امام حسن(علیہ السلام) نے اس شخص کو پچاس دینار عطاء کئے اور آپ کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین(علیہ السلام) نے اسے انتالیس دینار عطاء کئے۔
جب فقیر لوٹ رہا تھا تو عثمان نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے کہا: تم نے میری مدد کی لیکن تم نے مجھ سے کچھ بھی نہیں پوچھا کہ تم کو پیسے کس چیز کے لئے چاہئے، لیکن حسن ابن علی(علیہما السلام) نے اس کے بارے میں سوال کیا اور مجھے پچاس دینار عطاء کئے۔
عثمان نے کہا: یہ خاندان علم و حکمت کا خاندان ہے، ان کی طرح تم دوسروں کو کہاں پاسکتے ہو؟
[بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۳۳] امام حسن ؑ کا فضائل قرآن بیان کرنا:
اہل بیت(علیہم السلام)، جو قرآن کی حقیقیت کو جاننے والے ہیں وہ قرآن کی منزلت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اسی لئے ہم کو اگر قرآن کو سمجھنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اہل بیت(علیہم السلام) کے دامن سے متصل کریں، اسی غرض کے تحت قرآن کے بارے میں جو امام حسن(علیہ السلام) کے ارشادات ہیں، ان میں سے بعض کو اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے:
قرآن مکمل ہدایت ہے
‏ مَا بَقِيَ فِي الدُّنْيَا بَقِيَّةٌ غَيْرُ هَذَا الْقُرْآنِ فَاتَّخِذُوهُ إِمَاماً يَدُلَّكُمْ عَلَى هُدَاكُمْ وَ إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ مَنْ عَمِلَ بِهِ وَ إِنْ لَمْ يَحْفَظْهُ وَ أَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِهِ وَ إِنْ كَانَ يَقْرَؤُه‏(ارشاد القلوب ج۱، ص۷۹،۱۴۱۲ق). دنیا میں قرآن کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا اسی لئے اس کو اپنا امام قرار دو تاکہ وہ تمھاری ہدایت کرے، لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کا مستحق(قرآن سے قریب) وہ ہے جو قرآن پر عمل کرے اگرچہ اس کو حفظ نہ کرتا ہو، اور قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ ہے جو اس پر عمل نہ کرے اگر چہ اس کی تلاوت کرتا ہو»۔
اس حدیث میں امام حسن(علیہ السلام) یہ فرمارہے ہیں کہ قرآن کو اپنی عملی زندگی میں اپناؤ اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو۔نیز آپ کے فرمان مبارک سے پتا چلتا ہے کہ اگر قرآن پر عمل نہ کیا جائے اور فقط اسے حفظ کرنے پر زور دیا جائے یا فقط تلاوت پر زور دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن اس لیے اترا ہے کہ ہم اس کے مطابق زندگی گزاریں لہذا اس پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرآن شفا ہے
أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَصَابِيحُ النُّورِ وَ شِفَاءُ الصُّدُورِ فَإِنَّ التَّفْكِيرَ حَيَاةُ الْقَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ(کشف الغمہ ج۱، ص۵۷۲)اس قرآن میں نور کے چراغ اور سینوں کے لئے شفا ہے، (سالک کو چاہئے کے اس کے نور کے ذریعہ راستہ کو طے کرے اور اپنے دل کو اس کے ذریعہ روکے(لگام دے)، کیونکہ یہ) سوچنا، بابصیرت شخص کے دل کی حیات ہے جس طرح راستہ چلنے والا، تاریکی میں نور سے روشنی کسب کرتا ہے».
قرآن قیامت میں
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَجِي‏ءُ يَوْمَ‏ الْقِيَامَةِ قَائِداً وَ سَائِقاً يَقُودُ قَوْماً إِلَى الْجَنَّةِ أَحَلُّوا حَلَالَهُ وَ حَرَّمُوا حَرَامَهُ وَ آمَنُوا بِمُتَشَابِهِهِ وَ يَسُوقُ قَوْماً إِلَى النَّارِ ضَيَّعُوا حُدُودَهُ وَ أَحْكَامَهُ وَ اسْتَحَلُّوا مَحَارِمَه
(إرشاد القلوب إلى الصواب(للديلمي)،ج۱، ص۷۹)
قرآن، قیامت کی دن اس حالت میں آئیگا کے وہ راہبر ہوگا، وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا اور اس کے متشابہات پر ایمان رکھا ان کو جنت کی طرف لے جائے گا اور وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے احکام کو ضایع کردیا اور اس کے حرام کو حلال جانا ان کو جھنم میں پہنچائے گا۔
تلاوت قرآن کا ثواب
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ كَانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ مُجَابَةٌ إِمَّا مُعَجَّلَةٌ وَ إِمَّا مُؤَجَّلَة
(بحار الانوار ج۸۹، ص۲۰۴)
جو کوئی قرآن کو پڑھیگا اس کی ایک دعا مقبول ہوگی جلدی یا دیر سے۔
امام حسن(علیہ السلام) نے مختلف مقامات پر مختلف اعتبار سے قرآن کا تعارف کروایا اور اس کی اہمیت کو بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کی انسان کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے اور وہ ہماری زندگی میں کہاں کہاں پر کام آسکتا ہے، اسی لئے ہمیں چاہئے کے ہم قرآن پر عملی طور پر عمل پیرا ہوں۔
آپؑ کا علمی مقام:
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں:
آپؑ سے پوچھا گیا: وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ باد کی بھی روح قبض کرلے گا اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا ہے۔’’
سخاوت:
امام علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔
ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ علیہ السلام نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ علیہ السلام نے آیت پڑھی و اذاحُيّیتم بتحيّة: فحَيّوا باحسن منہا اور فرمایا کہ جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔
بردباری:
ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام علیہ السلام کو برا بھلا کہا امام علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:
” اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے _ اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا _ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا _ اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا … اور اگر ، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں _خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے_ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں”۔
معاہدہ صلح
معاہدہ صلح امام حسن علیہ السلام کا متن، اسلام کے مقدس مقاصد اور اہداف کو بچانے میں آپ کی کوششوں کا آئینہ دار ہے_ جب کبھی کوئی منصف مزاج اور باریک بین شخص صلح نامہ کی ایک ایک شرط کی تحقیق کرے گا تو بڑی آسانی سے فیصلہ کرسکتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے ان خاص حالات میں اپنی اور اپنے پیروکاروں اور اسلام کے مقدس مقاصد کو بچالیا۔صلح نامہ کے بعض شرائط ملاحظہ ہوں:
1_ حسن علیہ السلام زمام حکومت معاویہ کے سپردکر رہے ہیں اس شرط پر کہ معاویہ قرآن وسیرت پیغمبرﷺ اور شائستہ خلفاء کی روش پر عمل کرے۔
2_ بدعت اور علی علیہ السلام کے لئے ناسزا کلمات ہر حال میں ممنوع قرار پائیں اور ان کی نیکی کے سوا اور کسی طرح یادنہ کیا جائے ۔
3_ کوفہ کے بیت المال میں پچاس لاکھ درہم موجود ہیں، وہ امام مجتبی علیہ السلام کے زیر نظر خرچ ہوں گے اور معاویہ ” داراب گرد” کی آمدنی سے ہر سال دس لاکھ درہم جنگ جمل و صفین کے ان شہداء کے پسماندگان میں تقسیم کرے گا جو حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے لڑتے ہوئے قتل کردیئے گئے تھے۔
4_ معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین نہ کرے ۔
5_ ہر شخص چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو اس کو مکمل تحفظ ملے اور کسی کو بھی معاویہ کے خلاف اس کے گذشتہ کاموں کو بناپر سزا نہ دی جائے۔
6_ شیعیان علی علیہ السلام جہاں کہیں بھی ہوں محفوظ رہیں اور کوئی ان سے معترض نہ ہو ۔
امام علیہ السلام نے اور دوسری شرطوں کے ذریعہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام اور اپنے چاہنے والوں کی جان کی حفاظت کی اور اپنے چند اصحاب کے ساتھ جن کی تعداد بہت ہی کم تھی ایک چھوٹا سا اسلامی لیکن با روح معاشرہ تشکیل دیا اور اسلام کو حتمی فنا سے بچالیا۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button