اخلاقیات

عباد الرحمٰن کی خصوصیات:فضول اور لغو کاموں سے اجتناب

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت
قرآنِ مجید عباد الرحمٰن کی دسویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا
اور جب فضول کاموں کے قریب سے گزرتے ہیں، تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں ۔
(فرقان۷۲)
یہ خصوصیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے خاص اور ممتاز بندے نہ صرف ہر قسم کی لغویات، فضول کاموں اور باطل امور کے خلاف ہوتے ہیں، ان چیزوں کے خاتمے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لغویات اور باطل امور سے اپنی ناخوشی اور ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور سہل پسندی اور سستی وغیرہ کی وجہ سے کبھی بھی باطل کو قبول کرنے اور اس کی تائید وحمایت پر تیار نہیں ہوتےایک معقول ہدف ان کے پیش نظر ہوتا ہے، ان کی تمام حرکات وسکنات، اعمال ورفتار منطقی اور سنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے فکر وعمل میں کسی قسم کی فضولیات اور لغویات جگہ نہیں بنا پاتیں کلی طور پر ان کا یہ عمل نہی عن المنکر کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔
نہی عن المنکر جو ایک اہم دینی فریضہ ہے شدید مقابلے اور جدوجہد کا تقاضا کرتا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو بدو جنگ کا کوئی بھی راستہ کارگر ثابت نہیں ہوپاتاایسی صورت میں غیظ وغضب اور ناراضگی کے اظہار کے ذریعے سلبی جنگ کی راہ اپنانی پڑتی ہےیہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا کے ممتاز بندے باطل اور بدی کے ماحول سے کسی طرح کی خوشی اور رضا مندی کا اظہار نہیں کرتےبلکہ اس کے خلاف ایک دو ٹوک اور سنجیدہ قطعی موقف کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔لغو کے معنی ہیں بیہودہ، کھوکھلی اور فضول گفتگونیز یہ کتے کے بھونکنے، قسم کے توڑنے اور بے وجہ اور جھوٹی قسم کھانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (المنجدلفظ لغو کے ذیل میں)اس بنیاد پر لغو سے مراد ہر قسم کے ایسے بے ہودہ، کھوکھلے اور بے اساس اعمال اور نقصاندہ اور بے مقصد سرگرمیاں ہیں، جو انسان کے وقت، اس کی تعمیری قوتوں اور اس کی عمر کے زیاں کا باعث ہوںلہٰذا اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو وقت کے ضائع ہونے اور مواقع ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ بنتی ہے۔
قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب
مذکورہ آیت کے علاوہ، قرآنِ مجید میں دو اور مقامات پر لغو سے اجتناب اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور اِس اجتناب اور دوری کو مومنین اور حق طلب افراد کی خصوصیات اور خصائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔
مومنین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:
وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ
اور وہ لغو باتوں سے اجتناب کرنے والے ہیں۔
( مومنون۳)
اور حق کے متلاشی افراد کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے:
وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ
اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو اجتناب کرتے ہیں۔
( قصص۵۵)
قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے کہ بہشت ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے پاک ہے اور وہاں سلامتی، شادمانی اور بہشتی نعمتوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا۔
(طور ۲۳، مریم ۶۲، واقعہ ۲۵، نبا ۳۵، غاشیہ ۱۱)
یہ آیات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انسان اسی دنیا میں ایک جنت نظیر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، تو اِس معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے محفوظ اور پاک ہو۔پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اَعْظَمُ النّٰاسِ قَدْراً مَنْ تَرَکَ مَالاً یَعْنیه
لوگوں میں بافضلیت ترین انسان وہ ہے جو بے معنی کاموں کو چھوڑ دے۔
(بحار الانوارج۷۱ص۲۷۶)
نیز آپؐ نے فرمایا ہے:
تَرْکُ مٰالاٰ یَعْنی زینةُ الْوَرَعِ
لغو وبیہودہ کاموں کو چھوڑنا، پرہیز گاری کی زینت وزیبائی ہے۔
(بحار الانوارج۷۷ص۱۳۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:
اِیّٰاکَ وَالدُّخُولُ فیمٰا لاٰ یَعْنیک فَتَذِلَّ
بے مقصد اور فضول کاموں میں پڑنے سے پرہیز کرو کیونکہ ایسے کاموں میں مشغول ہونا تمہاری ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا۔
(بحار الانوارج۷۸ص۲۰۴)
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:
رُبَّ لَغْوٍ یَجلبُ شَرّاً
بسا اوقات فضول کام بدی اور برائی کا موجب ہوجاتے ہیں۔
(غرر الحکم نقل از میزان الحکم ۃج۸ص۵۱۴)
نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے۔
مَن اشتَغَلَ بالفُضُول، فٰانَهُ مِنْ مُهِمّةِ المامولِ
ایسا شخص جو اپنے آپ کو فضول اور بے مقصد کاموں میں مشغول کرلے، وہ قابلِ توجہ اہم کاموں کی انجام دہی سے محروم رہے گا۔
(غرر الحکم نقل از میزان الحکم ۃج۸ص۵۱۴)
امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں میں ہے کہ:
وَعَمِّرْنی مٰا کٰانَ عُمْری بِذْلَةً فی طٰاعَتِکَ، فَاِذٰا کٰانَ عْمری مَرْتَعاً لِشّیْطانِ فَاقْبِضْی اِلَیْکَ
بارِ الٰہا! جب تک میری زندگی تیرے فرامین کی بجا آوری میں بسر ہورہی ہے، اُس وقت تک اُسے باقی رکھنا اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے، تو میری روح قبض کرلینا۔
(صحیفہ سجادیہ دعا۲۰)
روایت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے میں، مدینہ میں ایک مسخرہ رہا کرتا تھا، جو اپنی بے سروپا حرکات سے لوگوں کو ہنساتا تھابعض اوقات اُس نے اشارتاً کہا تھا کہ اِس شخص (یعنی امام زین العابدینؑ) نے مجھے زچ کرکے رکھ دیا ہے، میں نے ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی، مگر انہیں نہیں ہنسا سکاایک روز یہی مسخرہ امام زین العابدین ؑکے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آیا اور آپ ؑکے دوشِ مبارک سے آپ ؑکی عبا اچک کر لے گیاامام ؑنے اُس کی اِس حرکت پر بھی کوئی توجہ نہ دی لیکن امام ؑکی معیت میں چلنے والے لوگ دوڑے اور اُس کے ہاتھ سے عبا چھین کر امام ؑ کی خدمت میں واپس لے آئےامام ؑنے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ عرض کیا گیا: یہ مدینہ کا رہنے والا ایک مسخرہ ہے، جو اپنی اِس قسم کی حرکتوں سے لوگوں کو ہنساتا ہے۔
امام ؑنے فرمایا: اِس سے کہو کہ:
اِنَّ ﷲ یَوْمَاً یخسِرُ فیهِ المُبْطِلُونَ
خدا کے پاس ایک دن ایسا ہے (قیامت) جس دن فضول کام کرنے والے لوگ نقصان اٹھائیں گے۔
وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ
( غافر ۷۸)
(مناقبِ آلِ ابی طالب ج۴ص۱۵۸)
لغویات اور فضولیات سے دور رہنے کے بارے میں موجود بے شمار روایات میں سے ہم نے جن چند منتخب روایات کو پیش کیا وہ اِس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں اِن روایات کے ذریعے پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑنے بیہودگی اور ہر قسم کے غیر مفید کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہےاسکے ساتھ ساتھ یہ روایات اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقت اور مواقع انتہائی قدر وقیمت کی حامل شئے ہیں، انہیں باطل امور اور بے فائدہ کاموں میں تلف نہیں کرنا چاہیے۔
وقت کی پہچان اور اسکی قدر
فضولیت کی جانب رجحان اور بے معنی اور بے مقصد زندگی انتہائی نقصان دہ چیز ہے، جو انسان کی شخصیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر برباد کردیتی ہے، انسان کو نہ صرف ترقی وتکامل سے روکتی ہے، اُسے اُس کی حقیقت سے دور کردیتی ہے بلکہ اس کے زوال، انحطاط اور ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔اس ضرر رساں چیز کا ایک انتہائی نمایاں اثر یہ ہے کہ یہ انسان کے قیمتی وقت کے زیاں کا سبب بن کر اسے اس کے اصل سرمائے یعنی وقت کے گوہر گراں قیمت سے محروم کردیتی ہےلہٰذا بے مقصدیت کی مخالفت اور ہر قسم کے لغو امور سے پرہیز، وقت کے قیمتی سرمائے کی حفاظت اور اس سے بہترین نتائج کے حصول کا باعث ہے۔
اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام اور عقل ودانش، دونوں ہی ” وقت“ کی انتہائی قدر وقیمت کے قائل ہیں، وقت کا صحیح اور بہترین استعمال زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی اور کمال کی وجہ بنتا ہے۔اسلام میں وقت کی قدر جاننے، اس کو اہمیت دینے اور اس سے صحیح صحیح اور بجا استفادے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور اسے خدا کی عظیم نعمت شمار کیا گیا ہے، جس کا روزِ قیامت حساب لیا جائے گاجیسا کہ رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے:
روزِ قیامت انسان ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے گا، جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: اُس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں بسر کیااُس کے جسم (یاجوانی) کے بارے میں کہ اُسے کن امور میں صرف کیااُس کے مال ودولت کے بارے میں کہ اُسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور میری اور میرے اہل بیت کی محبت کے بارے میں۔
(بحار الانوارج۳۶ص۷۹)
اس روایت کی روح سے قیامت کے دن خدا کا سب سے پہلا سوال عمر، یعنی انسان کی زندگی کے اوقات کے بارے میں ہوگا، کہ ُانہیں کس راہ میں صرف کیا اور اُن کے عوض کیا حاصل کیا؟ فضول اور باطل امور میں خرچ کیا؟ یا حصولِ علم وکمال، تقویٰ اور مثبت کاموں کے لیے اُن سے کام لیا؟انسانی زندگی کی گزرتی ساعتوں کو وقت کہتے ہیں معروف عالم ” فخر الدین رازی“ کے بقول وقت برف کی مانند ہے، جو پگھل کر ختم ہوجاتا ہے(تفسیر کبیرج۱۰سورہ عصر کی تفسیر کے ذیل میں)لہٰذا ضروری ہے کہ اِس سے بہترین استفادہ کیا جائے، اس سے خوشگوار مشروبات کو ٹھنڈا کیا جائے، پیاسوں کو سیراب کیا جائے اور اِس کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔
لیکن اگر برف کو سخت گرمی میں پتھریلی زمین پر رکھ دیا جائے، تو وہ بغیر کوئی فائدہ پہنچائے پگھل کر ختم ہوجائے گااور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اِسے نشہ آور مشروبات ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرے جو انسان کے فہم وادراک، عقل وخرد کی تباہی کا باعث بنیں۔لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ منظم پروگرام کے ذریعے فضول کاموں اور کھوکھلے اور بے فائدہ امور سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں، تاکہ اپنی زندگی کے ایک ایک سیکنڈ، ایک ایک منٹ اور ایک ایک گھنٹے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیںاس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
مومن اپنے شب وروز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہےایک حصے کو اپنی زندگی کے امور کی اصلاح اور تلاشِ معاش میں صرف کرتا ہےدوسرے حصے کو آرام واستراحت، حلال لذتوں سے استفادے اور قوت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا ہےاور تیسرے حصے کو خدا سے راز ونیاز اور اپنے اور خدا کے درمیان معاملات کی اصلاح (خود سازی اور مختلف شعبوں میں تعمیر) کے لیے کام میں لاتا ہے۔
(اقتباس ازنہج البلاغہ کلمات قصار۳۹۰)
وقت کی قدر اور اہمیت کے بارے میں یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ بعض مفسرین نے آیہ والعصر کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں عصر (جس کی خدا نے قسم کھائی ہے) سے مراد وقت ہےیعنی وقت کی قسم!!!! کیونکہ اگر اِس سے بہتر استفادہ کیا جائے، تو یہ انسان کے لیے بے مثل سرمایہ ہےاور اِس سے بہترین استفادے کے لیے ضروری ہے کہ انسان فضولیات اور بے کار اور منفی کاموں سے دور رہے۔
اگر ہم وقت کو لغو کاموں اور منفی امور میں برباد کرنے کی بجائے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں، تو اِس طرح ہم اپنے قیمتی وقت کو تباہ اور ضائع نہیں کریں گےاور اگر ایسا نہ کر سکیں، تو ہمیں آخر عمر میں اور روزِ قیامت غم واندوہ کے سوا کوئی اور نتیجہ حاصل نہ ہوگاجیسا کہ اِس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:
وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ
(زمر ۵۵، ۵۶)
اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین قانون نازل کیا گیا ہے اُس کا اتباع کرو، قبل اسکے کہ تم تک اچانک عذاب آپہنچے اور تمہیں اِس کا شعور بھی نہ ہوپھر تم میں سے کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس میں نے خدا کے حق میں بڑی کوتاہی کی ہے اور میں (آیات ِالٰہی کا) مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔
قابل توجہ بات ہے کہ قرآنِ کریم میں دو الفاظ ” لہو“ اور ” لعب“ بار بار استعمال ہوئے ہیں اور ان سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےلہو ولعب (جن کے معنی عیاشی، غافل کردینے والے اور منفی اثرات کے حامل کھیل کود ہیں) اُن عوامل میں سے ہیں جو انسان کو لغو اور فضول کاموں میں مصروف کردینے کا باعث ہوتے ہیں۔
ہم لہو ولعب سے پرہیز کے بارے میں قرآنِ کریم کی ہدایت سے یہ نکتہ بھی حاصل کرسکتے ہیں کہ اِن سے پرہیز، وقت کی قدر کرنے اور اس سے مفید استفادے کا بہترین ذریعہ ہےلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ فضولیت کی جانب رجحان سے جو نقصانات بشریت کو اٹھانا پڑے ہیں (جن کی ایک شکل لوگوں کا منشیات کا عادی ہونا ہے) وہ خطرناک اور انتہائی بڑی خسارتیں ہیں۔
وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج
وقت کی قدر کرنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی کا بندوبست کرسکتا ہے اور معنویت کے بلند درجات پر پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس دنیا میں بھی علم وعمل کے میدانوں میں کمال کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور ایک عالمی شخصیت بن کر بشریت کو اپنی قیمتی خدمات سے فیضیاب کرسکتا ہےاگر ایڈیسن نے بجلی دریافت کی اور بہت سی دوسری مفید دریافتوں کا سبب بنا، اگر بو علی سینا نے علمِ طب اور فلسفے اور عرفان کو وسعت اور گہرائی دی اور اگر آئن اسٹائن نے فزکس کو رونق بخشی اور اس کے تجزیئے اور تحلیل کی وسعت میں اضافہ کیا اور بہت سے دوسرے لوگ جو مختلف میدانوں میں علوم کی وسعت وترویج اور صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے، تو یہ سب کچھ وقت سے صحیح استفادے کی بدولت ممکن ہوا ہےکیونکہ اگر یہ لوگ اپنے بہترین وقت کو لغو اور فضول کاموں میں گزار دیتے تو اِس سے خود اُن کی اور اُن کے معاشروں کی تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہ ہوتا۔
ہم خود اپنے ارد گرد اپنے بزرگ علما کو دیکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے وقت سے استفادے اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عالی ترین درجات حاصل کیے اور معاشرے کے لیے عظیم الشان علمی اور عملی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے برکات وثمرات کا باعث ہوئےاس سلسلے میں ہم آپ کی توجہ کے لیے اختصار کے ساتھ چار علما کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
آیت اﷲ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ، المعروف صاحب ِجواہر (وفات ۱۲۶۶ھ) جنہوں نے اپنی یادگار کے طور پر استد لالی فقہی کتاب“ جواہر الکلام“ چھوڑی ہے، جو چالیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام ابواب ِفقہ شامل ہیں اِن بزرگوار نے اپنے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور اِس میں ممتاز شاگردوں کی تربیت کی اور گراں قدر کتاب جواہر الکلام تالیف کی جو اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے شیعہ استدلالی فقہ میں بے نظیر حیثیت کی حامل ہےیہ کتاب بجا طور پر فقہ شیعہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی کتاب ” بحار الانوار“ احادیث ِمعصومین کا دائرۃ المعارف اور خاندانِ رسالت کے علوم ومعارف پر مبنی ایک چھوٹا سا کتب خانہ ہے۔
مرحوم صاحب الجواہر کی ولادت تقریباً ۱۱۹۲ء میں ہوئی۲۵ برس کی عمر میں آپ نے ” جواہر الکلام“ کی تالیف کا آغاز کیا اور ۱۲۵۷ء میں اِسے مکمل کیایعنی آپ نے بغیر کسی وقفے کے اِس کتاب کو ۴۰ سال میں تحریر کیا اور یہ عظیم توفیق حاصل کیآپ نے ۱۲۶۶ء میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائیاِس کتاب کے علاوہ بھی آپ نے دوسری کتب تالیف کیں، جن میں نجاۃ العباد، ہدایۃالناسکین اور علم اصول پر ایک کتاب بھی شامل ہےبعض علما کے بقول اگر صاحب ِجواہر کے دور کا کوئی تاریخ نویس اُس دور کے حیرت انگیز واقعات قلمبند کرتا، تو اُسے کتاب جواہر الکلام کی تالیف سے زیادہ حیرت انگیز کوئی اور واقعہ نہ مل پاتا۔
(جواہر الکلامطبع بیروت ج۱ص۱۲، ۱۴، ۱۷ اور ۲۴ مقدمہ)
غور سے پڑھیےشیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ کا ایک بہت پیارا فرزند، جس کا نام حمید تھا، اُس کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھایہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کو اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے امور میں بہتری کے لیے اِس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھی شیخ اپنے اِس فرزند کے جنازے پر آئے اور چند آیات ِقرآنی کی تلاوت کی ا بھی جنازے کی تدفین ہونے میں کچھ وقت تھایہ دیکھ کر شیخ وہیں بیٹھ گئے، اپنا بستہ کھول کر اس میں سے قلم وکاغذ نکالا اور کتاب جواہر الکلام (جسے اُس زمانے میں وہ تحریر کررہے تھے) لکھنے میں مصروف ہوگئے۔وقت کی اہمیت اور اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے سلسلے میں شیخ کا یہی طرز عمل تھا جس کے ذریعے آپ نے فقہ وفقاہت کے میدان میں ایسی گرانقدر کتاب پیش کیامام خمینی نے اپنے ایک بیان میں اِس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔
مرجع اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان میں تحصیل علم میں مشغول تھےکبھی کبھی آپ رات کے وقت مطالعے میں ایسے غرق ہوجاتے کہ صبح موذن کی اذان ہی آپ کو وقت گزرنے کا احساس دلاتییہ ترقی اور کمال کے لیے وقت سے استفادے کی ایک اور مثال تھی۔
ابو ریحان البیرونی (متوفی ۴۳۰ھ) کا شمار ممتاز علما میں ہوتا ہےیہ بو علی سینا کے ہم عصر تھے اور علمِ طب اور ریاضی وغیرہ میں اپنے زمانے کے چوٹی کے علما میں اِن کا شمار ہوتا تھاانہوں نے مختلف علوم کے حصول کے لیے اُس دور میں دور دراز علاقوں کے سفر کیے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، کثیر علمی سرمایہ اکٹھا کیا اور علم کے اعلیٰ درجات تک پہنچےوقت کی قدر کے سلسلے میں کم ہی لوگ اُن کی مثل ہوں گےوہ اپنی عمر کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھتے تھے، دیکھا کرتے تھے کہ کہیں وہ فضول اور باطل امور میں برباد تو نہیں ہورہااِن کے حالات ِزندگی میں تحریر کیا گیا ہے کہ: ہمیشہ قلم ان کے ہاتھ میں رہتا تھا، مسلسل غور وفکر میں غرق رہتے تھے، عید ِنو روز اور عید ِ مہرگان (ایرانی سال کے مہینے مہرکے پہلے دن) کے سوا پورے سال کام اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے۔
تعجب انگیز قصہ ہے کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھے تو اُن کا ایک شاگرد احوال پرسی کے لیے اُن کے یہاں آیااِس موقع پر بھی انہوں نے ریاضی کے ایک مسئلے ” حساب جدّات“ کے بارے میں اس سے گفتگو کیاس شاگرد نے ان سے کہا کہ آپ اس حال میں بھی ریاضی کے مسائل پر گفتگو کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میری نظر میں اس مسئلے سے آگاہی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا، اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے گزر جانے سے بہتر ہےشاگرد کہتا ہے کہ میں نے اس مسئلے کی وضاحت کی، اِس کے بعد ان سے رخصت چاہی، ابھی میں اپنے گھر بھی نہیں پہنچ پایا تھا کہ منادیوں نے خبر دی کہ ابو ریحان کا انتقال ہوگیا ہے۔
(سفینۃ البحارج۱ص۵۳۸)
عظیم فلسفی ملّا ہادی سبزواری، جو تیرہویں صدی ہجری کے بڑے فلاسفہ اور حکما میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو ایران اور اسلام کے لیے باعث ِافتخار لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان سے تعلیم حاصل کیآپ وقت کو اِس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط تک کو کھول کر نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن میں سے کوئی ایسی ناگوار خبر ہو جو ان کے ذہن کو اپنی طرف مشغول کرلے اور اِس کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا نقصان ہوجائےتعلیم ختم کرنے کے بعد، جب انہوں نے وطن واپسی کا ارادہ کیا تو ان خطوط کو کھول کر پڑھااِن میں سے ایک خط میں اُن کے ایک قریبی رشتہ دار کی موت کی خبر تھی یہ دیکھ کر علامہ سبزواری نے کہا کہ: خدا کا شکر ہے کہ جب مجھے یہ خط ملا تھا اُس وقت میں اِس ناگوار خبر سے مطلع نہ ہواکیونکہ یہ میری تعلیم کے لیے نقصان کا باعث ہوتا۔
(تاریخ فلاسفہ اسلامج۲ص۱۵۳)
حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ بھی اِن عظیم افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تنظیم اور نظم وضبط کے ذریعے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عظیم دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کیےانہوں نے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے: ہمیشہ قلیل منظم گروہ نے کثیر غیر منظم گروہ پر غلبہ حاصل کیا ہے۔
(صحیفہ نورج۱۴ص۱۷۸)
مقالے کی اختتامی سطور کو ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اِس پُر معنی کلام سے زینت بخشتے ہیں امام ؑنے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا:
سخت ترین غم واندوہ، فرصت اور مواقع کا ہاتھ سے نکل جانا ہے۔
(غرر الحکم ج۲ص۴۴۱)
(’’عباد الرحمٰن کے اوصاف‘‘ سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button