عقائدعقائد کا مطالعہ

مذہب اہل بیت علیہم السلام کے عقائد و نظریات

پیشکش
مرکزی تحفظ عزاداری کمیٹی پاکستان

الحمد لله رب العالمین والصلوة على اشرف الانبياء والمرسلين وآله الطاهرین
مذہب اہلبیتؑ کے عقائد و نظریات
ہم ذیل میں مذہب اہل بیتعلیہم السلام کے وہ عقائد و نظریات پیش کر رہے ہیں جس پر مذہب اہل بیتؑ فقہ جعفریہ کے ماننے والے روئے ز مین پر آباد تمام متفق ہیں ۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کر رہے ہیں کہ اس تحریر میں کوئی اختلافی مسئلہ بیان نہیں کیا گیا ہے
واضح رہے: اختلاف کا حق اہل نظر علمی اعلیٰ مقام پر فائز حضرات کو حاصل ہے۔
اللہ جل جلالہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ :
اللہ تعالیٰ واحد و یکتا ہے اس کا کوئی مثل نہیں ۔ قدیم ازلی ہے۔ علیم، قادر، عادل، بے نیاز ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات ان اوصاف سے پاک و منزہ ہے جن سے مخلوقات متصف ہوتی ہیں۔اس کا نہ جسم ہے نہ کسی شکل میں ہے۔ وہ مکان و زمان کا محتاج نہیں ۔ اس کی کوئی ضد ، اولاد، شریک نہیں ہے۔

توحید کے بارے میں ہمارا عقیدہ
1۔ توحید ذات : اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
2۔ توحید صفات: اللہ کی ذات جن اوصاف سے متصف ہے وہ اللہ کی ذات سے مختص ہیں اس میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ کے علم و قدرت میں، خالقیت اور راز قیت میں کوئی شریک نہیں ۔
3۔ توحید در عبادت: غیر اللہ کی عبادت کسی صورت جائز نہیں، نہ ہی کسی غیر خدا کو خدا کے ساتھ شریک گرداننا جائز ہے۔ جو شخص کسی غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک عبادت کرے وہ مشرک ہے۔
واضح رہے زیارت قبور ائمہ ؑ اور عزاداری غیر خدا کی عبادت نہیں ہے۔ جیساکہ بعض نا فہم لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ بلکہ ان امور کا تعلق اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ جیسے مریض کی عیادت اور مؤمن کے جنازہ کی تشییع اور غریب مؤمن کی کمک کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا جاتاہے۔ جیسا کہ مریض کی عیادت مریض کی عبادت نہیں ہے اسی طرح امام حسین ؑ کی عزاداری امام کی عبادت نہیں ہے۔
رہا یہ سوال کہ کیا عزاداری اعمال صالحہ میں سے ہے؟ تو اس کا جواب واضح ہے کہ حضرت امام حسین ؑ پر گریہ کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور مجلس عزا قائم کرنا ائمہ معصومین ؑ کی سنت ہے۔
اللہ کی صفات کے بارے میں ہمارا عقیدہ :
ہمارا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اللہ کی ذات سے زائد نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات عین ذات ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم ، قدرت حاصل ہے بلکہ اللہ کی ذات علم و قدرت سے جدا صفت نہیں ہے بلکہ ذات خدا علم و قدرت سے عبارت ہے۔
یہاں غیر شیعہ کا نظریہ باطل ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات اللہ کی ذات سے زائد ہیں یعنی اللہ کی ذات کو علم و قدرت کی صفت لاحق ہے جو معاذاللہ تعدد ذات و صفت لازم آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عدل کے بارے میں ہمارا عقیدہ
اللہ تعالیٰ اپنے تمام فیصلوں میں عدل و انصاف سے کام لیتا ہے وہ مجرم کو سزا دیتا ہے اور فرمان بردار کو جزا دیتا ہے اور جو کام بندوں کے لیے ممکن نہیں ہے اس کا حکم نہیں دیتا ۔ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ چونکہ ظلم کرنے کے لیے درج ذیل امور میں سے ایک موجود ہو تو ظلم کیا جاتا ہے ۔
1۔ نادانی کی وجہ سے ظلم صادر ہوتا ہے کہ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ یہ ظلم ہے ۔
2۔ ناداں تو نہیں ہے مگر ظلم کرنے پر مجبور ہے۔ اسے ترک نہیں کر سکتا ۔
3۔ ناداں اور مجبور نہیں مگر وہ ظلم کا محتاج ہے ۔
4۔ و ہ نہ ناداں ہے نہ مجبور، نہ محتاج مگر وہ اپنی خواہش کی بنا پر بے مقصد ظلم کرتا ہے۔
یہ چاروں صورتیں اللہ تعالیٰ کے لیے قابل تصور نہیں ہیں وہ نہ ناداں ہے نہ مجبور ہے نہ محتاج ہے نہ خواہشات کے تابع عبث کام کرتا ہے:
وَمَا اللَّـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ (المؤمن 31)
(ترجمہ) اللہ بندوں پر ظلم کا ارادہ (بھی ) نہیں کرتا۔
جبکہ بعض اسلامی مکاتب اس بات کو اللہ کے لیے جائز قرار دیتے ہیں ( معاذ اللہ)

مکلف بنانے کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے بندوں کو احکام کی بجا آوری کا حکم نہیں دیتا ۔ اللہ تعالیٰ پہلے اپنے رسولوں کے ذریعہ بندوں تک اپنے احکام پہنچادیتا ہے اس کے بعد بندوں کو مکلف بناتاہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نا ممکنات کی بجا آوری کا حکم نہیں دیتا ۔
اللہ تعالیٰ ان احکام کی بجا آوری کا حکم دیتا ہے جن میں مصلحت موجود ہے اور ان کاموں سے بچنے کا حکم دیتا ہے جن میں مفسدہ ہے۔
نبوت کے بارے میں ہمارا عقیدہ
اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاءؑ مبعوث فرماتا ہے ۔ انبیاءؑ ہماری دنیا و آخرت کی سعادت پر مشتمل ایک نظام حیات لے کر آتے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں جو ایک جامع نظام حیات لے کر آئے ہیں جسے شریعت اسلامیہ کہتے ہیں اور قیامت تک کے انسانوں کے لیے قابل عمل نظام حیات ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
حلال محمد حلال الی یوم القیامیۃ حرام محمد حرام الی یوم القیامیۃ
قرآن کے بارے میں ہمارا عقیدہ
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہمارے رسول محمدﷺ کے معجزات میں سے ایک اہم معجزہ ہے۔ قرآن وحی الہٰی اور معجزہ ہونے کی وجہ سے یہ ناقابل تنقیص ہے چونکہ معجزہ میں کوئی خلل واقع نہیں ہو سکتا۔
ہمارا عقیدہ ہے قرآن مجید میں کسی قسم کی تحریف و تغیر واقع نہیں ہوئی اور قرآن کو ہر قسم کی تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ ارشاد الہیٰ ہے :
"إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "
امامت کے بارے میں ہمارا عقیدہ
نبیﷺ کے بعد دین اسلام کی حفاظت کے لیے امام منصوص من اللہ اور معصوم ہوتے ہیں اور علوم محمد ﷺ کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لیے عقیدہ امامت اصول دین میں سے ہے۔ حدیث ہے :
” من لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ”
جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہیں رکھتا وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ لہذا کوئی زمانہ امام معصومؑ او رحجت خدا سے خالی نہیں ہوتا۔
علم امام کے بارے میں ہمارا عقیدہ
امام چونکہ علم نبی کے وارث ہیں ۔ اپنے زمانے کے تمام علماء سے زیادہ علم کے مالک ہوتے ہیں۔ امام سے کوئی حکم مخفی نہیں ہوتا۔ امام کسی کی طرف رجوع نہیں کرتے بلکہ سب امام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمارے ائمہ ؑ کی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ موجود نہیں ہے جس میں امام نے کسی کی طرف رجوع کیاہو جیسا کہ تاریخ میں ایسا موقع نظر نہیں آتا جس میں امام کسی سوال کے جواب دینے سے عاجز آگئے ہوں۔
ائمہ ؑ کی اطاعت کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ائمہؑ جب منصوص من اللہ ہیں تو ان کا امامت کے منصب پر فائز ہونا کوئی اعزازی اور تعارفی منصب نہیں کہ صرف تسلیم کرنا اور عقیدہ رکھنا کافی ہو بلکہ یہ وارث علم نبی ہیں ۔ ان کی اطاعت امت پر واجب ہے اور ان کی ولایت و حاکمیت امت پر نافذ ہے۔ قرآن مجید کا واضح حکم ہے ۔
أَطیعُوا اللّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ
(ترجمہ) اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے صاحبان امر کی اطاعت کرو۔
ہمارا مسلمہ عقیدہ ہے اولی الامر سے مراد ہمارے ائمہعلیہم السلام ہیں ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ائمہؑ کی طرف سے احکام جاری ہوئے ہیں؟ جواب یہ ہےہمارے ائمہ علیہم السلام کی طرف سے صادر شدہ احکام جامع ترین اور سب سے زیادہ احکام ہیں لہذا ان پر عمل کر کے اطاعت واجب نہ ہوتی تو کیا ائمہؑ نے بلاوجہ احکام جاری کیے؟
حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
"النجوم امان لاھل السماء و اھل بیتی امان لاھل الارض”
ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہل بیت زمین والوں کے امان ہیں۔
خصوصاً حدیث ثقلین میں صراحت موجود ہے:
” انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اھل بیتی ، ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی "
چنانچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بند ہونے کے بعد گمراہی سے بچنے کی واحد صورت کتاب خدا اور اہل بیت رسول سے تمسک ہے ۔ واضح ہے کہ کتاب خدا کے احکام پر عمل کرنا اور اہل بیت اطہارؑ کی طرف سے صادر شدہ احکام پر عمل کرنا "تمسک” ہے۔
محبت اہل بیتعلیہم السلام کے بارے میں ہمارا عقیدہ
مذہب اہل بیتؑ کے پیروکاروں کا یہ امتیاز ہے کہ اس مذہب کے مطابق محبت اھل البیت ایمان کی اور ان کے ساتھ بغض نفاق کی علامت ہے ۔ اس پر یہ آیت واضح دلیل ہے۔
قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
اس آیت کے تحت جس نے محبت اہل بیتؑ کو ٹھکرایا اس نے رسالت کو ٹھکرایا۔
اس موقف پر سنی مصادر میں صحیح اور معتبر احادیث کثرت سے موجود ہیں۔
حدیث رسولﷺ: ” یا علی لا یحبک الا مؤمن و لا یبغضک الامنافق ”
اے علیؑ تجھ سے صرف مؤمن محبت کرے گا اور صرف منافق تجھ سے بغض رکھےگا۔
حدیث رسولﷺ ” لا یحبنا اھل البیت الامؤمن ولا یبغضنا الا منافق شقی”۔
ہم اہل بیت سے صرف مؤمن محبت کرتا ہے اور ہم سے صرف منافق بغض رکھتا ہے۔
چنانچہ ناصبیوں کے سوا کسی کو اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ محبت اہل بیت واجب اور جزوایمان ہے۔
ائمہ اہل بیتؑ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ پاک ہستیاں معصوم ہیں۔ان کی امامت منصوص من اللہ ہیں ۔ یہ امت میں سے سب سے بڑھ کر علم و تقویٰ شجاعت و کرم عفت و دیگر صفات حمیدہ کی مالک ہیں۔ یہ جن خصوصیات اور فضائل کی مالک ہیں امت میں کوئی دوسرا شخص اس درجے پر فائز نہیں ہے۔ یہ اولیاء اللہ ہیں، علم نبی کی وارث ہیں، نبی کے بعد امت پر واجب ہے ان کی طرف رجوع کیا جائے اور ان سے مذہبی احکام اخذ کیے جائیں۔ ان کا فرمان حجت ان کی اطاعت واجب اور ان کے خلاف جانےوالے ہلاکت میں ہیں۔
مذہب شیعہ خیر البریہ اپنے اماموں کے بارے میں غالیوں کے عقائد سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ اس بارے میں ہمارے ائمہؑ کی طرف سے بڑی وضاحت موجود ہے۔

عزاداری کے بارےمیں ہمارا عقیدہ
سید الشہداء ؑ کی شہادت پر عزاداری کرنا ایمان کی علامت ہے اور عزاداری کی مخالفت کرنا نفاق کی علامت ہے۔ اگر کسی کو جگر گوشہ رسول کی ناحق شہادت پر دکھ نہیں ہے اور اس دکھ کے اظہار پر خوش نہیں ہے تو اس کے منافق ہونے میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔
عزاداری ہمارے ہاتھ میں ظلم اور ظالموں کے خلاف ایک طاقت ہے۔
عزاداری اہل بیتؑ کے ساتھ وفاداری اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا مؤثر ذریعہ ہے۔
عزاداری مکتب اہل بیت کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ایک ناقابل شکست طاقت ہے۔
عزاداری تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔
عزاداری اہل بیت کے پیروکاروں کے وجود و تشخیص کا بہترین مظہر ہے۔
عزاداری شیعیان حیدر کرار کے لیے ایک عظیم رحمت ہے۔
حاسدین اس نعمت کی افادیت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
حدیث میں ہے :” المؤمن کَیِّس ” مؤمن ہوشیار ہوتاہے۔ منافق کو موقع نہ دیں اس عظیم طاقت کو ہمارے خلاف استعمال کریں اور یہ طاقت ہم سے سلب کر کے ہمارے خلاف استعمال کریں۔
ائمہؑ اہل بیت کے نزدیک تشیع کی حقیقت
ائمہ اہل بیت علیہم السلام اپنی تمامتر توجہات اپنے چاہنے والوں کی تعلیم و تربیت اور تقویٰ و عمل کی ترغیب پر صرف فرماتے تھے ۔ اور ہمیشہ اپنے شیعوں کو احکام شرعیہ کی تعلیم اور ان پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔
اور یہ بات ہر مناسبت سے بیان فرماتے تھے کہ: ہمارے شیعہ وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوں۔
اور اہل بیت کی محبت، اطاعتِ اہل بیت کے لیے محرک ہو تو نتیجہ خیز بیان فرماتے تھے۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے:
"ابلغ موالینا لا نغنی عنہم من اللہ شیئاً الا بالعمل، وانھم لن ینالوا ولایتنا الا بالورع”۔ ( الکافی 2/179)
ہمارے چاہنے والوں کو بتا دو کہ عمل کے بغیر ہم اللہ سے ان کی کوئی سفارش نہیں کر سکتے اور ورع و تقویٰ کے بغیر وہ ہماری ولایت کو حاصل نہیں کر سکتے ۔
دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا:
"یا جابر أیکتفی من ینتحل التشیع أن یقول بحبنا اھل البیت ، فواللہ ما شیعتنا الا من اتقی اللہ و اطاعہ” ۔
اے جابر ! کیا تشیع کے مدعی کے لیے ہم اہل بیتؑ کی محبت کا دعویٰ کافی ہے ؟ واللہ ہمارے شیعہ صرف وہ لوگ ہیں جو خوف خدا رکھتے ہوں اور اس کی اطاعت کرے ۔
اس موضوع پر معصومینؑ کے فرامین اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سب کو یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔
ولایت علیؑ اور ائمہ ؑ کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ہمارا راسخ عقیدہ ہے کہ علی علیہ السلام و آل علی علیہم السلام کی ولایت بمعنیٰ محبت اصول دین میں سے ہے جو کہ شرط ایمان ہے اور شرط صحت و قبول اعمال ہے۔ علی اور آل علیؑ کی ولایت کے اقرار کے بغیر دین میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ ولایت علیؑ پر ایمان کے بعد انسان دین کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے ۔ اور دین پر عمل پیرا ہونے کا مرحلہ آجاتاہے۔ اور دین ایمان و عمل سے عبارت ہے۔
علی ؑ کی ولایت پر ایمان رکھنے والے پر عمل کے مرحلہ میں علیؑ کی ولایت نافذ ہے۔
یعنی: جیسے اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم نافذ ہے بالکل اسی طرح بعد از رسول ؐ علی ؑ اور آل علیؑ کا حکم نافذ ہے ۔
یہ بات قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول اکرمؐ کی متواتر احادیث سے ثابت اور مسلم ہے ۔
اس جگہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان قابل توجہ ہے:
” ولایتی لعلی ؑ احب الی من ولادتی منہ فان ولایتی لہ فرض و ولادتی منہ فضل” ( بحار الانوار)
علیؑ کی ولایت مجھے زیادہ عزیز ہے میری ان سے ولادت کی نسبت سے چونکہ ان کی ولایت فرض ہے اور ان سے ولادت کی نسبت فضیلت ہے۔
ائمہ کی ولایت تکوینی کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ولایت تکوینی کے بارے میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو ہمارے بارہویں امام حضرت امام صاحب العصر و الزمان کے مقتدی ہیں کہ جب آپ ظہور فرمائیں گے تو حضرت عیسیٰ حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی اقتداء کریں گے اور ہمارے امام علیہ السلام کی امامت میں نماز پڑھیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولایت تکوینی کے بارے میں قرآنی صراحت موجود ہے کہ آپ مردوں کو باذن خدا زندہ کرتے تھے، مٹی سے پرندہ بناتے اس میں باذن خدا روح پھونکتے تھے،تو امام کی ولایت تکوینی محتاج بیان نہیں ہے۔
ہمارے رسولﷺ کے اشارے سے قمر شق ہو گیا۔ولی الاولیاء حضرت علی علیہ السلام کے لئے سورج واپس ہو گیا۔ اس طرح ہمارے دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے لئے ولایت تکوینی کے لا تعداد معجزات موجود ہیں۔ یہ ایسی واضح حقیقت ہے جو سب کے لئے عیاں ہے۔
معاد کے بارے میں ہمارا عقیدہ
موت کے بعد دوسری زندگی پر ایمان اصول دین میں اہم ترین اصول ہے ۔
قابل توجہ ہے کہ : قیامت کی زندگی ابدی اور ختم نہ ہونے والی زندگی ہے آخرت کی زندگی کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں ایک ہزار آیات میں قیامت کا ذکر ہے ۔
قیامت یوم الحساب ہے
روز محشر ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینے کےلیے اللہ تعالی کے رو برو حاضر کیا جائے گا۔
نامۂ اعمال
دنیا میں جو نیک و بد عمل انجام دیا ہے وہ انسان کے نامہ اعمال میں درج ہوگا۔ اور حشر کے دن ان اعمال کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ” يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ” اس دن تمام راز فاش ہو جائیں گے۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ فرماتے ہیں ۔ : وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا‮ ( بنی اسرائیل 31) ‬‬‬‬
اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک کتاب پیش کریں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔
شفاعت کے بارے میں ہمارا عقیدہ
امت محمدی کےگنہگاروں کے لیے شفاعت ایک نہایت امید افزا بشارت ہے کہ خصوصاً اہل بیت اطہار کے پیروکاروں کے لیے شفاعت ایسا آخری وسیلہ نجات ہے جس کے لیے ہر مؤمن کو آگاہ رہنا چاہیے کہ شفاعت نصیب ہونے کے لیے دنیا میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
نماز اور شفاعت
ائمہ معصومین ؑ کی طرف سے ایک نہیں متعدد احادیث میں یہ بات مکرر مذکور ہے۔
” لا تنال شفاعتنا مستخفا للصلاۃ”
ہماری شفاعت اس شخص کو نہیں ملے گی جو نماز کو اہمیت نہیں دیتا۔
مکتب اہل بیت میں ترک نماز کا تصور نہیں ہے چونکہ اللہ کی بندگی ترک کرنے کا نتیجہ بہت ہی خطرناک ہوتاہے۔ چونکہ جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں اس کا کسی سے تعلق نہیں ہو سکتاہے۔
عالم برزخ کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کے درمیان ایک درمیانی دنیا موجود ہے ۔ اس کو برزخ کہتے ہیں یعنی مرنے کے بعد سے قیامت کے عرصے کو برزخ کہتے ہیں ۔
یہ بہت بڑا لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ ائمہؑ کی طرف سے تاکید ہے کہ اتنا عمل تو کیا کرو کہ تمہارا برزخ خیر سے گزر جائے۔
شریعت کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی شریعت ایک جامع نظام حیات ہے اس میں زندگی کے کسی گوشے کو حکم کے بغیر نہیں چھوڑا ۔ یہ شریعت ہمارے لیے ہے اس پر عمل کرنا ہم پر لازم ہے ۔ ہم جانوروں کی طرح نہیں ہیں ۔ ہم مکلف ہیں شریعت کے احکام ہم پر نافذ ہیں ۔ قرآن مجید اور سنت رسول میں ان احکام کا تفصیل سے ذکر ہے۔
شریعت پر عمل کے بارے میں ہمارا عقیدہ
ہمارا غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے احکام ہمارے عمل کرنے کے لیے ہیں۔ ان احکام کو یا ہم خود جان لیں اور قرآن و سنت پر ہمیں عبور اور مہارت ہو ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مہارت رکھنے والوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
یہ تو معقول نہیں ہے کہ انسان خود بھی نہیں جانتا ہو اور جاننے والوں کی طرف رجوع بھی نہ کرے۔
شریعت کے جاننے والوں کو فقیہ اور مجتہد کہتے ہیں۔
فقیہ کون ہے!
فقیہ اس عالم کو کہتے ہیں جس کو فقہ جعفریہ کے احکام پر عبور حاصل ہے ۔ دوسروں کو اس فقیہ کی تقلید کرنا ضروری ہوتاہے۔ جو قرآن و حدیث سے احکام شریعت کی تشریح کرے۔ ہمارے نزدیک یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگر کوئی فقیہ احکام کو اپنی ذاتی رائے کے مطابق بیان کرتا ہے تو وہ فاسق ہے اس کی تقلید حرام ہے۔ مکتب اہل بیت میں ذاتی رائے (قیاس) پر عمل کرنے کی سختی سے ممانعت ہے ۔
حلال محمد حلال الی یوم القیامیۃ حرام محمد حرام الی یوم القیامۃ
اللہ ، رسول اور ائمہ کی طرف جھوٹی نسبت
مسلّمہ حدیث نبوی ہے ” من کذب علیّ متعمدا فلیتبوء مقعدہ النار ”
جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹی نسبت دیتا ہے کہ تو وہ آتش جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنا دے۔
امام معصوم ؑ سے روایت ہے :
ان فلانا کان ایمانہ مستودعا فلماکذب علینا سلب ایمانہ ”
فلان کا ایمان عارضی تھا جب اس نے ہم پر جھوٹ بولا تو اس کا ایمان سلب ہو گیا۔
الله تعالی ہم سب کو اس برائی سے محفوظ رکھے آمین
و صلی الله علی سیدنا محمد وآله وسلم

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button