خطبات جمعہ

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:145)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 22 اپریل 2022ء بمطابق 20 رمضان المبارک 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے.اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتاہے اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے جو خدا وند متعال نے انسان کو دی ہے. خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیںایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الھی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آکراپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں .
اس مہینہ اور اس کی ان پر برکت گھڑیوںکی قدر جانیں اور ان سے خوب فائدہ اٹھائیں اس لئے کہ نہیں معلوم کہ اگلے سال یہ موقع اور یہ بابرکت مہینہ ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو .
ماہ مبارک عبادت و بندگی کا مہینہ ہے امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَا عِبَادِيَ الصِّدِّيقِينَ تَنَعَّمُوا بِعِبَادَتِي‏ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّكُمْ تَتَنَعَّمُونَ بِهَا فِي الْآخِرَةِ.
خدا وند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو ! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو۔(الکافی : ج‏2، ص: 83)
یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤ اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا .اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا .
انہیں دنیاکی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھے ، بھوک و پیاس کو تحمل کیا تو جب جنّت میں داخل ہو گے توآواز قدرت آئے گی:
كُلُوا وَ اشْرَبُوا هَنِيئاً بِما أَسْلَفْتُمْ‏ فِي الْأَيَّامِ الْخالِيَة(سورۃ الحاقۃ آیۃ :24)
ترجمہ: خوشگواری کے ساتھ کھاؤ اور پیو ان اعمال کے صلے میں جنہیں تم گزشتہ زمانے میں بجا لائے۔
ماہ مبارک کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے . لیکن سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَنْ قَالَ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ إِذَا أَصْبَحَ- الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ* فَقَدْ أَدَّى‏ شُكْرَ يَوْمِهِ‏ وَ مَنْ قَالَهَا إِذَا أَمْسَى فَقَدْ أَدَّى شُكْرَ لَيْلَتِهِ.( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 503)
جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے شام کویوں کہا اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا۔( الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏2، ص: 503)
کتنا آسان طریقہ بتادیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس برابر فضیلت رکھتا ہے ایک آیت کا ثواب دس کے برابر ، ایک نیکی کا ثواب دس برابر،امام رضاعلیہ السلام سے روایت ہے :
مَنْ قَرَأَ فِي‏ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كَانَ كَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُور
جو شخص ماہ مبارک میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو اس کااجر اتنا ہی ہے جتنا دوسرے مہینوں میں پورا قرآن پڑھنے کا ہے۔
( بحار الأنوار (ط – بیروت)، ج‏93، ص: 341)

کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا :
يَا رَسُولَ اللَّهِ ثَوَابُ رَجَبٍ‏ أَبْلَغُ‏ أَمْ‏ ثَوَابُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لَيْسَ عَلَى ثَوَابِ رَمَضَانَ قِيَاس‏
یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا. (بحار الأنوار (ط – بیروت)، ج‏94، ص: 50)
گویا خدا وند متعال کی رحمت واسعہ اس مہینے میں اس قدر جوش میں ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی . کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں .
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں :
إِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ شَهْرٌ عَظِيمٌ‏ يُضَاعِفُ‏ اللَّهُ فِيهِ الْحَسَنَاتِ وَ يَمْحُو فِيهِ السَّيِّئَاتِ وَ يَرْفَعُ فِيهِ الدَّرَجَات‏
ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نیکیوںکو دو برابرکر دیتا ہے. گناہوں کو مٹادیتا اور درجات کوبلند کرتا ہے.
(الامالی( للصدوق)، النص، ص: 54)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : إِذَا سَلِمَ شَهْرُ رَمَضَانَ‏ سَلِمَتِ‏ السَّنَةُ وَ قَالَ رَأْسُ السَّنَةِ شَهْرُ رَمَضَانَ.
اگر کوئی شخص ماہ مبارک میں سالم رہے تو پورا سال صحیح و سالم رہے گا اور ماہ مبارک کو سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے .
( تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏4، ص: 333)
اب یہ حدیث مطلق ہے جسم کی سلامتی کو بھی شامل ہے اور اسی طرح روح کی بھی . یعنی اگر کوئی شخص اس مہینہ میں نفس امارہ پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی روح کو سالم غذا دے تو خدا وند متعال کی مدد اس کے شامل حال ہوگی اور وہ اسے اپنی رحمت سے پورا سال گانہوں سے محفوظ رکھے گا . اسی لئے تو علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے . اس ما ہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ہےاور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کرپائے گا .
جو نیکی کرنی ہے وہ اس مہینہ میں کر لیں ، جو صدقات و خیرات دینا چاہتے ہیں وہ اس مہینہ میں حقدار تک پہنچائیں اس میں سستی مت کریں . اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے ، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے ، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے توآج کے دن میں دے ، اگر خمس نہیں نکالا تو آج ہی کے اپنا حساب کر لے ، اگر کسی ماں یا بہن نے آج تک پردہ کی رعایت نہیں کی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا کاواسطہ دے کر توبہ کرلے، اگر آج تک نماز سے بھاگتا رہا تو آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میںسرجھکا لے خدارحیم ہے تیری توبہ قبول کر لے گا . اس لئے کہ اس نے خود فرمایا ہے :
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اے میرے بندے مجھے پکار میں تیری دعا قبول کروں گا .
یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے بخشش کامہینہ ہے. اور پھر خود رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
انّما سمّی رمضان لأنّہ یرمض الذّنوب
رمضا ن المبارک کو رمضان اس لئے کہا جاتاہے چونکہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے .
یہ مہینہ عام مہینوں کے مانند نہیں ہے.جب یہ مہینہ آتا ہے تو برکت ورحمت لیکرآتا ہے اور جب جاتا ہے تو گناہوں کی بخشش کے ساتھ جاتا ہے ، اس ماہ میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں اور نیک اعمال قبول ہوتے ہیں .یعنی اسکا آنا بھی مبارک ہے اور اس کا جانا بھی مبارک بلکہ یہ مہینہ پورے کا پورا مبارک ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کریں،کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ذکر خدا سے خالی ہو اور یہی ہمارے آئمہ ھدٰی علیہم السلام کی سیرت ہے .امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے :
كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ إِذَا كَانَ شَهْرُ رَمَضَانَ‏، لَمْ‏ يَتَكَلَّمْ‏ إِلَّا بِالدُّعَاءِ وَ التَّسْبِيح‏وَ الِاسْتِغْفَارِ وَ التَّكْبِير۔( كافي (ط – دار الحديث)، ج‏7، ص: 440)

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر دعا، تسبیح ،استغفار اور تکبیر کے سوا کچھ جاری نہ ہوتا۔
اسی طرح وہ خداکتنا مہربان ہے کہ اپنے بندوں کی بخشش کے لئے ملائکہ کوحکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو رسیوں سے جکڑدیں تا کہ کوئی مومن اس کے وسوسہ کا شکار ہوکر اس ماہ کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے لیکن اگر اسکے بعد بھی کوئی انسان اس ماہ مبارک میں گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ کرسکے تو اس سے بڑھ کر کوئی بدبخت نہیں ہے.رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
أَلَا وَ قَدْ وَكَّلَ اللَّهُ بِكُلِ‏ شَيْطَانٍ‏ مَرِيدٍ سَبْعَةَ أَمْلَاكٍ فَلَيْسَ بِمُحَاوِلٍ حَتَّى يَنْقَضِيَ شَهْرُكُمْ هَذَا
خدا وند متعال نے ہر فریب دینے والے شیطان پر سات فرشتوںکو مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ تمہیں فریب نہ دے سکے، یہاں تک کہ ماہ مبارک ختم ہو .( دعائم الاسلام، ج‏1، ص: 286)
کتنا کریم هے وہ ربّ کہ اس مہینہ کی عظمت کی خاطر اتنا کچھ اہتمام کیا جارہا ، اب اس کے بعد چاہئے تو یہ کہ کوئی مومن شیطان رجیم کے دھوکہ میں نہ آئے اور کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو گناہ سے بچائے رکھے اور نافرمانی خدا سے محفوظ رہے ورنہ غضب خدا کا مستحق قرار پائے گا . اسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے :
مَنْ أَدْرَكَ شَهْرَ رَمَضَانَ‏ فَلَمْ‏ يُغْفَرْ لَهُ‏ فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ وَ مَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَأَبْعَدَهُ اللَّه‏
جوشخص ماہ رمضان المبارک کو پائے مگر بخشا نہ جائے تو خدا اسے رحمت سے دور کردیتاہے، اور جو شب قدرکو پائے مگر بخشا نہ جائے تو اسے بھی خدارحمت سے دور کر دیتا ہے۔
اس میں کوئی ظلم بھی نہیں اس لئے کہ ایک شخص کے لئے آپ تمام امکانات فراہم کریں اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود وہ آپکی امید پر پورا نہ اترے تو واضح ہے کہ آپ اس سے کیا برتاؤ کریں گے.

ایامِ امیر المومنین علیہ السلام
اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگرد خاص اور ان کی ہو بہو تصویر ہیں مگر یہی عظیم المرتبت شخصیت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے، خود کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل ناچیز سمجھتے اور آنحضرت کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں مگر جب ہم انہیں بحیثیت ایک بشر دیکھتے ہیں تو وہ ایک انسان سے بالاتر نظر آتے ہیں، کیونکہ ہم اس جیسی عظمتوں کی حامل ذات کا تصور ہی نہیں کر سکتے انسان کے ذرائع معلومات یعنی عقل و ادراک وفہم اس سے کہیں نا چیز و کمتر ہیں کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت کو ایسے لوگوں کے سامنے پوری طرح پیش کر سکے جو تہذیب نفس اور روحانی کشف و شہود کی منزل تک پہنچ ہی نہیں سکے ہیں۔
البتہ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ ایسے عرفابھی ہیں جو روحانی پاکیزگی اور تہذیب نفس کی وجہ سے کشف و شہود کی منزل پرپہنچ کر ممکن ہے آپکی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کو درک کر سکیں لیکن ہم جیسے لوگ ان تک رسائی نہیں رکھتے۔امام کی ایک خصوصیت کہ جو جس خصوصیت کو میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات میں توازن سے تعبیر کیا جانا چاہیے جو آپکی زندگی میں ایک عجیب و غریب توازن ہے یعنی بظاہر کچھ صفات آپکی ذات میں اس طرح خوبصورتی سے یکجا ہیں کہ جو خود اپنی جگہ حسن کا ایک مرقع بن گئی ہیں جبکہ ایک انسان کے اندر یہ صفات اکھٹی ہوتی دکھائی نہیں آتیں باہم نہیں دکھائی پڑتیں،اور علی علیہ السلام کے وجودمیں ایسی متضادصفات ایک دو نہیں بلکہ بے نہایت جمع ہو گئیں ہیں۔
ان میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:
مثال کے طور پر بیک وقت ایک انسان کسی کے ساتھ رحم دلی بھی کرے اور وہیں اور وہیں پراپنافیصلہ بھی اٹل رکھے اور قطعاً کسی کوبے جا حق دینے پر راضی نہ ہو یعنی رحم دلی اور قاطعیت آپس میں دو ایسی متضاد صفتیں ہیں جو ایک شخص کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں!لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے اندر رحم دلی، عطوفت و محبت اپنی حد کمال کو پہنچی ہوئی ہے جو ایک عام انسان کے اندر بہت کم نظر آتی ہے مثال کے طور پر فقیروں کو مدد کرنے والے پسماندہ لوگوں کی مشکلات حل کرنے والے آپکو بہت ملیں گے۔ مگر ایک ایسا شخص جو نمبر ١ ۔اس کام کو اپنی حکومت کے دوران انجام دے ، نمبر٢ ۔اسکا یہ عمل ایک دو دن نہیں ہمیشہ کا ہو،نمبر٣۔تنہا ماّدی مدد تک ہی اسکا یہ عمل محدود نہ رہے بلکہ وہ بنفس نفیس ایسے لوگوں کے گھر جائے،اس بوڑھے کی دلداری کرے، اس نابینا کو دلاسا دے ، ان بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلے اسکا دل بہلائے اور اسی کے ساتھ ساتھ انکی مالی مدد بھی کرے پھر ان سے رخصت ہو یہ فقط امیر المومنین علیہ السلام ہی کی ذات ہے اب ذرا بتائیے آپ دنیا کے رحم دل انسانوں میں اس جیسا کتنوں کو پیش کر سکتے ہیں!؟ حضرت علیہ السلام مہر ومحبت عطوفت اور رحم دلی میں اسطرح سے دیکھائی دیتے ہیں۔کہ ایک بیوہ جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اسکے گھر جاتے ہیں ، تنور روشن کرتے ہیں انکے لئے روٹیاں سینکتے ہیں انکے لئے کھاناپکاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے ان یتیم بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں یہی نہیں بلکہ اسلئے کہ ان بچوں کے لبوں پربھی دیگر بچوں کی طرح مسکراہٹ آئے اور وہ بھی کچھ دیر کے لئے غم و اندوہ سے باہر نکل سکیں انکے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے بھی ہیں انہیں اپنی پشت پر سوار کرتے ہیں انکے لئے ناقہ(اونٹ) بنتے ہیں اس جھونپڑی میں انہیں مختلف طریقوں سے سرگرم رکھتے ہیں تا کہ وہ بھی مسکرا سکیں یہ ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی رحم دلی اور محبت و عطوفت کی ایک مثال یہاںتک کہ محبت کا یہ برتاؤ دیکھ کر اس زمانے کے ایک بزرگ کہتے ہیں اس قدر امیرالمومنین یتیموں اور بے سہارا بچوں سے محبت سے پیش آتے اور انکے منہ میں شہد ڈالتے اور انہیں پیار کرتے تھے کہ خود میں تمنا کرنے لگا ’فوددتُ ان اکون یتیماً ‘ کاش میں بھی یتیم ہوتاتاکہ مجھے بھی علی علیہ السلام اسی طرح پیار کرتے! یہ آپکی محبت ہے۔
اوریہی علی علیہ السلامجنگ نہروان میں بھی ہیں جب کچھ کج فکر اور متعصب لوگ بے بنیاد بہانوں سے آپکی حکومت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں پہلے آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں کہ وہ جسکا مطلقاً اثر نہیں لیتے ، احتجاج کرتے ہیں مگر اسکا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔کسی تیسرے آدمی کو صلح و مصالحت کے لئے واسطہ بناتے ہیں انکی مالی امداد کرتے ہیں ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ دیتے ہیں مگر ان سب سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور آخر کار وہ لوگ لڑنے پر تل جاتے ہیں پھر بھی آپ انہیں نصیحت کرتے ہیں مگر آپکی یہ نصیحت انکے لئے بے فائدہ ثابت ہوتی ہے اسوقت پورے شد و مد کے ساتھ پوری قطعیت سے پرچم زمین پر گاڑ کر فرماتے ہیں ! تم میں سے کل تک جو بھی اس پرچم تلے آجائیگا وہ امان میں رہے گااور جو نہیں آیا اس سے میں جنگ کروں گا۔ ان بارہ ہزار١٢٠٠٠ افراد میں سے ٨٠٠٠آٹھ ہزار افراد پرچم کے نیچے آگئے اور باوجودیکہ ان لوگوں نے آپ سے دشمنی کی ہے، لڑنے میں بر ابھلا کہا ہے پھر بھی فرماتے ہیں جاؤ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ و ہ لوگ چلے گئے اور پھر حضرت نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی اور انہیں معاف کر دیا، جو دوسرے ٤٠٠٠چار ہزار بچے،فرمایا! اگر تم لڑنے پر تلے ہوتو آؤ پھر جنگ کرو، آپ نے دیکھا وہ لڑنے مرنے پر تیار ہیں فرمایا ! یاد رکھو تم چار ہزار میں سے دس افراد کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا ۔جنگ شروع ہوگئی اس ٤٠٠٠ چار ہزار میں ١٠ لوگ زندہ بچے بقیہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، یہ وہی علی علیہ السلام ہیں جب دیکھا مقابلہ میں بدسرشت و خبیث النفس انسان ہیں تو پھر پوری صلاحیت کے ساتھ ان سے جنگ لڑتے ہیں اور انکا دندان شکن جواب دیتے ہیں۔
دوسری مثال:
ایک دوسری مثال اور آپ کی متضاد صفات کا نمونہ حکومت کے ساتھ ساتھ تقوی و پارسائی ہے یہ ایک عجیب چیز ہے؟ ورع و تقوی کا کیا مطلب ہے؟ یعنی انسان ہر وہ چیز جس سے دین خدا کی مخالفت کی بو آتی ہو اس سے پرہیز کرے اور اسکے قریب نہ جائے۔پھر ادھر حکومت کا کیا ہو گا؟ آخر ممکن ہے کہ حکومت رکھتے ہوئے کوئی پارسا بھی ہو آج جب ہمارے کاندھوں پر اہم ذمہ داریاں ہیں ہمیں زیادہ احساس ہے کہ اگر یہ خصوصیات کسی کے اندر موجود ہوں تو وہ کسقدر اہمیت کا حامل ہو گا، حکومت میں رہتے ہوئے صرف اسے کلی قوانین سے سروکار ہوتا ہے اور قانون کا نفاذ اپنی جگہ بہت سے فوائد لئے ہوتا ہے اگرچہ عین ممکن ہے اسی قانون کی وجہ سے مملکت کے کسی گوشہ میں کسی شخص پر ظلم و ستم بھی ہواور ممکن ہے حکومت کے ذمہ دار کی طرف سے خلاف ورزیاں بھی ہوں اور پھر نا محدود جزئیات کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہے کہ وہ (حاکم)ہر شعبہ میں زہد و پارسائی کا بھی لحاظ رکھ سکے؟ اسلئے بظاہر لگتا ہے کہ تقوی حکومت کے ساتھ اکٹھا ہونا نا ممکن سی بات ہے لیکن قربان جائیں امیرا لمومنین علیہ السلام کی ذات پر کہ اپنے وقت کی بااقتدار حکومت کے ساتھ بھی پارسائی و تقوی کو یکجا کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں جوایک حیرت انگیز بات نظر آتی ہے۔
وہ اس معاملہ میں کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے کہ اگر انکی نگاہ میں کوئی کسی منصب کا اہل نہیں ہے تو اسے منصب دے کر بھی بلاتکلف اس عہدے کو واپس لے لیتے ہیں ۔محمد بن ابی بکر کو حضرت امیرعلیہ السلام اپنے بیٹے کی طرح سمجھتے تھے اور وہ حضرت علی علیہ السلام کو اپنے مہربان باپ کی حیثیت سے جانتے تھے (آپ ابوبکر کے چھوٹے صاحب زادہ اور علی علیہ السلام کے مخلص شاگرد ہیں آپکے دامن پر مہر و محبت میں پروان چڑھے ہیں ) مگر مصر کی ولایت دینے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے ایک خط میں آپکو لکھا میں تم کو مصر کی حکومت کے لائق نہیں سمجھتا اسلئے مالک اشتر کو تمہاری جگہ بھیج رہا ہوں۔اور آپنے انکو معزول کر دیا اگرچہ انسان ہونے کے ناطے محمد بن ابی بکر کویہ بات بری بھی لگی مگر حضرت نے اس معاملہ میں کسی بھی چیز کالحاظ نہیں کیا یہ ہے آپکی پارسائی ایسی پارسائی جسکی ضرورت ایک حکومت اور حاکم کو پڑتی ہے و ہ ذات علی علیہ السلام میں اپنے نقطہ کمال پر نظر آتی ہے۔
واقعہ:
آپ علیہ السلام کے زمانے میں نجاشی نامی ایک شاعر تھا جو امیرا لمومنین علیہ السلام کا مداح اور آپ کے دشمنوں کے خلاف اشعار کہتا تھا۔ماہ رمضان میں ایک دن کسی گلی سے گذر رہا تھا کہ ایک برے انسان نے اسکو ورغلایا وہ کہتا ہے کہ آؤ آج ہمارے ساتھ میں کچھ وقت گذارو مثلاً اس شاعر نے کہا نہیں میں مسجد جا رہا ہوں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے بہرحال زبردستی اس شاعر کو اپنے گھر میں بلا لیا! آخر یہ بھی ایک شاعر ہی تو تھا اسکے فریب میں آگیا اور اسکے دسترخوان پر روزہ خوری کے بعد شراب بھی پی جاتی تھی اور لوگوں کو اس بات کا پتہ چلا تو امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: اس پر حد جاری کرواور اس کو اسی٨٠ تازیانے شراب نوشی کی وجہ سے اور دس١٠ یا بیس٢٠تازیانے دن میں حرام چیز سے روزہ توڑنے کی بنا پر ۔ نجاشی نے کہا میں آپکا اور آپکی حکومت کا مداح ہوں اپنے اشعار سے آپکے دشمنوں کو جواب دیتا ہوں اور آپ مجھے تازیانے مارنے کا حکم دے رہے ہیں؟فرمایا، کہ یہ ساری باتیں اپنی جگہ قابل قبول اور قابل تحسین ہیں مگر میں حکم خدا کو اپنی ذات کی خاطر معطل نہیں کر سکتا ،ہر چند انکے قوم و قبیلہ والوں نے اصرار کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام اسطرح ہماری عزت چلی جائیگی پھر ہم معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے آپ معاف کر دیجئے مگر حضرت نے فرمایا نہیں ممکن نہیں کہ میں حد خدا جاری نہ کروں ۔ اس شخص کو لٹایا گیا، اور اسے کوڑے مارے گئے اور وہ راتوں رات آپکی حکومت سے یہ کہتے ہوئے فرار کر گیا کہ جب آپ کو میری قدر نہیں معلوم اور آپکی حکومت میں روشن خیالوں اور شاعروں کے ساتھ یہ برتاؤ ہے تو میں وہاں جاؤنگا جہاں ہماری قدر کو پہچانتے ہوں ! اور معاویہ کے دربار میں اس خیال سے چلا گیا کہ وہ اسکی قدر کو جانتا ہے ! خیرجسے اپنی خواہشات پر اتنا قابو نہیں کہ وہ علی علیہ السلام کی تابندگی کو اپنی خواہشات کے طوفان میں جھانک کر دیکھ سکے تو اسکی سزا بھی یہی ہے کہ وہ علی علیہ السلام کو چھوڑ کر معاویہ کے پاس چلا جائے حضرت علی علیہ السلام حضرت جانتے تھے کہ یہ شخص ایک نہ ایک دن ان سے جدا ہو جائے گا۔
مصائب امیر المومنین بزبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
نبی کریم ﷺ نے ماہ شعبان کے آخری دنوں میں اپنا مشہور خطبہ شعبانیہ بیان فرمایا تھا۔ اسی خطبے کے آخری حصے میں منقول ہے کہ:
قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ علیه السلام فَقُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ؟ فَقَالَ یَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ.
امیر المؤمنین علی ؑفرماتے ہیں : پس میں کھڑا ہوا اور عرض کیا یارسول للہ ۖ اس مہینے میں سب سے بہترین عمل کیا ہے ؟ فرمایا: اے ابوالحسن اس مہینے میں بہترین عمل محرمات الہی سے پرہیز کرنا ہے ۔
ثمّ بَکَی، فَقلتُ: یا رسولَاللهِ ما یَبکِیکَ؟فقالَ یا علیّ، أبکی لِما یَستحلّ مِنک فی هذا الشّهر.کأنّی بِکَ وَ أنتَ تُصلّی لِرَبّکَ وَ قد انبَعَثَ أشقَی الأولینَ شَقیقَ عاقِرِ ناقَهِ ثمود، فَضَرَبَکَ ضربَةً علَی قَرَنِکَ فَخَضّبَ منها لِحیتَکَ، قالَ امیرُالمؤمنینَ علیه السّلام: فَقلتُ: یا رسولَ اللهِ، و ذلکَ فی سَلامَةٍ مِن دِینی؟فقال صلی الله علیه و آله: فی سلامة من دینک.
اس کے بعد پیامبر(ص) گریہ کرنے لگے میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ کس چیز نے آپ کو رلایا؟ فرمایا: اے علی میں اس لئے رو رہا ہوں کیوں کہ اس مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا ( اس مہینے آپ کو شہید کردیا جائے گا) گویا میں تمہاری شہادت کے منظر کو دیکھ رہا ہوں ، درحالیکہ تم اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھنے میں مشغول ہوں گے ، اس وقت شقی اولین وآخرین قاتل ناقہ صالح ، تمہارے فرق پر ایک وار کریگا جس سے تمہاری ریش اور چہرہ خون سے ترہوں جائے گا ۔ امیر المؤمنین فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ کیا اس وقت میرا دین ثابت وسالم ہوگا؟ فرمایا : ہاں اس وقت تمہار دین سالم ہوگا۔
ثمّ قالَ صلّی الله علیه و آله: یا علیّ، مَن قَتلکَ فَقد قَتلَنِی،و مَن أبغَضَکَ فَقَد أبغَضَنی،و مَن سَبّکَ فَقَد سَبّنِی، لأنّکَ مِنّی کَنَفسِی، روحُکَ مِن روحی، و طِینتُکَ مِن طینتِی، إنّ الله تبارک و تعالی خَلقنِی و ایّاکَ،و أصطَفانِی وَ ایّاکَ،و أختارَنی للنبوّة، وَ أختارَکَ لِلإمامَةِ،و مَن أنکَرَ امامَتَکَ فَقَد أنکَرَ نُبُوّتِی
اس کے بعد پیامبر(ص)نے فرمایا: اے علی جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بغض ودشمنی کی درحقیقت اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے اور جو کوئی تمہیں ناسزا کہے گویا اس نے مجھے ناسزا کہا ہے کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میرے نفس کی مانند ہو تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمہاری طینت وفطرت میری فطرت سے ہے یقینا خدا نے ہم دونوں کو خلق کیا اور ہم دونوں کو انتخاب کیا، مجھے نبوت کے لئے انتخاب کیا اور تمہیں امامت کے لئے انتخاب کیا اگر کوئی تمہاری امامت سے انکار کرے تو اس نے میری نبوت سے انکار کیاہے ۔
یا عَلِی أَنْتَ وَصِیی وَ أَبُو وُلْدِی وَ زَوْجُ ابْنَتِی وَ خَلِیفَتِی عَلَی أُمَّتِی فِی حَیاتِی وَ بَعْدَ مَوْتِی أَمْرُک أَمْرِی وَ نَهْیک نَهْیی أُقْسِمُ بِالَّذِی بَعَثَنِی بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِی خَیرَ الْبَرِیةِ إِنَّک لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَی خَلْقِهِ وَ أَمِینُهُ عَلَی سِرِّهِ وَ خَلِیفَتُهُ عَلَی عِبَادِه
ذات خدا کی قسم کہ جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا اور مجھے انسانوں میں سے سب سے بہترقرار دیا یقینا تم مخلوقات پر خدا کی حجت ہو اور خدا کے اسرار کا امین ہو اور اس کے بندوں پر خلیفہ ہو۔(خطبہ شعبانیہ)
وصیت ِامیر المومنین علیہ السلام:
جب حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ابن ملجم ملعون ضربت لگا چکا تو آپ علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو ایک وصیت فرمائی اگرچہ ظاہری طور پر یہ وصیت آپ علیہ السلام نے اپنے دونوں بیٹوں کو کی ہے لیکن اس وصیت پہ عمل کرنا تمام شیعان امیر المومنین علیہ السلام پہ واجب ہے۔ اس وصیت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔
اور دیکھو دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل کیوں نہ ہو۔
وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔
اور دنیا کی جس چیز سے تم کو روک لیاجائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔
اور جو بھی کہنا حق کہنا۔
وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔
میں تم دونوں کو اوربقیہ اپنی تمام اولادوں اور، اپنے تمام اہل وعیال کواور ان تمام افراد کو کہ جن تک یہ میرانوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔
اورباہمی تعلقات کو استوار رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوےسنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔
خدارا خدارایتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ کہیں ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہاری موجود گی میں وہ ضائع نہ ہو جائیں
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔
خدارا خدا را . اپنے ہمسایوں کا خیال رکہنا کہ ان کے بارے میں تمہارے نبی نے وصیت کی اور اتنی شدیدتاکید فرمائی ہےکہ یہ گمان ہونے لگا تها کہ کہیں آپ ؐاُنھیں بھی میراث پانے والوں میں سے قرار نہ دے دیں
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔
خدارا خدارا قرآن کا خیال رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰةِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔
خدارا خدارا نماز کی ادائیگی میں پابند رہنا اس لئے کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔
خدارا خدارا اپنے رب کے گھر کا خیال رکھنا، جب تک کہ تم زندہ ہو اسے خالی نہ چھوڑنا۔
فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔کیونکہ اگر اسے خالی چھوڑ دیا توپھر عذاب سےمہلت نہ ملے گی۔
اللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔
خدارا خدارا راہِ خدا میں اپنی جان. مال.اور زبان کے ذریعے جہاد سے دریغ نہ کرنا
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اورخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تب بھی وہ قبول نہ ہوگی۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔دیکھو! میرےقتل کے بدلے صرف میرے قاتل ہی قتل کیاجائے۔
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس کےسر پر ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
نہج البلاغہ مکتوب (47) وصیت ترجمہ مرحوم مفتی جعفر حسین

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button