خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:226)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 10 نومبر 2023ء بمطابق 25 ربیع الثانی 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: ایمان
قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں ایمان اور اس کے آثار اور خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ اس سلسلے میں پہلی بات یہ کہ ایمان اور اسلام کے درمیان فرق ہے اور ایمان اسلام سے ایک درجہ آگے ہے،
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ
۱۴۔ بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا (الحجرات:14)
ایمان ایک ایسی حقیقت ہے جس میں خدا کے ساتھ شدید محبت پائی جاتی ہے،
 وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں
قرآن کریم کی رو سے ایمان میں زیادتی اور کمی کا امکان پایا جاتا ہے:
وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ﴿۱۲۴﴾
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ (از راہ تمسخر) کہتے ہیں: اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ پس ایمان والوں کے ایمان میں تو اس نے اضافہ ہی کیا ہے اور وہ خوشحال ہیں۔(التوبہ)
اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے کہ کسی بھی انسان کو اس کے ارادے اور اختیار کے بغیر ایمان لانے اور مؤمن بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں،
اہلبیت اطہار کی نظر میں ایمان؛
ایمان وہ کیفیت ہے جس کو ظاھری حواس کے ذریعہ کبھی بھی سمجھا نہیں جاسکتا اس کو سمجھنے کے لئے باطنی حواس کا ہونا ضروری ہے جس کے بارے میں امیرالمؤمنین حضرت علی(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں:
إِنَ‏ الْإِيمَانَ‏ يَبْدُو لُمْظَةً فِي‏ الْقَلْبِ‏ كُلَّمَا ازْدَادَ الْإِيمَانُ ازْدَادَتِ اللُّمْظَة؛
بے شک ایمان کی وجہ سے دل میں ایک سفید نکتہ پیدا ہوتا ہے، جیسے جیسے ایمان بڑھتا جاتا ہے وہ سفید نکتہ بھی بڑھنا جاتا ہے (بحارالانور، ج:۶۶، ص:۱۹۷)
اس حدیث کےذریعہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ایمان ایک معنوی کیفیت کا نام ہے جو انسان کے دل میں ہوتا ہے اسے دل کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
"وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ – فَقَالَ علی ؑ: الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ – وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.”
امیرالمؤمنینؑ سے ایمان کے بارے میں پوچھاگیا تو آپ ؑ نے فرمایا:”ایمان دل سے پہچاننا،زبان سے اقرار کرنااور اعضا وجوارح سے عمل کرنا ہے۔”(نہج البلاغہ:کلمات قصار۔227)
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْإِیمَانِ
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوعبداللّٰہ ؑ(امام جعفر صادقؑ) سے سوال کیاکہ:ایمان کیا ہے؟
فَقَالَ شَهَادَهُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ [وَ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ] وَ الْإِقْرَارُ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَ مَا اسْتَقَرَّ فِی الْقُلُوبِ مِنَ التَّصْدِیقِ بِذَلِکَ
آپؑ نے فرمایا:یہ گواہی دینا کہ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللّٰہ وحدہ لا شریک کےاور محمداسی کے رسول ہیں۔جو کچھ خدا کی طرف سے آیاہےاس پر ایمان لانااور دل سے اس کے بارے میں تصدیق کرنا۔
قَالَ قُلْتُ الشَّهَادَهُ أَ لَیْسَتْ عَمَلًا قَالَ بَلَی
(راوی کہتاہے)میں نے عرض کیاکہ کیا شہادت (یعنی گواہی )عمل نہیں ہے؟
آپؑ نے فرمایا: کیوں نہیں۔
قُلْتُ الْعَمَلُ مِنَ الْإِیمَانِ پھر میں نے عرض کیاکہ کیا عمل ایمان سے نہیں ہے؟
قَالَ نَعَمْ الْإِیمَانُ لَا یَکُونُ إِلَّا بِعَمَلٍ وَ الْعَمَلُ مِنْهُ وَ لَا یَثْبُتُ الْإِیمَانُ إِلَّا بِعَمَلٍ.
فرمایا:ہاں،ایمان نہیں ہوسکتا مگرعمل کے ساتھ اور عمل ایمان کا حصہ ہےاور ایمان عمل کے بغیر ثابت نہیں رہتا۔
(اصول کافی ج 3کتاب ایمان وکفر باب 18 ح3)
ایمان کے مراتب
اللہ اور محمد و آل محمد(علیہم السلام) پر ایمان رکھنے والا ہر شخص اپنے آپ کو مؤمن کہتا ہے، لیکن کیا ہرشخص کا ایمان ایک ہی مرتبہ پر ہوتا ہے یا ان کے ایمان کے مراتب میں کمی یا زیادتی پائی جاتی ہے، امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے ایک شخص کے ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں اس طرح فرمایا:
الایمَانُ حَالاتٌ وَدَرَجَاتٌ وَطَبَقَاتٌ وَمَنَازِلُ فَمِنْهُ التَّامُّ الْمُنْتَهَى تَمَامُهُ وَمِنْهُ النَّاقِصُ الْبَیِّنُ نُقْصَانُهُ وَمِنْهُ الرَّاجِحُ الزَّائِدُ رُجْحَانُهُ قُلْتُ إِنَّ الایمَانَ لَیَتِمُّ وَیَنْقُصُ وَیَزِیدُ قالَ نَعَمْ ایمان کے حالات اور درجات اور طبقات اور منزلیں ہیں ان میں سے بعض وہ ہیں جو پوری طریقے سے کامل ہیں اور بعض وہ ہیں جو ناقص ہیں اور بعض ایسے ہیں جو رجحان رکھتے ہیں جن میں اضافہ ہوتا ہے، روای نے امام(علیہ السلام) سے پوچھا: کیا ایمان کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے؟ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں۔۔۔۔۔(بے شک ایمان کا کم یا زیادہ ہونا انسان کے اعمال پر منحصر ہے۔(کافی، ج:۲، ص:۳۴)
اس حدیث کے مطابق انسان اگر خدا کی اطاعت اور معصومین(علیہم السلام) کی پیروی کرتا رہے تو بے شک اس کے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ وہ ان کی مخالفت کرے تو وہ اس کےایمان کی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔
ایمان اور اسلام
ایمان اور اسلام برابر نہیں بلکہ ایمان کا درجہ اسلام سے بلند ہے۔ یعنی ممکن ہے کوئی شخص مسلمان ہو لیکن مومن نہ ہو البتہ جو مومن ہوگا وہ مسلمان بھی ضرور ہوگا۔ قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا :
قالَتِ الأْعْرابُ آمَنّا قُلْ لَمْ تُؤمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمّا يَدْخُلِ الإْيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ؛ یہ (عرب دیہاتی )کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ۔ [سوره حجرات، آیت 14] امام جعفر صادق علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
۔۔۔ قَالَ مَثَلُ اَلْإِيمَانِ وَ اَلْإِسْلاَمِ مَثَلُ اَلْكَعْبَةِ اَلْحَرَامِ مِنَ اَلْحَرَمِ قَدْ يَكُونُ فِي اَلْحَرَمِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ حَتَّى يَكُونَ فِي اَلْحَرَمِ وَ قَدْ يَكُونُ مُسْلِماً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ مُسْلِماً ؛
ایمان اور اسلام کی مثال کعبہ اور حرم جیسی ہے کہ کبھی انسان حرم میں تو ہے مگر کعبہ میں نہیں ہے البتہ اگر کعبہ میں ہو تو حرم میں بھی موجود ہے ، اسی طرح کبھی انسان مسلمان تو ہے مگر مومن نہیں ہے، اس کے برخلاف اگر مومن ہو تو یقینا مسلمان بھی ہے ۔ (الکافی، [كتاب الإيمان و الكفر] ، ج2، ص28 )
ایمان کے آثار :
ایمان کے آثار میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تلخیوں کو شیریں  اور اور کام کی سختیوں کو آسان بنا دیتا ہے کیونکہ ایمان انسان کے اندر دنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدل دیتا ہے،دنیا کومحبت لٹاتی کائنات کے نظریہ سے دیکھنے والا بنادیتا ہے۔
ایمان کے فوائد و آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایمان مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا کے قابل بنا دیتا ہے۔قرآن مجید کا ارشاد ہے:
﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾
کیونکہ ایمان  ایک برتر منطق کا نام ہےیعنی ایمان چیزوں کی کمی اور کاستی کو دورکرنے والا اور انکی حمایت کرنے والا ہےاور مختلف حالات و حادثات میں بہتر اور اچھا  عکس العمل پیش کرتا ہے۔
ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بڑھاپے اور ضعیفی  کو پسندیدہ بنا دیتا ہے کیونکہ انسان ایمان کی بدولت ہر حال میں صابر و شاکر بنا رہتا ہے۔
ایمان کے فوائد و آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ موت کی وحشت کو دور کر دیتا ہے اس بات سے وحشت کہ موت ختم ہوجانے کا نام ہو؛یعنی ایمان اسے سمجھاتا ہے کہ موت سے تمہارا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ موت اگلی اور دنیا سے بہت بہتر زندگی کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے۔
ایمان کا ایک اور اثر یہ ہے کہ وہ اخلاق کا پشت پناہ ہے ،اور اس کا مددگار ہے، با ایمان انسان کا اخلاق محکم نظر آئے گا ،یعنی با ایمان شخص کا اخلاق ایسا ہوگا کہ نہ ہی اسکی خواہشات اس پر غالب نظر آئیں گی اور نہ ہی دوسروں کا ڈر اور خوف اسکے پایۂ استقامت کو متزلزل کرپائے گا، کیونکہ اخلاق کو ہمیشہ ہی ان دو چیزوں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے: ایک حرص و لالچ اور دوسرے ڈر ، خوف  اور دھمکیاں….
ایمان کا ایک اور اثر یہ بھی ہے کہ وہ عدالت کا ہمرکاب اور اس کا پشت پناہ ہے ،
ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایمان ذہنی ، فکری ، ٹینشن،پاگل پن اورذہنی اختلال جیسی بیماریوں سے بچاتا ہے ، ہم نے دوسرے نمبر میں بیان کیا کہ ایمان مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کا کے قابل بنا دیتا ہے ،وہ اس لحاظ سے تھا کہ انسان پر کس قدر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو اس مقام پر ایمان انسان کو سہارا دیتا ہےلیکن  اب جو یہاں پر بات ہے وہ مشکلات کی مقدار کے لحاظ سے نہیں بلکہ ان مصائب و مشکلات کی وجہ سے انسان پر جو ذہنی اور فکری دباؤ بنتا  ہےاس اعتبار سے ہے کہ ایمان ایسے موقع پر بھی انسان کو بچا لیتا ہے۔

ایمان کا ایک اور اثر یہ ہے کہ ایمان انسان کے لیے زندگی کا میدان وسیع کر دیتا ہے اور یہ انسان کو اندرونی خوشی کےمرکز کی جانب متوجہ کردیتاہے،بے ایمانی کے برخلاف جس کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ﴾
ایمان کا ایک دوسرا اثر، دل کی روشنی ہے، مؤمن دنیا کو زیادہ واضح طور پر دیکھتا ہے۔
ایمان کے آثار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان حق و حقیقت سے مایوس نہیں ہوتا اور امیدوار رہتا ہے، مؤمن جانتا ہے کہ حق فاتح ہے،اور صحیح اور غلط کے لئے جدوجہد کرنا ایک ہی چیز نہیں ہے اور ایک ہی نتیجہ نہیں دیتا؛ اگر انسان سیدھے راستے اور حق کی راہ پر چلتا ہے تو ایک قوت ایسی ہے جو اس کی تصدیق و تائید کے لئے موجود ہے ۔﴿إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
ایمان کا ایک اور اثر عالمی نظام کے بارے میں پرامید اور عالمی ماحول سے راضی اور ہماہنگ رہنا ہے۔
ایمان کے آثار و برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مصلحت اور خواہش کے مابین کشمکش کی صورت میں کہ جب عقل مصلحت کا تقاضہ کرتی ہے اور خواہش اپنے رجحانات کی طرف جانا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں ایمان عقل کا ساتھ دیتا ہے اور وہ عقل کا سب سے عمدہ تصدیق کنندہ اوراسے تقویت بخشنے والا ہے …
ایک دوسرے سے محبت اور احسان کا برتاؤ،تعلیمات،نصحتیں اور بے لوث خدمتپیش کرنا ایمان کے اثرات میں شامل ہے خاص طور پر ایسے لوگوں کےساتھ محبت و احسان کا برتاؤ جو کمزور اور مایوس یا بوڑھے اور کم درآمد والے ہیں،اگرچہ لوگوں کا محبت کا بھوکا ہونا ان پر احسان کرنے سے جدا ہے،قرآن مجید نے انفاق کے باب پر بھرپور توجہ دلائی ہے اسی طرح روحانی تکلیف نہ پہچانے پر بھی تاکید کی ہے۔
ایمان، معاشرے میں اتحاد و یگانگت اور وحدت کا ذریعہ ہے،یہ روحوں کو متحد کرنے کا وسیلہ ہے کہ«ایمان،خدا کے شیروں کی روح کو متحد کرتا ہے»۔
ایمان سے،ذہنی سکون ملتا ہے ، دل و جان کو حرارت ملتی ہے، اورجب ایمان کی طاقت سے لوگ انسان کے مجذوب ہوتے ہیں تو روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے، صرف ایک قابل عبادت ذات تک ہی انسان محدود رہتا ہے کہ جو ثابت،ابدی اور جاوید اور محبوب ہے کہ جس سے وابستہ ہوکر انسان خود کو فنا اور نابود ہونے سے بچالیتا ہے۔
ایمان سے،معاشرے کے بارے میں احساس ذمہ داری اور وابستگی پیدا ہوتی ہےکہ جو آج خصوصی توجہات کا مرکز ہے۔
ایمان سے،بحرانی حالات میں نمٹنے کی طاقت میسّر آتی ہے اور مستقل کوششوں اور مزاحمت میں سہارا ملتا ہے۔
ایمان سے،آج کی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے اقدارو اصول کے بارے میں شکوک شبہات دور ہوتے ہیں اورزندگی کے اقدار و اصول کو پامال کرنے والی ذہنیت سے نجات ملتی ہے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے الجھنوں کی روک تھام ہوتی ہےکہ جو آج کی نسل میں پائی جاتی ہے۔
(ایمان کے یہ اثرات شہید مرتضیٰ مطہری کی تحریر سے بیان کیے گئے ہیں بحوالہ مجموعہ آثار شہید مطہری، ج28 )

رسالۃ الحقوق
شرمگاہ کا حق:امام زین العابدین ؑ رسالۃ الحقوق میں مختلف حقوق بیان کرتے ہوئے شرمگاہ کا حق یوں بیان کرتے ہیں:
وَ أَمَّا حَقُّ فَرْجِكَ فَحِفْظُہُ مِمَّا لَا يَحِلُّ لَكَ
تمہارے اوپر تمہاری شرمگاہ کا حق یہ ہے کہ اسے اس چیز سے محفوظ رکھو جو تمہارے لیے حلال نہیں ہے
وَ الِاسْتِعَانَةُ عَلَيْہِ بِغَضِّ الْبَصَرِ فَإِنَّہُ مِنْ أَعْوَنِ الْأَعْوَانِ
اور اس سلسلے میں تم آنکھ کو بند کر کے مدد حاصل کرو کہ یہ بہترین مددگار ہے۔(یعنی آنکھ کو حرام پر نظر کرنے سے بچائے فحاشی و بدکاری کا آغا ز آنکھ کے ذریعے حرام نگاہ سے شروع ہوتا ہے اور بدکاری تک پہنچ جاتا ہے)
وَ ضَبْطُہُ إِذَا ہَمَّ بِالْجُوعِ وَ الظَّمَإِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ الْمَوْتِ
دوسرےاس پر کنٹرول کرو بھوک و پیاس کےذریعے(روزہ رکھ کر) اور موت کو یاد کر کے
وَ التَّہَدُّدِ لِنَفْسِكَ بِاللَّہِ وَ التَّخْوِيفِ لَہَا بِہِ
اور اپنےآپ کو خود خدا سے ڈرا کر مدد حاصل کرو
وَ بِاللَّہِ الْعِصْمَةُ وَ التَّأْيِيدُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِہِ ثُمَّ حُقُوقُ الْأَفْعَالِ
اور اس سلسلے میں عصمت و تحفظ اور تائید خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور اس کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button